مسائل کا حل
رمضان کے پہلے دوسرے روز ہمارے قصائی صاحب نے بڑھے ہوئے ریٹس بتائے بحث و تکرار کے بعد گوشت کی بوٹیاں۔۔۔
رمضان المبارک کا پہلا روزہ شروع ہوا اور مہنگائی کا گراف اونچا ہوا حالانکہ حکومتی اداروں کی جانب سے بہت کہا گیا کہ عوام کو سستے داموں اشیا فراہم کی جائیں گی صورتحال تو یہ تھی کہ گوشت کی قیمتوں میں واضح فرق نظر آیا۔
اس کے علاوہ بھی مہنگائی کا جادو ہر جگہ نظر آتا رہا فروٹ کی اہمیت رمضان میں جس قدر محسوس ہوتی ہے اس کا احساس ہمارے فروٹ فروخت کرنیوالوں کو بخوبی ہے لہٰذا کیلے، خربوزے کی قیمتوں میں جس تیزی سے گراف چڑھا کہ توبہ ہی بھلی یہاں تک کہ گلا سڑا فروٹ بھی خوب فروخت ہوا اور پاکستانی سفید پوش عوام کا خوب تماشا بنا۔ پورے رمضان تو جو حال رہا سو رہا لیکن آخری عشرے میں عبادت کی جانب تو عوام کا رجحان ہوتا ہی ہے لیکن قیمت کے بڑھنے کا جو رجحان رہا کہ نہ پوچھیے ہر دوسری شے پر مزید قیمت بڑھی ہوئی نظر آئی۔
رمضان کے پہلے دوسرے روز ہمارے قصائی صاحب نے بڑھے ہوئے ریٹس بتائے بحث و تکرار کے بعد گوشت کی بوٹیاں بناتے نہایت سنجیدگی سے فرمانے لگے ہمارے غیر مسلم بھائیوں کو دیکھیے کرسمس کے موقعے پر باہر کے ملکوں میں قیمتیں کم کردی جاتی ہیں تاکہ غریبوں کو بھی خریداری میں آسانی ہو۔ اس وقت ہمارے دل سے کوئی پوچھتا کہ ان کے اس بیان سے وہاں کتنے ابال اٹھ رہے تھے کاش تم بھی حکومت کی مقررہ کردہ قیمت یا اپنی من مانی قیمت پر گوشت فروخت کرکے پہلی مثال قائم کرو لیکن ہائے رے بے حسی۔ ایک چیز ہوتی ہے قومی کردار ، اس کو اسی معاشرتی آئینہ میں دیکھنے کی کبھی کوشش کی جائے تو جتنی درد انگیزصورتحال نمودار ہوگی اس کا کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا۔
اس بار عید سے قبل ماہ رمضان میں یوں لگا جیسے ملک کسی قسم کے قانون وکاروباری اخلاق سے محروم ہے جس کا جو مرضی میں آیا اس نے چیزوں کے دام رکھے اور عوام کی جیبوں سے دکانداروں،تاجروں نے خوب پیسہ نکالا۔معصوم بچوں جن کی عمریں ایک سال بھی نہیں تھیں ان کے عید کے جوڑے یعنی قمیض شلوار 15 سو روپے سے لے کر 2000 روپے تک میں بکے۔ایسی شرم ناک لوٹ مار پاکستان کی تاریخ میں کبھی نہیں دیکھی گئی۔
جو ٹماٹر عید سے ایک ہفتہ قبل 30 روپے فی کلو گرام بک رہے تھے ان کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں اور ٹماٹر 80 روپے کلو فروخت کیا گیا۔ قیمتوں میں اضافے کا تو پورے مہینے شور رہا لیکن قیمتوں پر کنٹرول کا خانہ خالی رہا ،کوئی حکومتی کارروائی موثر ثابت نہیں ہوئی کیونکہ سارا معاشرہ کرپٹ ، بے لگام،بے سمت اور اخلاق سے عاری لگتا ہے۔
اسی طرح صفائی ستھرائی کے حوالے سے جو حال پاکستان کے مختلف شہروں کا ہے اس کی مثال نہیں ملتی بڑے شہر والے تو رونا روتے ہی ہیں چھوٹے شہروں کا کیا کریں اوپر سے برسات کے موسم میں جب اردگرد کی صورتحال مزید دگرگوں ہوجاتی ہے کچھ سمجھ نہیں آتا کہ اس حوالے سے ہمارے ملک میں کوئی انتظام ہے یا نہیں ابھی کچھ عرصہ پہلے پانی اور سیوریج کے حوالے سے شکایت درج کرنے کا سوچا اور نیٹ پر اس سلسلے میں کوشش کی تو ہمارے یہاں ایسی کوئی صورتحال نظر نہیں آئی اور جو کچھ نظر آیا وہ ایک عام معصوم سے شہری کے لیے کرنا خاصا مشکل تھا اتفاقاً دہلی کے اس نظام پر شکایت درج کرنے کے لیے کلک کیا تو خاصی آسان اور معقول صورتحال نظر آئی یعنی بذریعہ میل شہری اپنی شکایت پہنچا سکتے ہیں۔
ہمارے یہاں نجانے کیوںاس کو مشکل بنایا جاتا ہے شاید اس لیے کہ شکایت کرنیوالے گھبرائیں یا شکایت ہی نہ کریں، کچھ اسی طرح کی صورتحال بجلی سے متعلق ہے ہماری سادہ اور کم پڑھی لکھی عوام تو اس سلسلے سے خاصی نابلد ہے اور ہمارے یہاں حال یہ ہے کہ جب تک بذریعہ فون اپنی شکایت خاص نمبروں پر درج نہ کرائی جائے تو صارف کی سننے والا کوئی نہیں۔ بجلی کے دفاتر کے باہر بہت سے ایسے لوگ بھی نظر آتے ہیں جو اپنا بجلی کا بل لے کر شکایت درج کرانے آتے ہیں ۔استعمال کیا ہو نہ کیا ہو لیکن وصولیابی میں کوئی کمی بیشی نظر نہیں آتی، ہم میں سے کتنے لوگوں نے اس غفلت پر شکایت درج کروائی جب کہ ہمارے پاس ہر مہینے باقاعدگی سے پانی اور سیوریج کے بلز آتے ہیں ۔
شہر میں کہیں آتشزدگی کا حادثہ ہو جائے تو اس بات کا رونا رویا جاتا ہے کہ آگ بجھانے والی گاڑی کی تاخیر سے آگ سے اتنا نقصان ہوا اتنی معصوم جانیں گئیں، بلدیہ کی گارمنٹ فیکٹری جس میں لگنے والی آگ سے خاصی انسانی جانوں کا ضیاع ہوا تھا یہ مسئلہ بھی درپیش رہا، صرف یہی نہیں فائر فائٹرز کے پاس نامناسب آلات اور پانی کی کمی کا مسئلہ بھی رہتا ہے۔کچھ عرصہ قبل گھر کے سامنے کوڑا پھینکنے کے جھگڑے پر ایک خاتون نے اپنی پڑوسن کی جان لے لی ایک معمولی نوعیت کی تکرار ایک خاتون سے دوسری خاتون کی جان لینے تک گناہ کروا بیٹھی یہ تمام مسائل جو دیکھنے میں معمولی نظر آتے ہیں لیکن ان کا تعلق بڑے بڑے مسائل کو جنم دیتا ہے ایسا نہیں ہے کہ عوام اخراجات کی مد میں معاوضہ ادا نہیں کرتے بلوں کی صورت میں یہ ہر مہینہ ہوتا ہے، پھر بھی گندگی اور غلاظتوں کے ڈھیر پاکستان کے گلی محلوں کو کیوں شرمندہ کر رہے ہیں، بجلی کے ستائے عوام سڑکوں پر ہجوم کیوں اکٹھا کرتے ہیں۔
کوئی لانگ مارچ کرے، کوئی انقلاب کی باتیں کرے تو کوئی دھاندلی کا رونا روئے، یقین جانیے پاکستانی عوام کے مسائل بہت سادہ اور حقیقی ہیں نیک نیتی سے اسے نبٹائیے پھر دیکھیے پاکستان کی شان۔ ہر رات چاندنی رات ہر دن عید کا دن ہوگا۔ ذرا دیکھیے تو یہ قوم بہت معصوم اور محبت کرنے والی ہے۔
سب سے دردناک المیہ سمندر میں ڈوبنے والوں کا تھا۔ 33 افراد جو سمندر نے نگل لیے،اہل خانہ کی عید کی خوشیاں سوگ میں بدل گئیں، کتنے صدمے ان گھرانوں نے سہے ہونگے جب ان کے جواں بیٹوں ، بھائیوں یا عزیزوں کی میتیں ان کے گھر لائی گئی ہوں گی۔ان اہلکاروں اور افسر شاہی کے خلاف کیا کارروائی ہوگی جو تلاطم خیز سمندر میں نہانے سے منع کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کرنا ہی بھول گئے۔
حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں
اس کے علاوہ بھی مہنگائی کا جادو ہر جگہ نظر آتا رہا فروٹ کی اہمیت رمضان میں جس قدر محسوس ہوتی ہے اس کا احساس ہمارے فروٹ فروخت کرنیوالوں کو بخوبی ہے لہٰذا کیلے، خربوزے کی قیمتوں میں جس تیزی سے گراف چڑھا کہ توبہ ہی بھلی یہاں تک کہ گلا سڑا فروٹ بھی خوب فروخت ہوا اور پاکستانی سفید پوش عوام کا خوب تماشا بنا۔ پورے رمضان تو جو حال رہا سو رہا لیکن آخری عشرے میں عبادت کی جانب تو عوام کا رجحان ہوتا ہی ہے لیکن قیمت کے بڑھنے کا جو رجحان رہا کہ نہ پوچھیے ہر دوسری شے پر مزید قیمت بڑھی ہوئی نظر آئی۔
رمضان کے پہلے دوسرے روز ہمارے قصائی صاحب نے بڑھے ہوئے ریٹس بتائے بحث و تکرار کے بعد گوشت کی بوٹیاں بناتے نہایت سنجیدگی سے فرمانے لگے ہمارے غیر مسلم بھائیوں کو دیکھیے کرسمس کے موقعے پر باہر کے ملکوں میں قیمتیں کم کردی جاتی ہیں تاکہ غریبوں کو بھی خریداری میں آسانی ہو۔ اس وقت ہمارے دل سے کوئی پوچھتا کہ ان کے اس بیان سے وہاں کتنے ابال اٹھ رہے تھے کاش تم بھی حکومت کی مقررہ کردہ قیمت یا اپنی من مانی قیمت پر گوشت فروخت کرکے پہلی مثال قائم کرو لیکن ہائے رے بے حسی۔ ایک چیز ہوتی ہے قومی کردار ، اس کو اسی معاشرتی آئینہ میں دیکھنے کی کبھی کوشش کی جائے تو جتنی درد انگیزصورتحال نمودار ہوگی اس کا کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا۔
اس بار عید سے قبل ماہ رمضان میں یوں لگا جیسے ملک کسی قسم کے قانون وکاروباری اخلاق سے محروم ہے جس کا جو مرضی میں آیا اس نے چیزوں کے دام رکھے اور عوام کی جیبوں سے دکانداروں،تاجروں نے خوب پیسہ نکالا۔معصوم بچوں جن کی عمریں ایک سال بھی نہیں تھیں ان کے عید کے جوڑے یعنی قمیض شلوار 15 سو روپے سے لے کر 2000 روپے تک میں بکے۔ایسی شرم ناک لوٹ مار پاکستان کی تاریخ میں کبھی نہیں دیکھی گئی۔
جو ٹماٹر عید سے ایک ہفتہ قبل 30 روپے فی کلو گرام بک رہے تھے ان کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں اور ٹماٹر 80 روپے کلو فروخت کیا گیا۔ قیمتوں میں اضافے کا تو پورے مہینے شور رہا لیکن قیمتوں پر کنٹرول کا خانہ خالی رہا ،کوئی حکومتی کارروائی موثر ثابت نہیں ہوئی کیونکہ سارا معاشرہ کرپٹ ، بے لگام،بے سمت اور اخلاق سے عاری لگتا ہے۔
اسی طرح صفائی ستھرائی کے حوالے سے جو حال پاکستان کے مختلف شہروں کا ہے اس کی مثال نہیں ملتی بڑے شہر والے تو رونا روتے ہی ہیں چھوٹے شہروں کا کیا کریں اوپر سے برسات کے موسم میں جب اردگرد کی صورتحال مزید دگرگوں ہوجاتی ہے کچھ سمجھ نہیں آتا کہ اس حوالے سے ہمارے ملک میں کوئی انتظام ہے یا نہیں ابھی کچھ عرصہ پہلے پانی اور سیوریج کے حوالے سے شکایت درج کرنے کا سوچا اور نیٹ پر اس سلسلے میں کوشش کی تو ہمارے یہاں ایسی کوئی صورتحال نظر نہیں آئی اور جو کچھ نظر آیا وہ ایک عام معصوم سے شہری کے لیے کرنا خاصا مشکل تھا اتفاقاً دہلی کے اس نظام پر شکایت درج کرنے کے لیے کلک کیا تو خاصی آسان اور معقول صورتحال نظر آئی یعنی بذریعہ میل شہری اپنی شکایت پہنچا سکتے ہیں۔
ہمارے یہاں نجانے کیوںاس کو مشکل بنایا جاتا ہے شاید اس لیے کہ شکایت کرنیوالے گھبرائیں یا شکایت ہی نہ کریں، کچھ اسی طرح کی صورتحال بجلی سے متعلق ہے ہماری سادہ اور کم پڑھی لکھی عوام تو اس سلسلے سے خاصی نابلد ہے اور ہمارے یہاں حال یہ ہے کہ جب تک بذریعہ فون اپنی شکایت خاص نمبروں پر درج نہ کرائی جائے تو صارف کی سننے والا کوئی نہیں۔ بجلی کے دفاتر کے باہر بہت سے ایسے لوگ بھی نظر آتے ہیں جو اپنا بجلی کا بل لے کر شکایت درج کرانے آتے ہیں ۔استعمال کیا ہو نہ کیا ہو لیکن وصولیابی میں کوئی کمی بیشی نظر نہیں آتی، ہم میں سے کتنے لوگوں نے اس غفلت پر شکایت درج کروائی جب کہ ہمارے پاس ہر مہینے باقاعدگی سے پانی اور سیوریج کے بلز آتے ہیں ۔
شہر میں کہیں آتشزدگی کا حادثہ ہو جائے تو اس بات کا رونا رویا جاتا ہے کہ آگ بجھانے والی گاڑی کی تاخیر سے آگ سے اتنا نقصان ہوا اتنی معصوم جانیں گئیں، بلدیہ کی گارمنٹ فیکٹری جس میں لگنے والی آگ سے خاصی انسانی جانوں کا ضیاع ہوا تھا یہ مسئلہ بھی درپیش رہا، صرف یہی نہیں فائر فائٹرز کے پاس نامناسب آلات اور پانی کی کمی کا مسئلہ بھی رہتا ہے۔کچھ عرصہ قبل گھر کے سامنے کوڑا پھینکنے کے جھگڑے پر ایک خاتون نے اپنی پڑوسن کی جان لے لی ایک معمولی نوعیت کی تکرار ایک خاتون سے دوسری خاتون کی جان لینے تک گناہ کروا بیٹھی یہ تمام مسائل جو دیکھنے میں معمولی نظر آتے ہیں لیکن ان کا تعلق بڑے بڑے مسائل کو جنم دیتا ہے ایسا نہیں ہے کہ عوام اخراجات کی مد میں معاوضہ ادا نہیں کرتے بلوں کی صورت میں یہ ہر مہینہ ہوتا ہے، پھر بھی گندگی اور غلاظتوں کے ڈھیر پاکستان کے گلی محلوں کو کیوں شرمندہ کر رہے ہیں، بجلی کے ستائے عوام سڑکوں پر ہجوم کیوں اکٹھا کرتے ہیں۔
کوئی لانگ مارچ کرے، کوئی انقلاب کی باتیں کرے تو کوئی دھاندلی کا رونا روئے، یقین جانیے پاکستانی عوام کے مسائل بہت سادہ اور حقیقی ہیں نیک نیتی سے اسے نبٹائیے پھر دیکھیے پاکستان کی شان۔ ہر رات چاندنی رات ہر دن عید کا دن ہوگا۔ ذرا دیکھیے تو یہ قوم بہت معصوم اور محبت کرنے والی ہے۔
سب سے دردناک المیہ سمندر میں ڈوبنے والوں کا تھا۔ 33 افراد جو سمندر نے نگل لیے،اہل خانہ کی عید کی خوشیاں سوگ میں بدل گئیں، کتنے صدمے ان گھرانوں نے سہے ہونگے جب ان کے جواں بیٹوں ، بھائیوں یا عزیزوں کی میتیں ان کے گھر لائی گئی ہوں گی۔ان اہلکاروں اور افسر شاہی کے خلاف کیا کارروائی ہوگی جو تلاطم خیز سمندر میں نہانے سے منع کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کرنا ہی بھول گئے۔
حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں