میڈم چیف منسٹر ! (دوسری قسط)

رزقِ حلال کھانے والے پولیس افسر کی یونیفارم، امن، تحفّظ اور عزّت کی علامت ہوتی ہے

zulfiqarcheema55@gmail.com

میڈم چیف منسٹر! پچھلے کالم میں جو گذارشات کی گئی تھیں ان کا مقصد آپ کو یہ باور کرانا تھا کہ عوام کی جان اور مال کا تحفّظ آپ کی ترجیحِ اوّل ہونی چاہیے، نیز یہ کہ جرائم پر صرف وہ پولیس افسر قابو پاسکتے ہیں جو صرف رزقِ حلال پر قناعت کرتے ہوں اور نڈر اور جراتمند ہوں۔ اگر کوئی پولیس افسر سات پردوں میں بھی کیش یا kind کی صورت میں کسی ماتحت یا ملزم سے رشوت لیتاہے تووہ بات چند دنوں میں پورے ضلع اور ڈویژن میں پھیل جاتی ہے۔

 اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایسے کرپٹ افسر کے subordinates بھی اس کی عزّت نہیں کرتے، وہ اپنی نجی محفلوں میں ایسے افسروں کو برا بھلا کہتے ہیں لہٰذا حرام خور افسر بہت جلد اپنی فورس اور عوام دونوں کی نظروں میں گر جاتے ہیں۔ اگر افسر کا دامن داغدار ہو تو اس کی کمانڈ لڑکھڑانے لگتی ہے، ایسی کمزور کمانڈ والے افسر امن و امان کے کسی بڑے چیلنج سے نبردآزما ہونے کی صلاحیّت کھو دیتے ہیں۔ رزقِ حلال کھانے والے پولیس افسر کی یونیفارم، امن، تحفّظ اور عزّت کی علامت ہوتی ہے جب کہ کرپٹ افسر کی وردی اس کے ایمان اور ضمیر کا کفن بن جاتا ہے۔ ایسے افسر محافظ نہیں مجرم ہوتے ہیں۔ وہ اپنے ادارے کے لیے ناسور اور معاشرے کے لیے عذاب کی حیثیّت رکھتے ہیں۔

راشی افسر احساسِ جرم کے تحت اپنے ماتحتوں کی جوابدہی نہیں کرسکتے، لہٰذا ان کے ماتحت کھلّم کھلا کرپشن کا بازار گرم رکھتے ہیں اور نتیجتاً پورا ضلع کرپشن کا گڑھ بن جاتا ہے۔ ایسی صورت میں جرائم میں بے تحاشا اضافہ ہوتا ہے اور عوام عدمِ تحفّظ کا شکار ہوجاتے ہیں۔ پچھلے کالم کے بعد پنجاب کے کم از کم بارہ اضلاع (جن میں وسطی اور جنوبی پنجاب کے اضلاع شامل ہیں) سے میلز، میسج اور فون آتے رہے، جن میں جرائم میں اضافے کا رونا رویا گیا ہے۔ سینٹرل پنجاب کے اہم ترین ضلع گوجرانوالہ سے صنعتکاروں، تاجروں اور پڑھے لکھے لوگوں کے درجنوں فون اور میسج آئے ، سب کا یہی کہنا تھا کہ لگتا ہے پولیس نے ضلع گوجرانوالہ ٹھیکے پر دے دیا ہے اور خود لمبی چھٹی پر چلی گئی ہے۔

ضلع وزیرآباد روایتی طور پر ایک پرامن علاقہ رہا ہے مگر پچھلے دنوں وزیرآباد جانا ہوا تو شہریوں اور تاجروںکی تنظیموں کے مرکزی عہدیدار ملے، وہ سب بڑھتے ہوئے جرائم پر سخت پریشان تھے۔ وہ بتاتے رہے کہ تاجر آئے روز ڈاکوؤںکا ٹارگٹ بن رہے ہیں۔ ایک انتہائی معزّز تاجر کو ایک ماہ میں چھ بار لُوٹا گیا ہے۔ وہ سب مجھ سے یہی پوچھتے رہے کہ ’’یہ بتادیں کہ گوجرانوالہ اور وزیرآباد صوبۂ پنجاب کا حصہ ہیں یا نہیں؟‘‘ میں نے کہا کیوں نہیں؟ اس پر وہ کہنے لگے کہ ’’پنجاب حکومت ہمیں تحفّظ دینے میں کیوں ناکام ہے؟ آپ ہماری جائز تشویش وزیراعلیٰ تک پہنچائیں‘‘۔ لوگ بتاتے ہیں کہ لاہور کی کمانڈموثّر ہے، سیالکوٹ جہلم میں جو نوجوان ڈی پی او لگے ہیں ان کی شہرت اچھی ہے، باقی اﷲ مالک ہے۔

 عوام اور پولیس کا سب سے بڑا رابطہ مرکز، پولیس اسٹیشن ہے اور وہی یونٹ پولیس کا سب سے کمزور پہلو (grey area) ہے جس کے بارے میں عوام کو سب سے زیادہ شکایات ہیں۔ چند روز پہلے آئی جی پنجاب کی جانب سے ایک بہت ضخیم کتاب موصول ہوئی جس کا عنوان رکھا ہوا تھا ’’تھانے پنجاب دے‘‘ میں خوش ہوا کہ شاید کتاب کے اندر ان کوششوں کا ذکر ہوگا جو پنجاب کے تھانوں میں عوام کی شکایات کے ازالے کے لیے کی جارہی ہیں۔ عوام کو تھانوں سے دو بڑی شکایات ہیں ایک یہ کہ وہاں مظلوم اور مدعی کی بھی رشوت کے بغیر شنوائی نہیں ہوتی اور دوسری یہ کہ تھانے کے اہلکاروں کا روّیہ عام آدمی کے ساتھ بڑا غیر مہذّب اور غیر ہمدردانہ ہوتا ہے۔

اسی کو تھانہ کلچر کہتے ہیں جس کی تبدیلی کے دعوے کیے جاتے ہیں مگر اکثر دعویدار تھانہ کلچر کے معنی بھی نہیں سمجھتے۔ آئی جی کی بھیجی ہوئی کتاب میں تھانوں کی نئی تعمیر کردہ عمارتوں کی تصاویر ہیں، اکثر تصاویر ایسی ہیں جنھیں دیکھ کر کسی فائیو اسٹار ہوٹل کا گمان ہوتا ہے، میں حیران ہوں اس سوچ اور ترجیحات پر ہوںکہ عوام کے پیسوں سے تھانوں کو فائیوا سٹار ہوٹلوں میں تبدیل کرکے خوش ہوا جائے ۔ تھانہ اسٹاف کے رہائشی کمرے اور باتھ روم صاف ستھرے ہونے چاہئیںمگر عوام ہرگز یہ نہیں چاہتے کہ تھانے ہوٹلوں کی طرح بنادیے جائیں ۔ کیا ایسا کرنے سے اب عوام کا پولیس پر اعتماد بحال ہوگیا ہے؟ بالکل نہیں۔

ویسے تو تھانے کے ساتھ پٹوارخانے، عدالت، سیاست اور صحافت کا موجودہ کلچر بھی تبدیل ہونا چاہیے مگر ہم ان سطور میں صرف تھانہ کلچر کی بات کریں گے ، تھانوں کا موجودہ ماحول اور کلچر pro criminal ہے یہ اس کے برعکس ہونا چاہیے۔ اس وقت مظلوم نادار اور بے سہارا شخص کے لیے تھانوں کا ماحول بے حد ناخوشگوار اور غیر ہمدردانہ ہے اسے تبدیل کرنے کے لیے عرق ریزی سے کی جانے والی طویل ریاضت اور جدّوجہد درکار ہے، جس کے لیے پولیس کے ضلعی سربراہ کا کیریکٹر اور مضبوط عزم (strong will) سب سے اہم ہے۔

قومی سطح کے بہت سے دانشور اور صحافی لکھ چکے ہیں کہ تھانوں کا ماحول اور کلچر یعنی تھانہ اسٹاف کی سوچ تبدیل کرنے کی اگر کبھی اخلاص اور جوش وجنون کے ساتھ کوشش ہوئی جس کے نتیجے میں تھانوں سے رشوت، بدتمیزی اور بداخلاقی کا خاتمہ ہوا تو وہ 2009-10  میں گوجوانوالہ میں ہوئی تھی۔ یہ کیسے ممکن ہوا؟ پورا سال پولیس لیڈر شپ کو کس طرح خونِ جگر جلانا پڑا؟ کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑے؟ میری کتاب ’’دو ٹوک‘‘ میں اس کا تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے۔

انسانی ذہن کی تبدیلی کے لیے بہت کچھ کرنا پڑتا ہے، گوجرانوالہ میں بھی بہت کچھ کرنا پڑا۔سختی بھی، پیار بھی، سزا بھی، انعام بھی، دلیل بھی، کونسلنگ بھی اور موٹیویشن بھی۔ دس گیارہ مہینے کی جدّوجہدکے بعد ہم نے قومی سطح کی بااعتبار این جی اوز سے سروے کرایا جنھوں نے رپورٹ لکھی کہ 95% فیصد تھانوں میں نہ کوئی رشوت لیتا ہیء اور نہ ہی قبول کرتا ہے اور عام آدمی کے ساتھ ان کا طرزِ عمل بھی بہت بہتر ہوا ہے۔

 تھانوں کو ہوٹلوں کی شکل دینے یا رنگ روغن چڑھانے کے بجائے اس کے اندر کا کلچر اور وہاں تعینات عملے کی سوچ بدلنے کی ضرورت ہے، یہی وزیراعلیٰ کا ہدف ہونا چاہیے۔ اس کے علاوہ چیف سیکریٹری اور آئی جی کو سختی سے ہدایات دی جائیں کہ وہ اپنے تھانیداروں اور محکہ مال کے اہلکاروں کوSensitise کریں کہ وہ عام آدمی کو اہمیّت دیں اور اس کے ساتھ عزّت، احترام اور ہمدردی کے ساتھ پیش آئیں۔ افسران اپنے آرام دہ ائرکنڈیشنڈ دفتروں میں نہ بیٹھیں رہیں، وہ عوام تک خود پہنچیں اور ان کے دکھ درد سنیں اور اس کا ازالہ کرنے کی کوشش کریں۔

 اس سلسلے میں افسران مختلف محلّوں اور قصبوں میں کھلی کچہریاں لگائیں اور جمعے کو مساجد میں بیٹھ کر عوام کے مسائل سنیں۔ نشے کا ناسور ہر شہر، قصبے اور ہر ایلیٹ اسکول میں پہنچ چکا ہے۔ منشیات فروش نوجوانوں کی رگوں میں زہر اُتار کر انھیں موت کی وادی میں دھکیل رہے ہیں۔ منشیات، بدکاری اور جوئے کے اڈّے پولیس کی آشیرباد کے بغیر نہیں چل سکتے۔ تمام ضلعی پولیس افسران کو سخت ہدایات جاری کریں کہ قابلِ اعتماد ذرایع سے معلومات حاصل کرکے وہ ایک مہینے کے اندر ان اڈوّں کا خاتمہ کردیں۔

 پولیسنگ کا بنیادی مقصد چونکہ عوام کے جان ومال اور عزّت و آبرو کا تحفّظ ہے لہٰذا پولیسنگ کے عمل میں عوام کی شرکت کو یقینی بنانابے حد اہم ہے۔ عوام کے تعاون اور شراکت سے کی جانے والی پولیسنگ (Participative Policing)کی بہترین عملی صورت مصالحتی کمیٹیاں ہیں۔ پولیس افسروں کو چاہیے کہ ضلعی نہیں بلکہ تھانوں کی سطح پر باکردار افراد پر مشتمل مصالحتی کمیٹیاں تشکیل دیں۔

راقم نے پہلے ایبٹ آباد اور پھر گوجرانوالہ میں تھانوں کی سطح پر مصالحتی کمیٹیاں قائم کی تھیں ، جن میں معاشرے کے قابلِ احترام افراد، عدلیہ کے ریٹائرڈ جج، سابق پرنسپل، سول اور ملٹری کے ریٹائرڈ افسران، صنعت و تجارت کے نمایندے اور منتخب کونسلرز میں سے اچھی شہرت کے افراد شامل کیے گئے تھے، ہر پولیس اسٹیشن میں ایک کمرہ ان کے دفتر کے لیے مخصوص کیا گیا تھا،فوجداری اور دیوانی نوعیّت کے جھگڑے، میاں بیوی کے تنازعات اور پولیس افسروں کے خلاف درخواستیں مصالحتی کمیٹیوں کو بھیجی جاتی تھیں، ان کمیٹیوں کی کوششوں سے ہزاروں کیسوں میں صلح ہوئی جس سے کئی خاندان دشمنی کی آگ میں جلنے سے بچ گئے۔

کروڑوں روپے اصل حقداروں کو واپس دلائے گئے۔ درجنوں کیسوں میں میاں بیوی کے درمیان صلح کرادی گئی جس سے خاندان ٹوٹنے سے بچ گئے۔ جو کیس عدالتوں میں پندرہ پندرہ سالوں سے چل رہے تھے، مصالحتی کمیٹیوں نے ان کا دو سے تین ہفتوں میں فیصلہ کردیا جو تمام فریقوں کے لیے قابلِ قبول ہوتا تھا۔ ان کمیٹیوں نے اخلاص اور محنت سے کام کرکے معجزہ کردکھایا۔

خواتین کے علیحدہ تھانے بینظیر حکومت کا ایک سیاسی فیصلہ تھا جو ناکام ثابت ہوا ، وہ تجربہ دھرانے کی ضرورت نہیں۔ پرائس کنٹرول یا تجاوزات کے خاتمے کے نام پر کوئی بھی یونیفارم پہننے والی نئی فورس قائم کرنے کی کوئی ضرورت نہیں، اگر ہو بھی تو وہ صوبے کے انسپکٹر جنرل پولیس کے انتظامی کنٹرول کے تحت ہونی چاہیے۔آخری بات یہ ہے کہ کارکردگی جانچنے کا سب سے بڑا معیار (KPI) ایک ہی ہے اور وہ ہے عوام کی رائے اور تاثّر، اگر عوام میں عدمِ تحفّظ کا احساس پایا جاتا ہے اور وہ مقامی پولیس سے مطمئن نہیں ہیںتو پھر وہ چاہے یو این او سے رپورٹ لے آئے مگر اسے نااہل اور ناکام سمجھا جائے گا۔

Load Next Story