بات کچھ اِدھر اُدھر کی عید الفطر۔۔۔صرف ایک دن کا نام
رمضان جیسا بابرکت مہینا گزارنے کے بعد عید کے تہوار کا ایک الگ لطف و سرور ہے۔
رمضان کا آخری عشرہ رحمتیں بکھیرتے ہوئے گزر رہا ہے۔ رمضان کا مہینہ جیسے جیسے اختتام کی طرف بڑھ رہا ہے لوگ عید کی تیاریوں میں مصروف نظر آتے ہیں۔
شاید میں نے اپنے پہلے کسی بلاگ میں ذکر کیا تھا کہ ہم لوگوں نے رمضان کو صرف ایک مہینہ سمجھ لیا ہے۔ پورا دن ہم بھوک پیاس سہتے ہیں۔ اپنی جبینوں پہ سجدوں کے نشاں بھی سجاتے ہیں۔ لیکن ہم معاشرتی برائیوں سے اجتناب نہیں کرتے۔ خود کو چھوٹی چھوٹی ایسی برائیوں سے نہیں بچاتے جو بظاہر تو چھوٹی نظر آتی ہیں لیکن ہماری عبادات کو ہوا میں معلق رکھنے کا سبب بن جاتی ہیں۔ ہم نے کبھی اس بات پر غور نہیں کیا کہ ہم پر اس مقدس مہینے کے روزے کیوں فرض کیے گئے۔
کچھ ایسا ہی ہم عید کے تہوار کے لیے کرتے ہیں۔ ہم اس کو صرف ایک دن کا تہوار سمجھتے ہیں۔ نئے کپڑے زیب تن کرتے ہیں۔ اور خوشبوؤں میں بس کر مساجد کا رخ کرتے ہیں۔ گھروں میں نت نئے کھانوں کا اہتمام کرتے ہیں۔ صرف ایک اس دن کی تیاری میں لاکھوں روپے صرف کر دیتے ہیں۔ اگر آپ آج کل بازاروں کی حالت دیکھیں تو'' آٹھ لاکھ سے زائد اندرونی مہاجرین'' رکھنے والے اس ملک کے بازاروں میں تل دھرنے کی جگہ نہیں۔ ایک ایک لباس کی قیمتیں کسی خاندان کے پورے مہینے کے راشن کے برابر ہوں گی ۔ وجہ ؟ کیوں کہ رمضان جیسا بابرکت مہینا گزارنے کے بعد عید کے تہوار کا ایک الگ لطف و سرور ہے۔ لیکن اس لطف و سرور میں ہم اس دن کی اہمیت کو یکسر نظر انداز کر دیتے ہیں۔
کیا ہم میں سے کسی نے بھی یہ سوچنے کی زحمت کی کہ ہم جب لاکھوں روپے صرف ایک اس دن کی تیاری میں خرچ کر ڈالتے ہیں تو جو بچہ سگنل بند ہوتے ہیں ہماری گاڑی کی طرف دوڑ کر آتا ہے صرف اس خواہش میں کہ گاڑی کا شیشہ صاف کرنے پہ اسے چند روپے مل جائیں گے۔ کیا آپ کے خیال میں وہ بچہ وہ روپے اپنے لباس کے لیے استعمال کرتا ہو گا؟ کیا ایسا نہیں کہ ان چند روپوں سے ہو سکتا ہے اس کے لیے ایک وقت کا کھانا بھی مہیا نہ ہو سکتا ہو؟ اگر ایسا ہے تو پھر کیا ہمارے عید کے تہوار پر خرچ کیے گئے لاکھوں روپے روز آخرت ہمارے لیے پھندہ نہیں بن جائیں گے۔ کیا ہم سے سوال نہیں ہو گا کہ استطاعت رکھنے کے باوجود ہم نے عید کے دن کو''احساس کے دن'' کے طور پر کیوں نہیں منایا؟ میں عالم نہیں لیکن اتنا ضرور جانتا ہوں کہ ہمارے خرچ کردہ ایک ایک روپے کا حساب ضرور ہو گا۔ ہم سے سوال ہو گا کہ جب ہم اپنے گھر میں عید کے پکوان تیار کر رہے تھے تو ساتھ والے گھر میں غریب کے بچے بھوکے کیوں سوئے۔ کم از کم ہمارا ضمیر ہم سے سوال ضرور کرے گا کہ عید کی خوشیوں میں 8لاکھ سے زیادہ وزیرستان کے مہاجر ہم کو یاد رہے؟ کیا ان میں بچے شامل نہیں جو اس بات سے لاعلم ہیں کہ جنگ کیا ہے اور امن کیا ہے۔
ہم میں سے کتنے صاحب حیثیت لوگ ہیں جنہوں نے عید کے لیے اپنے ماتحت کام کرنے والے کسی چائے دینے والے، کسی چپڑاسی، کسی ڈرائیور یا کسی خانساماں کے لیے بھی اپنے جیسا لباس پسند کیا ہو؟ فطرانے کی ادائیگی شوال کا چاند نظر آنے کے بعد کی جاتی ہے۔ جس سے بہت سے غریب عید کی خوشیوں میں مکمل طریقے سے شامل ہونے سے رہ جاتے ہیں۔ کیوں کہ وہ آخری رات اس حیثیت میں نہیں ہوتے کہ گھر کے افراد کے لیے خریداری کر سکیں۔اسلام نے زکوٰۃ و فطرانے کا نظام اسی لیے دیا کہ وہ لوگ جو استطاعت نہیں رکھتے وہ بھی خوشیاں منا سکیں۔
ہم سب کو خود سے عہد کرنا ہو گا کہ ہم بطور مسلمان عید کو صرف ایک دن سمجھ کر نہیں گزاریں گے۔ بلکہ اس کو ایک ایسے نظام کے طور پر گزاریں گے جس کا اثر ہمیں آئندہ دنوں میں بھی محسوس ہو گا۔ یوم عید کو ہم ایک ایسا آغاز بنائیں گے جو اس معاشرے کو مثبت روش پر چلانے میں ایک اہم قدم ثابت ہو گا۔ ایک دفعہ کوشش کر کے دیکھیے یہ عہد کر کے آپ دلی طور پر خود کو پرسکون محسوس کریں گے۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
شاید میں نے اپنے پہلے کسی بلاگ میں ذکر کیا تھا کہ ہم لوگوں نے رمضان کو صرف ایک مہینہ سمجھ لیا ہے۔ پورا دن ہم بھوک پیاس سہتے ہیں۔ اپنی جبینوں پہ سجدوں کے نشاں بھی سجاتے ہیں۔ لیکن ہم معاشرتی برائیوں سے اجتناب نہیں کرتے۔ خود کو چھوٹی چھوٹی ایسی برائیوں سے نہیں بچاتے جو بظاہر تو چھوٹی نظر آتی ہیں لیکن ہماری عبادات کو ہوا میں معلق رکھنے کا سبب بن جاتی ہیں۔ ہم نے کبھی اس بات پر غور نہیں کیا کہ ہم پر اس مقدس مہینے کے روزے کیوں فرض کیے گئے۔
کچھ ایسا ہی ہم عید کے تہوار کے لیے کرتے ہیں۔ ہم اس کو صرف ایک دن کا تہوار سمجھتے ہیں۔ نئے کپڑے زیب تن کرتے ہیں۔ اور خوشبوؤں میں بس کر مساجد کا رخ کرتے ہیں۔ گھروں میں نت نئے کھانوں کا اہتمام کرتے ہیں۔ صرف ایک اس دن کی تیاری میں لاکھوں روپے صرف کر دیتے ہیں۔ اگر آپ آج کل بازاروں کی حالت دیکھیں تو'' آٹھ لاکھ سے زائد اندرونی مہاجرین'' رکھنے والے اس ملک کے بازاروں میں تل دھرنے کی جگہ نہیں۔ ایک ایک لباس کی قیمتیں کسی خاندان کے پورے مہینے کے راشن کے برابر ہوں گی ۔ وجہ ؟ کیوں کہ رمضان جیسا بابرکت مہینا گزارنے کے بعد عید کے تہوار کا ایک الگ لطف و سرور ہے۔ لیکن اس لطف و سرور میں ہم اس دن کی اہمیت کو یکسر نظر انداز کر دیتے ہیں۔
کیا ہم میں سے کسی نے بھی یہ سوچنے کی زحمت کی کہ ہم جب لاکھوں روپے صرف ایک اس دن کی تیاری میں خرچ کر ڈالتے ہیں تو جو بچہ سگنل بند ہوتے ہیں ہماری گاڑی کی طرف دوڑ کر آتا ہے صرف اس خواہش میں کہ گاڑی کا شیشہ صاف کرنے پہ اسے چند روپے مل جائیں گے۔ کیا آپ کے خیال میں وہ بچہ وہ روپے اپنے لباس کے لیے استعمال کرتا ہو گا؟ کیا ایسا نہیں کہ ان چند روپوں سے ہو سکتا ہے اس کے لیے ایک وقت کا کھانا بھی مہیا نہ ہو سکتا ہو؟ اگر ایسا ہے تو پھر کیا ہمارے عید کے تہوار پر خرچ کیے گئے لاکھوں روپے روز آخرت ہمارے لیے پھندہ نہیں بن جائیں گے۔ کیا ہم سے سوال نہیں ہو گا کہ استطاعت رکھنے کے باوجود ہم نے عید کے دن کو''احساس کے دن'' کے طور پر کیوں نہیں منایا؟ میں عالم نہیں لیکن اتنا ضرور جانتا ہوں کہ ہمارے خرچ کردہ ایک ایک روپے کا حساب ضرور ہو گا۔ ہم سے سوال ہو گا کہ جب ہم اپنے گھر میں عید کے پکوان تیار کر رہے تھے تو ساتھ والے گھر میں غریب کے بچے بھوکے کیوں سوئے۔ کم از کم ہمارا ضمیر ہم سے سوال ضرور کرے گا کہ عید کی خوشیوں میں 8لاکھ سے زیادہ وزیرستان کے مہاجر ہم کو یاد رہے؟ کیا ان میں بچے شامل نہیں جو اس بات سے لاعلم ہیں کہ جنگ کیا ہے اور امن کیا ہے۔
ہم میں سے کتنے صاحب حیثیت لوگ ہیں جنہوں نے عید کے لیے اپنے ماتحت کام کرنے والے کسی چائے دینے والے، کسی چپڑاسی، کسی ڈرائیور یا کسی خانساماں کے لیے بھی اپنے جیسا لباس پسند کیا ہو؟ فطرانے کی ادائیگی شوال کا چاند نظر آنے کے بعد کی جاتی ہے۔ جس سے بہت سے غریب عید کی خوشیوں میں مکمل طریقے سے شامل ہونے سے رہ جاتے ہیں۔ کیوں کہ وہ آخری رات اس حیثیت میں نہیں ہوتے کہ گھر کے افراد کے لیے خریداری کر سکیں۔اسلام نے زکوٰۃ و فطرانے کا نظام اسی لیے دیا کہ وہ لوگ جو استطاعت نہیں رکھتے وہ بھی خوشیاں منا سکیں۔
ہم سب کو خود سے عہد کرنا ہو گا کہ ہم بطور مسلمان عید کو صرف ایک دن سمجھ کر نہیں گزاریں گے۔ بلکہ اس کو ایک ایسے نظام کے طور پر گزاریں گے جس کا اثر ہمیں آئندہ دنوں میں بھی محسوس ہو گا۔ یوم عید کو ہم ایک ایسا آغاز بنائیں گے جو اس معاشرے کو مثبت روش پر چلانے میں ایک اہم قدم ثابت ہو گا۔ ایک دفعہ کوشش کر کے دیکھیے یہ عہد کر کے آپ دلی طور پر خود کو پرسکون محسوس کریں گے۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔