کوئلے سے بجلی کی پیداوار

چین اس وقت دنیا کا سب سے زیادہ کوئلہ پیدا کرنیوالا اور استعمال کرنیوالا ملک ہے۔۔۔

KHYBER AGENCY:
کوئلہ جو توانائی کا ایک اہم ذریعہ سمجھا جاتا ہے اس وقت دنیا میں بنیادی توانائی کا 26 فیصد ہے۔ 2030 تک یہ توانائی کی عالمی کھپت (Consumption) کا 28 فیصد اور بجلی کی پیداوار کا 70 فیصد تک ہوگا۔

چین اس وقت دنیا کا سب سے زیادہ کوئلہ پیدا کرنیوالا اور استعمال کرنیوالا ملک ہے جہاں پر بجلی کی 78 فیصد طلب اس کے ذریعے پوری ہوتی ہے جب کہ امریکا دوسرا بڑا ملک ہے جہاں پر توانائی کی 60 فیصد ضروریات کوئلے سے پیدا ہوتی ہے۔ دنیا کے مختلف ملکوں میں بجلی بنانے میں کوئلے کی اہمیت مندرجہ ذیل اعداد و شمار سے واضح ہوتی ہے۔ بجلی کی عالمی پیداوار میں مختلف ذرایع کا حصہ کوئلہ 41 فیصد، تیل (فرنس آئل) 5 فیصد، گیس 21 فیصد، نیوکلیئر 13 فیصد، پن بجلی (Hydro) 16 فیصد، جب کہ دیگر ممالک میں 4 فیصد ہے۔

دیگر ذرایع میں سولر، ہوا، جیوتھرمل اور کچرا وغیرہ شامل ہیں۔ مندرجہ بالا اعداد و شمار بجلی کی پیداوار میں کوئلے کی بڑھتی ہوئی اہمیت کو واضح کرتے ہیں جوکہ مستقبل میں بھی جاری رہنے کی امید ہے۔ 2030 تک بجلی کی پیداوار میں مختلف ذرایع کا تخمینہ کچھ اس طرح سے ہے۔ کوئلہ 38 فیصد، گیس 30 فیصد، ہائیڈرو/ پانی 13، نیوکلیئر 9 فیصد، تیل (فرنس آئل) 4 فیصد، جب کہ دیگر 6 فیصد ہے۔ کوئلے کی متوقع طلب (مختلف شعبوں کے لحاظ سے) بجلی کی پیداوار 79 فیصد، صنعت 12 فیصد، دیگر 8 فیصد، گھریلو استعمال 1 فیصد ہے۔

مندرجہ بالا اعدادوشمار بجلی کی پیداوار میں کوئلے پر بڑھتے ہوئے انحصار کی غمازی کرتے ہیں۔ اس حقیقت کے باوجود کہ اس کے نقاد اس کو ماحولیاتی آلودگی کا سبب قرار دیتے ہیں۔ دنیا کے کئی ترقی پذیر اور ترقی یافتہ ممالک کوئلے کا اضافی استعمال بجلی پیدا کرنے اور توانائی کی دوسری ضروریات پوری کرنے کے لیے کر رہے ہیں۔کچھ منتخب ملکوں کے اعداد وشمار جو بجلی کی پیداوار کے لیے کوئلے کا زیادہ استعمال کرتے ہیں، ان ممالک میں بجلی کی پیداوار میں کوئلے کا حصہ مراکش میں 51 فیصد، چیک ریپبلک 51 فیصد، پولینڈ 87 فیصد، جرمنی 49 فیصد، اسرائیل 48 فیصد، جنوبی افریقہ 93 فیصد، قازقستان 75 فیصد، بھارت 78 فیصد، برطانیہ 33 فیصد، یونان 52 فیصد، ڈنمارک 47 فیصد، چین 79 فیصد، آسٹریلیا 78 فیصد اور امریکا میں 45 فیصد ہے جب کہ اس کے بالکل برعکس پاکستان صرف 200 میگاواٹ بجلی کوئلے کے ذریعے پیدا کرتا ہے جوکہ ہماری بجلی کی کل پیداوار کا بہت ہی کم حصہ ہے۔

پاکستان کے اقتصادی سروے کے مطابق ہم اپنی بجلی کی پیداوار 65.15 فیصد حصہ تیل اور گیس جب کہ صرف 1فیصد کوئلے سے پیدا کرتے ہیں جوکہ کوئلے کے بے پناہ ذخائر ہونے کے باوجود انتہائی قلیل ہے۔ کم ہوتی ہوئی گیس سپلائی اور عالمی مارکیٹ میں بڑھتی ہوئی تیل کی قیمتوں کی وجہ سے اب ہمیں ایک مستقل بحران کا سامنا ہے جوکہ آنیوالے دنوں میں صرف شدید ہی ہوگا، اگر اس پر بروقت توجہ نہیں دی گئی۔


پاکستان دنیا بھر میں کوئلے کا چھٹا سب سے بڑا پروڈیوسر ہے اور ہمارے پاس 185 بلین ٹن کوئلے کے ذخائر موجود ہیں جن میں سے صرف تھر میں 175.5 بلین ٹن کوئلہ موجود ہے۔ سندھ اور بلوچستان کے کئی ساحلی علاقوں میں بھی کوئلے کے وسیع ذخائر موجود ہونے کے شواہد موجود ہیں۔ اب تک ہماری کوئلے کی کھپت صرف دو شعبوں تک محدود ہے جن میں سیمنٹ 58 فیصد کے ساتھ سرفہرست جب کہ اینٹوں کی پیداوار میں تقریباً 41 فیصد کوئلہ استعمال کیا جاتا ہے۔

اگر ہم کوئلے کی درآمد بھی شروع کردیں جوکہ اس مفروضے پر مبنی ہے کہ ہم مختلف مسائل کی وجہ سے اپنا کوئلہ اور اس کے ذخائر استعمال کرنے کے قابل نہیں تب بھی ہم اپنی پیداواری لاگت میں نمایاں کمی کرسکتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق درآمد شدہ تیل سے بجلی 12 سینٹ فی کلو واٹ اور جب کہ کوئلے سے یہ لاگت کم ہوکر تقریباً6 سے 7 سینٹ تک پہنچ جاتی ہے جب کہ ہائیڈرو (پن بجلی) میں یہ لاگت تقریباً 2 سینٹ ہے لیکن یہ بجلی بہت زیادہ موسمی تغیرات پر انحصار کرتی ہے کیونکہ ہمارے دریاؤں اور ڈیمز میں تقریباً 4 سے 5 مہینوں تک اتنا پانی نہیں ہوتا جو بجلی بنانے کے قابل ہو سکے۔ اس وقت فرنس آئل پر انحصار ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر پر مستقل بوجھ بن رہا ہے۔

کوئلے سے بجلی بننے کی صورت میں یہ تقریباً ڈیڑھ روپیہ فی یونٹ جب کہ فرنس آئل کی لاگت تقریباً 13 روپے فی یونٹ اور گیس سے بجلی کی لاگت تقریباً ساڑھے 5روپے فی یونٹ کے برابر ہے اگرچہ کوئلے کے یہ وسیع ذخائر 2016 سے پہلے کسی صورت قابل استعمال نہیں بنائے جاسکتے جس کی وجہ مختلف لاجسٹک مسائل ہیں لیکن ان کا منظم اور مربوط انداز میں استعمال اگلے 300 سال تک وافر مقدار میں بجلی پیدا کر کے ہمیں لوڈشیڈنگ کے مسائل سے ہمیشہ کے لیے نجات دلا سکتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ان کی کل مالیت سعودی عرب اور ایران کے مجموعی تیل کے ذخائر سے بھی زیادہ ہے لیکن فی الوقت ان خوابوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے ہمیں کئی رکاوٹوں کو عبور کرنا ہے۔ ان رکاوٹوں اور مسائل میں حکومتوں کی عدم توجہی، ترجیحات کی تبدیلی، امن وامان کی خراب صورتحال اور فنڈز کی متوقع کمی وغیرہ شامل ہے۔

ساتھ ہی ساتھ آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کا عدم مستقل مزاجی اور کوئلے کی خراب کوالٹی (کیونکہ اس صورت میں بہت زیادہ نمی شامل ہے جس کو صاف کرنے کی ضرورت ہے) بھی ان تمام منصوبوں کی راہ میں رکاوٹ ہے اگرچہ پرائیویٹ سیکٹر کی ایک بڑی بجلی بنانے والے کمپنی حب پاور اپنے پلانٹس کو آئل سے کوئلے میں منتقل کرنے کے لیے سرمایہ کاری کر رہی ہے جوکہ یقینا ایک قابل تعریف عمل ہے لیکن اب بھی اس مد میں بہت زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمتیں پاکستان میں مہنگائی کا ایک بہت بڑا سبب ہے .

جس سے بجلی چوری اور گردشی قرضہ جنم لیتا ہے جوکہ بالآخر طویل لوڈشیڈنگ پر منتج ہوتا ہے۔ اگرچہ موجودہ حکومت نے اس مسئلے کی سنگینی کا احساس کیا ہے مگر اب بھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت کو کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کو اپنی ترجیحات میں شامل کرنا ہوگا تاکہ قدرت کے دیے گئے اس وسیع خزانے کو قومی مفاد میں استعمال کر کے زیادہ سے زیادہ فوائد حاصل کیے جاسکیں۔ تھرمل پاور پر مزید انحصار کرنا ملکی معیشت کے لیے خودکشی کے مترادف ہوگا۔
Load Next Story