کشمیر کے خلاف بھارت کا ایک اور اقدام
تشدد پسند اور مسلم دشمن ہندو جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی، جو اب بھارت کی حکمران پارٹی بھی ہے
تشدد پسند اور مسلم دشمن ہندو جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی، جو اب بھارت کی حکمران پارٹی بھی ہے، ہمیشہ سے مقبوضہ کشمیر کو باقاعدہ ہندوستان میں ضم کرنے کی بات کرتی رہی ہے لیکن یہ کسی کے بھی اندازے میں نہیں تھا کہ نریندر مودی کی حکومت مقبوضہ کشمیر کے بھارت میں انضمام کے لیے اتنے تحرک کا مظاہرہ کرے گی۔ پہلے تو مقبوضہ کشمیر سے بی جے پی کے ٹکٹ پر منتخب ہونے والے رکنِ پارلیمنٹ ڈاکٹر جتندر سنگھ کی زبانی یہ بیان دلوایا گیا کہ بھارتی آئین میں شامل آرٹیکل 370 کا جَلد خاتمہ کر دیا جائے گا۔ یہ آرٹیکل مقبوضہ کشمیر کو بھارت کے اندر ایک خصوصی اسٹیٹس کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔
اس اعلان نے مقبوضہ کشمیر کی مقتدرہ جماعت میں بھی ہلچل مچائی۔ وزیرِ اعلیٰ عمر فاروق عبداللہ نے اس کے خلاف سخت بیان دیا جس کا دلّی کے حکمرانوں نے برا منایا۔ ابھی اس کی منفی باز گشت تھمی بھی نہ تھی کہ جولائی 2014ء کے پہلے ہفتے بھارتی اخبار ''انڈین ایکسپریس'' نے یہ انکشاف خیز خبر شایع کر دی کہ نریندر مودی کی اشیرباد سے یہ فیصلہ کیا جا رہا ہے کہ دلّی اور سری نگر میں موجود اقوام متحدہ کے ملٹری آبزرور گروپ کی چھٹی کروا دی جائے۔یہ خبر مسئلہ کشمیر کے حل پر نظر رکھنے والوں، مقبوضہ کشمیر کے کٹھ پتلی حکمرانوں اور پاکستان کو ششدر کر گئی ہے۔
اس حیران کن خبر کی اشاعت کے بعد، اندازاً ایک ڈیزائن کے مطابق، 9 جولائی 2014ء کو بھارتی وزارتِ خارجہ کے ترجمان سید اکبر الدین صحافیوں کے روبرو آئے اور کہا: ''ہمارا خیال ہے کہ اقوام متحدہ کے ملٹری آبزرور گروپ کا (مسئلہ کشمیر سے) کوئی تعلق واسطہ نہیں رہا۔ اس لیے اب ان کا بوریا بستر لپیٹنا ضروری ہے۔'' مودی حکومت کے ترجمان کا یہ بیان دراصل اس امر کا غماز ہے کہ بھارتی حکومت نے طے کر لیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کو بھارت میں باقاعدہ شامل کر کے اس ٹنٹے کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا جائے لیکن یہ کام بہر حال اتنا آسان نہیں ہے۔ اقوامِ متحدہ کے ملٹری آبزرور گروپ کی چھٹی کروانے سے یہ مسئلہ مزید الجھائو کا شکار ہو جائے گا جس کا نقصان بھارت ہی کو ہو گا لیکن نئے نئے ملنے والے اقتداری نشے سے مودی حکومت مدہوش سی نظر آ رہی ہے۔
غالباً اسی طے شدہ پالیسی کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ بھارتی وزارتِ خارجہ کے ترجمان کے مذکورہ بالا بیان کے بعد 22 جولائی 2014ء کو اسلام آباد میں متعین بھارتی ہائی کمشنر سی اے رگھوان نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مزید گلفشانی یوں کی: ''بھارت نے تو ہمیشہ ہی اقوامِ متحدہ کے ان ملٹری آبزرور گروپ کی مخالفت کی ہے۔ 1972ء میں شملہ معاہدے پر پاکستان اور بھارت کے دستخط ہونے کے بعد اس گروپ کی بھلا افادیت کیا رہ جاتی ہے؟'' یہاں یہ واضح کرنا بے حد ضروری ہے کہ چھ عشرے قبل جب مسئلہ کشمیر کے معاملے پر اقوام متحدہ میں پاکستان اور بھارت آمنے سامنے ہوئے، کہ دونوں 1947ء میں اسی مسئلے پر جنگ بھی کر چکے تھے، تو یہ اقوامِ متحدہ کا ادارہ تھا جس کے حکم کے تحت پاکستان اور بھارت میں یہ ملٹری آبزرور گروپس تعینات کیے گئے۔
مقصد یہ تھا کہ کشمیر کے معاملے پر دونوں ممالک کو اگر کوئی شکایات ہوں، مثلاً سیز فائر لائن کے آر پار دونوں ممالک کی فوجوں کی کبھی کبھار چپقلش وغیرہ، تو سب سے پہلے یہ شکایات ان ہی ملٹری آبزرور گروپس کے پاس درج کروائی جائیں گی۔ پاکستان میں یو این او کے اس ملٹری گروپ کا صدر دفتر اسلام آباد میں ہے جب کہ بھارت میں دلّی اور سری نگر میں اس کے دفاتر قائم کیے گئے۔ دہلی میں بھارتی حکومت نے اس گروپ کو ایک قدیم بنگلہ دے رکھا تھا اور اس گروپ کے اخراجات اور ٹرانسپورٹیشن وغیرہ کی ذمے داری بھی بھارتی حکومت کے سپرد تھی۔ بھارت نے ہمیشہ اس گروپ کی مخالفت کی ہے اور بھارتی خفیہ ایجنسیوں کے اشارے پر بھارتی تجزیہ نگار بھی ان کے وجود کی مخاصمت میں لگے رہتے ہیں۔
مسئلہ کشمیر کے حوالے سے 1947ء سے 2014ء تک، بھارت کا ہر حکمران ریاکاری سے کام لیتا چلا آ رہا ہے لیکن کشمیر پر اس کے قبضے کو دنیا میں قانونی حیثیت نہیں مل سکی۔ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے 1948ء میں منظور کردہ قرارداد نمبر 39 کے تحت ایک متحدہ کمیشن (UNCIP) تشکیل دیا جو پاکستان اور بھارت دونوں کو منظور تھا لیکن بھارتی شرارتیں کم نہ ہو سکیں۔ اس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان سیز فائر لائن پر نگاہ رکھنے اور پیدا ہونے والے مسائل کے حل کے لیے اقوام متحدہ نے ایک اور قرارداد نمبر 47 منظور کی جس نے مذکورہ بالا کمیشن کے اختیارات میں اضافہ کیا لیکن کشمیر اور پاکستان کے خلاف بھارتی سازشیں پھر بھی کم نہ ہوسکیں۔
یوں مارچ 1951ء کو ''کراچی معاہدہ'' عمل میں آیا جس پر پاکستان اور بھارت نے متفقہ طور پر دستخط کیے۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ سیز فائر لائن پر دونوں ممالک اقوام متحدہ کی نگرانی میں شکایات سنیں گے اور اس کا ازالہ بھی کریں گے۔ اسی معاہدے کے تحت اقوامِ متحدہ نے بھارت اور پاکستان میں ملٹری آبزرور گروپس (UNMOGIP) تعینات کیے جو گزشتہ چھ عشروں سے تسلسل کے ساتھ بروئے کار رہے ہیں۔ بھارت کا یہ کہنا بے بنیاد اور لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے کہ 1972ء میں شملہ معاہدے پر دستخط ہونے سے، جس کے تحت سیز فائز لائن کو لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کا درجہ دیا گیا، ان ملٹری آبزرور کا وجود بے معنی ہو گیا ہے۔ کشمیر اب بھی متنازعہ علاقہ ہے۔
بھارت اپنے آئین سے آرٹیکل 370 نکال کر اور اب اقوامِ متحدہ کے ملٹری آبزرور کو ملک سے نکل جانے کا حکم صادر کر کے مقبوضہ کشمیر کو اپنے وجود کا ناگزیر حصہ (اٹوٹ انگ) نہیں بنا سکتا۔ ان آبزرورز کا کردار اب بھی پوری طرح Relevant اور Valid ہے اور جب تک مسئلہ کشمیر متعلقہ فریقین کی خواہشات اور اقوامِ متحدہ کی منظور کردہ قراردادوں کے مطابق حل نہیں ہو جاتا، ان آبزرورز کا کردار اور وجود بدستور موجود رہے گا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کی کشمیر کمیٹی بھی گہری نیند سے بیدار ہو کر اقوامِ عالم کو بتائے کہ نریندر مودی کی حکومت متنازعہ مسئلہ کشمیر کے بارے میں کیا کھلواڑ کرنا چاہتی ہے۔ حکومتِ پاکستان اور دنیا بھر میں پاکستان کے سفیروں کو بھی اس لہر کو بیدار اور اجاگر کرنے کے لیے مقامی حکومتوں سے رابطے کرنے چاہئیں، وگرنہ پانی سر سے گزر جائے گا۔
اس اعلان نے مقبوضہ کشمیر کی مقتدرہ جماعت میں بھی ہلچل مچائی۔ وزیرِ اعلیٰ عمر فاروق عبداللہ نے اس کے خلاف سخت بیان دیا جس کا دلّی کے حکمرانوں نے برا منایا۔ ابھی اس کی منفی باز گشت تھمی بھی نہ تھی کہ جولائی 2014ء کے پہلے ہفتے بھارتی اخبار ''انڈین ایکسپریس'' نے یہ انکشاف خیز خبر شایع کر دی کہ نریندر مودی کی اشیرباد سے یہ فیصلہ کیا جا رہا ہے کہ دلّی اور سری نگر میں موجود اقوام متحدہ کے ملٹری آبزرور گروپ کی چھٹی کروا دی جائے۔یہ خبر مسئلہ کشمیر کے حل پر نظر رکھنے والوں، مقبوضہ کشمیر کے کٹھ پتلی حکمرانوں اور پاکستان کو ششدر کر گئی ہے۔
اس حیران کن خبر کی اشاعت کے بعد، اندازاً ایک ڈیزائن کے مطابق، 9 جولائی 2014ء کو بھارتی وزارتِ خارجہ کے ترجمان سید اکبر الدین صحافیوں کے روبرو آئے اور کہا: ''ہمارا خیال ہے کہ اقوام متحدہ کے ملٹری آبزرور گروپ کا (مسئلہ کشمیر سے) کوئی تعلق واسطہ نہیں رہا۔ اس لیے اب ان کا بوریا بستر لپیٹنا ضروری ہے۔'' مودی حکومت کے ترجمان کا یہ بیان دراصل اس امر کا غماز ہے کہ بھارتی حکومت نے طے کر لیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کو بھارت میں باقاعدہ شامل کر کے اس ٹنٹے کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا جائے لیکن یہ کام بہر حال اتنا آسان نہیں ہے۔ اقوامِ متحدہ کے ملٹری آبزرور گروپ کی چھٹی کروانے سے یہ مسئلہ مزید الجھائو کا شکار ہو جائے گا جس کا نقصان بھارت ہی کو ہو گا لیکن نئے نئے ملنے والے اقتداری نشے سے مودی حکومت مدہوش سی نظر آ رہی ہے۔
غالباً اسی طے شدہ پالیسی کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ بھارتی وزارتِ خارجہ کے ترجمان کے مذکورہ بالا بیان کے بعد 22 جولائی 2014ء کو اسلام آباد میں متعین بھارتی ہائی کمشنر سی اے رگھوان نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مزید گلفشانی یوں کی: ''بھارت نے تو ہمیشہ ہی اقوامِ متحدہ کے ان ملٹری آبزرور گروپ کی مخالفت کی ہے۔ 1972ء میں شملہ معاہدے پر پاکستان اور بھارت کے دستخط ہونے کے بعد اس گروپ کی بھلا افادیت کیا رہ جاتی ہے؟'' یہاں یہ واضح کرنا بے حد ضروری ہے کہ چھ عشرے قبل جب مسئلہ کشمیر کے معاملے پر اقوام متحدہ میں پاکستان اور بھارت آمنے سامنے ہوئے، کہ دونوں 1947ء میں اسی مسئلے پر جنگ بھی کر چکے تھے، تو یہ اقوامِ متحدہ کا ادارہ تھا جس کے حکم کے تحت پاکستان اور بھارت میں یہ ملٹری آبزرور گروپس تعینات کیے گئے۔
مقصد یہ تھا کہ کشمیر کے معاملے پر دونوں ممالک کو اگر کوئی شکایات ہوں، مثلاً سیز فائر لائن کے آر پار دونوں ممالک کی فوجوں کی کبھی کبھار چپقلش وغیرہ، تو سب سے پہلے یہ شکایات ان ہی ملٹری آبزرور گروپس کے پاس درج کروائی جائیں گی۔ پاکستان میں یو این او کے اس ملٹری گروپ کا صدر دفتر اسلام آباد میں ہے جب کہ بھارت میں دلّی اور سری نگر میں اس کے دفاتر قائم کیے گئے۔ دہلی میں بھارتی حکومت نے اس گروپ کو ایک قدیم بنگلہ دے رکھا تھا اور اس گروپ کے اخراجات اور ٹرانسپورٹیشن وغیرہ کی ذمے داری بھی بھارتی حکومت کے سپرد تھی۔ بھارت نے ہمیشہ اس گروپ کی مخالفت کی ہے اور بھارتی خفیہ ایجنسیوں کے اشارے پر بھارتی تجزیہ نگار بھی ان کے وجود کی مخاصمت میں لگے رہتے ہیں۔
مسئلہ کشمیر کے حوالے سے 1947ء سے 2014ء تک، بھارت کا ہر حکمران ریاکاری سے کام لیتا چلا آ رہا ہے لیکن کشمیر پر اس کے قبضے کو دنیا میں قانونی حیثیت نہیں مل سکی۔ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے 1948ء میں منظور کردہ قرارداد نمبر 39 کے تحت ایک متحدہ کمیشن (UNCIP) تشکیل دیا جو پاکستان اور بھارت دونوں کو منظور تھا لیکن بھارتی شرارتیں کم نہ ہو سکیں۔ اس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان سیز فائر لائن پر نگاہ رکھنے اور پیدا ہونے والے مسائل کے حل کے لیے اقوام متحدہ نے ایک اور قرارداد نمبر 47 منظور کی جس نے مذکورہ بالا کمیشن کے اختیارات میں اضافہ کیا لیکن کشمیر اور پاکستان کے خلاف بھارتی سازشیں پھر بھی کم نہ ہوسکیں۔
یوں مارچ 1951ء کو ''کراچی معاہدہ'' عمل میں آیا جس پر پاکستان اور بھارت نے متفقہ طور پر دستخط کیے۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ سیز فائر لائن پر دونوں ممالک اقوام متحدہ کی نگرانی میں شکایات سنیں گے اور اس کا ازالہ بھی کریں گے۔ اسی معاہدے کے تحت اقوامِ متحدہ نے بھارت اور پاکستان میں ملٹری آبزرور گروپس (UNMOGIP) تعینات کیے جو گزشتہ چھ عشروں سے تسلسل کے ساتھ بروئے کار رہے ہیں۔ بھارت کا یہ کہنا بے بنیاد اور لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے کہ 1972ء میں شملہ معاہدے پر دستخط ہونے سے، جس کے تحت سیز فائز لائن کو لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کا درجہ دیا گیا، ان ملٹری آبزرور کا وجود بے معنی ہو گیا ہے۔ کشمیر اب بھی متنازعہ علاقہ ہے۔
بھارت اپنے آئین سے آرٹیکل 370 نکال کر اور اب اقوامِ متحدہ کے ملٹری آبزرور کو ملک سے نکل جانے کا حکم صادر کر کے مقبوضہ کشمیر کو اپنے وجود کا ناگزیر حصہ (اٹوٹ انگ) نہیں بنا سکتا۔ ان آبزرورز کا کردار اب بھی پوری طرح Relevant اور Valid ہے اور جب تک مسئلہ کشمیر متعلقہ فریقین کی خواہشات اور اقوامِ متحدہ کی منظور کردہ قراردادوں کے مطابق حل نہیں ہو جاتا، ان آبزرورز کا کردار اور وجود بدستور موجود رہے گا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کی کشمیر کمیٹی بھی گہری نیند سے بیدار ہو کر اقوامِ عالم کو بتائے کہ نریندر مودی کی حکومت متنازعہ مسئلہ کشمیر کے بارے میں کیا کھلواڑ کرنا چاہتی ہے۔ حکومتِ پاکستان اور دنیا بھر میں پاکستان کے سفیروں کو بھی اس لہر کو بیدار اور اجاگر کرنے کے لیے مقامی حکومتوں سے رابطے کرنے چاہئیں، وگرنہ پانی سر سے گزر جائے گا۔