اپنی جان کا نذرانہ پیش کرکے پہلا نشان حیدر پانے والے کیپٹن سرور شہید کاآج یوم شہادت ہے
کیپٹن سرور شہید نے جام شہادت نوش کرکے اوڑی سیکٹر پر دشمن کے اہم مورچے کا کنٹرول حاصل کیا
وطن عزیز کےلئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرکے پہلا نشان حیدر پانے والے کیپٹن راجا محمد سرور شہید کا آج یوم شہادت ہے۔
10 نومبر 1910 کو گوجر خان کے موضع سنگھوی میں پیدا ہونے والے محمد سرور نے 1944 میں آرمی کے انجیینر کور میں شمولیت اختیار کی، 1946 میں انہیں پنجاب رجمنٹ کی بٹالین میں کمپنی کمانڈر مقرر کیا گیااور 1947ء میں ترقی کرکے کیپٹن بنا دئیے گئے۔ 1948 میں جب وہ پنجاب رجمنٹ کی سیکنڈ بٹالین میں کمپنی کمانڈر کے عہدے پر خدمات انجام دے رہے تھے کہ انہیں کشمیر میں آپریشن پر مامور کیا گیا۔
27 جولائی 1948 کو انہوں نے کشمیر کے اوڑی سیکٹر میں دشمن کی اہم فوجی پوزیشن پر حملہ کیا۔ اس حملے میں مجاہدین کی ایک بڑی تعداد شہید اور زخمی ہوئی لیکن کیپٹن سرور نے پیش قدمی جاری رکھی۔ دشمن کے مورچے کے قریب پہنچ کر انہیں معلوم ہوا کہ دشمن نے اپنے مورچوں کو خاردار تاروں سے محفوظ کرلیا ہے، اس کے باوجود کیپٹن سرور مسلسل فائرنگ کرتے رہے۔ کارروائی کے دوران دشمن کی کئی گولیاں ان کے جسم میں پیوست ہوچکی تھیں لیکن انہوں نے بے مثال جذبے کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک ایسی گن کا چارج لیا جس کا جوان شہید ہو چکا تھا، اپنے زخموں کی پروا کئے بغیر 6 ساتھیوں کے ہمراہ انہوں نے خاردار تاروں کو عبور کرکے دشمن کے مورچے پرآخری حملہ کیا، اسی دوران ایک گولی کیپٹن سرور کے سینے میں لگی اور انہوں نے وہیں جام شہادت نوش کیا۔ ان کی جوان مردی ، بلند حوصلے اور جذبے کو دیکھتے ہوئے حکومت نے انہیں ملک کے سب سے بڑے فوجی اعزاز نشان حیدر سے نوازا ، وہ یہ اعازا حاصل کرنے والے پہلے فوجی تھے۔
10 نومبر 1910 کو گوجر خان کے موضع سنگھوی میں پیدا ہونے والے محمد سرور نے 1944 میں آرمی کے انجیینر کور میں شمولیت اختیار کی، 1946 میں انہیں پنجاب رجمنٹ کی بٹالین میں کمپنی کمانڈر مقرر کیا گیااور 1947ء میں ترقی کرکے کیپٹن بنا دئیے گئے۔ 1948 میں جب وہ پنجاب رجمنٹ کی سیکنڈ بٹالین میں کمپنی کمانڈر کے عہدے پر خدمات انجام دے رہے تھے کہ انہیں کشمیر میں آپریشن پر مامور کیا گیا۔
27 جولائی 1948 کو انہوں نے کشمیر کے اوڑی سیکٹر میں دشمن کی اہم فوجی پوزیشن پر حملہ کیا۔ اس حملے میں مجاہدین کی ایک بڑی تعداد شہید اور زخمی ہوئی لیکن کیپٹن سرور نے پیش قدمی جاری رکھی۔ دشمن کے مورچے کے قریب پہنچ کر انہیں معلوم ہوا کہ دشمن نے اپنے مورچوں کو خاردار تاروں سے محفوظ کرلیا ہے، اس کے باوجود کیپٹن سرور مسلسل فائرنگ کرتے رہے۔ کارروائی کے دوران دشمن کی کئی گولیاں ان کے جسم میں پیوست ہوچکی تھیں لیکن انہوں نے بے مثال جذبے کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک ایسی گن کا چارج لیا جس کا جوان شہید ہو چکا تھا، اپنے زخموں کی پروا کئے بغیر 6 ساتھیوں کے ہمراہ انہوں نے خاردار تاروں کو عبور کرکے دشمن کے مورچے پرآخری حملہ کیا، اسی دوران ایک گولی کیپٹن سرور کے سینے میں لگی اور انہوں نے وہیں جام شہادت نوش کیا۔ ان کی جوان مردی ، بلند حوصلے اور جذبے کو دیکھتے ہوئے حکومت نے انہیں ملک کے سب سے بڑے فوجی اعزاز نشان حیدر سے نوازا ، وہ یہ اعازا حاصل کرنے والے پہلے فوجی تھے۔