سفارش بمقابلہ رشوت

جائز کام کے لیے سفارش کروانے میں کوئی مضائقہ نہیں لیکن اب تو ناجائز کام پہیوں والی مشین کے زور پر بلا تاخیر ہو جاتا ہے

h.sethi@hotmail.com

ہمارے ملک عزیز میں جائز کام کرانے میں لوگوں کو مشکلات پیش آتی ہیں جب کہ بیشتر جگہوں پر فی زمانہ ناجائز کام نہایت سرعت سے اور بغیر کسی دِقت کے ہو جاتے ہیں۔

بظاہر یہ اسٹیٹمنٹ نامعقول معلوم ہو گی اور کسی بھی قانون، اصول اور ضابطے کی کسوٹی پر پوری نہیں اترے گی لیکن مشاہدہ اور معلومات یہی بتاتی ہیں اور آپ چاہیں تو خود بھی آزما کر دیکھیں جس کے لیے آزمائش شرط ہے۔ اگر کوئی سفارش کروا کے کام ہو جانے کی توقع رکھے تو کام الٹ بھی ہو سکتا ہے جب کہ سکہ رائج الوقت پہیے لگا دیتا ہے اور غیر ممکن کو ممکن بنانے پر قادر ہے۔ مجھے یاد آیا کہ چند سال قبل ایک دوست ہانپتے ہوئے آیا اور آفر دی کہ وزیر اعظم سے کوئی بڑا کام کروانا ہو تو کل تک بتا دو، منافع ففٹی ففٹی اور میں نے تصدیق کی تو معلوم ہوا کہ اس دوست کی آفر مبنی بر حقیقت تھی۔

سفارش اور رشوت کا استعمال قدیمی نسخہ ہے لیکن اب اس کا بے دریغ اور بلاخوف و خطر استعمال خطرناک حدود کو چھو رہا ہے۔ سفارش کا البتہ الٹا نتیجہ بھی دیکھنے سننے میں آ رہا ہے۔ بیشتر وہ سرکاری محکمے جو سہولت پروائیڈ کرتے یا ریونیو وصولی کے فرائض پر مامور ہیں اس سلسلے میں پیٹ بھر کر بدنام ہیں اور یہ جان کر حیرت کی ضرورت نہیں کہ اکثر رشوت دینے والے بھی رشوت دینے کے باوجود مال غنیمت میں حصہ دار ہوتے ہیں۔ محکمہ بجلی و گیس کے علاوہ تمام سرکاری ریونیو اکٹھا کرنے والے اہلکار و افسران خود ہاتھ سے مال حرام نہ بھی پکڑیں تو کسی کپڑے بلکہ جائے نماز کے پیچھے رقم رکھوانے کا فعل قبیح تک کر گزرتے ہیں۔

سفارشیں بھی دو قسم کی ہوتی ہیں۔ ایک جو دراصل حکم کا درجہ رکھتی ہے اور جسے نہ ماننے والے کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔ دوسری معصوم سفارش کے ضمن میں آتی ہے مثال کے طور پر غالباً 1994ء کے لگ بھگ جو پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والے ایک معروف رہنما نے کی جو ان کی طرف سے کی جانیوالی پہلی اور آخری سفارش تھی۔ موصوف محترم کا ٹیلی فون شام کے وقت آیا کہ ''بی بی نے میٹنگ میں تین گھنٹے کا وقفہ کیا ہے، اپنے مکان کا پتہ سمجھاؤ چائے پینے آ رہا ہوں'' پندرہ منٹ کے بعد وہ آ گئے اور چائے کے دوران کہا کہ ''پنجاب کے ایڈووکیٹ جنرل جو بی بی کے بھی قریب ہیں اور کسی بھی روز جج بن سکتے ہیں ان کا ذاتی اراضی سے متعلق کیس آپ کے پاس اپیل کی صورت زیر سماعت ہے۔

اس کا خیال رکھئے گا۔'' ایک دو ماہ بعد میں نے اپنی سمجھ کے مطابق فیصلہ سنا دیا جو ایڈووکیٹ جنرل کے خلاف ہوا۔ میں نے فیصلے کی فوٹو اسٹیٹ کاپی اپنی گاڑی میں رکھ لی۔ چند روز بعد اتفاقیہ ملاقات پر میں نے فیصلے کی نقل انھیں پکڑائی اور معذرت کے ساتھ کہا کہ آپ کے دوست کا کیس میری سمجھ کے مطابق کمزور تھا آپ AG صاحب سے کہیں کہ اس کے خلاف اپیل کر لیں۔ ان معروف سیاستدان نے خندہ پشانی سے فیصلے کی کاپی لے لی۔

نہ کوئی گلہ نہ غصہ۔ بات یہیں ختم نہیں ہوئی، میرا تبادلہ روٹین میں ہو چکا تھا۔ جب اس وقت کے ڈائریکٹر اینٹی کرپشن میرے Batch Mate رانا صاحب کی طرف سے ایک نوٹس موصول ہوا کہ ''آپ پر فریق مخالف کی طرف سے رشوت لے کر AG کے خلاف فیصلہ کرنے کا الزام لگایا گیا ہے، اس الزام کا جواب دیں۔'' میں نے ٹیلی فون پر ڈائریکٹر سے کہا کہ میں یہ نوٹس ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو آپ کے خلاف کارروائی کے لیے بھجوا رہا ہوں۔ موصوف نے الٹا سیدھا جواز دیا اور معاملے کو رفع دفع کرنے کا کہہ کر معذرت کر لی۔


میری ملازمت کے عرصہ میں سفارش اور رشوت تھی تو ضرور لیکن جو غدر آج کل مچا ہوا ہے وہ دیکھ اور سن کر کانوں کو ہاتھ لگانے پڑتے ہیں۔ سول سروس اور عدلیہ کے افسروں اور چھوٹے سرکاری ملازموں کی کہانیاں زبان زد عام اور افسوس ناک ہیں۔ اب سیاست دان اور سرکاری ملازم اس محاورے کی مثال بن سکتے ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ اب چور تے سپاہی کا آپس میں گٹھ جوڑ ہو گیا ہے۔ جب سول سرونٹ کی پوسٹنگ سیاست دان کروانے لگیں تو ہر دو عوام اور ملک کا بیڑہ غرق کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔

مجھے ایک ٹیکس پریکٹیشنز کا سنایا ہوا واقعہ یاد آ گیا کہ وہ پریکٹیشنز اپنے افسروں سے اتنا بے تکلف ہو گیا کہ ایک روز وہ عجلت میں نوٹوں کی کھلی گڈی ایک میڈم افسر کی میز پر رکھ کر جانے لگا تو وہ بولی ''ملک صاحب اس کام میں ایک سلیقہ تو ہونا چاہیے۔'' اس پر ملک صاحب نے کھلے پڑے کرنسی نوٹ اٹھا لیے اور برابر والے کمرے سے ایک خالی لفافہ اٹھایا، نوٹ اس میں ڈال کر لفافہ اسٹیپلر سے بند کیا اور لفافہ میڈم افسر کو پیش کر دیا۔ میڈم مسکرا کر بولی ''یہ ہے صحیح طریقہ، آئندہ کے لیے یاد رکھئے۔''

پٹواری محکمہ مال کا سب سے چھوٹا ملازم ہے۔ ایک بار میں نے تین پٹواریوں کے کم حیثیت حلقوں میں تبادلے کر دیے۔ اس پر مجھے گورنر بلوچستان، چیف سیکریٹری اور جنرل ضیاء الحق کے رشتے دار کے ٹیلی فون آئے کہ تینوں کو ان کے پرانے حلقوں ہی میں رہنے دیں۔ ان میں سے جنرل صاحب کے رشتے دار تو جہاز کی فلائٹ پر دوسرے ہی دن بنفس نفیس تشریف لے آئے تھے۔

سفارشوں کا ذکر چلا ہے تو یادداشت نے اس کیس کی یاد دلا دی جس میں ایک مرکزی وزیر اور ایک صوبائی وزیر ان کے مدمقابل تھے اور کئی سال سے یہ مقدمہ صرف اگلی تاریخ تک التوا ہونے کی بنیاد پر چلتا جا رہا تھا۔ جب یہ کیس میرے پاس پہنچا تو معلوم ہوا کہ ایک طرف سفارشوں کی بھرمار نے میرے پیش رو حضرات کو اس اپیل کو انجام تک پہنچانے سے روک رکھا تھا۔

جب بھی میں اس کیس کی بحث سننے کا ارادہ کرتا وہی پیشرو ایڈیشنل کمشنروں والی مجبوری آڑے آ جاتی لیکن پھر میں نے کمر ہمت کس کر اس کا فیصلہ سابق جج صاحب کے حق میں سنا دیا۔ کچھ عرصہ بعد ناصرہ اقبال صاحبہ ہائی کورٹ کی جج بنیں تو میں بھی پڑوس میں مبارکباد دینے چلا گیا۔ وہاں جسٹس جاوید اقبال نے میرا تعارف کرایا تو ایک صاحب اٹھ کر کھڑے ہو گئے اور پوچھا کہ آپ نے مقدمے کا فیصلہ میرے حق میں کرنے کی ہمت کس طرح کر لی۔ انھوں نے مجھے کسی روز چائے پینے کے لیے آنے کی دعوت بھی دے دی۔

جائز کام کے لیے سفارش کروانے میں کوئی مضائقہ نہیں لیکن اب تو ناجائز کام پہیوں والی مشین کے زور پر بلا تاخیر ہو جاتا ہے جب کہ جائز کام ہو جانا بس معجزہ ہی ہے۔ اس صورت حال کے ذمے دار وہ حکمران ہیں جو سفارش یا پسند ناپسند کی بنیاد پر افسروں کی تعیناتیاں کرتے ہیں اور تعیناتی کا معیار یس مین ہونا یعنی اصولوں اور ضابطوں کو پس پشت رکھ کر حکم کی تعمیل کرنا ہوتا ہے۔ آپ آج کل Lucrative Posts پر تعینات افسروں کا جائزہ لے کر خود تصدیق کر دیکھیں۔
Load Next Story