پاکستان میں تاریخی موضوعات پر بننے والی فلمیں
پاکستان میں اب تک تقریباً ایک درجن سے زائد فلمیں تاریخی موضوعات پر بنی ہیں۔
پاکستان میں اب تک تقریباً ایک درجن سے زائد فلمیں تاریخی موضوعات پر بنی ہیں۔ جن میں سے کچھ کے بارے میں ہم مختصراً بیان کرتے ہیں۔
چنگیز خان
ہمارے یہاں سب سے پہلی تاریخی فلم ''چنگیز خان'' بنی تھی مگر بری طرح فیل ہوگئی۔ اس میں ایک نئے ہیرو کامران کے مقابلے میں نیلو کو بطور ہیروئن لیا گیا تھا۔ اگرچہ اس کے موسیقار رشید عطرے تھے مگر اس فلم کا صرف ایک ہی نغمہ مقبول ہوا اور آج یہ ہمارا قومی نغمہ بن چکا ہے، جو اکثر فوجی بینڈ پر سرکاری تقریبات میں گایا جاتا ہے۔ اس کو عنایت حسین بھٹی نے گایا تھا اور اس کے بول ہیں۔
اللہ کی رحمت کا سایہ
توحید کا پرچم لہرایا
اے مرد مجاہد جاگ ذرا
اب وقت شہادت ہے آیا۔ اللہ اکبر۔ اللہ اکبر
اس نغمے کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے اور فلموں میں بھی اس طرح کے گیت شامل کئے گئے مگر جو شہرت اس کو ملی وہ کسی اور نغمے کو نہ مل سکی۔ اس فلم کے ہدایتکار رفیق سرحدی تھے، یہ فلم 24 جنوری 1958ء کو ریلیز ہوئی تھی۔
رانی روپ متی باز بہادر
اس کے ہدایتکار ذکا اللہ اور موسیقار تصدق حسین تھے۔ اس فلم کی موسیقی پر انہیں پہلا صدارتی ایوارڈ بھی ملا تھا مگر یہ ایک ناکام فلم تھی۔ اس میں ہیروئن کا کردار شمیم آرا نے اور ہیرو کا اسلم پرویز نے ادا کیا تھا۔ یہ ایک سچے تاریخی واقعہ پر مبنی فلم تھی جو دور اکبری کا ایک یاد گار واقعہ ہے۔ یہ فلم 2 دسمبر 1960ء کو ریلیز ہوئی تھی۔
عجب خان
یہ صوبہ سرحد کے ایک بہادر انسان کا کردار ہے۔ جنگ آزادی کے سلسلے میں آج بھی سب ہی لوگ اس کو یاد کرتے ہیں۔ اس نے انگریزوں کو ناکوں چنے چبوا دیئے تھے۔ اس کردار پر جب فلم بنی تو اس کی خوب شہرت ہوئی مگر بزنس کے اعتبار سے نرم گئی۔ اس کی کہانی ریاض شاہد کی تھی اور ہدایت کار خلیل قیصر تھے۔ اس میں مارگریٹ نامی لڑکی کو پہلی بار بطور ہیروئن پیش کیا گیا تھا، جو بعد میں کسی فلم میں نظر نہ آئی۔ دیگر اداکاروں میں سدھیر اور حسنہ شامل تھے۔ یہ فلم 3 فروری 1961ء کو ریلیز ہوئی تھی۔
نواب سراج الدولہ
مسلمانوں کے اس ہیرو پر سابق مشرقی پاکستان میں فلم بنائی گئی تھی۔ یہ فلم اپنے زمانے کی ایک بے حد کامیاب فلم تھی۔ اس کے ہدایتکار اور موسیقار خان عطاء الرحمن تھے جنہوں نے اس میں اداکاری کے جوہر بھی دکھائے تھے۔ مشرقی پاکستان کے اداکار انور حسین نے اس فلم میں مرکزی کردار اس قدر خوبصورتی سے ادا کیا کہ آج بھی لوگوں کے ذہن پر نقش ہے۔ اس پر انہیں نگار ایوارڈ بھی ملا تھا۔ دیگر اداکاروں میں عطیہ اور سجاتا شامل تھیں۔ یہ فلم 23 مارچ 1947ء کو ریلیز ہوئی۔
شہنشاہ جہانگیر
یہ بھی ایک تاریخی فلم ہے اس میں بھارتی فلم ''پکار'' کی کہانی کو فلمایا گیا تھا۔ مرکزی کردارصبیحہ خانم اور سنتوش کمار نے ادا کئے تھے جبکہ موسیقی کمال احمد نے دی تھی۔ یہ فلم بھی بری طرح فیل ہو گئی تھی۔ اس کے ہدایتکار پرویز نامی ایک صاحب تھے۔ اس فلم کے بعد ان کا نام پھر کسی اور فلم کے سلسلے میں نظر نہ آیا۔ یہ 9فروری 1968ء کو ریلیز ہوئی تھی۔
شہید تیتومیر
یہ فلم جنگ آزادی کے موضوع پر مشرقی پاکستان میں بنی اور ناکام رہی تھی۔ اس کے ہدایتکار ابن میزان تھے۔ جنگ آزادی کا یہ کردار اتنا مشہور نہ تھا کہ لوگ اس کو شوق سے دیکھتے۔ یہ فلم مشرقی پاکستان کی ایک ناکام فلم تھی یہ 21 فروری 1969ء میں ریلیز ہوئی تھی۔
غرناطہ
نسیم حجازی کے تاریخی ناولوں میں سے ایک ناول ''شاہین'' کو غرناطہ کے نام سے فلمایا گیا۔ یہ فلم ریاض شاہد نے بنائی تھی۔ اس میں مرکزی کردار ایک نئے ہیرو جمیل نے ادا کیا تھا۔ جو بھارتی اداکارہ تبو کے والد تھے۔ اس فلم میں یوسف خان کا کردار بہت لاجواب تھا۔ ہیروئن روزینہ تھی۔ یہ بھی اگرچہ ایک ناکام فلم تھی مگر اپنے منفرد موضوع کی وجہ سے اعلیٰ طبقے میں بہت پسندکی گئی۔ یہ 21 مئی 1971ء کو ریلیز ہوئی تھی۔
صلاح الدین ایوبی
اس فلم کے ہدایتار ابراہیم باقری اور موسیقار سہیل رعنا تھے۔ یہ فلم کراچی میں مکمل کی گئی تھی۔ اس فلم میں سب اداکار نئے تھے۔ ہیروئن کا کردار پارہ نے ادا کیا تھا اور ہیرو کا کردار جونت آرگن نے۔ صلاح الدین ایوبی پر تیار کی جانے والی یہ فلم کمزور ہدایتکاری اور بے جان اسکرپٹ کی وجہ سے بری طرح ناکام رہی۔ یہ 16 جون 1972ء کو نمائش پذیر ہوئی تھی۔
زرق خان
یہ کردار بھی عجب خان کی طرح جنگ آزادی کے حوالے سے مشہور ہے جو انگریزوں کے خلاف لڑا تھا۔ یہ بہادر انسان ہماری جنگ آزادی کا ہیرو ہے۔ اس کا تعلق پوٹھوہار کے علاقے سے تھا۔ لوگوں کو یہ فلم دیکھنے کا بڑا اشتیاق تھا مگر اس کے کمزور اسکرپٹ اور ناکام موسیقی نے اس کو فلاپ کر دیا حالانکہ اس کے ہدایتکار اسلم ڈار تھے۔ اس کے اداکاروں میں عالیہ' جمال اور سطان راہی وغیرہ شامل تھے۔ اس کی موسیقی کمال احمد نے دی تھی۔ اس کی نمائش 16 جنوری 1973ء کو ہوئی تھی۔
ٹیپو سلطان
یہ بھی ایک ناکام فلم تھی اور اس کی ناکامی کی وجہ اس کا ناتجربہ کار ہدایت کار تھا۔ اس کے ہدایتکار رزاق تھے یہ بڑے بدقسمت ہدایتکار تھے۔ انہوں نے تین اور فلمیں بھی بنائیں مگر سب ناکام رہیں۔ اس فلم کی موسیقی اختر حسین نے دی تھی۔ مرکزی کردار محمد علی اور روحی بانو نے ادا کئے تھے۔ حیدر علی اور ٹیپو سلطان ہماری تاریخ کے دو ایسے کردار ہیں جنہیں ذہانت کے ساتھ فلمایا جاتا تو کامیاب فلمیں بنتیں مگر اس فلم کو جس طرح فلمایا گیا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تاریخ کو صحیح طور پر پیش نہیں کیا جا سکا۔ یہ فلم 4 نومبر 1977ء کو ریلیز ہوئی تھی۔
حیدر علی
یہ ایک ایسی فلم تھی جس میں ایک کامیاب فلم کی ساری باتیں موجود تھیں۔ اس کے ہدایتکار مسعود پرویز اور موسیقار خواجہ خورشید انور تھے جبکہ اداکاروں میں محمد علی' ممتاز' صبیحہ خانم اور طالش جیسے اداکار تھے مگر اسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ یہ فلم نسیم حجازی کے ناول ''اور تلوار ٹوٹ گئی'' پر فلمائی گئی تھی۔ یہ فلم یکم ستمبر 1978ء کو ریلیز ہوئی تھی۔
محمد بن قاسم
کراچی میں ہدایتکار اکبر بنگلوری نے محمد بن قاسم کی زندگی پر ایک فلم بنائی تھی۔ جس کی موسیقی مرحوم تصدق حسین نے دی تھی۔ جو بری طرح ناکام رہی۔ اس کے اداکاروں میں نشو' سنگیتا' ناظم' ادیب اور طالش شامل تھے۔ اتنے بڑے اداکاروں کے ہوتے ہوئے بھی اس فلم کا فیل ہو جانا باعث حیرت ہے۔ اس کی موسیقی بڑی کمزور ثابت ہوئی اور کوئی نغمہ بھی ہٹ نہ ہو سکا۔ بے جان اسکرپٹ اور کمزور ہدایات اس لازوال کردار پر بننے والی فلم کو لے ڈوبے۔ محمد بن قاسم ہمارے صوبہ سندھ کے حوالے سے ایک تابندہ اور درخشاں نام ہے۔ 5 جنوری 1979ء کو یہ فلم نمائش پذیر ہوئی تھی۔
جنرل بخت خان
یہ جنگ آزادی کے ہیرو ہیں۔ جنگ آزادی کے سلسلے میں جنرل بخت خان کا نام سرفہرست ہے۔ ان کی زندگی پر بننے والی یہ فلم بدقسمتی سے فیل ہو گئی۔ اس کے ہدایتکار سرشار ملک تھے، موسیقی اختر حسین نے دی تھی جبکہ اداکاروں میں محمد علی' یوسف خان اور سلطان راہی جیسے اداکار شامل تھے۔ اس فلم کی کمزوری اس کا کمزور اسکرپٹ اور ہدایتکاری تھی۔ اس فلم کے بعد اس کے ہدایتکار بھی گوشہ گمنامی میں چلے گئے تھے، اس کی نمائش 21 اکتوبر 1979ء کو ہوئی تھی۔
مندرجہ بالا سطور پر ایک نظر ڈالنے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ تاریخی فلمیں کبھی بھی کامیاب نہیں ہوئیں، حالانکہ تاریخ ایک دلچسپ موضوع ہے اور یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ تاریخی فلمیں بنانے والے ہدایتکار سوائے مسعود پرویز اور اسلم ڈار کے سب ناتجربہ کار تھے۔ ان موضوعات کو پرویز ملک' شباب کیرانوی اور حسن طارق جیسے ہدایتکار فلماتے تو یقیناً یہ فلمیں کامیاب ہوتیں اور عوام کو اچھی تاریخی فلمیں دیکھنے کو ملتیں۔
(داستاں کہتے کہتے از زخمی کانپوری)
چنگیز خان
ہمارے یہاں سب سے پہلی تاریخی فلم ''چنگیز خان'' بنی تھی مگر بری طرح فیل ہوگئی۔ اس میں ایک نئے ہیرو کامران کے مقابلے میں نیلو کو بطور ہیروئن لیا گیا تھا۔ اگرچہ اس کے موسیقار رشید عطرے تھے مگر اس فلم کا صرف ایک ہی نغمہ مقبول ہوا اور آج یہ ہمارا قومی نغمہ بن چکا ہے، جو اکثر فوجی بینڈ پر سرکاری تقریبات میں گایا جاتا ہے۔ اس کو عنایت حسین بھٹی نے گایا تھا اور اس کے بول ہیں۔
اللہ کی رحمت کا سایہ
توحید کا پرچم لہرایا
اے مرد مجاہد جاگ ذرا
اب وقت شہادت ہے آیا۔ اللہ اکبر۔ اللہ اکبر
اس نغمے کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے اور فلموں میں بھی اس طرح کے گیت شامل کئے گئے مگر جو شہرت اس کو ملی وہ کسی اور نغمے کو نہ مل سکی۔ اس فلم کے ہدایتکار رفیق سرحدی تھے، یہ فلم 24 جنوری 1958ء کو ریلیز ہوئی تھی۔
رانی روپ متی باز بہادر
اس کے ہدایتکار ذکا اللہ اور موسیقار تصدق حسین تھے۔ اس فلم کی موسیقی پر انہیں پہلا صدارتی ایوارڈ بھی ملا تھا مگر یہ ایک ناکام فلم تھی۔ اس میں ہیروئن کا کردار شمیم آرا نے اور ہیرو کا اسلم پرویز نے ادا کیا تھا۔ یہ ایک سچے تاریخی واقعہ پر مبنی فلم تھی جو دور اکبری کا ایک یاد گار واقعہ ہے۔ یہ فلم 2 دسمبر 1960ء کو ریلیز ہوئی تھی۔
عجب خان
یہ صوبہ سرحد کے ایک بہادر انسان کا کردار ہے۔ جنگ آزادی کے سلسلے میں آج بھی سب ہی لوگ اس کو یاد کرتے ہیں۔ اس نے انگریزوں کو ناکوں چنے چبوا دیئے تھے۔ اس کردار پر جب فلم بنی تو اس کی خوب شہرت ہوئی مگر بزنس کے اعتبار سے نرم گئی۔ اس کی کہانی ریاض شاہد کی تھی اور ہدایت کار خلیل قیصر تھے۔ اس میں مارگریٹ نامی لڑکی کو پہلی بار بطور ہیروئن پیش کیا گیا تھا، جو بعد میں کسی فلم میں نظر نہ آئی۔ دیگر اداکاروں میں سدھیر اور حسنہ شامل تھے۔ یہ فلم 3 فروری 1961ء کو ریلیز ہوئی تھی۔
نواب سراج الدولہ
مسلمانوں کے اس ہیرو پر سابق مشرقی پاکستان میں فلم بنائی گئی تھی۔ یہ فلم اپنے زمانے کی ایک بے حد کامیاب فلم تھی۔ اس کے ہدایتکار اور موسیقار خان عطاء الرحمن تھے جنہوں نے اس میں اداکاری کے جوہر بھی دکھائے تھے۔ مشرقی پاکستان کے اداکار انور حسین نے اس فلم میں مرکزی کردار اس قدر خوبصورتی سے ادا کیا کہ آج بھی لوگوں کے ذہن پر نقش ہے۔ اس پر انہیں نگار ایوارڈ بھی ملا تھا۔ دیگر اداکاروں میں عطیہ اور سجاتا شامل تھیں۔ یہ فلم 23 مارچ 1947ء کو ریلیز ہوئی۔
شہنشاہ جہانگیر
یہ بھی ایک تاریخی فلم ہے اس میں بھارتی فلم ''پکار'' کی کہانی کو فلمایا گیا تھا۔ مرکزی کردارصبیحہ خانم اور سنتوش کمار نے ادا کئے تھے جبکہ موسیقی کمال احمد نے دی تھی۔ یہ فلم بھی بری طرح فیل ہو گئی تھی۔ اس کے ہدایتکار پرویز نامی ایک صاحب تھے۔ اس فلم کے بعد ان کا نام پھر کسی اور فلم کے سلسلے میں نظر نہ آیا۔ یہ 9فروری 1968ء کو ریلیز ہوئی تھی۔
شہید تیتومیر
یہ فلم جنگ آزادی کے موضوع پر مشرقی پاکستان میں بنی اور ناکام رہی تھی۔ اس کے ہدایتکار ابن میزان تھے۔ جنگ آزادی کا یہ کردار اتنا مشہور نہ تھا کہ لوگ اس کو شوق سے دیکھتے۔ یہ فلم مشرقی پاکستان کی ایک ناکام فلم تھی یہ 21 فروری 1969ء میں ریلیز ہوئی تھی۔
غرناطہ
نسیم حجازی کے تاریخی ناولوں میں سے ایک ناول ''شاہین'' کو غرناطہ کے نام سے فلمایا گیا۔ یہ فلم ریاض شاہد نے بنائی تھی۔ اس میں مرکزی کردار ایک نئے ہیرو جمیل نے ادا کیا تھا۔ جو بھارتی اداکارہ تبو کے والد تھے۔ اس فلم میں یوسف خان کا کردار بہت لاجواب تھا۔ ہیروئن روزینہ تھی۔ یہ بھی اگرچہ ایک ناکام فلم تھی مگر اپنے منفرد موضوع کی وجہ سے اعلیٰ طبقے میں بہت پسندکی گئی۔ یہ 21 مئی 1971ء کو ریلیز ہوئی تھی۔
صلاح الدین ایوبی
اس فلم کے ہدایتار ابراہیم باقری اور موسیقار سہیل رعنا تھے۔ یہ فلم کراچی میں مکمل کی گئی تھی۔ اس فلم میں سب اداکار نئے تھے۔ ہیروئن کا کردار پارہ نے ادا کیا تھا اور ہیرو کا کردار جونت آرگن نے۔ صلاح الدین ایوبی پر تیار کی جانے والی یہ فلم کمزور ہدایتکاری اور بے جان اسکرپٹ کی وجہ سے بری طرح ناکام رہی۔ یہ 16 جون 1972ء کو نمائش پذیر ہوئی تھی۔
زرق خان
یہ کردار بھی عجب خان کی طرح جنگ آزادی کے حوالے سے مشہور ہے جو انگریزوں کے خلاف لڑا تھا۔ یہ بہادر انسان ہماری جنگ آزادی کا ہیرو ہے۔ اس کا تعلق پوٹھوہار کے علاقے سے تھا۔ لوگوں کو یہ فلم دیکھنے کا بڑا اشتیاق تھا مگر اس کے کمزور اسکرپٹ اور ناکام موسیقی نے اس کو فلاپ کر دیا حالانکہ اس کے ہدایتکار اسلم ڈار تھے۔ اس کے اداکاروں میں عالیہ' جمال اور سطان راہی وغیرہ شامل تھے۔ اس کی موسیقی کمال احمد نے دی تھی۔ اس کی نمائش 16 جنوری 1973ء کو ہوئی تھی۔
ٹیپو سلطان
یہ بھی ایک ناکام فلم تھی اور اس کی ناکامی کی وجہ اس کا ناتجربہ کار ہدایت کار تھا۔ اس کے ہدایتکار رزاق تھے یہ بڑے بدقسمت ہدایتکار تھے۔ انہوں نے تین اور فلمیں بھی بنائیں مگر سب ناکام رہیں۔ اس فلم کی موسیقی اختر حسین نے دی تھی۔ مرکزی کردار محمد علی اور روحی بانو نے ادا کئے تھے۔ حیدر علی اور ٹیپو سلطان ہماری تاریخ کے دو ایسے کردار ہیں جنہیں ذہانت کے ساتھ فلمایا جاتا تو کامیاب فلمیں بنتیں مگر اس فلم کو جس طرح فلمایا گیا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تاریخ کو صحیح طور پر پیش نہیں کیا جا سکا۔ یہ فلم 4 نومبر 1977ء کو ریلیز ہوئی تھی۔
حیدر علی
یہ ایک ایسی فلم تھی جس میں ایک کامیاب فلم کی ساری باتیں موجود تھیں۔ اس کے ہدایتکار مسعود پرویز اور موسیقار خواجہ خورشید انور تھے جبکہ اداکاروں میں محمد علی' ممتاز' صبیحہ خانم اور طالش جیسے اداکار تھے مگر اسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ یہ فلم نسیم حجازی کے ناول ''اور تلوار ٹوٹ گئی'' پر فلمائی گئی تھی۔ یہ فلم یکم ستمبر 1978ء کو ریلیز ہوئی تھی۔
محمد بن قاسم
کراچی میں ہدایتکار اکبر بنگلوری نے محمد بن قاسم کی زندگی پر ایک فلم بنائی تھی۔ جس کی موسیقی مرحوم تصدق حسین نے دی تھی۔ جو بری طرح ناکام رہی۔ اس کے اداکاروں میں نشو' سنگیتا' ناظم' ادیب اور طالش شامل تھے۔ اتنے بڑے اداکاروں کے ہوتے ہوئے بھی اس فلم کا فیل ہو جانا باعث حیرت ہے۔ اس کی موسیقی بڑی کمزور ثابت ہوئی اور کوئی نغمہ بھی ہٹ نہ ہو سکا۔ بے جان اسکرپٹ اور کمزور ہدایات اس لازوال کردار پر بننے والی فلم کو لے ڈوبے۔ محمد بن قاسم ہمارے صوبہ سندھ کے حوالے سے ایک تابندہ اور درخشاں نام ہے۔ 5 جنوری 1979ء کو یہ فلم نمائش پذیر ہوئی تھی۔
جنرل بخت خان
یہ جنگ آزادی کے ہیرو ہیں۔ جنگ آزادی کے سلسلے میں جنرل بخت خان کا نام سرفہرست ہے۔ ان کی زندگی پر بننے والی یہ فلم بدقسمتی سے فیل ہو گئی۔ اس کے ہدایتکار سرشار ملک تھے، موسیقی اختر حسین نے دی تھی جبکہ اداکاروں میں محمد علی' یوسف خان اور سلطان راہی جیسے اداکار شامل تھے۔ اس فلم کی کمزوری اس کا کمزور اسکرپٹ اور ہدایتکاری تھی۔ اس فلم کے بعد اس کے ہدایتکار بھی گوشہ گمنامی میں چلے گئے تھے، اس کی نمائش 21 اکتوبر 1979ء کو ہوئی تھی۔
مندرجہ بالا سطور پر ایک نظر ڈالنے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ تاریخی فلمیں کبھی بھی کامیاب نہیں ہوئیں، حالانکہ تاریخ ایک دلچسپ موضوع ہے اور یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ تاریخی فلمیں بنانے والے ہدایتکار سوائے مسعود پرویز اور اسلم ڈار کے سب ناتجربہ کار تھے۔ ان موضوعات کو پرویز ملک' شباب کیرانوی اور حسن طارق جیسے ہدایتکار فلماتے تو یقیناً یہ فلمیں کامیاب ہوتیں اور عوام کو اچھی تاریخی فلمیں دیکھنے کو ملتیں۔
(داستاں کہتے کہتے از زخمی کانپوری)