پاکستان ایک نظر میں معاملہ ’چاند‘ کا
چاند کا مسئلہ حل ہوسکتا ہے مگر اِس کے لیے ضروری ہے کہ جن کو یہ مسئلہ حل کرنا ہے وہ اِس مسئلے کو مسئلہ سمجھیں بھی توسہی
عید تو نئی ہے مگر اختلاف وہی پُرانہ ہے۔ اختلاف ہمارے معاشرے میں موجود چند چیزوں میں ایک شہ ہے جس پر پورا معاشرہ پورا پورا اتفاق کرتا ہے۔اگر میں یہاں لکھ دوں کہ سورج جب نکلا ہو تو دن ہوتا ہے اور جب چاند آسمان پر نمایاں ہو تو رات ہوا کرتی ہے۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ میری اِس بات پر بھی اختلاف کرنے والے لوگ کہیں نہ کہیں سے نکل آئیں گے کیونکہ یہ اب یہ ہماری ایک عادت بن چکی ہے۔
پاکستان میں متعدد عید کا رواج ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا ہے۔ حالانکہ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو فوری طور پر حل طلب ہے اور اِس کا حل کے ٹو کی پہاڑی سر کرنے جیسا مشکل کام بھی نہیں۔لیکن بات پھر یہی ہے کہ جن کو یہ مسئلہ حل کرنا ہے پہلے وہ اِس مسئلے کو مسئلہ سمجھیں بھی تو سہی۔بات مفتی منیب الرحمان کی ہو یا پھر مفتی پوپلزئی کی ۔ دونوں اپنی اپنی جگہ کھڑیں میں نہ مانوں کی مصداق کا منظر پیش کررہے ہیں۔
میں تو حیران ہوں کہ پوری قوم مفتی شہاب پوپلزئی کو بغیر کسی ثبوت آنکھیں بند کرکے نہ صرف بُرا بھلا کہہ رہی ہے بلکہ انتشار کا اصل مجرم بھی قرار دے رہی ہے۔ لیکن میں ایسے تمام لوگوں کی خدمت میں یہ بات رکھنا چاہتا ہوں کہ جناب یہ چاند ہے چاند گھر میں کھویا ہوا کوئی کپڑے کاٹکرا نہیں کہ ملا تو ملا اور نہیں ملا تو کوئی بات نہیں۔ مفتی پوپلزئی مستقل طور پر چاند کو ایک دن پہلے نکالتے ہیں ۔ یہ بات بھی ٹھیک ہے کہ انسان خطا کا پتلہ ہے کبھی کبھار غلطی ہوسکتی ہے لیکن ہر بار تو ایسا ہونا ممکن نہیں ہے ۔ اور اگر پوپلزئی صاحب ارادتاً ایسا کررہے ہیں تو کیا کسی حکومتی مشینری نے کوئی کارروائی کرنے کی جسارت کی یا پھر کم از کم یہ جاننے کی کوشش کی کہ موصوف ٹھیک چاند بھی نکالتے ہیں یا نہیں۔
اگر چہ مملکت خداداد کی عوام کو یہ آسانی میسر ہے کہ جو فیصلہ رویت حلال کمیٹی کرے ہم اُس کو مان لیں اور اگر فیصلے میں کچھ غلطی بھی ہو تو گناہ ہم نہیں نہیں بلکہ کمیٹی پر ہی عائد ہوگا۔لیکن اِس کے باوجود میں مفتی منیب الرحمان سے استفسار کرنا چاہتا کہ سرکار آپ کو قدرت نے ایک بڑے کام کے لیے کئی سالوں سے چنا ہوا ہے۔اور جس منصب پر آپ فائز ہیں اُس کی کچھ بھاری ذمہ داریاں بھی عائد ہوتی ہیں۔ آپ کی موجودگی میں اگر پاکستان میں متعدد عیدیں منائی جارہی ہیں تو آپ کے کان پر کبھی تو جووں رینگنی بھی یا نہیں کہ آخر ایسا کیوں ہوا؟ کہیں مجھ سے تو غلطی نہیں ہوگئی؟ مجھے معاملے کی معلومات حاصل کرنی چاہیے؟ مجھے پوپلزئی صاحب سے صورتحال پر بات کرنی چاہیے؟
اِس ایک چھوٹے سے مسئلہ نے عید کی خوشی اور مزے دونوں کو بجھا کر رکھ دیا ہے ۔ لوگ پریشان ہیں کہ عید منائیں یا روزہ رکھیں۔ اِسی کشمکش میں ایک اہم تہوار ہم سے روٹھ کر چلا جاتا ہے ۔ روزہ رکھنے والے پریشان ہوتے کہ کہیں آج عید تو نہیں تھی اور عید منانے والے پریشان ہوتے ہیں کہ کہیں آج روزہ تو نہیں تھا۔ اِسی لیے میں مفتی منیب سے التجا کرنا چاہتا ہوں کہ اگر آپ ایک بار کراچی یا اسلام آباد کے بجائے دل بڑا کرکے مفتی پوپلزئی کی مسجد قاسم علی خان میں جاکر بیٹھ جائیں اور چاند کی تلاش کا کام شروع کردیں۔اگر چاند ہوا تو یہ پھر آپ کو بھی نظر آجائے گا اور پوپلزئی صاحب کو بھی اور اگر چاند نے مزید پوشیدہ رہنے کا فیصلہ کیا ہوگا تو پھر کسی کو بھی نظر نہیں آئے گا۔ مجھے یقین ہے کہ اِس طرح یہ مسئلہ ہمیشہ کےلیے حل ہوجائے گا یعنی دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
پاکستان میں متعدد عید کا رواج ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا ہے۔ حالانکہ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو فوری طور پر حل طلب ہے اور اِس کا حل کے ٹو کی پہاڑی سر کرنے جیسا مشکل کام بھی نہیں۔لیکن بات پھر یہی ہے کہ جن کو یہ مسئلہ حل کرنا ہے پہلے وہ اِس مسئلے کو مسئلہ سمجھیں بھی تو سہی۔بات مفتی منیب الرحمان کی ہو یا پھر مفتی پوپلزئی کی ۔ دونوں اپنی اپنی جگہ کھڑیں میں نہ مانوں کی مصداق کا منظر پیش کررہے ہیں۔
میں تو حیران ہوں کہ پوری قوم مفتی شہاب پوپلزئی کو بغیر کسی ثبوت آنکھیں بند کرکے نہ صرف بُرا بھلا کہہ رہی ہے بلکہ انتشار کا اصل مجرم بھی قرار دے رہی ہے۔ لیکن میں ایسے تمام لوگوں کی خدمت میں یہ بات رکھنا چاہتا ہوں کہ جناب یہ چاند ہے چاند گھر میں کھویا ہوا کوئی کپڑے کاٹکرا نہیں کہ ملا تو ملا اور نہیں ملا تو کوئی بات نہیں۔ مفتی پوپلزئی مستقل طور پر چاند کو ایک دن پہلے نکالتے ہیں ۔ یہ بات بھی ٹھیک ہے کہ انسان خطا کا پتلہ ہے کبھی کبھار غلطی ہوسکتی ہے لیکن ہر بار تو ایسا ہونا ممکن نہیں ہے ۔ اور اگر پوپلزئی صاحب ارادتاً ایسا کررہے ہیں تو کیا کسی حکومتی مشینری نے کوئی کارروائی کرنے کی جسارت کی یا پھر کم از کم یہ جاننے کی کوشش کی کہ موصوف ٹھیک چاند بھی نکالتے ہیں یا نہیں۔
اگر چہ مملکت خداداد کی عوام کو یہ آسانی میسر ہے کہ جو فیصلہ رویت حلال کمیٹی کرے ہم اُس کو مان لیں اور اگر فیصلے میں کچھ غلطی بھی ہو تو گناہ ہم نہیں نہیں بلکہ کمیٹی پر ہی عائد ہوگا۔لیکن اِس کے باوجود میں مفتی منیب الرحمان سے استفسار کرنا چاہتا کہ سرکار آپ کو قدرت نے ایک بڑے کام کے لیے کئی سالوں سے چنا ہوا ہے۔اور جس منصب پر آپ فائز ہیں اُس کی کچھ بھاری ذمہ داریاں بھی عائد ہوتی ہیں۔ آپ کی موجودگی میں اگر پاکستان میں متعدد عیدیں منائی جارہی ہیں تو آپ کے کان پر کبھی تو جووں رینگنی بھی یا نہیں کہ آخر ایسا کیوں ہوا؟ کہیں مجھ سے تو غلطی نہیں ہوگئی؟ مجھے معاملے کی معلومات حاصل کرنی چاہیے؟ مجھے پوپلزئی صاحب سے صورتحال پر بات کرنی چاہیے؟
اِس ایک چھوٹے سے مسئلہ نے عید کی خوشی اور مزے دونوں کو بجھا کر رکھ دیا ہے ۔ لوگ پریشان ہیں کہ عید منائیں یا روزہ رکھیں۔ اِسی کشمکش میں ایک اہم تہوار ہم سے روٹھ کر چلا جاتا ہے ۔ روزہ رکھنے والے پریشان ہوتے کہ کہیں آج عید تو نہیں تھی اور عید منانے والے پریشان ہوتے ہیں کہ کہیں آج روزہ تو نہیں تھا۔ اِسی لیے میں مفتی منیب سے التجا کرنا چاہتا ہوں کہ اگر آپ ایک بار کراچی یا اسلام آباد کے بجائے دل بڑا کرکے مفتی پوپلزئی کی مسجد قاسم علی خان میں جاکر بیٹھ جائیں اور چاند کی تلاش کا کام شروع کردیں۔اگر چاند ہوا تو یہ پھر آپ کو بھی نظر آجائے گا اور پوپلزئی صاحب کو بھی اور اگر چاند نے مزید پوشیدہ رہنے کا فیصلہ کیا ہوگا تو پھر کسی کو بھی نظر نہیں آئے گا۔ مجھے یقین ہے کہ اِس طرح یہ مسئلہ ہمیشہ کےلیے حل ہوجائے گا یعنی دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔