شعلۂ رنگ
ایک شعری مجموعہ بعنوان ’’شعلہ رنگ‘‘ حال ہی میں شایع ہوا ہے، کتاب کی خاصیت یہ ہے کہ یہ حسن و جمال میں یکتا ہے،
ایک شعری مجموعہ بعنوان ''شعلہ رنگ'' حال ہی میں شایع ہوا ہے، کتاب کی خاصیت یہ ہے کہ یہ حسن و جمال میں یکتا ہے، اگر شاعری میں انفرادیت اور وزن ہے تو طباعت و اشاعت میں بھی سلیقہ اور بانکپن نمایاں ہے۔ اس کی خاصیت یہ بھی ہے کہ اس میں خالق کائنات کی تعریف و توصیف کے حوالے سے چھ ''حمد باری تعالیٰ'' اور 33 نعتیں شامل ہیں، اسی طرح منقبت اور سلام کے ساتھ ساتھ غزلیات، نظمیں، گیت، قطعات وغیرہ شامل اشاعت ہیں ۔ قارئین کے لیے یہ سہولت بھی مہیا کی گئی ہے کہ ''حروف تہجی کے ذریعے ردیف الف سے ی تک کی نشاندہی کر دی گئی ہے۔
اس طرح بیت بازی کے شائقین کے لیے یہ سہولت میسر آگئی ہے کہ وہ اپنے مطلوبہ شعر کا آسانی کے ساتھ انتخاب کرسکتے ہیں۔کمپوزنگ کی غلطیوں سے کسی تحریر کا پاک ہونا معمولی نہیں، بڑی بات ہے اور یہ بڑی بات اس کتاب میں موجود ہے۔ شعلہ رنگ کو دیکھنے اور پرکھنے کے بعد اس بات کا اندازہ اچھی طرح ہوجاتا ہے کہ اگر شاعر نے خلوص دل، خلوص نیت اور محبت و عقیدت کے ساتھ عرق ریزی کی ہے تو ادارے کے منتظمین رشید بٹ، حمیرا اطہر نے بھی محنت و خلوص کے ساتھ اپنے فرائض انجام دیے ہیں، اس طرح یہ مجموعہ ''شعلہ رنگ'' قابل مطالعہ اور قابل رشک بن گیا ہے۔
ایک چھوٹی سی کمی کا جو مجھے احساس ہوا وہ یہ ہے کہ ''شعلہ رنگ'' کے شاعر شعلہ آسیونی کے کہیں علیحدہ سے کوائف یا مضمون پڑھنے کو نہیں ملتا ہے لیکن اس کمی کو ناقدین و مبصرین کے مضامین دور کرنے میں مدد دیتے ہیں اور ان کا مکمل تعارف پڑھنے کو دستیاب ہوجاتا ہے۔
یاور مہدی شعلہ آسیونی سے تعلقات کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ شعلہ آسیونی تحریک پاکستان کے ہراول دستے میں شامل تھے اور ان کی شاعری کا محور آزادی کا حصول اور پاکستان کا قیام تھا، شعلہ آسیونی نے تلخیوں اور تکالیف کے باوجود اپنے آپ کو تبدیل نہیں کیا، انھوں نے شاعری کی ہر صنف میں طبع آزمائی کی ہے، ان کے کلام میں حمد و نعت، منقبت، سلام، غزل ، گیت غرض کہ ہر طرح کی تخلیق شامل تھی ''چند تاثرات'' کے عنوان سے پروفیسر سحر انصاری کا مضمون بھی مجموعہ میں درج ہے۔
اسی مضمون سے ہمیں اس بات کی آگہی ہوتی ہے کہ مرحوم شعلہ آسیونی کی شاعری کا مرکز و محور آزادی کا حصول تھا، عموماً یہ کہا جاتا ہے کہ نام یا تخلص کا اثر پوری شخصیت پر ہوتا ہے، میر، سودا، درد، جرأت، انشا، ظفر، ناسخ، آتش، غالب، اقبال، مومن، جوش، فانی، یہ چند تخلص سردست یاد آرہے ہیں، تاریخ ادب سے دلچسپی کے حامل تمام افراد اس امر کی تائید کریں گے کہ تمام مذکورہ شعرا کی شخصیت اور کلام پر ان کے تخلص کا گہرا اثر مرتب ہوا، یہی کیفیت شعلہ آسیونی کے ہاں نظر آتی ہے وہ نوجوانی میں ایک شعلے سے کم نہیں تھے اور یہ شعلگی ساری زندگی ان کے کلام اور شخصیت کا خاصہ رہی۔رمضان کے مقدس و متبرک مہینے میں مجھے اس کتاب کا نعتیہ اور حمدیہ کلام پڑھنے کو ملا تو طبیعت میں خوشی و شادابی اور ایمان میں تازگی پیدا ہوگئی، کچھ نعتیں تو ایسی ہیں جنھیں نعت گو کی زبانوں سے بارہا سنا ہے اور عقیدت و محبت کی برسات میں بھیگتے ہوئے محسوس کیا ہے کہ حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی محبت و چاہت رکھنے والے ہی اس کیف سے لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔
شعلہ آسیونی کی شاعری میں اساتذہ کا رنگ نمایاں ہے۔ انھوں نے آسان اور مشکل دونوں زمینوں میں شاعری کے باغ کو سینچا ہے، شاید اسی وجہ سے ان کی شاعری سے ہر شخص استفادہ کرسکتا ہے اور اسے محسوس کرسکتا ہے اور اس کی روح میں اتر سکتا ہے۔ان کی یہ غزل پڑھتے ہوئے یوں محسوس ہو رہا ہے کہ ہم کلاسیکی شاعری کے سمندر میں غوطہ زن ہیں اور میر کا کلام پڑھ رہے ہیں:
سوچا ہے اگر دل کا دکھانا کسی دن اور
وہ دن بھی مجھے آ کے بتانا کسی دن اور
ٹھہراتے ہو اس کوچہ میں جاناں کسی دن اور
لازم ہے تو کیا جان گنوانا کسی دن اور
شعلہ آسیونی کی شاعری میں زیست کے رنگ جابجا نظر آتے ہیں کہیں امید ہے تو کہیں مایوسی کہ زندگی ان ہی جذبات سے ہم آہنگ ہے۔ مسئلے، مسائل، دکھ، درد، ناکامیاں اور کامیابیوں کی تمنا اور خوشیوں کی تکمیل زندگی میں شامل نہ ہو تو حیات منجمد ہوجاتی اور زندگی ٹھہرجاتی ہے اور مایوسیاں آگے بڑھ کر گلے لگالیتی ہیں۔ اور انسان کی زندگی میں اکثر اس طرح ہوتا ہے جب آس پر یاس غالب آجاتی ہے۔ شعلہ آسیونی اب اس دنیا میں نہیں ہیں لیکن اپنے کلام اور اپنے کاموں کے حوالے سے آج بھی لوگوں کے ذہن و دل اور تاریخ کے اوراق پر زندہ جاوید ہیں، ایسے لوگ ہمیشہ امر رہتے ہیں جنھیں اپنے وطن سے محبت ہوتی ہے جو اپنی ملک و قوم کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں وطن کی ترقی وتعمیر کے لیے اپنی زندگی کا لمحہ لمحہ وقف کردینا اپنا فریضہ جانتے ہیں۔
اس کتاب کے عمیق مطالعے کے بعد اس بات کا مجھے اچھی طرح اندازہ ہوا کہ شعلہ آسیونی کی ساری زندگی، عشق وطن اور عشق رسول ؐ میں گزری۔ بقول سید شمس وارثی کے یہ ایک زندہ تابندہ حقیقت ہے کہ جن قابل تذکرہ شخصیات نے تحریک پاکستان کی جدوجہد میں مخلصانہ طور پر بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ان میں بلاشبہ آسیونی مرحوم کا نام شامل ہے، انھوں نے اپنے قلم کے ذریعے لوگوں کے قلوب گرمائے، روزانہ تحریک پاکستان کے حوالے سے اپنا تازہ کلام اپنی مترنم آواز میں سناتے، جس کے جواب میں نعرہ تکبیر کی صدائیں بلند ہوتیں۔
کتب و رسائل تقریباً روز ہی اشاعت کے مرحلے سے گزرتی ہیں، خوبصورت سرورق سے مزین مختلف موضوعات کا احاطہ کرتی ہیں، سیاسی، لسانی، ادبی و شعری کتب کے ساتھ ساتھ طب و سائنس، تاریخی واسلامی کتابیں بھی بک اسٹالوں کی زینت میں اضافے کا باعث میں آج کل کھانا پکانے سے متعلق بے شمار جرائد و کتب شایع کی جا رہی ہیں، کھانا پکانے، اچھا اور انواع و اقسام کے کھانے کھانے کے شوقین ان کتابوں کو ضرور خریدتے ہیں، اپنے اپنے مزاج اور ذوق و دلچسپی کی بات ہے، لیکن یہ بات بھی اپنی جگہ درست ہے کہ اچھی اور معیاری کتابیں بہت کم پڑھنے کو ملتی ہیں، ایسی کتابوں کے مطالعے سے نہ کہ دلی و ذہنی تسکین حاصل ہوتی ہے، بلکہ معلومات میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔
بات کتابوں کی چل رہی ہے تو ایک اہم بات اور کہتی چلوں کہ ہمارے پبلشرز کتابوں کے ٹائٹل پر صرف ایک لفظ نہ لکھ کر خریدار کو پریشانی میں مبتلا نہیں کرتے ہیں بلکہ اس کا قیمتی وقت بھی ضایع کرتے ہیں اگر ان کتابوں پر ''ناول'' ، ''افسانے''، ''تاریخ'، ''ادب'' اور ''تنقید'' یا جس موضوع پر کتاب لکھی گئی ہے اس موضوع کا اندراج کردیا جائے تو زیادہ بہتر ہو اور اس طرح اپنی پسند کی کتاب کا انتخاب آسان ہوجائے گا، چونکہ قارئین کی بھی مختلف اقسام ہیں، سب کا تعلق علم و ادب اور تحقیق سے نہیں ہوتا ہے بس وہ مطالعے کے شوقین ہیں انھیں پڑھنے کی لت اور کتابیں جمع کرنے کا شوق ہے، تو ایسے حضرات کے لیے اس گر پر عمل کرنا مفید ہوگا۔
اس طرح بیت بازی کے شائقین کے لیے یہ سہولت میسر آگئی ہے کہ وہ اپنے مطلوبہ شعر کا آسانی کے ساتھ انتخاب کرسکتے ہیں۔کمپوزنگ کی غلطیوں سے کسی تحریر کا پاک ہونا معمولی نہیں، بڑی بات ہے اور یہ بڑی بات اس کتاب میں موجود ہے۔ شعلہ رنگ کو دیکھنے اور پرکھنے کے بعد اس بات کا اندازہ اچھی طرح ہوجاتا ہے کہ اگر شاعر نے خلوص دل، خلوص نیت اور محبت و عقیدت کے ساتھ عرق ریزی کی ہے تو ادارے کے منتظمین رشید بٹ، حمیرا اطہر نے بھی محنت و خلوص کے ساتھ اپنے فرائض انجام دیے ہیں، اس طرح یہ مجموعہ ''شعلہ رنگ'' قابل مطالعہ اور قابل رشک بن گیا ہے۔
ایک چھوٹی سی کمی کا جو مجھے احساس ہوا وہ یہ ہے کہ ''شعلہ رنگ'' کے شاعر شعلہ آسیونی کے کہیں علیحدہ سے کوائف یا مضمون پڑھنے کو نہیں ملتا ہے لیکن اس کمی کو ناقدین و مبصرین کے مضامین دور کرنے میں مدد دیتے ہیں اور ان کا مکمل تعارف پڑھنے کو دستیاب ہوجاتا ہے۔
یاور مہدی شعلہ آسیونی سے تعلقات کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ شعلہ آسیونی تحریک پاکستان کے ہراول دستے میں شامل تھے اور ان کی شاعری کا محور آزادی کا حصول اور پاکستان کا قیام تھا، شعلہ آسیونی نے تلخیوں اور تکالیف کے باوجود اپنے آپ کو تبدیل نہیں کیا، انھوں نے شاعری کی ہر صنف میں طبع آزمائی کی ہے، ان کے کلام میں حمد و نعت، منقبت، سلام، غزل ، گیت غرض کہ ہر طرح کی تخلیق شامل تھی ''چند تاثرات'' کے عنوان سے پروفیسر سحر انصاری کا مضمون بھی مجموعہ میں درج ہے۔
اسی مضمون سے ہمیں اس بات کی آگہی ہوتی ہے کہ مرحوم شعلہ آسیونی کی شاعری کا مرکز و محور آزادی کا حصول تھا، عموماً یہ کہا جاتا ہے کہ نام یا تخلص کا اثر پوری شخصیت پر ہوتا ہے، میر، سودا، درد، جرأت، انشا، ظفر، ناسخ، آتش، غالب، اقبال، مومن، جوش، فانی، یہ چند تخلص سردست یاد آرہے ہیں، تاریخ ادب سے دلچسپی کے حامل تمام افراد اس امر کی تائید کریں گے کہ تمام مذکورہ شعرا کی شخصیت اور کلام پر ان کے تخلص کا گہرا اثر مرتب ہوا، یہی کیفیت شعلہ آسیونی کے ہاں نظر آتی ہے وہ نوجوانی میں ایک شعلے سے کم نہیں تھے اور یہ شعلگی ساری زندگی ان کے کلام اور شخصیت کا خاصہ رہی۔رمضان کے مقدس و متبرک مہینے میں مجھے اس کتاب کا نعتیہ اور حمدیہ کلام پڑھنے کو ملا تو طبیعت میں خوشی و شادابی اور ایمان میں تازگی پیدا ہوگئی، کچھ نعتیں تو ایسی ہیں جنھیں نعت گو کی زبانوں سے بارہا سنا ہے اور عقیدت و محبت کی برسات میں بھیگتے ہوئے محسوس کیا ہے کہ حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی محبت و چاہت رکھنے والے ہی اس کیف سے لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔
شعلہ آسیونی کی شاعری میں اساتذہ کا رنگ نمایاں ہے۔ انھوں نے آسان اور مشکل دونوں زمینوں میں شاعری کے باغ کو سینچا ہے، شاید اسی وجہ سے ان کی شاعری سے ہر شخص استفادہ کرسکتا ہے اور اسے محسوس کرسکتا ہے اور اس کی روح میں اتر سکتا ہے۔ان کی یہ غزل پڑھتے ہوئے یوں محسوس ہو رہا ہے کہ ہم کلاسیکی شاعری کے سمندر میں غوطہ زن ہیں اور میر کا کلام پڑھ رہے ہیں:
سوچا ہے اگر دل کا دکھانا کسی دن اور
وہ دن بھی مجھے آ کے بتانا کسی دن اور
ٹھہراتے ہو اس کوچہ میں جاناں کسی دن اور
لازم ہے تو کیا جان گنوانا کسی دن اور
شعلہ آسیونی کی شاعری میں زیست کے رنگ جابجا نظر آتے ہیں کہیں امید ہے تو کہیں مایوسی کہ زندگی ان ہی جذبات سے ہم آہنگ ہے۔ مسئلے، مسائل، دکھ، درد، ناکامیاں اور کامیابیوں کی تمنا اور خوشیوں کی تکمیل زندگی میں شامل نہ ہو تو حیات منجمد ہوجاتی اور زندگی ٹھہرجاتی ہے اور مایوسیاں آگے بڑھ کر گلے لگالیتی ہیں۔ اور انسان کی زندگی میں اکثر اس طرح ہوتا ہے جب آس پر یاس غالب آجاتی ہے۔ شعلہ آسیونی اب اس دنیا میں نہیں ہیں لیکن اپنے کلام اور اپنے کاموں کے حوالے سے آج بھی لوگوں کے ذہن و دل اور تاریخ کے اوراق پر زندہ جاوید ہیں، ایسے لوگ ہمیشہ امر رہتے ہیں جنھیں اپنے وطن سے محبت ہوتی ہے جو اپنی ملک و قوم کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں وطن کی ترقی وتعمیر کے لیے اپنی زندگی کا لمحہ لمحہ وقف کردینا اپنا فریضہ جانتے ہیں۔
اس کتاب کے عمیق مطالعے کے بعد اس بات کا مجھے اچھی طرح اندازہ ہوا کہ شعلہ آسیونی کی ساری زندگی، عشق وطن اور عشق رسول ؐ میں گزری۔ بقول سید شمس وارثی کے یہ ایک زندہ تابندہ حقیقت ہے کہ جن قابل تذکرہ شخصیات نے تحریک پاکستان کی جدوجہد میں مخلصانہ طور پر بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ان میں بلاشبہ آسیونی مرحوم کا نام شامل ہے، انھوں نے اپنے قلم کے ذریعے لوگوں کے قلوب گرمائے، روزانہ تحریک پاکستان کے حوالے سے اپنا تازہ کلام اپنی مترنم آواز میں سناتے، جس کے جواب میں نعرہ تکبیر کی صدائیں بلند ہوتیں۔
کتب و رسائل تقریباً روز ہی اشاعت کے مرحلے سے گزرتی ہیں، خوبصورت سرورق سے مزین مختلف موضوعات کا احاطہ کرتی ہیں، سیاسی، لسانی، ادبی و شعری کتب کے ساتھ ساتھ طب و سائنس، تاریخی واسلامی کتابیں بھی بک اسٹالوں کی زینت میں اضافے کا باعث میں آج کل کھانا پکانے سے متعلق بے شمار جرائد و کتب شایع کی جا رہی ہیں، کھانا پکانے، اچھا اور انواع و اقسام کے کھانے کھانے کے شوقین ان کتابوں کو ضرور خریدتے ہیں، اپنے اپنے مزاج اور ذوق و دلچسپی کی بات ہے، لیکن یہ بات بھی اپنی جگہ درست ہے کہ اچھی اور معیاری کتابیں بہت کم پڑھنے کو ملتی ہیں، ایسی کتابوں کے مطالعے سے نہ کہ دلی و ذہنی تسکین حاصل ہوتی ہے، بلکہ معلومات میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔
بات کتابوں کی چل رہی ہے تو ایک اہم بات اور کہتی چلوں کہ ہمارے پبلشرز کتابوں کے ٹائٹل پر صرف ایک لفظ نہ لکھ کر خریدار کو پریشانی میں مبتلا نہیں کرتے ہیں بلکہ اس کا قیمتی وقت بھی ضایع کرتے ہیں اگر ان کتابوں پر ''ناول'' ، ''افسانے''، ''تاریخ'، ''ادب'' اور ''تنقید'' یا جس موضوع پر کتاب لکھی گئی ہے اس موضوع کا اندراج کردیا جائے تو زیادہ بہتر ہو اور اس طرح اپنی پسند کی کتاب کا انتخاب آسان ہوجائے گا، چونکہ قارئین کی بھی مختلف اقسام ہیں، سب کا تعلق علم و ادب اور تحقیق سے نہیں ہوتا ہے بس وہ مطالعے کے شوقین ہیں انھیں پڑھنے کی لت اور کتابیں جمع کرنے کا شوق ہے، تو ایسے حضرات کے لیے اس گر پر عمل کرنا مفید ہوگا۔