رانا ثنااﷲ…
مسلم لیگ (ن) کی حکومت بہت اچھی چل رہی تھی، ہر طرف ترقیاتی منصوبوں اور معاشی خوشحالی کے نعروں کی گونج تھی،
مسلم لیگ (ن) کی حکومت بہت اچھی چل رہی تھی، ہر طرف ترقیاتی منصوبوں اور معاشی خوشحالی کے نعروں کی گونج تھی، پھر بعض ایسی تبدیلیاں اور حادثے رونما ہوئے کہ اس کی مشکلات اور مسائل بڑھتے چلے گئے۔ نجانے حکومت کو کیا سوجھی کہ عاشورہ محرم پر راولپنڈی میں ہونے والے واقعہ کے بعد جنرل پرویز مشرف پر سنگین غداری کا مقدمہ چلانے کا اعلان کر دیا۔ مجھے لگتا ہے کہ یہیں سے حکومت اور فوج کے درمیان اس چپقلش کا آغاز ہوا جو نہیں ہونا چاہیے تھا۔
اسی دوران طاہر القادری فیکٹر سیاست میں داخل ہوا، وہ اپنے تئیں کسی انقلاب کے نقیب بن کر پاکستان آنا چاہتے تھے، ان کی آمد کی اطلاع سن کر حکومت کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ میری سمجھ سے باہر ہے کہ حکومت اتنی بوکھلاہٹ کا شکار کیوں ہوئی۔ طاہر القادری کی ماڈل ٹاؤن رہائش گاہ سے رکاوٹیں ہٹانے کا فیصلہ ہوا۔ جس کے نتیجہ میں وہ سانحہ رونما ہوا جو ابھی تک پنجاب حکومت کے گلے میں پھنسا ہوا ہے۔ اس سانحہ کی تحقیقات کرنے والے کمیشن میں سب نے بیان حلفی جمع کرا دیے ہیں۔
اب تک جو تصویر ابھری ہے اس میں سابق صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ پھنستے نظر آ رہے ہیں۔ انھوں نے تو خود تسلیم کر لیا ہے کہ طاہر القادری کی رہائش گاہ کے باہر تجاوزات ہٹانے کا فیصلہ ان کا تھا البتہ وہاں گولیاں چلانے کا فیصلہ موقع پر موجود پولیس افسروں اور اہلکاروں کا تھا۔ اب یہ معاملہ چونکہ تحقیقات کے مراحل سے گزر رہا ہے، اس لیے اس پر کوئی رائے زنی کرنا مناسب نہیں ہے۔ تحقیقاتی کمیشن جب اپنی رپورٹ دے گا، اس وقت صورت حال واضح ہو جائے گی۔
رانا ثناء اللہ کو مسلم لیگ (ن) نے ان کے حال پر چھوڑ دیا ہے، اس رویے یا پالیسی سے وہ خاصے دل برداشتہ اور مایوس نظر آتے ہیں، تاہم وہ اب تک پارٹی کے ساتھ غیر مشروط وابستگی کا اظہار کرتے ہیں۔ میں نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے بعد اپنے کالم میں ان کے بعض غیرضروری بیانات کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا، اس کے باوجود انھوں نے اس کا برا نہیں منایا اور جب کبھی ملے بڑی خندہ پیشانی اور خوش دلی سے ملے۔ پارٹی میں ان کے ساتھ جو سلوک ہوا شاید وہ اس کی توقع نہیں رکھتے تھے۔
انھیں شاید یہ بھی محسوس ہوا ہے کہ لاہوری لابی کے کہنے پر انھیں پس منظر میں دھکیلا گیا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اگر رانا مشہود کو وزیر قانون نہ بنایا جاتا تو شاید انھیں اتنی زیادہ تنہائی محسوس نہ ہوتی۔ رانا مشہود کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ کافی عرصے سے وزارت قانون کے امیدوار تھے۔ بہرحال یہ مسلم لیگ ن کے اندرونی معاملات ہیں، ان پر میں کچھ نہیں کہنا چاہتا تاہم یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ رانا ثناء اللہ جس انداز میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت کا دفاع کرتے تھے، ویسا اب نہیں ہو رہا۔
رانا مشہود کوشش کر رہے ہیں مگر وہ بات کہاں جو مولوی مدن میں تھی۔14 اگست کے لانگ مارچ سے حکومت شدید دباؤ کا شکار ہے۔ عمران خان، طاہر القادری اور چوہدری برادران نے جو احتجاج کرنا ہے یا جلوس نکالنا ہے، لاہور ہی اس کا مرکز ہو گا۔ لانگ مارچ لاہور سے شروع ہونا ہے اور اسلام آباد میں اختتام پذیر ہونا ہے۔ یوں پنجاب حکومت سخت آزمائش سے گزرنے والی ہے لیکن پنجاب میں تمام صوبائی وزراء خاموش ہیں، ایسی صورت حال میں رانا ثناء اللہ ہر محاذ پر پارٹی اور حکومت کا دفاع شاید بہتر انداز میں کرتے۔ وہ میاں محمد نواز شریف اور میاں محمد شہباز شریف کو اپنا لیڈر تسلیم کرتے ہیں البتہ پارٹی میں موجود ایک گروپ ]پر شدید تنقید کرتے ہیں۔
رانا ثناء اللہ سے کئی لوگ یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ پارٹی قیادت نے آپ کو فارغ کر دیا ہے اور زبان زد عام ہے کہ رانا ثناء اللہ پر سانحہ ماڈل ٹاؤن کا سارا ملبہ ڈال دیا گیا ہے بلکہ اپوزیشن والے تو کہتے ہیں انھیں قربانی کا بکرا بنا دیا گیا ہے۔ لہٰذا آپ خاموشی اختیار کر لیں اور پارٹی کا دفاع چھوڑ دیں مگر وہ اس بات کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ وہ منہاج القرآن سیکریٹر یٹ سے رکاوٹیں ہٹانے کی ذمے داری برملا قبول کرتے ہیں لیکن ڈاکٹر طاہر القادری اور دیگر اپوزیشن رہنما اس بات کو ماننے کے لیے تیار نظر نہیں آتے۔
ان کے عزائم کچھ اور ہیں۔ سچ یہ ہے کہ رانا ثناء اللہ کو فارغ کرنے سے پنجاب میں حکومت نے اپنا دفاع کمزور کر دیا ہے۔ جس طرح ان کے استعفے کا اعلان ہوا، اس پر بھی انھیں ذلت محسوس ہوئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر انھیں خود استعفیٰ دینے کا آپشن دیا جاتا تو وہ ایک پریس کانفرنس کرتے جس میں وہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کی ذمے داری قبول کر کے استعفے کا اعلان کر دیتے۔ یہ ان کے لیے زیادہ باعزت راستہ ہوتا لیکن ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے۔ اقتدار کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں۔ یہاں جب مشکل آتی ہے تو کوئی کسی کا حال نہیں پوچھتا۔
رانا ثناء اللہ کی حالت یہ ہے کہ اب انھیں مسلم لیگ (ن) کے وزراء فون کرتے ہوئے بھی گھبراتے ہیں۔ ان کے ساتھ اس وقت ایک ہی وزیر کھل کر کھڑا ہے، جسے میں بہادر وزیر کہتا ہوں، اس کا نام خلیل طاہر سندھو ہے۔ سندھو صاحب میرے دوست بھی ہیں بلکہ یوں کہوں تو شاید بہتر ہو گا کہ وہ دوستوں کے دوست ہیں۔ جس کو اپنا کہہ دیا تو پھر کوئی لاکھ برا کہے، وہ اسے اپنا ہی قرار دیں گے۔ رانا ثناء اللہ کے ساتھ بھی ان کا تعلق اسی اصول پر استوار ہے۔ میں نے تو دیکھا ہے کہ وہ رانا ثناء اللہ سے محبت کرتے ہیں۔ خلیل طاہر سندھو ہر سماعت کے موقع پر رانا ثناء اللہ کے ساتھ ہوتے ہیں۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ باقی لوگ اتنی جلدی رنگ کیوں بدل لیتے ہیں۔
رانا صاحب نے مسلم لیگ (ن) کو چھوڑا ہے نہ قیادت کے خلاف کوئی بات کہی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ تحقیقاتی ٹریبونل میں رانا صاحب نے جو بیان حلفی داخل کیا ہے، وہ بھی حکومتی لیگل ٹیم نے تیار کیا۔ سننے میں آیا ہے کہ یہ بیان حلفی رانا صاحب کے مطالعے کے لیے پیش ہوا تو اس وقت انھوں نے کہا کہ میں پہلے دستخط کروں گا پھر اسے پڑھوں گا۔ یوں انھوں نے حکومت کی لیگل ٹیم کے تیار کردہ بیان پر دستخط کر دیے۔ میرا خیال ہے کہ یہ مخلصی کی انتہا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کا کوئی اور وزیر ہوتا تو شاید ایسا نہ کرتا۔
حکومت اور سیاسی شخصیات پر برے وقت آتے رہتے ہیں، حکومتیں بحران کا شکار بھی ہوتی ہیں اور وہ ان سے نکل بھی جاتی ہیں۔ آصف علی زرداری کے دور حکومت میں کیسے کیسے بحران آئے لیکن وہ ڈٹے رہے۔ انھوں نے سیاسی چال کا جواب سیاسی چال سے دیا اور قانونی وار کو قانون کی ڈھال سے روکا، یوں پانچ برس گزار دیے۔ مسلم لیگ (ن) بھی بحران میں گھری ہوئی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو چاہیے کہ وہ مضبوطی سے اپنے پاؤں پر کھڑی ہو، سانحہ ماڈل ٹاؤن ہو یا 14 اگست کا لانگ مارچ، خوفزدہ ہونے یا گھبرا کر فیصلے کرنے سے بحران بڑھتے ہیں کم نہیں ہوتے۔ آزمودہ اور جہاندیدہ سیاسی کارکن کسی جماعت کا اثاثہ ہوتے ہیں، مسلم لیگ (ن) کی قیادت رانا ثناء اللہ سے لاتعلقی اختیار نہ کرے کیونکہ ایسا کرنے سے معاملات بگڑیں گے سلجھیں گے نہیں۔
اسی دوران طاہر القادری فیکٹر سیاست میں داخل ہوا، وہ اپنے تئیں کسی انقلاب کے نقیب بن کر پاکستان آنا چاہتے تھے، ان کی آمد کی اطلاع سن کر حکومت کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ میری سمجھ سے باہر ہے کہ حکومت اتنی بوکھلاہٹ کا شکار کیوں ہوئی۔ طاہر القادری کی ماڈل ٹاؤن رہائش گاہ سے رکاوٹیں ہٹانے کا فیصلہ ہوا۔ جس کے نتیجہ میں وہ سانحہ رونما ہوا جو ابھی تک پنجاب حکومت کے گلے میں پھنسا ہوا ہے۔ اس سانحہ کی تحقیقات کرنے والے کمیشن میں سب نے بیان حلفی جمع کرا دیے ہیں۔
اب تک جو تصویر ابھری ہے اس میں سابق صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ پھنستے نظر آ رہے ہیں۔ انھوں نے تو خود تسلیم کر لیا ہے کہ طاہر القادری کی رہائش گاہ کے باہر تجاوزات ہٹانے کا فیصلہ ان کا تھا البتہ وہاں گولیاں چلانے کا فیصلہ موقع پر موجود پولیس افسروں اور اہلکاروں کا تھا۔ اب یہ معاملہ چونکہ تحقیقات کے مراحل سے گزر رہا ہے، اس لیے اس پر کوئی رائے زنی کرنا مناسب نہیں ہے۔ تحقیقاتی کمیشن جب اپنی رپورٹ دے گا، اس وقت صورت حال واضح ہو جائے گی۔
رانا ثناء اللہ کو مسلم لیگ (ن) نے ان کے حال پر چھوڑ دیا ہے، اس رویے یا پالیسی سے وہ خاصے دل برداشتہ اور مایوس نظر آتے ہیں، تاہم وہ اب تک پارٹی کے ساتھ غیر مشروط وابستگی کا اظہار کرتے ہیں۔ میں نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے بعد اپنے کالم میں ان کے بعض غیرضروری بیانات کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا، اس کے باوجود انھوں نے اس کا برا نہیں منایا اور جب کبھی ملے بڑی خندہ پیشانی اور خوش دلی سے ملے۔ پارٹی میں ان کے ساتھ جو سلوک ہوا شاید وہ اس کی توقع نہیں رکھتے تھے۔
انھیں شاید یہ بھی محسوس ہوا ہے کہ لاہوری لابی کے کہنے پر انھیں پس منظر میں دھکیلا گیا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اگر رانا مشہود کو وزیر قانون نہ بنایا جاتا تو شاید انھیں اتنی زیادہ تنہائی محسوس نہ ہوتی۔ رانا مشہود کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ کافی عرصے سے وزارت قانون کے امیدوار تھے۔ بہرحال یہ مسلم لیگ ن کے اندرونی معاملات ہیں، ان پر میں کچھ نہیں کہنا چاہتا تاہم یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ رانا ثناء اللہ جس انداز میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت کا دفاع کرتے تھے، ویسا اب نہیں ہو رہا۔
رانا مشہود کوشش کر رہے ہیں مگر وہ بات کہاں جو مولوی مدن میں تھی۔14 اگست کے لانگ مارچ سے حکومت شدید دباؤ کا شکار ہے۔ عمران خان، طاہر القادری اور چوہدری برادران نے جو احتجاج کرنا ہے یا جلوس نکالنا ہے، لاہور ہی اس کا مرکز ہو گا۔ لانگ مارچ لاہور سے شروع ہونا ہے اور اسلام آباد میں اختتام پذیر ہونا ہے۔ یوں پنجاب حکومت سخت آزمائش سے گزرنے والی ہے لیکن پنجاب میں تمام صوبائی وزراء خاموش ہیں، ایسی صورت حال میں رانا ثناء اللہ ہر محاذ پر پارٹی اور حکومت کا دفاع شاید بہتر انداز میں کرتے۔ وہ میاں محمد نواز شریف اور میاں محمد شہباز شریف کو اپنا لیڈر تسلیم کرتے ہیں البتہ پارٹی میں موجود ایک گروپ ]پر شدید تنقید کرتے ہیں۔
رانا ثناء اللہ سے کئی لوگ یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ پارٹی قیادت نے آپ کو فارغ کر دیا ہے اور زبان زد عام ہے کہ رانا ثناء اللہ پر سانحہ ماڈل ٹاؤن کا سارا ملبہ ڈال دیا گیا ہے بلکہ اپوزیشن والے تو کہتے ہیں انھیں قربانی کا بکرا بنا دیا گیا ہے۔ لہٰذا آپ خاموشی اختیار کر لیں اور پارٹی کا دفاع چھوڑ دیں مگر وہ اس بات کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ وہ منہاج القرآن سیکریٹر یٹ سے رکاوٹیں ہٹانے کی ذمے داری برملا قبول کرتے ہیں لیکن ڈاکٹر طاہر القادری اور دیگر اپوزیشن رہنما اس بات کو ماننے کے لیے تیار نظر نہیں آتے۔
ان کے عزائم کچھ اور ہیں۔ سچ یہ ہے کہ رانا ثناء اللہ کو فارغ کرنے سے پنجاب میں حکومت نے اپنا دفاع کمزور کر دیا ہے۔ جس طرح ان کے استعفے کا اعلان ہوا، اس پر بھی انھیں ذلت محسوس ہوئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر انھیں خود استعفیٰ دینے کا آپشن دیا جاتا تو وہ ایک پریس کانفرنس کرتے جس میں وہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کی ذمے داری قبول کر کے استعفے کا اعلان کر دیتے۔ یہ ان کے لیے زیادہ باعزت راستہ ہوتا لیکن ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے۔ اقتدار کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں۔ یہاں جب مشکل آتی ہے تو کوئی کسی کا حال نہیں پوچھتا۔
رانا ثناء اللہ کی حالت یہ ہے کہ اب انھیں مسلم لیگ (ن) کے وزراء فون کرتے ہوئے بھی گھبراتے ہیں۔ ان کے ساتھ اس وقت ایک ہی وزیر کھل کر کھڑا ہے، جسے میں بہادر وزیر کہتا ہوں، اس کا نام خلیل طاہر سندھو ہے۔ سندھو صاحب میرے دوست بھی ہیں بلکہ یوں کہوں تو شاید بہتر ہو گا کہ وہ دوستوں کے دوست ہیں۔ جس کو اپنا کہہ دیا تو پھر کوئی لاکھ برا کہے، وہ اسے اپنا ہی قرار دیں گے۔ رانا ثناء اللہ کے ساتھ بھی ان کا تعلق اسی اصول پر استوار ہے۔ میں نے تو دیکھا ہے کہ وہ رانا ثناء اللہ سے محبت کرتے ہیں۔ خلیل طاہر سندھو ہر سماعت کے موقع پر رانا ثناء اللہ کے ساتھ ہوتے ہیں۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ باقی لوگ اتنی جلدی رنگ کیوں بدل لیتے ہیں۔
رانا صاحب نے مسلم لیگ (ن) کو چھوڑا ہے نہ قیادت کے خلاف کوئی بات کہی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ تحقیقاتی ٹریبونل میں رانا صاحب نے جو بیان حلفی داخل کیا ہے، وہ بھی حکومتی لیگل ٹیم نے تیار کیا۔ سننے میں آیا ہے کہ یہ بیان حلفی رانا صاحب کے مطالعے کے لیے پیش ہوا تو اس وقت انھوں نے کہا کہ میں پہلے دستخط کروں گا پھر اسے پڑھوں گا۔ یوں انھوں نے حکومت کی لیگل ٹیم کے تیار کردہ بیان پر دستخط کر دیے۔ میرا خیال ہے کہ یہ مخلصی کی انتہا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کا کوئی اور وزیر ہوتا تو شاید ایسا نہ کرتا۔
حکومت اور سیاسی شخصیات پر برے وقت آتے رہتے ہیں، حکومتیں بحران کا شکار بھی ہوتی ہیں اور وہ ان سے نکل بھی جاتی ہیں۔ آصف علی زرداری کے دور حکومت میں کیسے کیسے بحران آئے لیکن وہ ڈٹے رہے۔ انھوں نے سیاسی چال کا جواب سیاسی چال سے دیا اور قانونی وار کو قانون کی ڈھال سے روکا، یوں پانچ برس گزار دیے۔ مسلم لیگ (ن) بھی بحران میں گھری ہوئی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو چاہیے کہ وہ مضبوطی سے اپنے پاؤں پر کھڑی ہو، سانحہ ماڈل ٹاؤن ہو یا 14 اگست کا لانگ مارچ، خوفزدہ ہونے یا گھبرا کر فیصلے کرنے سے بحران بڑھتے ہیں کم نہیں ہوتے۔ آزمودہ اور جہاندیدہ سیاسی کارکن کسی جماعت کا اثاثہ ہوتے ہیں، مسلم لیگ (ن) کی قیادت رانا ثناء اللہ سے لاتعلقی اختیار نہ کرے کیونکہ ایسا کرنے سے معاملات بگڑیں گے سلجھیں گے نہیں۔