چولستان پر منڈلاتے موت کے سائے
انسانیت کے منہ پر طمانچہ تین چولستان پیاسے مرگئے۔
قائد تحریک بحالی صوبہ بہاول پور محمد علی درانی نے اپنے دورہ چولستان کے بعد تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حکومتی اداروں کی طرف سے چولستان میں پانی کی عدم فراہمی سے خشک سالی اور قحط کا سماں تھا، سیکڑوں جانور پیاس سے لقمہ اجل بن گئے جب کہ تین چولستانی بھی پیاسے مر گئے' چولستان کے تمام ٹوبے خشک اور پمپنگ اسٹیشنز بند پڑے تھے۔ انھوں نے کہا کہ چولستان کی صورتحال انسانیت کے منہ پر طمانچہ ہے' چولستان میں انسانی حقوق اور حقوق حیوانات کی بدترین تذلیل کی جا رہی ہے۔
انھوں نے انسانی حقوق اور حقوق حیوانات کی تنظیموں سے اس ظلم کے خلاف آواز اٹھانے اور اقدامات کی اپیل کی جب کہ وزیر اعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب سے بھی اصلاح احوال کے اقدامات کرنے کی استدعا کی۔ چولستان کی یہ صورتحال کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ملک کے ان صحرائی علاقوں میں عام حالات اور دنوں میں بھی صورتحال اطمینان بخش نہیں ہوتی اور ان کے باسیوں کو جان و تن کا رشتہ قائم رکھنے کے لیے سخت محنت مشقت کرنا پڑتی ہے کیونکہ نامساعد حالات کے باعث کوئی فصل اگانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ سبھی جانتے ہیں کہ چولستان میں زرعی پیداوار کا انحصار بارشوں کے پانی پر ہوتا ہے چنانچہ جب بارشیں نہیں ہوتیں تو فصلیں سوکھ جاتی ہیں اور کسانوں کی محنت اکارت جاتی ہے۔
جب بروقت بارش نہیں ہوتی تو وہاں کے رہنے والوں کو قحط جیسے حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے' لوگوں کی خوراک' جو پہلے بھی کسی طور متوازن قرار نہیں دی جا سکتی' مزید کم ہو جاتی ہے حتیٰ جانوروں کو بھی کھانے کو کچھ نہیں ملتا جس کے باعث وہ سوکھ کر ہڈیوں کا ڈھانچہ بن جاتے ہیں اور ان میں سے متعدد جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ ہمارے ملک کا یہ ریگستانی حصہ ان دنوں ایسے ہی تشویشناک حالات کا شکار ہے اور لوگ بھوک اور پیاس سے مر رہے ہیں۔ ہماری حکومتیں اور حکمران چھوٹے بڑے شہروں کی ترقی پر تو خصوصی توجہ دیتے ہیں اور ان کے لیے وافر فنڈز بھی مختص کیے جاتے ہیں لیکن چولستان جیسے پس ماندہ علاقوں کی جانب کم ہی توجہ دی جاتی ہے' یہ کہنے کا مقصد یہ ہرگز نہیں کہ شہروں میں لوگوں کو سہولتیں فراہم کرنے پر توجہ نہیں دی جانی چاہیے لیکن ضروری ہے کہ چولستان جیسے دور دراز کے علاقوں کے رہنے والوں کی بنیادی ضروریات کا بھی خیال رکھا جائے۔ چولستان کے جو حالات بیان کیے گئے ہیں ان کو مدنظر رکھتے ہوئے دو طرح کی منصوبہ بندی ہونی چاہیے اور اقدامات عمل میں لائے جانے چاہئیں۔
پہلی طرح کے اقدامات فوری نوعیت کے ہیں جن میں چولستان کے عوام کے لیے پانی اور خوراک جب کہ ان کے مویشیوں کے لیے چارے وغیرہ کا انتظام ہونا چاہیے۔ اس سلسلے میں وفاقی و صوبائی حکومتوں کے ساتھ ساتھ مخیّر حضرات و ادارے اور انسانی فلاح کے لیے کام کرنے والی این جی اوز بھی اپنے حصے کا کردار ادا کر سکتیں ہیں۔ جانوروں کے حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے افراد اور اداروں و تنظیموں کے لیے بھی کام کرنے کا یہ بہترین موقع ہے۔ دوسری طرح کے اقدامات طویل المیعاد ہیں یعنی چولستان اور دیگر صحرائی و دور دراز کے پس ماندہ علاقوں کے عوام کے لیے ایسے منصوبے تیار کرنا کہ وہ نامساعد حالات میں بہتر زندگی گزارنے کے قابل ہو جائیں۔ ضروری ہے کہ ریگستانی علاقوں میں پانی کی فراہمی کی اسکیمیں شروع کی جائیں تاکہ خشک سال میں یہ لوگ اور ان کے مویشی بھوکے پیاسے نہ مریں۔ ایسے منصوبے بنائے جا سکتے ہیں کہ ان علاقوں میں بارش کا پانی ذخیرہ کیا جا سکے اور ضرورت کے وقت استعمال میں لایا جا سکے۔
محمد علی درانی نے بتایا کہ بخت وا کینال کی گزشتہ 40 سال سے بندش کے باعث ہزاروں ایکڑ اراضی بنجر ہو چکی ہے۔ ہمارے خیال میں اگر اس نہر کا پانی بحال کر دیا جائے تو چولستان میں حالات بہتر اور اطمینان بخش ہو سکتے ہیں' حکمرانوں کو اس جانب توجہ دینا چاہیے۔ مناسب ہو گا کہ سالانہ وفاقی و صوبائی بجٹوں میں ان ریگستانی پس ماندہ علاقوں کی ترقی کے لیے بھی فنڈز مختص کیے جائیں۔
انھوں نے انسانی حقوق اور حقوق حیوانات کی تنظیموں سے اس ظلم کے خلاف آواز اٹھانے اور اقدامات کی اپیل کی جب کہ وزیر اعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب سے بھی اصلاح احوال کے اقدامات کرنے کی استدعا کی۔ چولستان کی یہ صورتحال کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ملک کے ان صحرائی علاقوں میں عام حالات اور دنوں میں بھی صورتحال اطمینان بخش نہیں ہوتی اور ان کے باسیوں کو جان و تن کا رشتہ قائم رکھنے کے لیے سخت محنت مشقت کرنا پڑتی ہے کیونکہ نامساعد حالات کے باعث کوئی فصل اگانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ سبھی جانتے ہیں کہ چولستان میں زرعی پیداوار کا انحصار بارشوں کے پانی پر ہوتا ہے چنانچہ جب بارشیں نہیں ہوتیں تو فصلیں سوکھ جاتی ہیں اور کسانوں کی محنت اکارت جاتی ہے۔
جب بروقت بارش نہیں ہوتی تو وہاں کے رہنے والوں کو قحط جیسے حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے' لوگوں کی خوراک' جو پہلے بھی کسی طور متوازن قرار نہیں دی جا سکتی' مزید کم ہو جاتی ہے حتیٰ جانوروں کو بھی کھانے کو کچھ نہیں ملتا جس کے باعث وہ سوکھ کر ہڈیوں کا ڈھانچہ بن جاتے ہیں اور ان میں سے متعدد جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ ہمارے ملک کا یہ ریگستانی حصہ ان دنوں ایسے ہی تشویشناک حالات کا شکار ہے اور لوگ بھوک اور پیاس سے مر رہے ہیں۔ ہماری حکومتیں اور حکمران چھوٹے بڑے شہروں کی ترقی پر تو خصوصی توجہ دیتے ہیں اور ان کے لیے وافر فنڈز بھی مختص کیے جاتے ہیں لیکن چولستان جیسے پس ماندہ علاقوں کی جانب کم ہی توجہ دی جاتی ہے' یہ کہنے کا مقصد یہ ہرگز نہیں کہ شہروں میں لوگوں کو سہولتیں فراہم کرنے پر توجہ نہیں دی جانی چاہیے لیکن ضروری ہے کہ چولستان جیسے دور دراز کے علاقوں کے رہنے والوں کی بنیادی ضروریات کا بھی خیال رکھا جائے۔ چولستان کے جو حالات بیان کیے گئے ہیں ان کو مدنظر رکھتے ہوئے دو طرح کی منصوبہ بندی ہونی چاہیے اور اقدامات عمل میں لائے جانے چاہئیں۔
پہلی طرح کے اقدامات فوری نوعیت کے ہیں جن میں چولستان کے عوام کے لیے پانی اور خوراک جب کہ ان کے مویشیوں کے لیے چارے وغیرہ کا انتظام ہونا چاہیے۔ اس سلسلے میں وفاقی و صوبائی حکومتوں کے ساتھ ساتھ مخیّر حضرات و ادارے اور انسانی فلاح کے لیے کام کرنے والی این جی اوز بھی اپنے حصے کا کردار ادا کر سکتیں ہیں۔ جانوروں کے حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے افراد اور اداروں و تنظیموں کے لیے بھی کام کرنے کا یہ بہترین موقع ہے۔ دوسری طرح کے اقدامات طویل المیعاد ہیں یعنی چولستان اور دیگر صحرائی و دور دراز کے پس ماندہ علاقوں کے عوام کے لیے ایسے منصوبے تیار کرنا کہ وہ نامساعد حالات میں بہتر زندگی گزارنے کے قابل ہو جائیں۔ ضروری ہے کہ ریگستانی علاقوں میں پانی کی فراہمی کی اسکیمیں شروع کی جائیں تاکہ خشک سال میں یہ لوگ اور ان کے مویشی بھوکے پیاسے نہ مریں۔ ایسے منصوبے بنائے جا سکتے ہیں کہ ان علاقوں میں بارش کا پانی ذخیرہ کیا جا سکے اور ضرورت کے وقت استعمال میں لایا جا سکے۔
محمد علی درانی نے بتایا کہ بخت وا کینال کی گزشتہ 40 سال سے بندش کے باعث ہزاروں ایکڑ اراضی بنجر ہو چکی ہے۔ ہمارے خیال میں اگر اس نہر کا پانی بحال کر دیا جائے تو چولستان میں حالات بہتر اور اطمینان بخش ہو سکتے ہیں' حکمرانوں کو اس جانب توجہ دینا چاہیے۔ مناسب ہو گا کہ سالانہ وفاقی و صوبائی بجٹوں میں ان ریگستانی پس ماندہ علاقوں کی ترقی کے لیے بھی فنڈز مختص کیے جائیں۔