آندھیاں چراغوں سے…

اسرائیل غزہ کے شہریوں پر مسلسل بمباری کر رہا ہے اور ساری دنیا محض تماشائی بنی ہوئی ہے۔

mnoorani08@gmail.com

تین امریکی نژاد یہودی نوجوانوں کے قتل کا الزام فلسطینی تنظیم حماس پر لگا کر غزہ پر صیہونی ریاست اسرائیل کی بربریت اور ظلم و ستم کو تین ہفتوں سے زائد کا عرصہ بہت چکا ہے۔اِس دوران ایک ہزار سے زائد معصوم اور بیگناہ فلسطینی اب تک مارے جاچکے ہیں۔عالمی میڈیا میں یہی ایک خبر وقتِ حاضر کاسب سے بڑا موضوع بنی ہوئی ہے۔

ساری دنیا میں عام لوگوں کی طرف سے بھر پور احتجاج ہورہا ہے۔مگر عالمی امن کی سب سے بڑی داعی عالمی طاقت اور یواین او کے تحت جڑی ساری اقوام بڑے اطمینان اور سکون سے یہ سارا تماشہ بغور دیکھ رہے ہیں مگر کسی کو اسرائیل کے پسِ پردہ مقاصد اور عزائم کا پتہ نہیں یا وہ دانستہ طور پر یہ جاننے سے گریز کر رہے ہیں۔

اسرائیل کی خواہش ہے کہ حماس اور الفتح نامی تنظیم کے درمیان ہونے والے معاہدے کو کسی طرح ناکام اور کالعدم قرار دیا جا سکے اور دونوں کے بیچ اِس اتحاد کو توڑا جا سکے ۔اسرائیلی وزیراعظم ایک موقعے پر فلسطین کے صدر محمود عباس کو امن کے قیام کیلئے یہ آفر دے چکے ہیں کہ اگر فلسطین میں امن قائم کرنا ہے تو حماس سے کیا جانے والا معاہدہ توڑنا ہوگا۔ ہو سکتا ہے تین یہودی نوجوانوں کا قتل بھی اسرائیلی اِنٹیلی جینس کی ایک سوچی سمجھی سازش ہو، تاکہ اُس کا الزام حماس پر لگا کر غزہ پر حملوں کا جواز پیدا کیا جا سکے۔

اسرائیل کی جانب سے غزہ پر آتش و آہن کی یہ بارش کوئی پہلی مرتبہ نہیں ہے، وہ ہر بار اِسی طرح بلاجواز فلسطینیوں کے خون سے اپنے ہاتھ رنگتا رہاہے۔ مگر افسوس ہے ہمارے اُن عالمی امن کے ٹھیکیداروں پر جو یہ سب کچھ جانتے بوجھتے اِس سنگین معاملے سے صرفِ نظرکیے ہوئے ہیں۔ شاید اُن کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کا مرحلہ ابھی نہیں آیا اِسی لیے وہ طاقت رکھتے ہوئے بھی اسرائیل کے خلاف کوئی انتہائی قدم اُٹھانے سے گریزاں ہیں۔ یہی بربریت اگر کسی اسلامی مملکت کی جانب سے کسی عیسائی، یہودی یاغیر مسلم ریاست کے خلاف ہوئی ہوتی تو اب تک آسمان سر پے اُٹھایا جا چکا ہوتا۔

زیادتی کرنے والے ملک کا گھیراؤ کرکے اُس کا دانہ پانی بند ہو چکا ہوتا۔ اُس پر طرح طرح کی پابندیاں لگائی جا چکی ہوتیں۔عراق کو محض ایک ایسے بے بنیاد الزام کے تحت کہ اُس کے پاس ماس کلنگ کا کمیکل موجود ہے نیست و نابود کر دیا گیا۔ ایک ناکردہ جرم کی پاداش میں صدام کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا لیکن اسرائیل کو اُس کی تمام زیادتیوں اور سفاکیت پر صرف دبے الفاظوں اور نیم دلی سے متنبہ کیا گیا۔اُس کی متواتر خلاف ورزیوں اور جارہانہ حکمت عملی پر بھی کوئی سخت قدم نہیں اُٹھایا گیا۔

اسرائیل غزہ کے شہریوں پر مسلسل بمباری کر رہا ہے اور ساری دنیا محض تماشائی بنی ہوئی ہے۔ خود عرب لیگ اور تمام اسلامی ممالک صرف مذمّتی قراردادوں پر ہی اکتفا کیے ہوئے ہیں۔ کسی میں اتنی ہمت نہیں کہ وہ بڑھ کر اسرائیل کا ہاتھ روک لیں۔سب کو اپنے اپنے مفادات عزیز ہیں۔اِن مسلم ریاستوں کے حکمرانوں کی ساری دولت اِنہی مغربی ممالک کی بینکوں میں رکھی ہوئی ہے۔اُن کا اقتدار بھی اِنہی غیر ملکی قوتوں کی مرہونِ منت ہے۔پھر وہ بھلا کیونکر کُھل کر اسرائیل سے مقابلہ کر نے کی ہمت دکھا سکتے ہیں۔


مصر کے سابق جمہوری صدر محمد مرسی نے فلسطینیوں کی سہولت کے لیے جنوبی غزہ سے منسلک مصر کا باڈرکھولنے کا جرأت مندانہ فیصلہ کیا تھا تو اُن کی حکومت کا خاتمہ کر دیا گیا۔اسلامی ممالک کے اندر حالیہ چند سالوں میں سیاسی بے چینیوں اور تبدیلیوں کو اگر سطحی بنیاد پر دیکھا جائے تو یہ اُن کا ذاتی معاملہ دکھائی دے گا لیکن اگر اُنہیں عالمی سازشوں کے تناظر میں دیکھا جائے تو حقیقت اِس کے بالکل برعکس دِکھائی دے گی۔

مصر میں گزشتہ دو تین سالوں میں انقلاب کے نام پر جو کچھ ہوا وہ بظاہر تو آمریت کے خلاف عوام الناس کی نفرت اور اُس سے بیزاری معلوم ہوگا۔ لیکن اب کیا ہو رہا ہے، ایک آمریت کے بعد دوسری آمریت اُن کے سروں پر مسلط کردی گئی ہے۔ ایک ڈکٹیٹرحسنی مبارک حکومت کا خاتمہ ہوگیا اور دوسرا ڈکٹیٹر جنرل عبدالفتح السیسی کی شکل میں بر سرِاقتدار آگیا۔ انقلابِ مصر کا سارا سحر اورجادو اپنا اثر کھو بیٹھا۔ تبدیلی کے خواہشمند عوام کے ہاتھوں کچھ نہ آیا۔ حکمرانوں کے چہرے بدل گئے لیکن نظام نہیں بدلہ۔

فلسطینیوں کی مدد کیلئے محمد مرسی نے جنوبی غزہ سے جو راستہ کھولا تھا وہ مصر کی نئی حکومت نے ایک بار پھر بند کردیا۔یہی سب کچھ اِس سارے کھیل کے پسِ پشت کارفرما ہے۔جن لوگوں کو محمد مرسی کا یہ اقدام ناگوار گذرا تھا اُنہی قوتوں نے اُنہیں اقتدار سے بیدخل کردیا۔عرب دنیا میں اُٹھنے والی ایسی تمام سیاسی بے چینیوں کے پسِ پردہ ایسی ہی عالمی سازشیں پل رہی ہیں۔خود ہمارے ملک میں بھی نام نہاد انقلاب کے پردوں میں یہی مقاصد اور عزائم پر ورش پا رہے ہیں۔

موجودہ حکومت کا برادر پڑوسی ملک چین کے ساتھ بڑھتا ہوا رابطہ اور تعاون کچھ عالمی طاقتوں کو ایک آنکھ نہیں بھا رہا۔ کاشغر سے گوادر تک ریلوے ٹریک اورشاہراہ بنانے کامنصوبہ اُنہیں پریشان کیے ہوئے ہے۔وہ کسی طور یہ ہونے نہیں دینا چاہتے۔ اِسی لیے یہاں انقلاب کا شوشہ چھوڑا گیا ہے۔ اِس قبل بھی جب میاں صاحب نے 28 مئی 1998 کو بل کلنٹن کی بار بار تنبیہ کی باوجود ایٹمی دھماکا کرڈالا تو اُسی وقت اُن کی حکومت کے خاتمے کا فیصلہ بھی لکھ دیا گیا۔ اِس فیصلے پر عمل درآمد میں گرچہ سوا سال کا عرصہ لگ گیا لیکن منطقی انجام کے طور بالاخر پر ہونا یہی تھا۔ اب دیکھتے ہیں کاشغر سے گوادر کا منصوبہ پایہء تکمیل کو پہنچ پاتا ہے یا حکومت کا کام تمام ہوجاتا ہے۔

بات ہو رہی تھی غزہ پر اسرائیلی ظلم و ستم کی اور مسلم مملک کی بے بسی اور بے حسی کی۔اسرائیل سے کئی گنا بڑی جغرافیائی ریاستوں پر مشتمل اور مال و دولت سے لبریز اِن ممالک کے پاس اگر کوئی کمی ہے تو صرف جوشِ و جذبے اور جرأت و ہمت کی۔چاروں طرف سے مسلم ممالک سے گِھراہوا اسرائیل آج فلسطینیوں پر ظلم و ستم ، سفاکیت اور بربریت کی مسلسل ہولناک وارداتیں کر رہا ہے اور سارا عالمِ اسلام صرف زبانی وکلامی احتجاج پر ہی اکتفا کیے ہوئے ہے۔ کوئی معصوم اور بے گناہ فلسطینیوں کی مدد کو نہیں آرہا۔کسی اسلامی ملک کے حکمراں میں اتنی ہمت و جرأت نہیں کہ وہ حق و باطل کے اِس معرکے میں حق کا بھر پور ساتھ دے۔

بلکہ وہ تو اِن صیہونی سازشوں اور ریشہ دوانیوں کو مزید مہمیز کرنے اور اُن دائرہ وسیع کرنے میں اُن کے معاون اور مددگار بنے ہوئے ہیں۔ سب کو اپنی اپنی فکر لگی ہوئی ہے۔ وہ اِس اطمینان اور خوش فہمی میں مگن ہیں کہ یہ سب کچھ خطہ فلسطین تک ہی محدود ہے ، اُن کی سر زمین اسرائیل کی ہولناکیوں سے محفوظ ہے۔ اُنہیں یہ نہیں معلوم کہ آج کا چھوٹا سا اسرائیل اُن کی اِن بزدلانہ حرکتوں کی وجہ سے جب ایک گریٹر اسرائیل بن جائے گا تو کوئی دوسرا اسلامی ملک بھی محفوظ نہیں رہے گا۔فلسطینیوں کی تباہی و بربادی پر اطمینان کرنے اورصرف اپنے ہی گھر میں چراغ جلائے رکھنے کے خواہش مند شاید اِس حقیقت سے ناآشنا اور بے خبر ہیں کہ جب آندھی آتی ہے تو چراغوں سے اُن کا تعارف نہیں پوچھا کرتی۔
Load Next Story