دیوار سے آگے!


ڈاکٹر حمید بھٹی‘ اپنا تخلص شہید استعمال کرتے ہیں۔ لندن میں آسودہ حال ڈاکٹر ‘ مگر ہجرت ‘ اپنوں سے بچھڑنے کا غم اور وطن کی دوری کے ہجر نے ان کے اندر ایک ایسی چنگاری روشن کر دی۔ جس کی بدولت فسوں کے قطرے‘ دل پر ٹپک ٹپک کر لفظوں کا روپ دھار گئے ۔ حمید بھٹی ایک مٹا ہوا انسان ہے جو ملک سے باہر رہ کر ‘ اپنی مٹی کے لیے تڑپتا ہے۔بغیر آنسوؤں کے گریہ کرتا ہے اور پھر آفاقی شعر تخلیق کر ڈالتا ہے۔
اس کی شاعری اس قدر متاثر کن ہے کہ پڑھنے والا انسان عالم وارفتگی میں چلا جاتا ہے۔ شاعر کے ساتھ بذات خود باطنی سفر شروع کر دیتا ہے۔ حمید لاہور آئے مگر میری ملاقات نہ ہو پائی۔ مگر کمال محبت سے انھوں نے اپنی غزلوں کا مجموعہ ’’دیوار سے آگے‘‘ گھر بھجوا دیا۔ پڑھ کر میں ورطہ حیرت میں ڈوب گیا۔ انتی کمال شاعری‘ اتنے اعلیٰ اشعار۔ دکھ کی کیفیت کی یہ وہ انتہا ہے‘ جس بھٹی میں حمید بھٹی شہید کندن بنا ہے۔
اب کچھ کتاب کے بارے میں بھی عرض کرتا چلوں۔ انتساب میں برادرم حمید لکھتے ہیں۔ :میرے نزدیک آج کل کے دور میں کسی بھی ادبی کتاب کے انتساب کے صحیح حقدار تین قسم کے لوگ ہوتے ہیں: ’’وہ لوگ جو اس قحط الادب اور قحط الرجال کے دور میں‘ اپنی زندگی کے امتحانوں سے نبرد آزما ہونے کے ساتھ ساتھ ادبی ذوق رکھتے ہیں اور کتاب کا مطالعہ ذوق و شوق سے کرتے ہیں۔ پھر وہ تمام احباب جن کی ان تھک اور شب و روز کی محنت سے لکھنے والے کے افکار الفاظ کا روپ دھار کر صفحۂ قرطاس کی زینت بنتے ہیں اور آخرکار کتابی شکل میں ڈھل کر قارئین کے ہاتھوں میں پہنچتے ہیں۔ان کے ساتھ ساتھ وہ ہستیاں جو لکھاری کے وجود و نمو د کا باعث بنتی ہیں‘ اہل و عیال اور اساتذہ کرام‘‘۔
حد درجہ عزیز مہربان دوست‘ فرحت عباس شاہ نے بھی ’’دیوار سے آگے‘‘ کے متعلق قلم اٹھایا ہے۔ لکھتے ہیں۔ڈاکٹر حمید شہید رائیگانی کے احساس سے جنم لینے والی مزاحمت کا شاعر ہے۔ عام طور پر مایوسی احساس رائیگانی میں بدلتی ہے اور احساس رائیگانی انسان کو ہر شے سے بیگانہ کر دیتا ہے لیکن ڈاکٹر حمید شہید کی شاعری نے مجھے حیران کیا کہ اس میں مایوس ہو کر بھسم ہو جانے کی بجائے جابر اور ظالم مسلط قوتوں سے ٹکرا جانے کا عمل نظر آتا ہے۔
ڈاکٹر حمید شہید کا شعر اس لحاظ سے بھی قابل ستائش لگا وہ عصری رسمی شاعری کو آئینہ دکانے کے لیے میرے جیسے ادب کے مزاحمتی طالب علم کی طاقت میں اضافے کا باعث ہے۔ تر و تازہ زمینیں‘ مترنم صوفیانہ بحور‘ صاف شفاف زبان اور کسی بھی طرح کے تصنع سے پاک شاعری ایک نئے‘ تازہ کار اور ضاحب نظریہ شاعر کی آمد کا اعلان ہے۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ ہر دہائی یا عشرے میں اگر ڈاکٹر حمید شہید جیسا ایک شاعر بھی اردو زبان و ادب کو ملتا رہا تو انسان اور سماج کے خلاف سرمایہ دارانہ نظام کی ناپاک اور ظالمانہ سازشوں کا پردہ چاک ہوتا رہے گا۔
عابد حسین عابد رقم کرتے ہیں۔زیر نظر شعری مجموعے ’’دیوار سے آگے‘‘ کا نام ہی اس بات کی گواہی دے رہا ہے کہ اس میں روایتی غزل پڑنے کو نہیں ملے گی۔ اس کا موضوعاتی تنوع معاصر سماجی زندگی کا عکاس ہے۔
جس میں شاعر عجز کا شکار نہیں ۔ وہ اپنے موضوعات زندگی سے کشید کرتا ہے۔ اس کی نگاہ پورے سماج پر ہے۔ جو اس بات کی روشن دلیل ہے کہ ہمارا آج کا غزل گو شاعر محض خیالی دنیا کا اسیر نہیں۔ حصار ذات میں مقید نہیں بلکہ اس کا مشاہدہ اور تجزیہ اس کا اپنا ہے۔ کسی سے مستعار لیا ہوا نہیں۔ڈاکٹر حمید بھٹی شہید پیشے کے اعتبار سے میڈیکل ڈاکٹر ہیں۔ غزل ان کی محبوب صنف سخن ہے۔
وہ اپنی شاعری میں اس عہد کی بہترین ترجمانی کر رہے ہیں۔ انھوں نے اپنے تخلیقی اظہار یے کو صرف حسن و عشق تک محدود نہیں رکھا۔ اس زوال پذیر معاشرے کا بڑی باریک بیٹی سے مشاہدہ کیا ہے۔بقول حمید بھٹی شہید:
تم نے دنیا میں چہرے دیکھے ہیں
ہم نے چہروں میں دنیا دیکھی ہے
اب ’’دیوار سے آگے‘‘ میں سے کچھ اشعار پیش کرتا ہوں۔
دم کربلا کی خاک کا بھرنا پڑا ہمیں
تنہا مقابلے میں اترنا پڑا ہمیں
دشمن کے تیر کھائے تھے سینے پہ بے دھڑک
لیکن خلوص یار سے ڈرنا پڑا ہمیں
ہم کس طرح خریدتے اونچی عمارتیں؟
دو گز زمین کے لیے مرنا پڑا ہمیں
………
اے موت میرے شہر میں کس کی تلاش ہے؟
اب تو یہاں پہ ایک بھی زندہ نہیں رہا
دیتے ہیں یار‘ زہر ملا کر خلوص میں
کیا بار بار میں تجھے کہتا نہیں رہا؟
………
قیس جنگل میں مرا نام نہ لیتا پھر بھی
دشت والے تو مرا نام پکارا کرتے
دولت رنج سبھی ہم کو عطا کر ڈالی
ہم تہی دست بھی ہوتے تو گزارہ کرتے
ہم سفر وہ بھی مرے ساتھ اگر ہوتے شہید
ان کا ہر راستہ پلکوں سے سنوارا کرتے
………
جس کو چلنا سکھایا تھا ہم نے کبھی
مسند شہہ ملی‘ تو خدا ہو گیا
حشر میں ہی سہی کم سے کم یہ ہوا
تم سے آج آمنا سامنا ہو گیا
بزم حاکم میں سچ بولتا تھا شہید
ایک دن یوں ہوا لاپتہ ہو گیا
………
ہم ہمیشہ ہوا کے رخ پہ رہے
اور حوادث کے ساتھ ساتھ بہے
چین سے ایک پل تور ہنے دو
گردش روز و شب سے کوئی کہے
ایک تیری ہی بات کیا کہئے؟
ہم نے سب دوستوں کے درد سہے
………
عقوبتوں سے نہ زندان سے ڈر لگتا ہے
مجھے تو آج کے انسان سے ڈر لگتا ہے
ہر ایک چہرے کے پیچھے ہیں ہزاروں چہرے
خلوص والے ہر انسان سے ڈر لگتا ہے
ڈاکٹر حمید بھٹی شہید کی شاعری تو پڑھ چکا ہوں۔ مگر استغراق میں ہوں ۔ اتنا بلا کا شاعر اور اتنی پختہ شاعری کیونکر ممکن ہوئی۔ شاید ہجرت سب کچھ سکھا دیتی ہے۔ شاید!