بات کچھ اِدھر اُدھر کی اِحتیاط سے پھینکو سنگ بدگْمانی کے
یہ معاشرتی بے حسی ہی ہے کہ لوگ بنا سوچ سمجھے دوسروں کے بارے رائے قائم کرلیتے ہیں اور اکثر انہیں شرمندگی اٹھانی پڑتی ہے
معاشرے ہوں یا ملک ان میں بسنے والے افراد کے مجموعی روئیوں سے وہاں کی طرز بودباش اور اخلاقیات کا پتہ چلتا ہے، ایک طرف دیکھا جائے تو دنیا نے انسانی وسائل اور اس کی آسانی کے حوالے سے بہت ترقی کر لی ہے ، جسے خوش آئند قرار دیا جانا چاہے جبکہ دوسری جانب خود حضرت انسان ماضی کی وحشت اور درندگی سے باہر نکل نہیں پایا۔ نوئے کی دہائی میں یہ امید پیدا ہو چلی تھی کہ انسان کے امن و سکون سے رہنے کے دن آرہے ہیں ایک دوسرے ملک میں جانے کے لئے حدیں اور سرحدیں اب کوئی معنی نہیں رکھیں گی مگر برا ہو ان کا جنہوں نے ،امن اور ترقی کی جانب دنیا کو صرف ایک دہشت گردی کی واردت کر کے ایسا بیک گیئر لگایا کہ انسانی آزادی کا جو سفر انسان نے صدیوں میں طے کیا تھا پل بھر میں زمین بوس کر کے رکھ دیا۔
نائن الیون کے واقعے نے انسان کے مہذب پن کا چولا بھی اتار کے رکھ دیا اور پھر دہشت گردی کی آگ میں سب کچھ جل کر بھسم ہو گیا۔ آپ المیہ دیکھیے حکومتی مشینری نے بھی شہریوں کو ڈرانے اور ایک دوسرے کو مشکوک بنانے میں اپنا کردار حتی الوسع ادا کیا ہے۔ جب حکومت کی جانب سے بڑے بڑے اشتہار دیے جائیں گے جن کا متن یہ ہو کہ ''خبر دار دہشت گرد آپ کا دشمن ہے'' کوئی بھی مشکوک چیز دیکھیں تو قریبی پولیس اسٹیشن اطلاع دیں اور مشکوک حلیے کے افراد پر نظر رکھیں۔ ایک وقت تھا کہ ہم لوگ محلے کے کسی بھی گھر میں بلا روک ٹوک چلے جاتے تھے ،سفر میں پیاس لگتی کسی بھی کوٹھی کا گیٹ کھلا دیکھتے اس میں داخل ہو کر لگے نلکے سے پانی پی لیتے کبھی کسی نے مشکوک نہیں جانا تھا مگر آج تو آپ کسی کے گھر کے باہر کسی بیماری یا تھکاوٹ کے سبب کچھ دیر سستانے کے لیے بیٹھ جائیں تو فوراً پولیس کو اطلاع کر دی جاتی ہے، یا آپ سے کہا جاتا ہے کہ یہاں سے اٹھ جائیں۔
معاشرتی بے حسی کا اندازہ اس بات سے لگا لیجیے کہ لوگ بنا سوچ سمجھے اور جانے دوسروں کے بارے رائے قائم کر لیتے ہیں اور اکثر واقعات میں بعد میں شرمندگی اٹھانی پڑتی ہے۔ بد ظنی یا بدگمانی انسان کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو مفقود کر دیتی ہے۔اس بدگمانی اور بد ظنی کے حوالے سے زہن کے گوشوں میں چپھا ایک واقع شیئر کر رہا ہوں کہ ایک بحری جہاز سمندر میں رواں دواں تھا اس کے عرشے پر ایک خستہ حال حلیے میں ایک شخص چادر اوڑھے اس طرح بیٹھا تھا کہ جہاز کے دیگر مسافروں کو گزرنے میں دشواری ہو رہی تھی جبکہ کچھ افراد اسے مشکوک سمجھتے ہوئے عجیب سی نظروں سے گھوررتے ہوئے گزر رہے تھے۔ وہ شخص ان سب باتوں سے بے نیاز ٹھوکروں میں بیٹھا رہا جب لوگوں کی برداشت جواب دے گئی اور بد ظنی نے ان کے دماغ کو مفلوج کر دیا اور خوف بڑھنے لگا تو جہاز کے مسافر اکٹھے ہوئے اور کہنے لگے اس ''مشکوک شخص'' کو یہاں سے اٹھا کر سمندر میں پھینک دو ایسا نہ ہو اس کی وجہ سے ہم پرکوئی آفت آجائے، شور بڑھتا گیا اور پھر ''ہجوم'' اس شخص کو اٹھا کر سمندر میں پھینکے کی نیت سے آگے بڑھا کچھ مشٹنڈوں نے اسے پر ہاتھ بھی ڈال دیا کہ اچانک ایک آواز آئی ٹھہرو۔۔! سب رک گئے اور مڑ کر آواز کی طرف استفساری نظروں سے دیکھا۔ لیکن اسے سمندر میں پھینک دو کا شور تھا کہ کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا، آواز دینے والے نے کہا کیا تم لوگ جانتے ہو یہ کون ہے؟ لوگوں نے کہا کہ نہیں ہم تو اسے کوئی دہشت گرد یا مجرم سمجھ رہے ہیں اس کا حلیہ بھی تو ایسا ہے، اس شخص نے کہا جسے تم بنا تحقیق مجرم سمجھ رہے ہو یہ اس جہاز کا کپتان ہے۔۔۔لوگوں کے منہ کھلے کے کھلے رہ گئے ،وہ پھر گویا ہوا اور یہ یہاں اس لیے بیٹھا ہے کہ جس جگہ یہ بیٹھا ہے یہاں سوراخ ہو چکا ہے جس میں سے سمندر کا پانی جہاز میں داخل ہو سکتا ہے اور یہ جہاز کو ڈوبنے سے بچانے کے لئے اس سوراخ پر بیٹھا ہے جہاں سے جہاز کے اندر پانی آسکتا ہے اور تم اسی کو اٹھا کر سمندر میں پھینک رہے ہو۔۔! یہ وہ لمحہ تھا جس نے اُن تمام لوگوں کو شرمندہ کردیا جو اُسے دہشتگرد بنانے پر تلے تھے۔
ہمارے عجلت میں کئے ہوئے فیصلے اکثر و بیشتر بد گمانی اور بد ظنی پر مبنی ہوتے ہیں جو صحیح اسباب جاننے کے بعد ہمارے لئے ندامت اور پشیمانی کا باعث بنتے ہیں۔ گویا ہم کئی بار دوسروں پر ظلم کر کے اپنے آپ پر ظلم کر رہے ہوتے ہیں۔ ٹھیک ہے حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ جنہوں نے ایک دوسرے کے بارے بد گمانی اور بدظنی میں اضافہ کیا ہے۔ لیکن ان حالات کو درست بھی تو کسی نے کرنا ہے؟ حکومت اور معاشرے کو مل کر ایسے اقدامات اٹھانے ہونگے کے ہم تکریم آدمیت کی طرف واپس لوٹ سکیں اور انساں کا احترام ہماری بد ظنی کی نظر نہ ہو جائے۔
کسی شاعر کا یہ شعر حقائق کے کتنا قریب ہے۔
نائن الیون کے واقعے نے انسان کے مہذب پن کا چولا بھی اتار کے رکھ دیا اور پھر دہشت گردی کی آگ میں سب کچھ جل کر بھسم ہو گیا۔ آپ المیہ دیکھیے حکومتی مشینری نے بھی شہریوں کو ڈرانے اور ایک دوسرے کو مشکوک بنانے میں اپنا کردار حتی الوسع ادا کیا ہے۔ جب حکومت کی جانب سے بڑے بڑے اشتہار دیے جائیں گے جن کا متن یہ ہو کہ ''خبر دار دہشت گرد آپ کا دشمن ہے'' کوئی بھی مشکوک چیز دیکھیں تو قریبی پولیس اسٹیشن اطلاع دیں اور مشکوک حلیے کے افراد پر نظر رکھیں۔ ایک وقت تھا کہ ہم لوگ محلے کے کسی بھی گھر میں بلا روک ٹوک چلے جاتے تھے ،سفر میں پیاس لگتی کسی بھی کوٹھی کا گیٹ کھلا دیکھتے اس میں داخل ہو کر لگے نلکے سے پانی پی لیتے کبھی کسی نے مشکوک نہیں جانا تھا مگر آج تو آپ کسی کے گھر کے باہر کسی بیماری یا تھکاوٹ کے سبب کچھ دیر سستانے کے لیے بیٹھ جائیں تو فوراً پولیس کو اطلاع کر دی جاتی ہے، یا آپ سے کہا جاتا ہے کہ یہاں سے اٹھ جائیں۔
معاشرتی بے حسی کا اندازہ اس بات سے لگا لیجیے کہ لوگ بنا سوچ سمجھے اور جانے دوسروں کے بارے رائے قائم کر لیتے ہیں اور اکثر واقعات میں بعد میں شرمندگی اٹھانی پڑتی ہے۔ بد ظنی یا بدگمانی انسان کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو مفقود کر دیتی ہے۔اس بدگمانی اور بد ظنی کے حوالے سے زہن کے گوشوں میں چپھا ایک واقع شیئر کر رہا ہوں کہ ایک بحری جہاز سمندر میں رواں دواں تھا اس کے عرشے پر ایک خستہ حال حلیے میں ایک شخص چادر اوڑھے اس طرح بیٹھا تھا کہ جہاز کے دیگر مسافروں کو گزرنے میں دشواری ہو رہی تھی جبکہ کچھ افراد اسے مشکوک سمجھتے ہوئے عجیب سی نظروں سے گھوررتے ہوئے گزر رہے تھے۔ وہ شخص ان سب باتوں سے بے نیاز ٹھوکروں میں بیٹھا رہا جب لوگوں کی برداشت جواب دے گئی اور بد ظنی نے ان کے دماغ کو مفلوج کر دیا اور خوف بڑھنے لگا تو جہاز کے مسافر اکٹھے ہوئے اور کہنے لگے اس ''مشکوک شخص'' کو یہاں سے اٹھا کر سمندر میں پھینک دو ایسا نہ ہو اس کی وجہ سے ہم پرکوئی آفت آجائے، شور بڑھتا گیا اور پھر ''ہجوم'' اس شخص کو اٹھا کر سمندر میں پھینکے کی نیت سے آگے بڑھا کچھ مشٹنڈوں نے اسے پر ہاتھ بھی ڈال دیا کہ اچانک ایک آواز آئی ٹھہرو۔۔! سب رک گئے اور مڑ کر آواز کی طرف استفساری نظروں سے دیکھا۔ لیکن اسے سمندر میں پھینک دو کا شور تھا کہ کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا، آواز دینے والے نے کہا کیا تم لوگ جانتے ہو یہ کون ہے؟ لوگوں نے کہا کہ نہیں ہم تو اسے کوئی دہشت گرد یا مجرم سمجھ رہے ہیں اس کا حلیہ بھی تو ایسا ہے، اس شخص نے کہا جسے تم بنا تحقیق مجرم سمجھ رہے ہو یہ اس جہاز کا کپتان ہے۔۔۔لوگوں کے منہ کھلے کے کھلے رہ گئے ،وہ پھر گویا ہوا اور یہ یہاں اس لیے بیٹھا ہے کہ جس جگہ یہ بیٹھا ہے یہاں سوراخ ہو چکا ہے جس میں سے سمندر کا پانی جہاز میں داخل ہو سکتا ہے اور یہ جہاز کو ڈوبنے سے بچانے کے لئے اس سوراخ پر بیٹھا ہے جہاں سے جہاز کے اندر پانی آسکتا ہے اور تم اسی کو اٹھا کر سمندر میں پھینک رہے ہو۔۔! یہ وہ لمحہ تھا جس نے اُن تمام لوگوں کو شرمندہ کردیا جو اُسے دہشتگرد بنانے پر تلے تھے۔
ہمارے عجلت میں کئے ہوئے فیصلے اکثر و بیشتر بد گمانی اور بد ظنی پر مبنی ہوتے ہیں جو صحیح اسباب جاننے کے بعد ہمارے لئے ندامت اور پشیمانی کا باعث بنتے ہیں۔ گویا ہم کئی بار دوسروں پر ظلم کر کے اپنے آپ پر ظلم کر رہے ہوتے ہیں۔ ٹھیک ہے حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ جنہوں نے ایک دوسرے کے بارے بد گمانی اور بدظنی میں اضافہ کیا ہے۔ لیکن ان حالات کو درست بھی تو کسی نے کرنا ہے؟ حکومت اور معاشرے کو مل کر ایسے اقدامات اٹھانے ہونگے کے ہم تکریم آدمیت کی طرف واپس لوٹ سکیں اور انساں کا احترام ہماری بد ظنی کی نظر نہ ہو جائے۔
کسی شاعر کا یہ شعر حقائق کے کتنا قریب ہے۔
اِحتیاط سے پھینکو سنگ بدگْمانی کے
دوستی کے آئینے ان سے ٹْوٹ جاتے ہیں
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔