امریکی سفارتخانے تشدد کا نشانہ کیوں بنتے ہیں
امریکا نے آج تک’’امریکا ویت نام‘‘ جنگ میں مرنے والے امریکی فوجیوں کی صحیح تعداد کسی کو نہیں بتائی
PARIS:
''مسلمانوں کی معصومیت'' کے زیرِ عنوان ملعون امریکی شہری نکولا بیسلے نے فلم بنا کر جس بے حیائی سے توہینِ رسالت کا ارتکاب کیا ہے۔
اِس کا فطری نتیجہ یہی نکلنا تھا جس کے مناظر ہم دنیا بھر میں دیکھ رہے ہیں۔ عالمِ اسلام کے جملہ مسلمانوں نے محبتِ رسولؐ میں بجا طور پر فوری ردِعمل کا اظہار کیا ہے۔ وطنِ عزیز میں بھی 21 ستمبر کو یومِ عشقِ رسولؐ منا کر بروقت اﷲکے آخری رسولؐ سے گہری و انمٹ محبت اور بدبخت امریکی فلمساز کے خلاف نفرت کا اظہار کیا گیا ہے، یہ علیحدہ بات ہے کہ بعض شرپسندوں کی مفسدانہ کارروائیوں کی وجہ سے تقریباً دو درجن معصوم مسلمانوں کا خون کر دیا گیا، سیکڑوں افراد زخمی ہوئے اور مبینہ طور پر آٹھ ارب روپے کا نقصان پہنچا۔
امریکی صدر باراک اوباما نے بھی شر انگیز فلم اور اس کے بنانے والے کی مذمت کی اور یہ بھی کہا ہے کہ فلم کے خلاف عالمِ اسلام میں ظہور پذیر ہونے والے مظاہرے فطری ردِعمل ہیں لیکن ساتھ ہی اُنہوں نے یہ بھی کہا: ''امریکی حکومت کا فلم اور فلمساز سے کوئی ناتا نہیں ہے۔'' امریکا اپنی برأت ظاہر کرنے کے لیے اخبارات و ٹیلی وژن پر اشتہارات بھی دے رہا ہے۔ ہمیں اِس پہلو پر بھی توجہ دینی چاہیئے کہ زبان کی بھی اپنی اہمیت ہوتی ہے۔
لیکن حیرت انگیز سوال یہ ہے کہ دنیا میں جب بھی کوئی بڑا ہنگامہ یا فساد پھوٹتا ہے، سب سے پہلے امریکی سفارت خانے ہی خصوصاً اِس کا ہدف اور نشانہ کیوں بنتے ہیں؟ امریکا میں بننے والی گستاخانہ فلم کے سانحے نے اِس سوال کو مزید اہمیت دے ڈالی ہے۔ یہاں ہم سب سے پہلے تو گزشتہ نصف صدی کے دوران دنیا بھر میں امریکی سفارتخانوں پر ہونے والے حملوں کی نوعیت جانیں گے اور پھر اِس سوال کے جواب کا کھوج لگانے کی کوشش کریں گے کہ اِن حملوں کی وجوہ کیا ہو سکتی ہیں؟
ساٹھ کے عشرے میں وسطی افریقہ کا ملک گابون،جس کا دارالحکومت لبریول ہے،میں واقع امریکی سفارت خانہ امریکا سے ناراض گابونی عوام اور شدت پسندوں کے غصے کا ہدف بنا۔اُس وقت القاعدہ کاوجود تھا نہ کہیں طالبان نظر آتے تھے لیکن اِس کے باوجود امریکی سفارت خانے پر حملہ کردیاگیا۔5 تا8مارچ1964 کو گابون کے حکمرانوں کا تختہ اُلٹنے کی کوششیں کی جاتی رہیں لیکن سب ناکام ہوگئیں۔اِس ناکامی کے فوراً بعدلبریول میں بروئے کار امریکی سفارتخانے کو دھمکیاں ملنی شروع ہوگئیں۔
پانچ مارچ1964 کو تقریباً سواآٹھ بجے صبح جب امریکی سفارتخانے کے باہر ایک بم پھٹا تو اُس وقت سفارتخانہ خالی ہوچکاتھا تاہم اِس بم نے سفارتخانے کی شیشے کی کئی کھڑکیوں کو کرچی کرچی کردیا۔تین دن بعد،8مارچ کی شام، امریکی سفارتخانے سے تقریباً پچاس فٹ دُور ایک اور بم دھماکے سے پھٹا لیکن اِس نے کوئی مالی نقصان پہنچایا نہ کوئی شخص زخمی ہوا،تاہم یہ واقعہ افریقہ میں عالمی تاریخِ سفارت کاری میں ایک اہم باب رقم کرگیا۔
ہم جانتے ہیں کہ ساٹھ ہی کے عشرے میں امریکا اور ویت نام کے درمیان گھمسان کی جنگ لڑی گئی۔(یہ جنگ دراصل1955 تا1975جاری رہی) اِس جنگ میں امریکیوں کے ہاتھوں اگر ویت نام کے لاکھوں سویلین اور فوجی مارے گئے تو مرنے والے امریکی فوجیوں کی تعداد بھی ہزاروں میں تھی۔اِس کا کچھ اندازہ امریکی ریاست ورجینیا میں آرلنگٹن کے فوجی قبرستان میں دُور تک پھیلی قبروں کی تعداد سے لگایاجاسکتا ہے۔
امریکا نے آج تک''امریکا ویت نام'' جنگ میں مرنے والے امریکی فوجیوں کی صحیح تعداد کسی کو نہیں بتائی۔ویت نامی اُس زمانے میں،ظاہر ہے امریکا کے بے پناہ مخالف تھے،چنانچہ31جنوری1968 کی شب ویت نامی گوریلائوں نے سائیگان میں قائم امریکی سفارتخانے کی بیرونی دیوار میں ایک ہلاکت خیز بم نصب کرکے اُسے ریزہ ریزہ کردیا اور سفارتخانے کے اندر واقعہ امریکی فوجیوں کو گھیر بھی لیا۔ساری رات فریقین کے درمیان خونیں جنگ کا طبل بجتا رہا۔صبح9بجے کے قریب امریکیوں نے ویت نامی حملہ آوروں کو بھگادیا اور سفارتخانہ محفوظ بنالیا لیکن اِس سانحے کی وجہ سے ویت نام میں امریکی مفادات کو سخت نقصان پہنچا۔
70کے عشرے کے اواخر میں ایران کے دارالحکومت میں بروئے کار امریکی سفارتخانے پر ایرانی طلباء نے جس قوت وطاقت سے حملہ کرکے اِس پر قبضہ کرلیا تھا، اِس سانحے کی بازگشت پوری دنیا میں سنائی دی گئی تھی۔ایران کے آخری بادشاہ رضاشاہ جسے اپنی پہلوی سلطنت وشہنشاہیت پر بہت غرور تھا، کو امریکا کی بھرپور امداد حاصل تھی۔یہ کہنا بے جانہ ہوگا کہ یہ امریکا اوربرطانیہ تھے جنہوں نے سازشیں کرکے رضاشاہ پہلوی کو ایران پر مسلط کیا تھا۔
یہ شخص تقریباً چالیس برس حکمرانی کے مزے لوٹتا رہا۔اپنی بادشاہت کو قائم ودائم رکھنے کے لیے اُس نے اپنی عوام پر ہروہ ظلم وتشدد ڈھایا،جواس کے بس میں تھا لیکن اِس کے باوجود امریکا اور مغربی ممالک اس کی مسلسل سپورٹ کرتے رہے۔اگر ہم پولینڈ کے مشہور صحافی ریشارد کاپوشنسکی کی معرکہ آرا کتاب Shah Of Shahs اور پاکستان کے معروف دانشور ادیب جناب مختار مسعود کی نہایت دلکشا کتاب''لوحِ ایام'' کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ شاہ ایران کے مظالم کس قدر اذیت ناک تھے اور اُسے امریکی اشیرباد کہاں تک حاصل تھی۔1979 میں امام آیت اللہ روح اللہ خمینی اور اُن کے پیروکاروں نے اِس باجبروت شہنشاہ اور اس کی خوں آشام شہنشاہیت کا خاتمہ کردیا۔
اِس بے نظیر کامیابی کے بعد ایرانی عوام اور ایرانی طالب علم تہران میں واقع امریکی سفارتخانے کو سنگین نظروں سے گُھور رہے تھے،چنانچہ 4نومبر1979 کی صبح ساڑھے چھ بجے تہران یونیورسٹی کے سیکڑوں طلباء نے امریکی ایمبیسی پر دھاوا بول دیا۔انھوں نے پہلے امریکی سفارت خانے کے گردا گرد پھیلی تہ درتہ خاردار دیوار کاٹی اور پھر ''اﷲ اکبر'' اور ''مرگ برامریکا'' کے نعرے لگاتے ہوئے اندر گھس گئے۔یہ سفارت کاری تاریخ کا سب سے نمایاں سانحہ تھا۔ طلباء نے سفارتخانے کا محاصرہ کرکے اِس کے اندر موجود 52امریکیوں کو یرغمال بنالیا۔
یہ محاصرہ اور یرغمالیت مسلسل 444دنوں تک جاری رہا۔اِس دوران امریکا نے اپنے جنگی ہیلی کاپٹروں کے ذریعے یرغمالیوں کو رہا کرانے کے لیے ایک خطرناک آپریشن کیا لیکن ناکام رہا۔اُلٹا اِس آپریشن میں آٹھ امریکی فوجی مارے گئے۔امریکی سفارتخانے پر حملے کے اس واقعہ نے امریکی صدر کارٹر کو انتخابات میں شکست دے ڈالی۔کارٹر کی جگہ جب رونالڈ ریگن برسرِاقتدار آئے تو اُن کی طرف سے ترلامنت کرنے کے بعد ایران نے 20جنوری1981 کو تمام امریکی یرغمالیوں کو رہا کردیا۔تب سے اب تک ایران اور امریکا کے درمیان ایک نہ ختم ہونے والی مخاصمت جاری ہے۔
ایک تو21ستمبر2012 کویومِ عشقِ رسولؐ مناتے ہوئے اسلام آباد میں امریکی سفارتخانے پر اور اِس سے دو تین روز قبل کراچی اور پشاور میں امریکی قونصل خانوں پر پاکستان کے ناراض عوام نے(کہ امریکا میں ملعون نکولا بیسلے اوراُس کے ساتھیوں نے حضور نبی کریمؐ کی توہین کرنے والی فلم بنائی ہے) کئی دھاوے بولے ہیں لیکن اِن تازہ واقعات سے قبل بھی پاکستان میں بروئے کار امریکی سفارت خانے پر حملہ ہوچکا ہے۔یہ واقعہ بائیس نومبر 1979 کو پیش آیاتھا۔اُن دنوں سعودی عرب میں ایک سانحہ پیش آیا کہ ایک شخص نے مکہ میں حرم شریف کے اندر اسلحے کے زور پر کئی افراد کو یرغمال بنالیا ۔
اِسی دوران کسی ریڈیو نے یہ خبرنشرکردی کہ امریکا نے مسجد الحرام پر بمباری کردی ہے۔اِس خبر کے نشتر ہوتے ہی سیکڑوں پاکستانی طلباء نے امریکی سفارتخانے پر ہلہ بول دیا اور چند ہی لمحوں میں اِسے نذرِآتش بھی کردیا۔دو امریکی بھی ہلاک کردیے گئے۔بعدازاں معلوم ہوا کہ یہ خبر سرے سے ہی غلط تھی لیکن اِس غلط فہمی نے پاک امریکا تعلقات کو بہت نقصان پہنچایا۔اِسی غلط فہمی سے متاثر ہو کر لیبیا کے دارالحکومت میں واقع امریکی سفارتخانے پر 2دسمبر1979 کو حملہ کرکے اِسے مکمل طور پر خاکستر کردیاگیا۔
''مسلمانوں کی معصومیت'' کے زیرِ عنوان ملعون امریکی شہری نکولا بیسلے نے فلم بنا کر جس بے حیائی سے توہینِ رسالت کا ارتکاب کیا ہے۔
اِس کا فطری نتیجہ یہی نکلنا تھا جس کے مناظر ہم دنیا بھر میں دیکھ رہے ہیں۔ عالمِ اسلام کے جملہ مسلمانوں نے محبتِ رسولؐ میں بجا طور پر فوری ردِعمل کا اظہار کیا ہے۔ وطنِ عزیز میں بھی 21 ستمبر کو یومِ عشقِ رسولؐ منا کر بروقت اﷲکے آخری رسولؐ سے گہری و انمٹ محبت اور بدبخت امریکی فلمساز کے خلاف نفرت کا اظہار کیا گیا ہے، یہ علیحدہ بات ہے کہ بعض شرپسندوں کی مفسدانہ کارروائیوں کی وجہ سے تقریباً دو درجن معصوم مسلمانوں کا خون کر دیا گیا، سیکڑوں افراد زخمی ہوئے اور مبینہ طور پر آٹھ ارب روپے کا نقصان پہنچا۔
امریکی صدر باراک اوباما نے بھی شر انگیز فلم اور اس کے بنانے والے کی مذمت کی اور یہ بھی کہا ہے کہ فلم کے خلاف عالمِ اسلام میں ظہور پذیر ہونے والے مظاہرے فطری ردِعمل ہیں لیکن ساتھ ہی اُنہوں نے یہ بھی کہا: ''امریکی حکومت کا فلم اور فلمساز سے کوئی ناتا نہیں ہے۔'' امریکا اپنی برأت ظاہر کرنے کے لیے اخبارات و ٹیلی وژن پر اشتہارات بھی دے رہا ہے۔ ہمیں اِس پہلو پر بھی توجہ دینی چاہیئے کہ زبان کی بھی اپنی اہمیت ہوتی ہے۔
لیکن حیرت انگیز سوال یہ ہے کہ دنیا میں جب بھی کوئی بڑا ہنگامہ یا فساد پھوٹتا ہے، سب سے پہلے امریکی سفارت خانے ہی خصوصاً اِس کا ہدف اور نشانہ کیوں بنتے ہیں؟ امریکا میں بننے والی گستاخانہ فلم کے سانحے نے اِس سوال کو مزید اہمیت دے ڈالی ہے۔ یہاں ہم سب سے پہلے تو گزشتہ نصف صدی کے دوران دنیا بھر میں امریکی سفارتخانوں پر ہونے والے حملوں کی نوعیت جانیں گے اور پھر اِس سوال کے جواب کا کھوج لگانے کی کوشش کریں گے کہ اِن حملوں کی وجوہ کیا ہو سکتی ہیں؟
ساٹھ کے عشرے میں وسطی افریقہ کا ملک گابون،جس کا دارالحکومت لبریول ہے،میں واقع امریکی سفارت خانہ امریکا سے ناراض گابونی عوام اور شدت پسندوں کے غصے کا ہدف بنا۔اُس وقت القاعدہ کاوجود تھا نہ کہیں طالبان نظر آتے تھے لیکن اِس کے باوجود امریکی سفارت خانے پر حملہ کردیاگیا۔5 تا8مارچ1964 کو گابون کے حکمرانوں کا تختہ اُلٹنے کی کوششیں کی جاتی رہیں لیکن سب ناکام ہوگئیں۔اِس ناکامی کے فوراً بعدلبریول میں بروئے کار امریکی سفارتخانے کو دھمکیاں ملنی شروع ہوگئیں۔
پانچ مارچ1964 کو تقریباً سواآٹھ بجے صبح جب امریکی سفارتخانے کے باہر ایک بم پھٹا تو اُس وقت سفارتخانہ خالی ہوچکاتھا تاہم اِس بم نے سفارتخانے کی شیشے کی کئی کھڑکیوں کو کرچی کرچی کردیا۔تین دن بعد،8مارچ کی شام، امریکی سفارتخانے سے تقریباً پچاس فٹ دُور ایک اور بم دھماکے سے پھٹا لیکن اِس نے کوئی مالی نقصان پہنچایا نہ کوئی شخص زخمی ہوا،تاہم یہ واقعہ افریقہ میں عالمی تاریخِ سفارت کاری میں ایک اہم باب رقم کرگیا۔
ہم جانتے ہیں کہ ساٹھ ہی کے عشرے میں امریکا اور ویت نام کے درمیان گھمسان کی جنگ لڑی گئی۔(یہ جنگ دراصل1955 تا1975جاری رہی) اِس جنگ میں امریکیوں کے ہاتھوں اگر ویت نام کے لاکھوں سویلین اور فوجی مارے گئے تو مرنے والے امریکی فوجیوں کی تعداد بھی ہزاروں میں تھی۔اِس کا کچھ اندازہ امریکی ریاست ورجینیا میں آرلنگٹن کے فوجی قبرستان میں دُور تک پھیلی قبروں کی تعداد سے لگایاجاسکتا ہے۔
امریکا نے آج تک''امریکا ویت نام'' جنگ میں مرنے والے امریکی فوجیوں کی صحیح تعداد کسی کو نہیں بتائی۔ویت نامی اُس زمانے میں،ظاہر ہے امریکا کے بے پناہ مخالف تھے،چنانچہ31جنوری1968 کی شب ویت نامی گوریلائوں نے سائیگان میں قائم امریکی سفارتخانے کی بیرونی دیوار میں ایک ہلاکت خیز بم نصب کرکے اُسے ریزہ ریزہ کردیا اور سفارتخانے کے اندر واقعہ امریکی فوجیوں کو گھیر بھی لیا۔ساری رات فریقین کے درمیان خونیں جنگ کا طبل بجتا رہا۔صبح9بجے کے قریب امریکیوں نے ویت نامی حملہ آوروں کو بھگادیا اور سفارتخانہ محفوظ بنالیا لیکن اِس سانحے کی وجہ سے ویت نام میں امریکی مفادات کو سخت نقصان پہنچا۔
70کے عشرے کے اواخر میں ایران کے دارالحکومت میں بروئے کار امریکی سفارتخانے پر ایرانی طلباء نے جس قوت وطاقت سے حملہ کرکے اِس پر قبضہ کرلیا تھا، اِس سانحے کی بازگشت پوری دنیا میں سنائی دی گئی تھی۔ایران کے آخری بادشاہ رضاشاہ جسے اپنی پہلوی سلطنت وشہنشاہیت پر بہت غرور تھا، کو امریکا کی بھرپور امداد حاصل تھی۔یہ کہنا بے جانہ ہوگا کہ یہ امریکا اوربرطانیہ تھے جنہوں نے سازشیں کرکے رضاشاہ پہلوی کو ایران پر مسلط کیا تھا۔
یہ شخص تقریباً چالیس برس حکمرانی کے مزے لوٹتا رہا۔اپنی بادشاہت کو قائم ودائم رکھنے کے لیے اُس نے اپنی عوام پر ہروہ ظلم وتشدد ڈھایا،جواس کے بس میں تھا لیکن اِس کے باوجود امریکا اور مغربی ممالک اس کی مسلسل سپورٹ کرتے رہے۔اگر ہم پولینڈ کے مشہور صحافی ریشارد کاپوشنسکی کی معرکہ آرا کتاب Shah Of Shahs اور پاکستان کے معروف دانشور ادیب جناب مختار مسعود کی نہایت دلکشا کتاب''لوحِ ایام'' کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ شاہ ایران کے مظالم کس قدر اذیت ناک تھے اور اُسے امریکی اشیرباد کہاں تک حاصل تھی۔1979 میں امام آیت اللہ روح اللہ خمینی اور اُن کے پیروکاروں نے اِس باجبروت شہنشاہ اور اس کی خوں آشام شہنشاہیت کا خاتمہ کردیا۔
اِس بے نظیر کامیابی کے بعد ایرانی عوام اور ایرانی طالب علم تہران میں واقع امریکی سفارتخانے کو سنگین نظروں سے گُھور رہے تھے،چنانچہ 4نومبر1979 کی صبح ساڑھے چھ بجے تہران یونیورسٹی کے سیکڑوں طلباء نے امریکی ایمبیسی پر دھاوا بول دیا۔انھوں نے پہلے امریکی سفارت خانے کے گردا گرد پھیلی تہ درتہ خاردار دیوار کاٹی اور پھر ''اﷲ اکبر'' اور ''مرگ برامریکا'' کے نعرے لگاتے ہوئے اندر گھس گئے۔یہ سفارت کاری تاریخ کا سب سے نمایاں سانحہ تھا۔ طلباء نے سفارتخانے کا محاصرہ کرکے اِس کے اندر موجود 52امریکیوں کو یرغمال بنالیا۔
یہ محاصرہ اور یرغمالیت مسلسل 444دنوں تک جاری رہا۔اِس دوران امریکا نے اپنے جنگی ہیلی کاپٹروں کے ذریعے یرغمالیوں کو رہا کرانے کے لیے ایک خطرناک آپریشن کیا لیکن ناکام رہا۔اُلٹا اِس آپریشن میں آٹھ امریکی فوجی مارے گئے۔امریکی سفارتخانے پر حملے کے اس واقعہ نے امریکی صدر کارٹر کو انتخابات میں شکست دے ڈالی۔کارٹر کی جگہ جب رونالڈ ریگن برسرِاقتدار آئے تو اُن کی طرف سے ترلامنت کرنے کے بعد ایران نے 20جنوری1981 کو تمام امریکی یرغمالیوں کو رہا کردیا۔تب سے اب تک ایران اور امریکا کے درمیان ایک نہ ختم ہونے والی مخاصمت جاری ہے۔
ایک تو21ستمبر2012 کویومِ عشقِ رسولؐ مناتے ہوئے اسلام آباد میں امریکی سفارتخانے پر اور اِس سے دو تین روز قبل کراچی اور پشاور میں امریکی قونصل خانوں پر پاکستان کے ناراض عوام نے(کہ امریکا میں ملعون نکولا بیسلے اوراُس کے ساتھیوں نے حضور نبی کریمؐ کی توہین کرنے والی فلم بنائی ہے) کئی دھاوے بولے ہیں لیکن اِن تازہ واقعات سے قبل بھی پاکستان میں بروئے کار امریکی سفارت خانے پر حملہ ہوچکا ہے۔یہ واقعہ بائیس نومبر 1979 کو پیش آیاتھا۔اُن دنوں سعودی عرب میں ایک سانحہ پیش آیا کہ ایک شخص نے مکہ میں حرم شریف کے اندر اسلحے کے زور پر کئی افراد کو یرغمال بنالیا ۔
اِسی دوران کسی ریڈیو نے یہ خبرنشرکردی کہ امریکا نے مسجد الحرام پر بمباری کردی ہے۔اِس خبر کے نشتر ہوتے ہی سیکڑوں پاکستانی طلباء نے امریکی سفارتخانے پر ہلہ بول دیا اور چند ہی لمحوں میں اِسے نذرِآتش بھی کردیا۔دو امریکی بھی ہلاک کردیے گئے۔بعدازاں معلوم ہوا کہ یہ خبر سرے سے ہی غلط تھی لیکن اِس غلط فہمی نے پاک امریکا تعلقات کو بہت نقصان پہنچایا۔اِسی غلط فہمی سے متاثر ہو کر لیبیا کے دارالحکومت میں واقع امریکی سفارتخانے پر 2دسمبر1979 کو حملہ کرکے اِسے مکمل طور پر خاکستر کردیاگیا۔