لوگ بھوک سے کیوں مرتے ہیں

اس دنیا میں روزانہ صرف بھوک سے 75 ہزار انسان مر رہے ہیں

zb0322-2284142@gmail.com

اس دنیا میں روزانہ صرف بھوک سے 75 ہزار انسان مر رہے ہیں تو دوسری طرف ہر روز اسی دنیا میں 1 ارب 30 لاکھ ٹن غذا ضایع کر دی جاتی ہے۔ ایک جانب 85 ارب پتی دنیا کی آدھی دولت کے مالک ہیں تو دوسری جانب اربوں لوگ یومیہ ایک ڈالر بھی نہیں کما پاتے۔ آخر ایسا کیوں؟ اس لیے کہ قدر زائد کو سرمایہ دار اور جاگیردار اپنی جھولی یا تجوری میں ڈال لیتا ہے۔ یا یوں کہہ لیں کہ جس مزدور یا کسان کو ماہانہ 20 ہزار روپے اجرت دینی ہوتی ہے تو اسے 10 ہزار دی جاتی ہے اور 10 ہزار سرمایہ دار یا جاگیردار اپنی جیب میں ڈال لیتا ہے۔

اسی قدر زائد کو سرمایہ دار منافع کہتا ہے اور مارکس قدر زائد۔ روسو اپنی تصنیف 'انسانی عدم مساوات کے اسباب' میں کہتا ہے کہ یہ میری ملکیت ہے اور جس کے اس دعوے کو دوسرے احمقوں نے بے چون و چرا تسلیم بھی کر لیا۔ وہ روسو کے خیال میں ہمارے موجودہ معاشرے کا اصل بانی ہے۔ کتنے جرائم، جنگوں، قتل و غارت گری، مصائب اور آلام سے بنی نوع انسان کو نجات ملتی اگر کوئی شخص حد بندی کے پتھر اکھاڑ پھینکتا یا کھائیوں میں مٹی بھر دیتا اور اپنی قوم کو مخاطب کر کے یوں چلا اٹھتا؛ 'تمھارا بس خاتمہ ہے، اگر تم یہ بھول گئے کہ زمین کی پیداوار کے مالک تم سب ہو اور زمین کسی کی ملکیت نہیں'۔

روسو سمجھتا تھا کہ 'جب ریاست میں ایک طرف تو چند افراد دولت سے مالا مال ہوں اور دوسری طرف آبادی کی بہت بڑی تعداد بھوکوں مر رہی ہو، ایسی صورت میں ریاست کی بنیاد غیر مستحکم ہوگی اور کسی اجتماعی احساس کا وجود نہ ہوگا، جس قدر طبقات میں دولت و افلاس کا فرق بڑھتا جائے گا اسی قدر قوانین بے کار ہوتے جائیں گے۔ آئیے اسی نظریے کی روشنی میں آج کی دنیا کو دیکھتے ہیں۔

برطانیہ میں 40 لاکھ کے قریب لوگ آج بھی مناسب خوراک تک رسائی حاصل نہیں کر پاتے۔ امریکا میں 3 کروڑ 50 لاکھ افراد ایسے خاندانوں سے منسلک ہیں جن کی خوراک ناکافی ہے۔ یورپ میں 4 کروڑ 30 لاکھ افراد مناسب خوراک سے محروم ہیں اور دوسری جانب جدید سپر مارکیٹس لاکھوں ٹن قابل استعمال بہترین خوراک کو کچرے میں بدل رہی ہیں۔ سعودی عرب کا کثیرالاشاعت انگریزی اخبار 'عرب نیوز' کی 4 جولائی 2014 کی رپورٹ کے مطابق سعودی عرب میں روزانہ 4 ہزار 5 سو ٹن قابل استعمال غذا ضایع ہورہی ہے۔

رمضان میں سعودی شہری صرف غذا کی مد میں 20 ارب سعودی ریال خرچ کردیتے ہیں، جو کھانے کے بجائے 45 فیصد کچرے خانے کے سپرد کردیے جاتے ہیں، جب کہ سعودی عرب بیشتر غذا درآمد کرتا ہے۔ دنیا میں روزانہ ہر ساتواں آدمی بھوکا سو جاتا ہے۔ 5 سال سے کم عمر 20 ہزار سے زیادہ بچے ہر روز بھوک سے مرجاتے ہیں۔ شمالی کوریا میں اب تک 50 لاکھ انسان بھوک سے مرچکے ہیں اور افریقہ میں 51 لاکھ کے قریب لوگ مرنے کے نزدیک ہیں۔


ریاست طبقات کی پرورش کرتی ہے۔ دنیا کی کوئی بھی ریاست ہو، وہ اپنے ذیلی اداروں، فوج، اسمبلی، نوکر شاہی، پولیس، جیل تھانے، میڈیا، عدالتوں اور وزارتوں کو منظم کرتی ہے اور انھیں مکمل آزادی دی جاتی ہے اور وہ ہے لوٹ مار کی آزادی۔ اس لیے یہ ادارے اور انھیں چلانے والے کروڑپتی سے ارب پتی اور ارب پتی سے کھرب پتی بن جاتے ہیں اور عوام کو دو وقت کی روٹی اور علاج کے لیے دوا بھی نصیب نہیں ہوتی۔ اب ہم ذرا ریاست کے ماتحت اداروں کا جائزہ لیتے ہیں۔ ان میں طبقاتی خلیج کس طرح اور کیوں کر نمودار ہوتا ہے۔

اسمبلی کے ارکان کی تنخواہیں بظاہر ایک لاکھ کے لگ بھگ ہے جب کہ تقریباً سبھی اسمبلی ارکان کا تعلق صاحب جائیداد طبقات سے ہے، وہ سرمایہ دار ہیں، جاگیردار ہیں یا بڑے تاجر۔ پاکستان کے دو سیاسی رہنما پاکستان کے بڑے پانچ امیروں میں سے ہیں۔ ایک کے پاس کل اثاثے جو ظاہر کیے گئے ہیں وہ 2.5 ارب ڈالر ہیں جب کہ دوسرے چوتھے نمبر پر رہتے ہوئے 2 ارب ڈالر کے اثاثے کے مالک ہیں۔

جب کہ اسی اسمبلی کے چوکیداروں ، چپراسیوں، قاصدوں ، نائب قاصدوں اور باورچیوں کی تنخواہیں 20 ہزار روپے ماہانہ سے زیادہ نہیں۔ پھر میڈیا کے ڈائریکٹروں اور اینکر پرسنز کی تنخواہیں اگر کئی لاکھ تک ہیں تو کارکنوں کی 20 ہزار روپے۔ یہی صورتحال نوکرشاہی کی ہے۔ کسی ڈپارٹمنٹل سیکریٹری یا ڈائریکٹر کی تنخواہ اگر 20 لاکھ روپے ہے تو کلرک کی 20 ہزار۔ اگر مل، کارخانوں میں جا کر پتہ کریں تو وہاں بھی ڈائریکٹرز اور مینجروں کی تنخواہیں لاکھوں روپے اور مزدوروں کی آٹھ دس ہزار۔ زمین کا مالک جاگیردار ہر ماہ اگر کروڑوں روپے کماتا ہے تو اپنے کسان کو روز کی دیہاڑی 250 روپے سے زیادہ نہیں دیتا۔ یہ تفریق آخر کیوں؟ اس لیے کہ قدر زائد کو ریاست اپنے کارندوں میں اس طرح سے بانٹتی ہے کہ کروڑ پتی، ارب پتی اور ارب پتی کھرب پتی بنتا جائے۔ تو یقیناً دوسری جانب افلاس زدہ لوگوں کی فوج جنم لے گی۔

بھوک جب بڑھے گی تو لوگ بے چین ہوں گے، انقلاب فرانس برپا ہوگا، وال اسٹریٹ قبضہ تحریک جنم لے گی۔ گزشتہ دنوں میں نیشنل جیوگرافی پر صومالی پائیریٹس (سمندری ڈاکو) کے بارے میں ایک دستاویزی فلم دیکھ رہا تھا، جس میں ایک جیل میں مقید پائیریٹ سے جب ایک فرانسیسی صحافی نے سوال کیا کہ 'آپ نے سب سے بڑا کون سا جہاز اغوا کیا؟ تو اس کے جواب میں پائیریٹ نے کہا کہ 400 میٹر لمبا سعودی عرب کا جہاز تھا۔

بھر دوسرے سوال میں پوچھا کہ آپ اتنی چھوٹی کشتی کے ذریعے کیسے اتنے بڑے جہاز کو اغوا کرلیتے ہیں؟ اس پر اس نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ 'بھوک سب کچھ کروا دیتی ہے، ملٹی نیشنل کمپنیاں ہمارے سمندری ساحل سے سب سے بڑی مچھلیاں پکڑ کر لے جائیں گی تو ہم ڈکیتی نہیں تو پھر کیا کریں گے، بھوکے تو مرنے سے رہے؟' اسی طرح سے سوزین کولین نے 'ہنگرگیم' نامی ایک فلم کی کہانی لکھی، جسے انٹرنیٹ پر دیکھا جاسکتا ہے، اسے ہالی ووڈ میں فلمایا گیا۔

اس کہانی کا بنیادی مواد یہ ہے کہ کسی خطے میں بھوک کے مارے عوام نے بغاوت کی تھی اور اس بغاوت کو حکمرانوں نے کچل دیا تھا۔ پھر ہر سال باغیوں کو عبرت دلانے کے لیے موت کا کھیل کھیلا جاتا ہے، صرف اس لیے کہ آیندہ ایسی بغاوت کرنے کی جرأت نہ کرپائیں۔ مگر جب لوگ بھوک سے بلبلا اٹھیں گے تو بغاوت اور انقلاب کے سوا کیا کریں گے۔ اس لیے مزدوروں کے انٹرنیشنل ترانے کا پہلا شعر یہ ہے کہ 'بھوک کے نادار قیدیو: اٹھو کہ اب آخری معرکہ آن پہنچا ہے'۔ شیخ سعدی نے درست کہا تھا کہ 'تنگ آمد بجنگ آمد'۔ دنیا کی کثرت سے بسنے والی آبادی بھوک سے تڑپ رہی ہے، اس لیے اب عوام وہ دولت مندوں کی سمیٹی دولت کو چھین کر بھوک مٹانے کے لیے کمیونسٹ انقلاب برپا کریں گے۔
Load Next Story