مظلوم فلسطینیوں کی صدا
فلسطینیوں کے خونی واقعات کو دیکھتے ہوئے یہ محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ان کی جان و مال کی کوئی قدروقیمت نہیں رہی ہے۔
اسرائیلی جارحیت نے فلسطین کے مسلمانوں کو خون میں نہلادیا ہے صرف ایک دن میں سو افراد شہید ہوئے اور غزہ کی گلیاں معصوم اور نہتے فلسطینیوں کے خون سے نہا گئیں اور اب تک سیکڑوں فلسطینی بچوں، عورتوں، مردوں نے جام شہادت نوش کرلیا ہے۔
فلسطینیوں کے خونی واقعات کو دیکھتے ہوئے یہ محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ان کی جان و مال کی کوئی قدروقیمت نہیں رہی ہے۔ ان کے پاس نہ اسلحہ ہے اور نہ طاقت ور فوج اور نہ ہی کوئی ایسا ادارہ جو انصاف کے تقاضوں کو پورا کرے اور اسرائیلیوں کی ناپاک جسارت کا منہ توڑ جواب دے۔ امت مسلمہ اور مسلم ممالک کے حکمران خاموش ہیں جیسے یہ ان کا اپنا مسئلہ نہیں ہے۔ وہ فلسطینیوں کی پکار سننے سے قاصر ہیں وہ مدد کے لیے اپنے مسلمان بھائیوں کو آواز دے رہے ہیں، فریاد کررہے ہیں لیکن کوئی داد رسی کے لیے آگے نہیں بڑھتا ہے۔
ان کے ہاتھوں میں بدن دریدہ معصوم بچوں کی لاشیں ہیں، بے شمار ننھی جانیں موت کی وادی میں دھکیل دی گئی ہیں،خوبصورت پھولوں جیسے بچے ماؤں کے لخت جگر آگ میں جھونک دیے گئے ہیں، خواتین و مرد اسرائیل کی وحشیانہ بمباری کے نتیجے میں موت کو گلے لگاچکے ہیں۔ ایک طرف گولہ بارود کی بارش ہے تو دوسری طرف صیہونی افواج نے زمینی آپریشن کا دائرہ بھی وسیع کردیا ہے۔ یہ امر خوش آئند ہے کہ وزیراعظم نواز شریف نے فلسطینیوں کے لیے 10 لاکھ ڈالر کی امداد کا اعلان کیا اور ان کی اپیل پر قومی پرچم سرنگوں رہا اور ملک بھر میں اسرائیلی بربریت کے خلاف یوم سوگ منایا گیا۔
مگر ان چشم کشا اور اعصاب شکن حالات میں مسلم حکمرانوں نے چپ سادھ لی ہے، مکمل چشم پوشی اختیارکرچکے ہیں، جب کہ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ سعودی عرب میں اسلامی قوانین کا نفاذ ہے ۔ ہرکام میں قرآنی تعلیمات کو مد نظر رکھا جاتا ہے، اسلامی سزاؤں کا بھی عمل دخل ہے ، اقربا پروری، سخاوت اور دریا دلی کے بھی چرچے ہیں لیکن دکھ کا پہلو یہ ہے کہ اس عظیم اور مقدس سلطنت کے حکمران صرف اور صرف اسلام کے کچھ اصولوں کو اپناتے ہیں، باقی سب کچھ بھول جاتے ہیں، زمانہ ماضی سے موجودہ دور تک امت مسلمہ کے مظلوم مسلمانوں کی نگاہیں سعودی عرب کی طرف اٹھتی ہیں کہ شاید وہ اپنا اسلامی فریضہ جان کر کسی نہ کسی حوالے سے مدد کریں، کم از کم بیان ہی دے دیں۔
اپنی اخلاقی طاقت کا مظاہرہ کریں، مسلم دنیا اسرائیلی چیزوں کی خرید و فروخت کا بائیکاٹ کرے ، لیکن صد افسوس وہاں تو برف جمی ہوئی ہے، برف اسی وقت پگھل سکتی ہے جب ان کے گرد زندگی کا گھیرا تنگ کردیا جائے گا اور حالات تو اب بھی ان کے حق میں نہیں ہیں وہ خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ مسلمان حکمرانوں کی خاموشی نے اسرائیل کی بربریت میں اضافہ کردیا ہے وہ آگے آگے بڑھتے بڑھتے فلسطینیوں کے گھروں تک پہنچ گئے ہیں اور اپنا قبضہ بڑھاتے جارہے ہیں، اسرائیلیوں کی تعداد کروڑوں میں ہے جب کہ مسلمان اربوں میں موجود ہیں لیکن اتحاد و اتفاق کے خاتمے نے انھیں ایک تیلی میں بدل دیا ہے، جسے دشمن بے حد آسانی کے ساتھ توڑ سکتاہے اور ہو بھی ایسا ہی رہا ہے۔
ان حکمرانوں نے تاریخ سے سبق نہیں سیکھا ہے۔ رسول پاک صلی اﷲ علیہ وسلم کا کلمہ پڑھنے والے ان احادیث کو بھلا بیٹھے ہیں کہ مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں اور مسلمان کی مثال ایک جسم کی مانند ہے اگر بدن کے کسی حصے میں تکلیف ہوتی ہے تو پورا جسم بے چین و بے قرار ہوجاتا ہے لیکن موجودہ دور کے مسلمان ان احادیث کے برعکس ہیں۔ بے حسی حد سے زیادہ بڑھ گئی ہے۔ ایک طرف فلسطین خون میں ڈوبا ہوا ہے۔
ہر جگہ لاشیں ہی لاشیں ہیں، غزہ کی پٹی معصوم لوگوں کی لاشوں سے پٹ چکی ہے کوئی پرسان حال نہیں کہ وہ ہی گھر ہیں اور وہ ہی مدفن دوسری طرف مسلمان افطار پارٹیاں کررہے ہیں، عید کی خریداری عروج پر ہے۔ اسرائیلی صرف فلسطین کے ہی دشمن نہیں ہیں وہ امت مسلمہ کے دشمن ہیں وہ سرکش قوم ہے۔ ہٹلر نے یہودیوں کو بے وجہ موت کے گھاٹ نہیں اتاراتھا اور پھر ساتھ میں ایسی بات بھی کہی کہ تاریخ میں امر ہوگئی کہ ''میں نے کچھ یہودیوں کو زندہ چھوڑ دیا ہے تاکہ لوگوں کو پتہ چلے کہ میں نے ایسا کیوں کیا تھا؟''
مغربی حکمرانوں کی شہ اور مدد نے اسرائیل کو مزید وحشی بنادیا ہے، اسرائیل نے 1967 میں مصر پر حملہ کیا تھا اور ''سنائی'' پر قبضہ کرکے سوئزکنال کو بھی جہازوں کے لیے کھول دیا تھا، اس موقعے پر مصری فوج کو شکست کا سامنا کرنا پڑا، اسرائیل اپنی وحشیانہ بربریت کے ساتھ آگے بڑھتا گیا، اردن کے مغربی علاقے اور بیت المقدس پر بھی قابض ہوگیا۔ تمام کوششوں کے باوجود قبضہ چھوڑ نے سے انکاری رہا، اس کی وجہ یہ تھی امریکا نے جدید اسلحہ دے کر اسے طاقتور بنادیا ہے کہ وہ طاقت کے زعم میں مست ہاتھی کی طرح آگے بڑھتا جا رہا ہے اور نئی نئی بستیاں آباد کررہا ہے۔
اب اگر ان حالات میں امریکا جنگ بندی کا بیان دیتا بھی ہے تو وہ محض ڈراما ہے، مغربی طاقتیں مسلمانوں کو پسپا کرنے کے لیے آپس میں ملی ہوئی ہیں، اسی وجہ سے نہ اقوام متحدہ نے کوئی کردار ادا کیا اور نہ سلامتی کونسل نے۔ فلسطین کے لوگ جیتے جی مر گئے ہیں کہ ہر لمحہ موت ان کے دروازے پر دستک دے رہی ہے۔ ایک 19 سالہ فلسطینی نوجوان نے نیٹ پر اسٹیٹس شیئر کیا تھا کہ رات بھر بمباری سونے نہیں دیتی، میں چاہتاہوں کہ ہمیشہ کے لیے سوجاؤں اور پھر یہی ہوا کہ راتوں کو شب بیداری کرنے اور موت کو طلب کرنے والا ہمیشہ کے لیے سوگیا۔ اسرائیل نے اس کی آواز سن لی تھی۔ فلسطینی آج سے نہیں بلکہ اس وقت سے جب اسرائیلی فوج فلسطین میں گھس آئی تھی اور فلسطینی نوجوانوں کو پکڑ پکڑ کر موت کے گھاٹ اتار رہے تھے، اس وقت سے معصوم بچے اسرائیلی وحشیوں کا مقابلہ کررہے ہیں ان کے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں میں پتھر ہیں، یہی ان کا اسلحہ ہے وہ بھی اس وقت استعمال کرتے ہیں جب انھیں تحفظ درکار ہو۔
مسلمان کہنے والے اپنے ملک میں اپنے ہی کلمہ گو بھائیوں کو تہہ تیغ کر رہے ہیں اور اپنے آپ کو محب وطن بھی کہتے ہیں، انھیں فلسطین خاک و خون میں ڈوبا ہوا نظر نہیں آرہا ہے کیا؟ وہاں جائیں اور جاکر جہاد کریں۔ ناحق لوگوں کا قتل کرنا اپنے آپ کو جہنم میں ہمیشہ کے لیے دفن کرنے کے مترادف ہے۔
ان حالات میں فلسطینیوں کی بے بسی اور ہونے والے مظالم پر پاکستان سمیت دنیا کے کئی ممالک میں مظاہرے ہوئے، ترک وزیراعظم نے غزہ میں جارحیت کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیلیوں نے ہٹلرکی بربریت کو مات کردیا ہے۔ ان کا اپنا کوئی ضمیر یا خود داری نہیں ہے انھوں نے اسرائیل پر فلسطینیوں کی نسل کشی کا الزام عائد کرتے ہوئے صیہونی ریاست سے تعلقات میں بہتری کے امکان کو مسترد کردیا۔ دوسرے ممالک کا بھی یہ فرض ہے کلہ ان سے تعلقات کا خاتمہ اور اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں۔ موجودہ حالات کے تناظر میں سعودی عرب جیسے دولت مند ملک کو چاہیے کہ جس طرح امریکا صیہونی طاقتوں کی مدد کر رہا ہے بالکل اسی طرح مسلم ممالک بھی چھوٹے ملکوں خصوصاً فلسطین کی ہر لحاظ سے مدد کریں۔
انھیں اسلحہ فراہم کیا جائے اور باقاعدہ فوج کا ادارہ بنانے میں فلسطین کو تعاون کی ضرورت ہے۔ یہی وقت ہے کہ جب فلسطین جل رہا ہے، فلسطینی بھی آگ اور دھوئیں میں گھرچکے ہیں وہاں کے عالم دین، عالم اسلام کو مدد کے لیے بلارہے ہیں، زخمی اور اپنے گھروں سے بے گھر ہونے والے امداد کے منتظر ہیں کہ اپنے آپ کو مسلمان کہنے والے جذبہ ایمان سے سرشار ہوکر آگے بڑھیں اور فلسطین میں زبردستی گھسنے اور قبضہ کرنے والوں کو منہ توڑ جواب دیں۔ ورنہ تو حالات یہ ہیں کہ مسلمانوں کی خود غرضی اور ذاتی مفاد نے انھیں کہیں کا نہیں چھوڑا ہے۔ ہر محاذ پر امت مسلمہ پسپا ہوچکی ہے۔
فلسطینیوں کے خونی واقعات کو دیکھتے ہوئے یہ محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ان کی جان و مال کی کوئی قدروقیمت نہیں رہی ہے۔ ان کے پاس نہ اسلحہ ہے اور نہ طاقت ور فوج اور نہ ہی کوئی ایسا ادارہ جو انصاف کے تقاضوں کو پورا کرے اور اسرائیلیوں کی ناپاک جسارت کا منہ توڑ جواب دے۔ امت مسلمہ اور مسلم ممالک کے حکمران خاموش ہیں جیسے یہ ان کا اپنا مسئلہ نہیں ہے۔ وہ فلسطینیوں کی پکار سننے سے قاصر ہیں وہ مدد کے لیے اپنے مسلمان بھائیوں کو آواز دے رہے ہیں، فریاد کررہے ہیں لیکن کوئی داد رسی کے لیے آگے نہیں بڑھتا ہے۔
ان کے ہاتھوں میں بدن دریدہ معصوم بچوں کی لاشیں ہیں، بے شمار ننھی جانیں موت کی وادی میں دھکیل دی گئی ہیں،خوبصورت پھولوں جیسے بچے ماؤں کے لخت جگر آگ میں جھونک دیے گئے ہیں، خواتین و مرد اسرائیل کی وحشیانہ بمباری کے نتیجے میں موت کو گلے لگاچکے ہیں۔ ایک طرف گولہ بارود کی بارش ہے تو دوسری طرف صیہونی افواج نے زمینی آپریشن کا دائرہ بھی وسیع کردیا ہے۔ یہ امر خوش آئند ہے کہ وزیراعظم نواز شریف نے فلسطینیوں کے لیے 10 لاکھ ڈالر کی امداد کا اعلان کیا اور ان کی اپیل پر قومی پرچم سرنگوں رہا اور ملک بھر میں اسرائیلی بربریت کے خلاف یوم سوگ منایا گیا۔
مگر ان چشم کشا اور اعصاب شکن حالات میں مسلم حکمرانوں نے چپ سادھ لی ہے، مکمل چشم پوشی اختیارکرچکے ہیں، جب کہ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ سعودی عرب میں اسلامی قوانین کا نفاذ ہے ۔ ہرکام میں قرآنی تعلیمات کو مد نظر رکھا جاتا ہے، اسلامی سزاؤں کا بھی عمل دخل ہے ، اقربا پروری، سخاوت اور دریا دلی کے بھی چرچے ہیں لیکن دکھ کا پہلو یہ ہے کہ اس عظیم اور مقدس سلطنت کے حکمران صرف اور صرف اسلام کے کچھ اصولوں کو اپناتے ہیں، باقی سب کچھ بھول جاتے ہیں، زمانہ ماضی سے موجودہ دور تک امت مسلمہ کے مظلوم مسلمانوں کی نگاہیں سعودی عرب کی طرف اٹھتی ہیں کہ شاید وہ اپنا اسلامی فریضہ جان کر کسی نہ کسی حوالے سے مدد کریں، کم از کم بیان ہی دے دیں۔
اپنی اخلاقی طاقت کا مظاہرہ کریں، مسلم دنیا اسرائیلی چیزوں کی خرید و فروخت کا بائیکاٹ کرے ، لیکن صد افسوس وہاں تو برف جمی ہوئی ہے، برف اسی وقت پگھل سکتی ہے جب ان کے گرد زندگی کا گھیرا تنگ کردیا جائے گا اور حالات تو اب بھی ان کے حق میں نہیں ہیں وہ خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ مسلمان حکمرانوں کی خاموشی نے اسرائیل کی بربریت میں اضافہ کردیا ہے وہ آگے آگے بڑھتے بڑھتے فلسطینیوں کے گھروں تک پہنچ گئے ہیں اور اپنا قبضہ بڑھاتے جارہے ہیں، اسرائیلیوں کی تعداد کروڑوں میں ہے جب کہ مسلمان اربوں میں موجود ہیں لیکن اتحاد و اتفاق کے خاتمے نے انھیں ایک تیلی میں بدل دیا ہے، جسے دشمن بے حد آسانی کے ساتھ توڑ سکتاہے اور ہو بھی ایسا ہی رہا ہے۔
ان حکمرانوں نے تاریخ سے سبق نہیں سیکھا ہے۔ رسول پاک صلی اﷲ علیہ وسلم کا کلمہ پڑھنے والے ان احادیث کو بھلا بیٹھے ہیں کہ مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں اور مسلمان کی مثال ایک جسم کی مانند ہے اگر بدن کے کسی حصے میں تکلیف ہوتی ہے تو پورا جسم بے چین و بے قرار ہوجاتا ہے لیکن موجودہ دور کے مسلمان ان احادیث کے برعکس ہیں۔ بے حسی حد سے زیادہ بڑھ گئی ہے۔ ایک طرف فلسطین خون میں ڈوبا ہوا ہے۔
ہر جگہ لاشیں ہی لاشیں ہیں، غزہ کی پٹی معصوم لوگوں کی لاشوں سے پٹ چکی ہے کوئی پرسان حال نہیں کہ وہ ہی گھر ہیں اور وہ ہی مدفن دوسری طرف مسلمان افطار پارٹیاں کررہے ہیں، عید کی خریداری عروج پر ہے۔ اسرائیلی صرف فلسطین کے ہی دشمن نہیں ہیں وہ امت مسلمہ کے دشمن ہیں وہ سرکش قوم ہے۔ ہٹلر نے یہودیوں کو بے وجہ موت کے گھاٹ نہیں اتاراتھا اور پھر ساتھ میں ایسی بات بھی کہی کہ تاریخ میں امر ہوگئی کہ ''میں نے کچھ یہودیوں کو زندہ چھوڑ دیا ہے تاکہ لوگوں کو پتہ چلے کہ میں نے ایسا کیوں کیا تھا؟''
مغربی حکمرانوں کی شہ اور مدد نے اسرائیل کو مزید وحشی بنادیا ہے، اسرائیل نے 1967 میں مصر پر حملہ کیا تھا اور ''سنائی'' پر قبضہ کرکے سوئزکنال کو بھی جہازوں کے لیے کھول دیا تھا، اس موقعے پر مصری فوج کو شکست کا سامنا کرنا پڑا، اسرائیل اپنی وحشیانہ بربریت کے ساتھ آگے بڑھتا گیا، اردن کے مغربی علاقے اور بیت المقدس پر بھی قابض ہوگیا۔ تمام کوششوں کے باوجود قبضہ چھوڑ نے سے انکاری رہا، اس کی وجہ یہ تھی امریکا نے جدید اسلحہ دے کر اسے طاقتور بنادیا ہے کہ وہ طاقت کے زعم میں مست ہاتھی کی طرح آگے بڑھتا جا رہا ہے اور نئی نئی بستیاں آباد کررہا ہے۔
اب اگر ان حالات میں امریکا جنگ بندی کا بیان دیتا بھی ہے تو وہ محض ڈراما ہے، مغربی طاقتیں مسلمانوں کو پسپا کرنے کے لیے آپس میں ملی ہوئی ہیں، اسی وجہ سے نہ اقوام متحدہ نے کوئی کردار ادا کیا اور نہ سلامتی کونسل نے۔ فلسطین کے لوگ جیتے جی مر گئے ہیں کہ ہر لمحہ موت ان کے دروازے پر دستک دے رہی ہے۔ ایک 19 سالہ فلسطینی نوجوان نے نیٹ پر اسٹیٹس شیئر کیا تھا کہ رات بھر بمباری سونے نہیں دیتی، میں چاہتاہوں کہ ہمیشہ کے لیے سوجاؤں اور پھر یہی ہوا کہ راتوں کو شب بیداری کرنے اور موت کو طلب کرنے والا ہمیشہ کے لیے سوگیا۔ اسرائیل نے اس کی آواز سن لی تھی۔ فلسطینی آج سے نہیں بلکہ اس وقت سے جب اسرائیلی فوج فلسطین میں گھس آئی تھی اور فلسطینی نوجوانوں کو پکڑ پکڑ کر موت کے گھاٹ اتار رہے تھے، اس وقت سے معصوم بچے اسرائیلی وحشیوں کا مقابلہ کررہے ہیں ان کے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں میں پتھر ہیں، یہی ان کا اسلحہ ہے وہ بھی اس وقت استعمال کرتے ہیں جب انھیں تحفظ درکار ہو۔
مسلمان کہنے والے اپنے ملک میں اپنے ہی کلمہ گو بھائیوں کو تہہ تیغ کر رہے ہیں اور اپنے آپ کو محب وطن بھی کہتے ہیں، انھیں فلسطین خاک و خون میں ڈوبا ہوا نظر نہیں آرہا ہے کیا؟ وہاں جائیں اور جاکر جہاد کریں۔ ناحق لوگوں کا قتل کرنا اپنے آپ کو جہنم میں ہمیشہ کے لیے دفن کرنے کے مترادف ہے۔
ان حالات میں فلسطینیوں کی بے بسی اور ہونے والے مظالم پر پاکستان سمیت دنیا کے کئی ممالک میں مظاہرے ہوئے، ترک وزیراعظم نے غزہ میں جارحیت کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیلیوں نے ہٹلرکی بربریت کو مات کردیا ہے۔ ان کا اپنا کوئی ضمیر یا خود داری نہیں ہے انھوں نے اسرائیل پر فلسطینیوں کی نسل کشی کا الزام عائد کرتے ہوئے صیہونی ریاست سے تعلقات میں بہتری کے امکان کو مسترد کردیا۔ دوسرے ممالک کا بھی یہ فرض ہے کلہ ان سے تعلقات کا خاتمہ اور اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں۔ موجودہ حالات کے تناظر میں سعودی عرب جیسے دولت مند ملک کو چاہیے کہ جس طرح امریکا صیہونی طاقتوں کی مدد کر رہا ہے بالکل اسی طرح مسلم ممالک بھی چھوٹے ملکوں خصوصاً فلسطین کی ہر لحاظ سے مدد کریں۔
انھیں اسلحہ فراہم کیا جائے اور باقاعدہ فوج کا ادارہ بنانے میں فلسطین کو تعاون کی ضرورت ہے۔ یہی وقت ہے کہ جب فلسطین جل رہا ہے، فلسطینی بھی آگ اور دھوئیں میں گھرچکے ہیں وہاں کے عالم دین، عالم اسلام کو مدد کے لیے بلارہے ہیں، زخمی اور اپنے گھروں سے بے گھر ہونے والے امداد کے منتظر ہیں کہ اپنے آپ کو مسلمان کہنے والے جذبہ ایمان سے سرشار ہوکر آگے بڑھیں اور فلسطین میں زبردستی گھسنے اور قبضہ کرنے والوں کو منہ توڑ جواب دیں۔ ورنہ تو حالات یہ ہیں کہ مسلمانوں کی خود غرضی اور ذاتی مفاد نے انھیں کہیں کا نہیں چھوڑا ہے۔ ہر محاذ پر امت مسلمہ پسپا ہوچکی ہے۔