چاک تو کرتا ہوں میں اپنا گریبان ہی سہی

ہاں آزادی اظہار کا معاملہ یہ ہے کہ مادر پدر آزادی کو آزادی اظہار نہیں کہتے

rmvsyndlcate@gmail.com

یہ اس مبارک جمعے کی صبح کا ذکر ہے جس جمعے کو یوم عشق رسولؐ کے طور پر منایا جانا تھا۔

صبح کی سیر سے واپس ہوتے ہوئے ہم نے سوچا کہ اپنی گاڑی میں پٹرول بھی چلتے چلتے بھروا لیں تو کیا مضائقہ ہے۔ مگر جب ہم پٹرول پمپ کے قریب پہنچے تو عجب منظر دیکھا کہ پٹرول پمپ اسٹیشن کے گردا گرد قناتیں تنی ہیں۔ پمپ تک جانے کا راستہ مسدود ہے۔ ہم حیران کہ یا الہی یہ ماجرا کیا ہے۔ ایک گاڑی ہم سے پہلے یہاں پہنچی تھی اور ناکام پلٹ رہی تھی۔ پوچھ گچھ کی تو ایک باخبر نے بتایا کہ آج بہت بڑا مظاہرہ ہونے والا ہے۔ توڑ پھوڑ اور آتش زنی کے اندیشہ سے پٹرول پمپ کے منتظمین نے یہ انتظام کیا ہے کہ ہجوم بے قابو ہو کر تشدد پر اتر آئے تو ان کے پمپ کو نقصان نہ پہنچے۔

ہم نے حیران ہو کر کہا کہ آج تو یوم عشق رسولؐ ہے۔ مغرب میں ایک شیطان صفت شخص نے ہمارے نبی پاک رسولﷺ کی شان میں گستاخی کی ہے اور ایک شیطانی قسم کی فلم بنائی ہے۔ آج اس کے خلاف احتجاج ہو گا۔ ہماری طرف سے عشق رسولؐ کا مظاہرہ ہو گا۔ کیسا تشدد کہاں کا تشدد۔ عشق کے مظاہرے میں تشدد کا بھلا کیا مقام ہے۔

اس باخبر نے ہماری بات سن کر ہمیں بغور دیکھا اور ہماری بات پر کسی قسم کا ردعمل ظاہر کیے بغیر خاموش گزر گیا۔ مگر جب دن گزرتے گزرتے ہم نے توڑ پھوڑ' آتش زنی' لوٹ مار اور اینٹ کھڑکے کی خبریں سنیں اور ٹی وی پر عمارتوں' بسوں اور موٹروں کو شعلوں کی لپیٹ میں دیکھا تو ہمیں تو ایک وحشت نے آ لیا۔ یا الٰہی یہ کون لوگ ہیں جو اس تخریبی کارروائی پر اترے ہوئے ہیں۔ یہ تو عشق رسولؐ کے مظاہرے میں شامل ہونے کے لیے گھروں سے نکلیں ہوں گے۔ مگر یہاں یہ کونسے عشق کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ یقیناً یہ لوگ احترام رسالت کے جذبے سے سرشار گھروں سے نکلے ہوں گے۔ مگر یہ جو کچھ کر رہے ہیں یہ احترام رسالت ہے یا توہین رسالت ہے۔

عبرت سے بھرا یہ نقشہ دیکھتے ہوئے پٹرول پمپ اسٹیشن کے مالکان و منتظمین ہمارے دھیان میں آئے۔ اور ہم ان کی پیش بینی کے قائل ہو گئے۔ آخر وہ کاروباری لوگ ہیں۔ ہماری طرح بدھو نہیں ہیں۔ بازار میں بیٹھے بیٹھے سو طرح کے لوگوں سے انھیں پالا پڑتا ہے۔ اپنے ہم قوموں کو وہ زیادہ بہتر سمجھتے ہیں۔

اس نقشہ عبرت کو دیکھ کر ہمیں تعجب در تعجب ہوا۔ یعنی تعجب اور پھر تعجب۔ پہلا تعجب یہ کہ یہ کس قماش کے عاشق ہیں کہ عشق رسولؐ کا دم بھرتے بھرتے مال لوٹنے اور جیبیں بھرنے پر اتر آئے ہیں۔ عشاق اور اتنے ہوش مند تعجب' تعجب' تعجب۔ دوسرا تعجب یہ کہ ان عشتاق کو غصہ تو اس ملعون پر ہو گا جس نے ایسی ناپاک فلم بنا کر اپنے خبث باطن کا مظاہرہ کیا۔ مگر وہ ملعون تو ان غصیلے عشاق کی پہنچ سے باہر کسی گوشے میں اطمینان سے بیٹھا ہے اور یہاں نزلہ عضو ضعیف پر گر رہا ہے۔ مگر یہ کونسا فلسفہ ہے کہ جرم سرزد ہوا اغیار سے اور سزا دی جا رہی ہے اپنوں کو۔ کفر بکا کسی کافر نے اور مار پڑ رہی ہے بیچارے مومن پر۔ اس کافر نے تو آزادی اظہار کے نام پر ثواب کما لیا۔ عذاب سہنا پڑ رہا ہے انھیں جو اس فلم کا ذکر سن سن کر کبیدہ خاطر ہو رہے ہیں۔


ہاں آزادی اظہار کا معاملہ یہ ہے کہ مادر پدر آزادی کو آزادی اظہار نہیں کہتے۔ مہذب لوگوں کے یہاں آزادی اظہار کے بھی کچھ آداب ہیں۔ اس پر ایک مثال سن لیجیے جو آزادی اظہار پر بحث کرنے والوں نے نقل کر رکھی ہے۔ ایک صاحب اپنی ترنگ میں چھڑی گھماتے چلے جا رہے تھے۔ ان کے پیچھے پیچھے ایک سادہ دل چلا آ رہا تھا۔ بار بار اسے اندیشہ ہوتا تھا کہ اب یہ گھومتی ہوئی چھڑی اس کی ناک پر آ کر پڑے گی۔ آخر اس نے زچ ہو کر چھڑی والے کو ٹوکا کہ حضور اپنی چھڑی کو ذرا قابو میں رکھیے۔ چھڑی والے نے جواب میں کہا کہ ''میں اس دیس کا آزاد شہری ہوں اور مجھے اس دیس میں رہتے ہوئے چھڑی گھمانے کی آزادی حاصل ہے۔ اس پر وہ شریف آدمی بولا کہ آپ کی چھڑی گھمانے کی آزادی اس مقام پر جا کر ختم ہو جاتی ہے جس مقام سے میری ناک شروع ہوتی ہے۔

مطلب یہ کہ ہر آزادی کی کچھ حدود و قیود ہوتی ہیں۔ آخر آزادی اظہار کوئی بے نتھا بجار تو نہیں ہے کہ جدھر منہ اٹھایا چل پڑا اور جو راہ میں آیا اسے سینگ مارنا ضروری سمجھا۔

اس بدنام فلم کو ہمارے بعض دوستوں نے انٹرنیٹ پر دیکھ رکھا ہے۔ ہمیں دعوت دی کہ تم بھی دیکھ لو۔ پتہ تو چلے کہ اس شخص نے کیا جھک ماری ہے۔ ہم نے معذرت کر لی۔ بات یہ ہے کہ بری تحریر کو پڑھنا اور بری فلم کو دیکھنا' یہ دونوں فعل مذاق سلیم پر گراں گزرتے ہیں۔ ہم بھلا کس خوشی میں اپنے مذاق سلیم کو اذیت میں مبتلا کریں۔

اس فلم پر تو جتنی لعنت ملامت کی جائے وہ جائز اور برحق ہے مگر یوم عشق رسولؐ پر جس قسم کا ردعمل ہمارے ہجوم کی طرف سے دیکھنے میں آیا وہ بھی ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہونا چاہیے۔ کیا مضائقہ ہے کبھی کبھی ہم اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھ لیں۔ ویسے تو اب ہمارے ملک میں ہونے والے مظاہروں کا یہ دستور ٹھہرا ہے کہ نعرہ بازی سے گزر کر نوبت خشت باری اور آتش زنی پر آ جاتی ہے۔ آخر کیا ضروری ہے کہ احتجاج کے شوق میں ٹائر جلائے جائیں۔ پھر بسوں اور کاروں کو آگ دکھائی جائے اور اگر بس چلے تو آس پاس کی دکانوں مکانوں کو بھی نذر آتش کیا جائے۔

اس پر ایک احتجاج پسند نے کہا کہ ''یہ بہت ضروری ہے''۔ بھائی شعلوں کو اس طرح بھڑکانا کیوں ضروری ہے''۔ بولا کہ ''اس کے بغیر احتجاج کو اخباروں میں کوریج نہیں ملتی اور ٹی وی پر بھی اچھی کوریج اسی صورت میں ہوتی ہے کہ بسیں کاریں عمارتیں شعلوں میں لپٹی نظر آئیں اور دھواں آسمان تک جاتا نظر آئے''۔

اس پر ایک تن جلے نے کہا کہ پھر سارے ملک کو آگ میں جھونک دو۔ بہت بڑی خبر بنے گی اور بہت کوریج ملے گی۔

مگر ہاں یہ جو مظاہرہ یوم عشق رسول ؐکی تقریب سے ہونا تھا اسے تو ایک تقدس کا درجہ حاصل ہونا چاہیے تھا۔ اس موقعہ پر آتش زنی اور لوٹ مار۔ اس مظاہرے کو نادانوں نے کیا سے کیا بنا دیا۔ ایک خبر ہم نے پڑھی کہ جب یہ نوبت آئی تو جن رہنمائوں کی طرف سے ہڑتال اور مظاہرے کی کال دی گئی تھی پھر ان کا اتا پتہ نہیں ملا۔ ارے انھیں تو اس یوم کی حرمت بچانے کے لیے پولیس سے آگے بڑھ کر اس تخریب کار ہجوم سے نبٹنا چاہیے تھا۔
ہاں ایک مذہبی جماعت کے رہنما نے بیان جاری کیا ہے کہ صدر مملکت اور وزرا مظاہرے میں شامل ہوتے تو یہ نوبت نہ آتی۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ اب بھی پبلک میں جتنا بھی عزت و احترام ہے وہ بس صدر مملکت اور وزرا کا ہے۔ لوگ ان کی بات سنتے ہیں' باقی جو لیڈر لوگ ہیں ان کی عزت پبلک میں دو کوڑی کی ہے۔ کوئی ان کی بات سننے کا روادار نہیں ہے۔ شرم' شرم' شرم۔
Load Next Story