چار کروڑ پاکستانیوں کو بیت الخلاء کی سہولت میسر نہیں
سینی ٹیشن کی سہولیات کی عدم موجودگی سے پاکستان کو سالانہ 5-7ارب امریکی ڈالر کا نقصان ہوتا ہے، تحقیقاتی رپورٹ
KARACHI:
ذرا سوچئے! چاہے آپ مہمان ہوں یا میزبان! رفع حاجت کرنا چاہتے ہیں لیکن گھر میں بیت الخلاء موجود نہیں اور نہ ہی آپ کے گھر کے باہر پبلک ٹوائلٹ یعنی عوامی بیت الخلاء کی سہولت میسر ہے تو ایسی صورت میں آپ کیا کریں گے؟
اس صورت حال کا روزانہ 4 کروڑ پاکستانیوں کو سامنا کرنا پڑتا ہے جس کا سادہ اور آسان حل جو ان کے پاس ہے وہ یہ کہ کھلے آسمان تلے کسی ایسی جگہ پر رفع حاجت کر لی جائے جہاں تھوڑا بہت پردہ ہو۔ ایسی جگہ کوئی کھیت، درخت یا جھاڑی کی اوٹ، نہر یا دریا کا کنارہ، ندی نالہ، جنگل، پہاڑ، خالی پلاٹ یا پھر سڑک کا کوئی کنارہ ۔۔۔ کچھ بھی ہو سکتی ہے۔
اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا میں 1.04 ارب افراد کھلی جگہوں پر انسانی ضرورت کی تکمیل یعنی حاجت کرتے ہیں۔ پاکستان دنیا میں بھارت اور انڈونیشیا کے بعد تیسرا ایسا ملک ہے جہاں آبادی کی ایک بڑی تعداد یعنی چار کروڑافراد آج بھی کھلی جگہوں پر رفع حاجت کرتے ہیں اور ایسا اس لیے ہے کہ پاکستان کے 15 فیصد گھروں میںبیت الخلاء کی سہولت موجود نہیں ہے۔ پاکستان سوشل اینڈ لیونگ اسٹینڈرز میزیرمنٹ سروے 2012-13ء کے یہ اعداد و شمار دیہی اور شہری سطح پر زیادہ تفریق کے حامل ہیں۔
سروے کے مطابق پاکستان کے شہری علاقوں کے صرف ایک فیصد گھروں میں بیت الخلاء کی سہولت موجود نہیں۔ جبکہ دیہی علاقوں کے 22 فیصد گھر بیت الخلاء کی سہولت سے محروم ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ جب دیہی علاقوں میں رہائش کے لیے مکان موجود ہیں تو ان مکانات کے بہت سے مکین اپنے گھروں میں بیت الخلاء کیوں نہیں بناتے؟ پاکستان کے طول و عرض کے دیہی علاقوں کے رہنے والوں کا اس حوالے سے کہنا ہے۔
''مبشر 425 ای بی بورے والا پنجاب سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہمارے گائوں میں یہ ایک سماجی مسئلہ ہے کہ صبح اکثر لوگ رفع حاجت کے لیے کھیتوں میں جاتے ہیں۔ اس کی کئی وجوہات ہیں ایک تو سماجی طور پر روایت چلی آرہی ہے اس کے علاوہ مالی مشکلات بھی اس کی ایک وجہ ہے۔ وہ گائوں میں نکاسی آب کے صحیح نظام کے نہ ہونے کو بھی اس کی ایک اہم وجہ قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس وجہ سے فلش والی لیٹرین تو بن ہی نہیں سکتیں اور اگر سیوریج سسٹم بن جائے تو بہت بہتر طریقے سے اس کام پر عمل ہوسکتا ہے ۔''
''گائوں وڈا مہر سندھ کے رہنے والے بہادر علی کا کہنا ہے کہ وہ حاجت پوری کرنے کے لیے گھر سے باہر اس لیے جاتے ہیں کہ ان کے گائوں میں نالیاں نہیں بنی ہوئیں۔ اس لیے وہ گھر سے باہر زمین یا چھوٹے نالوں میں حاجت پوری کرنے جاتے ہیں۔''
''کامران شب قدر خیبرپختونخوا کے رہنے والے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ان کے گائوں میں لوگ رفع حاجت کے لیے باہر اپنے بزرگوں کی پیروی میں جاتے ہیں۔ دوسری بڑی وجہ پانی کی قلت ہے کہ گھر میں بمشکل پینے کے لیے پانی مہیا ہوتا ہے اور ظاہری بات ہے کہ بیت الخلاء یا لیٹرین کے لیے پانی کی ضرورت بھی ہوتی ہے اور تیسری اہم وجہ گائوں کے لوگوں کی غربت ہے جس کی وجہ سے وہ گھر میں بیت الخلاء یا لیٹرین بنانے سے قاصر ہیں۔''
''تربت بلوچستان کے گائوں ہیرونک کے رہنے والے جاوید کا کہنا ہے کہ ہمارے گائوں میں آج بھی لوگوں کی اکثریت حاجت کے لیے باہر جاتی ہے۔ کیونکہ گائوں میں مکانوں کے اندر بیت الخلاء کا رواج بہت ہی کم ہے جس کی سب سے بڑی وجہ لوگوں کی اکثریت کا غریب ہونا ہے اور ان کے پاس اتنے پیسے نہیں کہ وہ اپنے گھروں میں بیت الخلاء تعمیر کروائیں۔''
نیشنل انسٹیٹیوٹ آف پاپولیشن اسٹڈیز کے مطابق اس وقت پاکستان کی 62 فیصد آبادی دیہی علاقوں میں رہائش پذیر ہے جہاں گھروں کی نمایاں تعداد میں بیت الخلاء کے نہ ہونے کی وجہ سے کھلی جگہوں پر رفع حاجت کا عمل جاری و ساری ہے۔ پاکستان سوشل اینڈ لیونگ اسٹینڈرز میزیرمنٹ سروے 2012-13 کے مطابق ملک میں سب سے زیادہ کھلی جگہوں پر رفع حاجت کرنے کا عمل صوبہ پنجاب کے دیہی علاقوں میں ہے کیونکہ پنجاب کے 26 فیصد دیہی گھرانوں میں بیت الخلاء موجود نہیں جبکہ سندھ کے دیہی علاقوں کے 17 فیصد مکانات اس سہولت سے محروم ہیں۔
اسی طرح خیبرپختونخوا کے 16 فیصد دیہی مکانات اور بلوچستان کے 20 فیصد دیہی گھرانے بیت الخلاء نام کی چیز کا کوئی وجود نہیں رکھتے۔ اس طرح اضلاع کی سطح پر صورتحال کچھ اضلاع کے حوالے سے سنگین اور بعض کے حوالے سے بہتر ہے۔ سروے کے مطابق پاکستان کے 114 اضلاع میں سے خیبر پختونخوا کے ضلع کوہستان کے اس وقت 77 فیصد گھروں میں بیت الخلاء کی سہولت کا کوئی وجود ہی نہیں۔ دوسرے نمبر پر بلوچستان کا ضلع لورالائی ہے جہاں 54 فیصد مکانات لیٹرین کی سہولت سے محروم ہیں۔ جبکہ کے پی کے کا ضلع تورغر 51 فیصد ٹوائلٹ سے محروم گھروں کے ساتھ پاکستان کے 114 اضلاع میں تیسرے نمبر پر ہے۔
بیت الخلاء کی سہولت سے محروم گھروں کے تناسب کے حوالے سے اضلاع کی درجہ بندی میں پہلے 10 محروم ترین اضلاع میں سے چار کا تعلق صوبہ پنجاب سے، تین کا بلوچستان سے، دو کا خیبر پختونخوا سے اور ایک کا سندھ سے ہے۔ اسی طرح پاکستان کے 31 اضلاع میں بیت الخلاء سے محروم گھروں کا تناسب 25 فیصد اور اس سے زائد ہے یعنی 25 سے 77 فیصد تک۔ لیکن تصویر کا ایک رخ یہ بھی ہے کہ لاڑکانہ، شہداد کوٹ اور سبی پاکستان کے وہ خوش قسمت اضلاع ہیں جہاں تمام گھروں میں بیت الخلاء موجود ہے۔
جبکہ باقی 111 اضلاع جن کے اعدادو شمار دستیاب ہیں وہاں زیادہ یا بہت کم ایسے گھر ضرور موجود ہیں جن میں بیت الخلاء کی سہولت موجود نہیں۔ ایسے میں کوئی کھلی جگہ پر حاجت کرے تو اس سے دوسرے پریشان اور بیمار اور اگر نہ کرے تو خود بیمار۔ واٹر سینی ٹیشن اینڈ ہائیجین ایکسپرٹ ڈاکٹر فرخ محمود اس نقطہ کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں
''اس کو ہم کہتے ہیں Call of Nature کہ جب بھی آپ کو یہ کال آئے گئی تو اس کو Attend کرنا ہوگا۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ اگر کوئی کھلی جگہ پر حاجت کرے تو اس سے دوسرے پریشان اور بیمار کیسے ہوتے ہیں؟ جیساکہ ہم سب لوگ جانتے ہیں۔ انسانی فضلے میں بہت سی اقسام کے جراثیم موجود ہوتے ہیں جو دست، پیچس، ہیضہ، ٹائیفائیڈ اور ہیپاٹائٹس A جیسی بیماریوں کا باعث بنتے ہیں۔ اس کے علاوہ جتنی دوائیاں انسانی استعمال میں ہیں ان میں سے قریب قریب 90 فیصد دوائیاں پیشاب کے راستے جسم سے خارج ہوتی ہیں۔
انسانی فضلہ جب کھلی جگہوں پر پڑا رہے گا تو اس سے مکھیوں اور کیڑے مکوڑوں کے ذریعے بیماریاں پھیلیں گی۔ اب رہی بات حاجت کو روک کر خود بیمار ہونے کی؟ تو ہم سب یہ جانتے ہیں کہ ہمارا جسم ایک خود کار نظام کے تحت کام کرتا ہے۔ اللہ پاک نے کچھ گنجائش تو رکھی ہوئی ہے کہ کچھ وقت کے لیے حاجت کو روکا جاسکتا ہے۔ لیکن اگر آپ کو ارادتاً اور مجبوری کے تحت ایسا مسلسل کرنا پڑے تو انسان کا سسٹم جواب دے دیتا ہے۔ اگر کوئی شخص پیشاب روکے رکھتا ہے تو اس کے مثانے میں کچھ گنجائش موجود ہوتی ہے۔
اس میں وہ اکٹھا ہوتا رہتا ہے پھر ایک وقت آتا ہے کہ شدید درد کے بعد مثانے کا Valve خود بخود کھل جاتا ہے اور پیشاب نکل جاتا ہے جس طرح کہ بچوں میں ہوتا ہے۔ تو اسی طرح سے جو انتڑیوں کا نظام ہے اگر اس کو بھی ہم اس عمل سے گزاریں گے اور اپنی مرضی کے تحت لانا چاہیں گے جوکہ نہیں ہوسکتا تو پھر اس سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر فرخ محمود نے مزید بتاتے ہوئے کہا کہ جب تک ہم انسانی فضلے کو سائنسی بنیادوں پر تلف نہیں کریں گے۔ اپنے اردگرد کے ماحول کو صاف نہیں رکھیں گے۔ تب تک ہم صحت مند نہیں رہ سکتے کیونکہ ان تمام چیزوں کا بھی صحت مند ماحول کے ساتھ گہرا تعلق ہے اور خاص طور پر بیت الخلاء استعمال کرنے کے بعد کھانا کھانے سے پہلے اور کھانا پکانے سے پہلے ہاتھوں کا دھونا انتہائی ضروری ہے۔''
دیہی علاقوں میں کھلی جگہوں پر حاجت کرنے کا عمل انسانی صحت پر اپنے منفی اثرات کے ساتھ ساتھ خواتین خصوصاً لڑکیوں اور بچوں کے تقدس اور تحفظ کو بھی خطرات کے امکانات سے دوچار کردیتا ہے۔ اس لیے یہ امر نہایت اہم ہے کہ پاکستان کے ہر گھر میں بیت الخلاء کی سہولت موجود ہو۔ بیت الخلاء تک ہر انسان کی رسائی کو یقینی بنانا ایک بنیادی انسانی حق ہے جس کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 28 جولائی 2010ء کو بطور انسانی حق کے تسلیم کیا ہے۔
علاوہ ازیں میلینئم ڈویلپمنٹ گولز 2015ء کے ساتویں گول کا ٹارگٹ سیون سی بھی سینی ٹیشن کی سہولیات تک لوگوں کی رسائی کے حوالے سے ہے تاکہ کھلی جگہوں پر حاجت کرنے کے عمل کو ختم کیا جا سکے۔ اس بنیادی انسانی حق کی تکمیل اور ملینیئم ڈویلپمنٹ گولز کے حصول کے لیے پاکستان کی وفاقی اورصوبائی حکومتیں بین الاقوامی ترقیاتی اداروں کے تعاون سے کوششیں کر رہی ہیں۔ ان ہی کوششوں کی بدولت آج ملک میں کھلی جگہوں پر رفع حاجت کرنے کے عمل میں کمی کرنے کے حوالے سے صورت حال ماضی کے مقابلے میں کافی بہتر ہے جس کا اعتراف عالمی اداروں نے بھی کیا ہے۔
عالمی ادارہ صحت اور عالمی ادارہ اطفال کی رپورٹ پروگراس ان سینی ٹیشن اینڈ ڈرنکنگ واٹر 2013ء اپ ڈیٹ میں اس امر کی واضح طور پر نشاندہی کی گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان کا شمار دنیا کے ان 14 ممالک میں ہوتا ہے جنہوں نے 1990ء سے 2011ء تک کھلی جگہ پررفع حاجت کرنے کے عمل میں 25 فیصد سے زائد کمی حاصل کی ہے۔ ان 14 ممالک کی فہرست میں پاکستان 29 فیصد کمی کے ساتھ چھٹے نمبر پر ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان جہاں 1990ء میں 52 فیصد آبادی کھلی جگہوں پر رفع حاجت کیا کرتی تھی، اب یہ شرح کم ہوکر 23 فیصد تک آچکی ہے۔ یعنی کھلی جگہوں پررفع حاجت کرنے والی آبادی کی شرح میں گزشتہ 21 سالوں کے دوران 3.9 فیصد سالانہ کمی واقع ہوئی ہے۔
ملک میں کھلی جگہوں پر ہونے والے رفع حاجت کے عمل میں کمی گھروں میں بیت الخلاء کی سہولت کی فراہمی کی مرہون منت ہے۔ پاکستان میں کئے جانے والے مختلف سرویز اس امر کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ ملک میں بیت الخلاء کی سہولت سے محروم گھروں کے تناسب میں وقت کے ساتھ ساتھ کمی واقع ہوئی ہے۔ 1998ء میں پاکستان میں ہونے والی پانچویں خانہ و مردم شماری کے مطابق اس وقت ملک کے 51 فیصد گھروں میں بیت الخلاء موجود نہیں تھے۔
اب یہ تناسب 2012-13ء میں ہونے والے تازہ ترین پاکستان سوشل اینڈ لیونگ اسٹینڈرز میزیرمنٹ سروے کے مطابق کم ہوکر 15 فیصد گھر بیت الخلاء کی موجودگی سے عاری تھے اور یہ تناسب 2012-13ء تک کم ہوکر 22 فیصد بیت الخلاء سے محروم دیہی گھروں تک آچکا ہے۔ اور اس وقت ملک کے 78 فیصد دیہی گھروں میں بیت الخلاء کی سہولت موجود ہیں۔ لیکن اب بھی سینی ٹیشن کی سہولیات تک لوگوں کی رسائی کو یقینی بنانے کے حوالے سے ملینیئم ڈویلپمنٹ گولز 2015ء کے ہدف کو حاصل کرنے کے سلسلے میں ملک کو مزید پیشرفت کی ضرورت ہے۔ کیونکہ پلاننگ کمیشن آف پاکستان کی رپورٹ دی پاکستان ملینیئم ڈویلپمنٹ گولز رپورٹ 2013ء کے مطابق پاکستان 2015ء تک اپنے ہدف یعنی 90 فیصد لوگوں کو سینی ٹیشن کی سہولیات تک رسائی مہیا کرنے کے حوالے سے ابھی پیچھے ہے۔
سینی ٹیشن کی سہولیات تک رسائی کے اس ہدف کا بنیادی نقطہ بہتر نکاسی کے حامل بیت الخلاء تک لوگوں کی رسائی کو یقینی بنانا ہے۔ ورلڈ بینک کی ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق سینی ٹیشن کی سہولیات کی عدم موجودگی اور ان کا ناقص پن پاکستان کوہر سال 5.7 ارب امریکی ڈالر کی مالیت کا نقصان پہنچاتا ہے۔ جس کا 87 فیصد حصہ صرف صحت کے شعبہ کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ اس نقصان میں کمی لانے کا واحد طریقہ واش ایکسپرٹ ڈاکٹر فرخ محمود بہتر سہولت کے حامل بیت الخلاء کی فراہمی اور اس کے موزوں استعمال کے شعور کو قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں۔
''بہت سے ممالک میں ایسے تجربات بھی کیے گئے ہیں کہ جب کسی گائوں میں بیت الخلاء کی سہولت بنا کے دی گئی اور لوگوں کو اس کے استعمال کی ترغیب بھی دی گئی تو اس کے بہت اچھے نتائج سامنے آئے۔ لیکن کئی جگہوں پر ایسے بھی ہوا کہ لوگوں کو بیت الخلاء بناکر دیئے گئے لیکن وہ اس کو استعمال ہی نہیں کرنا جانتے تھے۔ ان کو سکھایا ہی نہیں گیا کہ اس کو کیسے استعمال کرنا ہے۔ مثلاً فلش سسٹم کو کیسے استعمال کرنا ہے یا جو Setting کموڈ ہے۔
لوگ نہیں جانتے کہ اس کے اوپر کیسے بیٹھنا ہے تو جب ان کو یہ سارا کچھ مہیا کیا گیا اور اس کا استعمال بھی سکھایا گیا تو یہ بات بڑی واضح ہوگئی کہ لوگوں میں بیماری کی شرح میں ایک واضح کمی آئی۔ ظاہر ہے جب بیماری کم ہوگی تو اس پر آنے والے اخراجات بھی کم ہوں گے۔ اگر کمانے والا گھر کا فرد بیمار نہیں ہوگا تو اس گھر کی آمدن متاثر نہیں ہوگی، اگر وہ کما رہا ہے تو اقتصادی معاملات بھی چلتے رہیں گے اور یقینی طور پر اس کا آخر کار جو فائدہ ہے وہ ہماری معیشت کو پہنچے گا۔''
ملک میں سینی ٹیشن کے مسئلے پر قابو پانے کے لیے ستمبر 2006ء میں قومی سینی ٹیشن پالیسی بن چکی ہے جو 2002ء میں ڈھاکہ میں ہونے والی پہلی سائوتھ ایشین کانفرنس آن سینی ٹیشن کے اعلامیہ کے تسلسل میں بنائی گئی۔ پاکستان کی قومی سینی ٹیشن پالیسی کا پہلا مقصد بھی ملک میں کھلی جگہوں پر ہونے والے رفع حاجت کے عمل سے پاک ماحول کو یقینی بنانا ہے۔ اس کے علاوہ اکتوبر 2013ء میں کھٹمنڈو نیپال میں ہونے والی پانچویں سائوتھ ایشین کانفرنس آن سینی ٹیشن کے اعلامیہ میں اس بات پر متفقہ طور پر اتفاق رائے کا اظہار کیا گیا کہ 2023ء تک جنوبی ایشیاء کو کھلے عام رفع حاجت کرنے کے عمل سے پاک کرلیا جائے گا۔
جبکہ اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ صحت اور عالمی ادارہ اطفال کے واٹر اینڈ سینی ٹیشن کے جوائنٹ مانیٹرنگ پروگرام نے 2015ء کے بعد واٹر سینی ٹیشن اینڈ ہائیجین کے اہداف کا جو ازسرنو تعین کیا ہے اس کے مطابق 2025ء تک دنیا سے کھلے عام رفع حاجت کرنے کے عمل کو ختم کردیا جائے گا۔ تخفیف غربت کا فنڈ غربت کے خاتمے اور لوگوں کو بنیادی ضروریات زندگی کی سہولیات مہیا کرنے کے حوالے سے پاکستان کے تقریباً تمام اضلاع میں متحرک اور فعال ادارے کے طور پر مصروف عمل ہے۔
ملک کے دیہی علاقوں میںکھلے عام حاجت کے عمل کے خاتمے کے حوالے سے پی پی اے ایف ورلڈ بینک کے تعاون سے ایک منصوبہ پر کام کررہی ہے۔ محمد ندیم سینئر جنرل منیجر کمیونٹی فزیکل انفاسٹرکچر یونٹ اس حوالے سے بتاتے ہیں کہ (Open defecation) ODF کا ہمارا جو پراجیکٹ ہے اس میں ابھی تقریباً ایک سال پہلے ورلڈ بینک کے ساتھ ہمارا ایک معاہدہ ہوا ہے ہم نے 6 اضلاع کی 6 یونین کونسلز منتخب کی تھیں تاکہ ہم ان علاقوں میں پائیلٹ پروجیکٹ کے طور پر کھلی جگہوں پر رفع حاجت کے خاتمے کے لیے کام کریں۔ اس وقت ان 6 یونین کونسلز کو ہم نے 70 فیصد ODF فری کردیا ہے۔
مطلب یہ کہ لوگوں نے اپنے طور پر اپنی لیٹرین بنانے کے لیے کام کیا، لوگوں میں Awareness اجاگر کی گئی۔ مستقبل میں ہم ملک کے تقریباً تمام اضلاع اور ان کے جتنے بھی گائوں ہیں۔ ان میں ہم اپنی پارٹنرز آرگنائزیشنز کی مدد کے ساتھ اس پروگرام کو توسیع دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے پروگرام کی یہ بہت بڑی خوبصورتی ہے کہ ہم تکنیکی رہنمائی بھی دیتے ہیں۔ معاشی وسائل بھی مہیا کرتے ہیں۔ ہم پانچ سے چھ ہزار کا بڑا اچھا Low-Cost Economical Sanitation Units ڈیزائن کرکے دے رہے ہیں۔
جہاں تک مائیکروکریڈٹ کی بات ہے تو اگر کوئی اپنے گھر میں لیٹرین وغیرہ تعمیر کرنا چاہے تو اس کے لیے پی پی اے ایف کریڈٹ بھی فراہم کرتا ہے۔ انشاء اللہ ہم یہ امید کرتے ہیں کہ جیسے جیسے ورلڈ بینک کی ہمیں سپورٹ اور مالی معاونت رہتی ہے تو PPAF انشاء اللہ تمام اضلاع میں عوامی آگہی کے ساتھ ساتھ تکنیکی رہنمائی اور مالی معاونت کے ذریعے کھلی جگہوں پر رفع حاجت کے خاتمے پر بہت زیادہ کام کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔''
ملک میں کھلی جگہوں پررفع حاجت کی روک تھام کے لیے تمام لوگوں کی بیت الخلاء کی سہولت تک رسائی کو یقینی بنانے کے حوالے سے سفر ابھی جاری ہے۔ لیکن منزل دور نہیں بشرطیکہ تمام گھروں میں بیت الخلاء کی سہولت کی موجودگی کے ساتھ ساتھ گھر سے باہر عوامی بیت الخلاء کی سہولت کی فراہمی پر بھی خصوصی توجہ دی جائے۔
ذرا سوچئے! چاہے آپ مہمان ہوں یا میزبان! رفع حاجت کرنا چاہتے ہیں لیکن گھر میں بیت الخلاء موجود نہیں اور نہ ہی آپ کے گھر کے باہر پبلک ٹوائلٹ یعنی عوامی بیت الخلاء کی سہولت میسر ہے تو ایسی صورت میں آپ کیا کریں گے؟
اس صورت حال کا روزانہ 4 کروڑ پاکستانیوں کو سامنا کرنا پڑتا ہے جس کا سادہ اور آسان حل جو ان کے پاس ہے وہ یہ کہ کھلے آسمان تلے کسی ایسی جگہ پر رفع حاجت کر لی جائے جہاں تھوڑا بہت پردہ ہو۔ ایسی جگہ کوئی کھیت، درخت یا جھاڑی کی اوٹ، نہر یا دریا کا کنارہ، ندی نالہ، جنگل، پہاڑ، خالی پلاٹ یا پھر سڑک کا کوئی کنارہ ۔۔۔ کچھ بھی ہو سکتی ہے۔
اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا میں 1.04 ارب افراد کھلی جگہوں پر انسانی ضرورت کی تکمیل یعنی حاجت کرتے ہیں۔ پاکستان دنیا میں بھارت اور انڈونیشیا کے بعد تیسرا ایسا ملک ہے جہاں آبادی کی ایک بڑی تعداد یعنی چار کروڑافراد آج بھی کھلی جگہوں پر رفع حاجت کرتے ہیں اور ایسا اس لیے ہے کہ پاکستان کے 15 فیصد گھروں میںبیت الخلاء کی سہولت موجود نہیں ہے۔ پاکستان سوشل اینڈ لیونگ اسٹینڈرز میزیرمنٹ سروے 2012-13ء کے یہ اعداد و شمار دیہی اور شہری سطح پر زیادہ تفریق کے حامل ہیں۔
سروے کے مطابق پاکستان کے شہری علاقوں کے صرف ایک فیصد گھروں میں بیت الخلاء کی سہولت موجود نہیں۔ جبکہ دیہی علاقوں کے 22 فیصد گھر بیت الخلاء کی سہولت سے محروم ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ جب دیہی علاقوں میں رہائش کے لیے مکان موجود ہیں تو ان مکانات کے بہت سے مکین اپنے گھروں میں بیت الخلاء کیوں نہیں بناتے؟ پاکستان کے طول و عرض کے دیہی علاقوں کے رہنے والوں کا اس حوالے سے کہنا ہے۔
''مبشر 425 ای بی بورے والا پنجاب سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہمارے گائوں میں یہ ایک سماجی مسئلہ ہے کہ صبح اکثر لوگ رفع حاجت کے لیے کھیتوں میں جاتے ہیں۔ اس کی کئی وجوہات ہیں ایک تو سماجی طور پر روایت چلی آرہی ہے اس کے علاوہ مالی مشکلات بھی اس کی ایک وجہ ہے۔ وہ گائوں میں نکاسی آب کے صحیح نظام کے نہ ہونے کو بھی اس کی ایک اہم وجہ قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس وجہ سے فلش والی لیٹرین تو بن ہی نہیں سکتیں اور اگر سیوریج سسٹم بن جائے تو بہت بہتر طریقے سے اس کام پر عمل ہوسکتا ہے ۔''
''گائوں وڈا مہر سندھ کے رہنے والے بہادر علی کا کہنا ہے کہ وہ حاجت پوری کرنے کے لیے گھر سے باہر اس لیے جاتے ہیں کہ ان کے گائوں میں نالیاں نہیں بنی ہوئیں۔ اس لیے وہ گھر سے باہر زمین یا چھوٹے نالوں میں حاجت پوری کرنے جاتے ہیں۔''
''کامران شب قدر خیبرپختونخوا کے رہنے والے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ان کے گائوں میں لوگ رفع حاجت کے لیے باہر اپنے بزرگوں کی پیروی میں جاتے ہیں۔ دوسری بڑی وجہ پانی کی قلت ہے کہ گھر میں بمشکل پینے کے لیے پانی مہیا ہوتا ہے اور ظاہری بات ہے کہ بیت الخلاء یا لیٹرین کے لیے پانی کی ضرورت بھی ہوتی ہے اور تیسری اہم وجہ گائوں کے لوگوں کی غربت ہے جس کی وجہ سے وہ گھر میں بیت الخلاء یا لیٹرین بنانے سے قاصر ہیں۔''
''تربت بلوچستان کے گائوں ہیرونک کے رہنے والے جاوید کا کہنا ہے کہ ہمارے گائوں میں آج بھی لوگوں کی اکثریت حاجت کے لیے باہر جاتی ہے۔ کیونکہ گائوں میں مکانوں کے اندر بیت الخلاء کا رواج بہت ہی کم ہے جس کی سب سے بڑی وجہ لوگوں کی اکثریت کا غریب ہونا ہے اور ان کے پاس اتنے پیسے نہیں کہ وہ اپنے گھروں میں بیت الخلاء تعمیر کروائیں۔''
نیشنل انسٹیٹیوٹ آف پاپولیشن اسٹڈیز کے مطابق اس وقت پاکستان کی 62 فیصد آبادی دیہی علاقوں میں رہائش پذیر ہے جہاں گھروں کی نمایاں تعداد میں بیت الخلاء کے نہ ہونے کی وجہ سے کھلی جگہوں پر رفع حاجت کا عمل جاری و ساری ہے۔ پاکستان سوشل اینڈ لیونگ اسٹینڈرز میزیرمنٹ سروے 2012-13 کے مطابق ملک میں سب سے زیادہ کھلی جگہوں پر رفع حاجت کرنے کا عمل صوبہ پنجاب کے دیہی علاقوں میں ہے کیونکہ پنجاب کے 26 فیصد دیہی گھرانوں میں بیت الخلاء موجود نہیں جبکہ سندھ کے دیہی علاقوں کے 17 فیصد مکانات اس سہولت سے محروم ہیں۔
اسی طرح خیبرپختونخوا کے 16 فیصد دیہی مکانات اور بلوچستان کے 20 فیصد دیہی گھرانے بیت الخلاء نام کی چیز کا کوئی وجود نہیں رکھتے۔ اس طرح اضلاع کی سطح پر صورتحال کچھ اضلاع کے حوالے سے سنگین اور بعض کے حوالے سے بہتر ہے۔ سروے کے مطابق پاکستان کے 114 اضلاع میں سے خیبر پختونخوا کے ضلع کوہستان کے اس وقت 77 فیصد گھروں میں بیت الخلاء کی سہولت کا کوئی وجود ہی نہیں۔ دوسرے نمبر پر بلوچستان کا ضلع لورالائی ہے جہاں 54 فیصد مکانات لیٹرین کی سہولت سے محروم ہیں۔ جبکہ کے پی کے کا ضلع تورغر 51 فیصد ٹوائلٹ سے محروم گھروں کے ساتھ پاکستان کے 114 اضلاع میں تیسرے نمبر پر ہے۔
بیت الخلاء کی سہولت سے محروم گھروں کے تناسب کے حوالے سے اضلاع کی درجہ بندی میں پہلے 10 محروم ترین اضلاع میں سے چار کا تعلق صوبہ پنجاب سے، تین کا بلوچستان سے، دو کا خیبر پختونخوا سے اور ایک کا سندھ سے ہے۔ اسی طرح پاکستان کے 31 اضلاع میں بیت الخلاء سے محروم گھروں کا تناسب 25 فیصد اور اس سے زائد ہے یعنی 25 سے 77 فیصد تک۔ لیکن تصویر کا ایک رخ یہ بھی ہے کہ لاڑکانہ، شہداد کوٹ اور سبی پاکستان کے وہ خوش قسمت اضلاع ہیں جہاں تمام گھروں میں بیت الخلاء موجود ہے۔
جبکہ باقی 111 اضلاع جن کے اعدادو شمار دستیاب ہیں وہاں زیادہ یا بہت کم ایسے گھر ضرور موجود ہیں جن میں بیت الخلاء کی سہولت موجود نہیں۔ ایسے میں کوئی کھلی جگہ پر حاجت کرے تو اس سے دوسرے پریشان اور بیمار اور اگر نہ کرے تو خود بیمار۔ واٹر سینی ٹیشن اینڈ ہائیجین ایکسپرٹ ڈاکٹر فرخ محمود اس نقطہ کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں
''اس کو ہم کہتے ہیں Call of Nature کہ جب بھی آپ کو یہ کال آئے گئی تو اس کو Attend کرنا ہوگا۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ اگر کوئی کھلی جگہ پر حاجت کرے تو اس سے دوسرے پریشان اور بیمار کیسے ہوتے ہیں؟ جیساکہ ہم سب لوگ جانتے ہیں۔ انسانی فضلے میں بہت سی اقسام کے جراثیم موجود ہوتے ہیں جو دست، پیچس، ہیضہ، ٹائیفائیڈ اور ہیپاٹائٹس A جیسی بیماریوں کا باعث بنتے ہیں۔ اس کے علاوہ جتنی دوائیاں انسانی استعمال میں ہیں ان میں سے قریب قریب 90 فیصد دوائیاں پیشاب کے راستے جسم سے خارج ہوتی ہیں۔
انسانی فضلہ جب کھلی جگہوں پر پڑا رہے گا تو اس سے مکھیوں اور کیڑے مکوڑوں کے ذریعے بیماریاں پھیلیں گی۔ اب رہی بات حاجت کو روک کر خود بیمار ہونے کی؟ تو ہم سب یہ جانتے ہیں کہ ہمارا جسم ایک خود کار نظام کے تحت کام کرتا ہے۔ اللہ پاک نے کچھ گنجائش تو رکھی ہوئی ہے کہ کچھ وقت کے لیے حاجت کو روکا جاسکتا ہے۔ لیکن اگر آپ کو ارادتاً اور مجبوری کے تحت ایسا مسلسل کرنا پڑے تو انسان کا سسٹم جواب دے دیتا ہے۔ اگر کوئی شخص پیشاب روکے رکھتا ہے تو اس کے مثانے میں کچھ گنجائش موجود ہوتی ہے۔
اس میں وہ اکٹھا ہوتا رہتا ہے پھر ایک وقت آتا ہے کہ شدید درد کے بعد مثانے کا Valve خود بخود کھل جاتا ہے اور پیشاب نکل جاتا ہے جس طرح کہ بچوں میں ہوتا ہے۔ تو اسی طرح سے جو انتڑیوں کا نظام ہے اگر اس کو بھی ہم اس عمل سے گزاریں گے اور اپنی مرضی کے تحت لانا چاہیں گے جوکہ نہیں ہوسکتا تو پھر اس سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر فرخ محمود نے مزید بتاتے ہوئے کہا کہ جب تک ہم انسانی فضلے کو سائنسی بنیادوں پر تلف نہیں کریں گے۔ اپنے اردگرد کے ماحول کو صاف نہیں رکھیں گے۔ تب تک ہم صحت مند نہیں رہ سکتے کیونکہ ان تمام چیزوں کا بھی صحت مند ماحول کے ساتھ گہرا تعلق ہے اور خاص طور پر بیت الخلاء استعمال کرنے کے بعد کھانا کھانے سے پہلے اور کھانا پکانے سے پہلے ہاتھوں کا دھونا انتہائی ضروری ہے۔''
دیہی علاقوں میں کھلی جگہوں پر حاجت کرنے کا عمل انسانی صحت پر اپنے منفی اثرات کے ساتھ ساتھ خواتین خصوصاً لڑکیوں اور بچوں کے تقدس اور تحفظ کو بھی خطرات کے امکانات سے دوچار کردیتا ہے۔ اس لیے یہ امر نہایت اہم ہے کہ پاکستان کے ہر گھر میں بیت الخلاء کی سہولت موجود ہو۔ بیت الخلاء تک ہر انسان کی رسائی کو یقینی بنانا ایک بنیادی انسانی حق ہے جس کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 28 جولائی 2010ء کو بطور انسانی حق کے تسلیم کیا ہے۔
علاوہ ازیں میلینئم ڈویلپمنٹ گولز 2015ء کے ساتویں گول کا ٹارگٹ سیون سی بھی سینی ٹیشن کی سہولیات تک لوگوں کی رسائی کے حوالے سے ہے تاکہ کھلی جگہوں پر حاجت کرنے کے عمل کو ختم کیا جا سکے۔ اس بنیادی انسانی حق کی تکمیل اور ملینیئم ڈویلپمنٹ گولز کے حصول کے لیے پاکستان کی وفاقی اورصوبائی حکومتیں بین الاقوامی ترقیاتی اداروں کے تعاون سے کوششیں کر رہی ہیں۔ ان ہی کوششوں کی بدولت آج ملک میں کھلی جگہوں پر رفع حاجت کرنے کے عمل میں کمی کرنے کے حوالے سے صورت حال ماضی کے مقابلے میں کافی بہتر ہے جس کا اعتراف عالمی اداروں نے بھی کیا ہے۔
عالمی ادارہ صحت اور عالمی ادارہ اطفال کی رپورٹ پروگراس ان سینی ٹیشن اینڈ ڈرنکنگ واٹر 2013ء اپ ڈیٹ میں اس امر کی واضح طور پر نشاندہی کی گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان کا شمار دنیا کے ان 14 ممالک میں ہوتا ہے جنہوں نے 1990ء سے 2011ء تک کھلی جگہ پررفع حاجت کرنے کے عمل میں 25 فیصد سے زائد کمی حاصل کی ہے۔ ان 14 ممالک کی فہرست میں پاکستان 29 فیصد کمی کے ساتھ چھٹے نمبر پر ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان جہاں 1990ء میں 52 فیصد آبادی کھلی جگہوں پر رفع حاجت کیا کرتی تھی، اب یہ شرح کم ہوکر 23 فیصد تک آچکی ہے۔ یعنی کھلی جگہوں پررفع حاجت کرنے والی آبادی کی شرح میں گزشتہ 21 سالوں کے دوران 3.9 فیصد سالانہ کمی واقع ہوئی ہے۔
ملک میں کھلی جگہوں پر ہونے والے رفع حاجت کے عمل میں کمی گھروں میں بیت الخلاء کی سہولت کی فراہمی کی مرہون منت ہے۔ پاکستان میں کئے جانے والے مختلف سرویز اس امر کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ ملک میں بیت الخلاء کی سہولت سے محروم گھروں کے تناسب میں وقت کے ساتھ ساتھ کمی واقع ہوئی ہے۔ 1998ء میں پاکستان میں ہونے والی پانچویں خانہ و مردم شماری کے مطابق اس وقت ملک کے 51 فیصد گھروں میں بیت الخلاء موجود نہیں تھے۔
اب یہ تناسب 2012-13ء میں ہونے والے تازہ ترین پاکستان سوشل اینڈ لیونگ اسٹینڈرز میزیرمنٹ سروے کے مطابق کم ہوکر 15 فیصد گھر بیت الخلاء کی موجودگی سے عاری تھے اور یہ تناسب 2012-13ء تک کم ہوکر 22 فیصد بیت الخلاء سے محروم دیہی گھروں تک آچکا ہے۔ اور اس وقت ملک کے 78 فیصد دیہی گھروں میں بیت الخلاء کی سہولت موجود ہیں۔ لیکن اب بھی سینی ٹیشن کی سہولیات تک لوگوں کی رسائی کو یقینی بنانے کے حوالے سے ملینیئم ڈویلپمنٹ گولز 2015ء کے ہدف کو حاصل کرنے کے سلسلے میں ملک کو مزید پیشرفت کی ضرورت ہے۔ کیونکہ پلاننگ کمیشن آف پاکستان کی رپورٹ دی پاکستان ملینیئم ڈویلپمنٹ گولز رپورٹ 2013ء کے مطابق پاکستان 2015ء تک اپنے ہدف یعنی 90 فیصد لوگوں کو سینی ٹیشن کی سہولیات تک رسائی مہیا کرنے کے حوالے سے ابھی پیچھے ہے۔
سینی ٹیشن کی سہولیات تک رسائی کے اس ہدف کا بنیادی نقطہ بہتر نکاسی کے حامل بیت الخلاء تک لوگوں کی رسائی کو یقینی بنانا ہے۔ ورلڈ بینک کی ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق سینی ٹیشن کی سہولیات کی عدم موجودگی اور ان کا ناقص پن پاکستان کوہر سال 5.7 ارب امریکی ڈالر کی مالیت کا نقصان پہنچاتا ہے۔ جس کا 87 فیصد حصہ صرف صحت کے شعبہ کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ اس نقصان میں کمی لانے کا واحد طریقہ واش ایکسپرٹ ڈاکٹر فرخ محمود بہتر سہولت کے حامل بیت الخلاء کی فراہمی اور اس کے موزوں استعمال کے شعور کو قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں۔
''بہت سے ممالک میں ایسے تجربات بھی کیے گئے ہیں کہ جب کسی گائوں میں بیت الخلاء کی سہولت بنا کے دی گئی اور لوگوں کو اس کے استعمال کی ترغیب بھی دی گئی تو اس کے بہت اچھے نتائج سامنے آئے۔ لیکن کئی جگہوں پر ایسے بھی ہوا کہ لوگوں کو بیت الخلاء بناکر دیئے گئے لیکن وہ اس کو استعمال ہی نہیں کرنا جانتے تھے۔ ان کو سکھایا ہی نہیں گیا کہ اس کو کیسے استعمال کرنا ہے۔ مثلاً فلش سسٹم کو کیسے استعمال کرنا ہے یا جو Setting کموڈ ہے۔
لوگ نہیں جانتے کہ اس کے اوپر کیسے بیٹھنا ہے تو جب ان کو یہ سارا کچھ مہیا کیا گیا اور اس کا استعمال بھی سکھایا گیا تو یہ بات بڑی واضح ہوگئی کہ لوگوں میں بیماری کی شرح میں ایک واضح کمی آئی۔ ظاہر ہے جب بیماری کم ہوگی تو اس پر آنے والے اخراجات بھی کم ہوں گے۔ اگر کمانے والا گھر کا فرد بیمار نہیں ہوگا تو اس گھر کی آمدن متاثر نہیں ہوگی، اگر وہ کما رہا ہے تو اقتصادی معاملات بھی چلتے رہیں گے اور یقینی طور پر اس کا آخر کار جو فائدہ ہے وہ ہماری معیشت کو پہنچے گا۔''
ملک میں سینی ٹیشن کے مسئلے پر قابو پانے کے لیے ستمبر 2006ء میں قومی سینی ٹیشن پالیسی بن چکی ہے جو 2002ء میں ڈھاکہ میں ہونے والی پہلی سائوتھ ایشین کانفرنس آن سینی ٹیشن کے اعلامیہ کے تسلسل میں بنائی گئی۔ پاکستان کی قومی سینی ٹیشن پالیسی کا پہلا مقصد بھی ملک میں کھلی جگہوں پر ہونے والے رفع حاجت کے عمل سے پاک ماحول کو یقینی بنانا ہے۔ اس کے علاوہ اکتوبر 2013ء میں کھٹمنڈو نیپال میں ہونے والی پانچویں سائوتھ ایشین کانفرنس آن سینی ٹیشن کے اعلامیہ میں اس بات پر متفقہ طور پر اتفاق رائے کا اظہار کیا گیا کہ 2023ء تک جنوبی ایشیاء کو کھلے عام رفع حاجت کرنے کے عمل سے پاک کرلیا جائے گا۔
جبکہ اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ صحت اور عالمی ادارہ اطفال کے واٹر اینڈ سینی ٹیشن کے جوائنٹ مانیٹرنگ پروگرام نے 2015ء کے بعد واٹر سینی ٹیشن اینڈ ہائیجین کے اہداف کا جو ازسرنو تعین کیا ہے اس کے مطابق 2025ء تک دنیا سے کھلے عام رفع حاجت کرنے کے عمل کو ختم کردیا جائے گا۔ تخفیف غربت کا فنڈ غربت کے خاتمے اور لوگوں کو بنیادی ضروریات زندگی کی سہولیات مہیا کرنے کے حوالے سے پاکستان کے تقریباً تمام اضلاع میں متحرک اور فعال ادارے کے طور پر مصروف عمل ہے۔
ملک کے دیہی علاقوں میںکھلے عام حاجت کے عمل کے خاتمے کے حوالے سے پی پی اے ایف ورلڈ بینک کے تعاون سے ایک منصوبہ پر کام کررہی ہے۔ محمد ندیم سینئر جنرل منیجر کمیونٹی فزیکل انفاسٹرکچر یونٹ اس حوالے سے بتاتے ہیں کہ (Open defecation) ODF کا ہمارا جو پراجیکٹ ہے اس میں ابھی تقریباً ایک سال پہلے ورلڈ بینک کے ساتھ ہمارا ایک معاہدہ ہوا ہے ہم نے 6 اضلاع کی 6 یونین کونسلز منتخب کی تھیں تاکہ ہم ان علاقوں میں پائیلٹ پروجیکٹ کے طور پر کھلی جگہوں پر رفع حاجت کے خاتمے کے لیے کام کریں۔ اس وقت ان 6 یونین کونسلز کو ہم نے 70 فیصد ODF فری کردیا ہے۔
مطلب یہ کہ لوگوں نے اپنے طور پر اپنی لیٹرین بنانے کے لیے کام کیا، لوگوں میں Awareness اجاگر کی گئی۔ مستقبل میں ہم ملک کے تقریباً تمام اضلاع اور ان کے جتنے بھی گائوں ہیں۔ ان میں ہم اپنی پارٹنرز آرگنائزیشنز کی مدد کے ساتھ اس پروگرام کو توسیع دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے پروگرام کی یہ بہت بڑی خوبصورتی ہے کہ ہم تکنیکی رہنمائی بھی دیتے ہیں۔ معاشی وسائل بھی مہیا کرتے ہیں۔ ہم پانچ سے چھ ہزار کا بڑا اچھا Low-Cost Economical Sanitation Units ڈیزائن کرکے دے رہے ہیں۔
جہاں تک مائیکروکریڈٹ کی بات ہے تو اگر کوئی اپنے گھر میں لیٹرین وغیرہ تعمیر کرنا چاہے تو اس کے لیے پی پی اے ایف کریڈٹ بھی فراہم کرتا ہے۔ انشاء اللہ ہم یہ امید کرتے ہیں کہ جیسے جیسے ورلڈ بینک کی ہمیں سپورٹ اور مالی معاونت رہتی ہے تو PPAF انشاء اللہ تمام اضلاع میں عوامی آگہی کے ساتھ ساتھ تکنیکی رہنمائی اور مالی معاونت کے ذریعے کھلی جگہوں پر رفع حاجت کے خاتمے پر بہت زیادہ کام کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔''
ملک میں کھلی جگہوں پررفع حاجت کی روک تھام کے لیے تمام لوگوں کی بیت الخلاء کی سہولت تک رسائی کو یقینی بنانے کے حوالے سے سفر ابھی جاری ہے۔ لیکن منزل دور نہیں بشرطیکہ تمام گھروں میں بیت الخلاء کی سہولت کی موجودگی کے ساتھ ساتھ گھر سے باہر عوامی بیت الخلاء کی سہولت کی فراہمی پر بھی خصوصی توجہ دی جائے۔