حادثہ واقعہ نہیں ہوتا

میرے محترم احتجاجیو! خود پرستی (نرگسیت) محض کوئی عادت نہیں ہے۔ بلکہ یہ ایک نفسیاتی مرض ہے

saifuzzaman1966@gmail.com

مجھے اپنے گزشتہ کالم ''آپ ہمیں جینے دیں'' سے متعلق کچھ مزید دلائل دینے کی ضرورت محسوس ہوئی لہٰذا اس کے مشتہر ہونے کے فوری بعد مجھے آپ کی خدمت میں پھر پیش ہونا پڑا۔ ''آپ'' سے میری مراد وہ تمام سیاسی جماعتیں اور ان کے راہنما ہیں جو اپنے احتجاجی دھرنوں اور ریلیوں کا آغاز کر رہے ہیں۔ میں اس ضمن میں بلا تمہید عرض کروں گا کہ کوئی واقعہ اس وقت تک صرف واقعہ ہی رہتا ہے جب تک اس میں کسی قسم کی ہنگامہ خیزی، توڑ پھوڑ، جلاؤ گھیراؤ یا انسانی جانوں کا اتلاف شامل نہ ہو، ورنہ یہ حادثے میں بدل جاتا ہے اور حادثہ کہلاتا ہے۔

مئی 2013 کے انتخابات جس میں خود آپ نے بھی دھاندلی کی شکایات کی تھیں اس حوالے سے آیندہ کے الیکشن میں انتخابی اصلاحات اور نظام میں ایسی تبدیلیاں جن کے بعد کسی بے اصولی، بے ضابطگی کی گنجائش باقی نہ رہے اس سلسلے میں اب تک کی پیش رفت کیا ہیں؟ بقول الیکشن کمیشن ہم نے آیندہ انتخابات کے لیے "Bio Metric" سسٹم کا بندوبست کرلیا ہے لیکن اس کا تجربہ وقتاً فوقتاً ہونے والے ضمنی انتخابات میں کیوں نہیں کیا جاتا؟

آپ چاہیں تو ان سب معاملات پر بھی حکومت کا گھیراؤ کرسکتے ہیں اور بطور متحدہ اپوزیشن کرنا چاہیے۔ جب کہ ایسا کرنے سے ملک کا بھی فائدہ ہوگا عوام کا بھی۔ ایک نظام مضبوط ہونا شروع ہوگا اور مضبوط تر ہوتا چلا جائے گا۔پھر حکومت بدلے گی لیکن صرف الیکشن کے نتیجے میں۔ سیاسی جماعتوں کی ہار جیت کا انحصار ان کے کاموں پر ہوگا۔ ملک و قوم کے لیے انھوں نے اپنے دور اقتدار میں کیا کیا۔ اس پر ووٹ پڑے گا۔ کون کس صوبے، کس قوم سے تعلق رکھتا ہے کس عقیدے کا ماننے والا ہے یہ باتیں ضمنی اور جزوی سی رہ جائیں گی۔

اور ہوگا تب جب کوئی بھی سیاسی رہنما، سیاسی جماعت ایسی کسی بھی کارروائی سے گریز کرے جو حکومت کو گرانے میں معاون ثابت ہو۔ دوسری صورت میں کم ازکم میں کسی خفیہ ہاتھ کے ملوث ہونے پر یقین نہیں رکھتا۔ پس پردہ کسی نادیدہ قوت کے وجود سے سراسر انکار کرتا ہوں۔ کیونکہ یہ ہم ہیں۔ ہم ملک کے لوگ، ملک کے سیاستدان جو ہمہ وقت ایک چور زینے کی تلاش میں رہتے ہیں۔ ہمارا نصب العین ایک "Short Cut" ہے۔ غریبی دور کرنی ہے تو بینک لوٹ لو، ٹارگٹ کلنگ کرلو، دھماکے کروا دو یا کوئی نہ ملے تو اپنے ہی پیٹ سے بم باندھ لو۔ لیکن کام نہیں کرنا، محنت سے بچنا ہے۔ رزق حلال ! وہ تو دور دراز کا راستہ ہے۔ کون اپنائے، عمر بیت جاتی ہے اور کچھ ہاتھ نہیں آتا۔

اس طرح سے حکومت میں آنا ہے تو جو سامنے ہے اسے ہٹا دو۔ گرا دو اس درخت کو جو جنگل میں قد آور ہے۔ احتجاج کرو، دھرنے دو، جلاؤ گھیراؤ کرو، محرومی کے نعرے لگاؤ۔ آدمی بھی مرتے ہیں تو مروا دو۔ غریب غربا ہیں تھوک کے بھاؤ اور مل جائیں گے۔ لیکن آغاز کے لیے ایسا دن منتخب کرو جس میں سارے سال کی تھکی ہاری قوم جسے اس دن کا شدت سے انتظار ہوتا ہے کہ وہ اپنے بچوں کے ساتھ کوئی خوشی منالیں۔ اگلے دن سے تو پیٹھ پر دھوپ پڑنی ہی ہے۔ اس دن ملک کو جام کرو۔

میرے محترم احتجاجیو! خود پرستی (نرگسیت) محض کوئی عادت نہیں ہے۔ بلکہ یہ ایک نفسیاتی مرض ہے جس کے تنے سے سیکڑوں زہریلی شاخیں نکلتی ہیں۔ جو ابتدا میں ہر اس شخص کو گھائل کرتی ہیں جو مریض سے قریب ہو۔ پھر رفتہ رفتہ خود مریض کو بھی موت کے گھاٹ اتار دیتی ہیں۔ یہ "Egoism"کیا ہے؟ کہ میں نہیں تو کچھ بھی نہیں۔ گویا ایک ایسے شخص کی مثال جس نے قرار دے لیا ہو کہ ساری کائنات صرف اس کی ذات کے لیے خلق ہوئی ہے۔ جب تک وہ زندہ ہے تو دنیا قائم ہے، جب وہ ختم ہوگا تو باقی سب کچھ بھی ختم ہوجائے گا۔ لہٰذا وہ شخص اپنے ہر عمل کو انتہا پر جاکر انجام دیتا ہے۔ یا آخری سمجھ کر کرتا ہے۔ ممکن ہے کہ آپ میری اس رائے کے نتیجے میں مجھے انتہا پسندی کے کسی درجے پر فائز کردیں۔ لیکن یقین جانیے کہ مجھ سمیت آج وطن عزیز کا ہر شخص اس بے یقینی سے دوچار ہے جس کے بعد یہ طے نہیں ہوپاتا کہ آیندہ کیا ہونے والا ہے؟ کیا ملک میں مارشل لا نافذ ہوگا یا یہی حکومت اپنا باقی ماندہ وقت پورے کرلے گی؟ ملک کا کیا ہوگا، کون سی سیاسی جماعت اقتدار میں آئے گی اور کس کے سہارے سے؟


میرے بھائی! آپ ''یقین کو کیا سمجھتے ہیں۔ یہ وہ نعمت ہے جو صرف خوش نصیب اقوام کے حصے میں آتی ہے۔ غالباً جن سے خدا راضی ہو۔ جنھیں معلوم ہوتا ہے کہ ان کے ملک میں کوئی سازش نہیں کرسکتا، کوئی ناانصافی نہیں کرسکتا، کل جب وہ سو کر اٹھیں گے تو وہ اپنی زندگی کے ایک مزید خوشگوار دن کو پالیں گے۔ کل جب ان کے بچے بڑے ہوں گے تو وہ ایک ترقی یافتہ نظام سے استفادہ کر رہے ہوں گے۔ اور اسی یقین کو لے کر وہ محنت کرتے ہیں، پرخلوص ہوکر، بڑی ایمانداری سے۔ اور وہ سب لوگ صرف اپنے ملک کے نام اور حوالے کی شناخت رکھتے ہیں۔خواہ وہ اپنے ملک کے کسی بھی حصے یا ریاست میں رہتے ہوں۔ وہ صرف Nationalist ہوتے ہیں۔ جب ان کا ملک کسی مصیبت سے دوچار ہوتا ہے تو وہ سب مل کر بحیثیت قوم اس کا مقابلہ کرتے ہیں۔ اور اسے مار بھگاتے ہیں۔ ہم پاکستانی بھی 67 سال سے ایسی ہی خوش بختی کے منتظر ہیں۔

ہم نے درجنوں بار آپ کے انتخاب میں اپنی ساری امیدوں کو Invest کیا ہے۔ قطاروں میں لگ کر گھنٹوں کھڑے رہے۔ آپ کو ووٹ دیا، آپ کے جلسوں میں آپ کی آمد سے بہت پہلے اپنے تمام کام چھوڑ کر آپ کا انتظار کیا، آپ تشریف لائے تو گلے پھاڑ کر آپ کے لیے نعرے لگائے، رقص کیا، جب آپ حکومت میں آئے اور وزیر، مشیر بنے تو آپ کے بنگلوں کے بڑے بڑے آہنی دروازوں پر بھی مہینوں تک اپنے چھوٹے موٹے کاموں کے لیے ازسر نو قطاریں لگائیں اور بالآخر آپ کی ''نا'' سن کر گھروں کو لوٹ گئے۔

ہر مرتبہ آپ کے دعوے، وعدے جھوٹے ثابت ہوئے۔ ہم نے پھر بھی امید کا دامن نہیں چھوڑا اور اب تک ہم آپ کے گلے سڑے وعدوں کو زندگی کی ٹوکری میں اٹھائے گلی گلی پھر رہے ہیں۔
لیکن یہ امید پھر بھی رکھتے ہیں۔ اگر جمہوریت ملک میں مستقل نظام کی شکل اختیار کرلے تو شاید کبھی ہماری آواز، ہماری رائے کو بھی استحکام حاصل ہوجائے۔ معذرت کے ساتھ اور ان اشعار کے ساتھ اجازت درکار ہوگی:

سورج سے مت پوچھیے پرچھائیوں کا درد
وہ جانتا ہے اپنی ہی تنہائیوں کا درد
بنگلوں کی سمت آپ بہت غلط چل پڑے
کچے گھروں سے پوچھیے مہنگائیوں کا درد
Load Next Story