کامن ویلتھ گیمز انفرادی کھیلوں پر توجہ دینے کی ضرورت
اسکواش، جوڈو کراٹے، اسنوکر، سوئمنگ، ریسلنگ اور اتھلیٹکس کو فروغ دیکر عالمی مقابلوں میں میڈلز کی تعداد بڑھائی جاسکتی ہے
قومی کھیل ہاکی نے نصف صدی تک دنیا بھر میں پاکستان کا سبز ہلالی پرچم بلند کئے رکھا۔
منیر احمد ڈار، کرنل دارا، بریگیڈیئر عاطف، طارق عزیز، شہناز شیخ، اصلاح الدین صدیقی، چوہدری اختر رسول، حسن سردار، کلیم اللہ، رانا مجاہد علی، شہباز سینئر اورسہیل عباس سمیت کئی عظیم کھلاڑیوں کے نام گنوائے جاسکتے ہیں جو میدان میں اترتے تو حریفوں کے ہاتھ پاؤں پھول جاتے اور انٹرنیشنل سطح پر ہونے والی ایونٹس میں فتح ہمارا مقدر بنتی، بدقسمتی سے 1994ء ورلڈ کپ کے بعد سے گرین شرٹس عالمی سطح پر ایک بھی بڑا ٹائٹل اپنے نام نہیں کر سکے۔
قومی ٹیم کی ناقص کارکردگی کا یہ عالم ہے کہ اب تو ملائشیا، چین، ارجنٹائن جیسی ٹیموں سے بھی شکست کھا جانا ہمارا مقدر بن چکا۔ سچ پوچھیں تو قومی کھیل کی موجودہ صورت حال دیکھ کر دل کڑھتا ہے، قارئین ہی ایمانداری اور سچائی کے ساتھ بتائیں کہ کیا ہماری موجودہ ہاکی اس قابل ہے کہ قوم اس پر فخر کر سکے۔ کہتے ہیں کہ ہار یتیم اور جیت کے کئی وارث ہوتے ہیں۔ پی ایچ ایف ایک سال سے ہاتھوں میں کشکول لئے وفاقی حکومت سے 50 کروڑ روپے کا تقاضا کر رہی ہے لیکن عہدیداروں کو طفل تسلیوں کے علاوہ اور کچھ نہیں مل پایا۔
حال ہی میں انٹرنیشنل ہاکی سے ریٹائرمنٹ لینے والے قومی ٹیم کے ایک سابق کپتان نے راقم کو بتایا کہ ہمارے وقت میں اس قدر انٹرنیشنل ایونٹس ہوتے تھے کہ کھلاڑیوں کو سر کجھانے کی فرصت نہیں ہوتی تھی، اب یہ عالم ہے کہ ورلڈ کپ کے بعد پاکستانی ٹیم دیگر عالمی ایونٹس بھی شرکت سے محرومی کے صدمے اٹھانے پر مجبور ہے، پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کے 2 دھڑوں میں سرد جنگ کی وجہ سے قومی ہاکی ٹیم گلاسگو میں جاری کامن ویلتھ گیمز میں شرکت نہ کرسکی، دوسری طرف گرین شرٹس نے گزشتہ 9 ماہ سے ایک بھی انٹرنیشنل میچ نہیں کھیلا، یہ ہاکی کی تباہی نہیں تو اور کیا ہے۔
2 بار عالمی ٹائٹل پاکستان کی جھولی میں ڈالنے والا کھیل کرکٹ بھی پی سی بی حکام کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے تباہی و بربادی کے دہانے تک پہنچتا جا رہا ہے،سانحہ لاہور کی وجہ سے ملک میں گزشتہ پانچ سال سے انٹرنیشنل کرکٹ کے دروازے تو پہلے ہی بند ہو چکے ہیں، اب دیار غیر میں بھی اس کے عالمی ٹیموں کے درمیان میچز سکڑتے جارہے ہیں، بنگلہ دیش میں شیڈول ٹوئنٹی 20 ورلڈ کپ کے طویل عرصہ کے بعد پاکستانی ٹیم سری لنکا کے خلاف سیریز شیڈول کرانے میں کامیاب ہوئی ہے۔
ہٹلر کے پروپیگنڈا مسنٹر گوئبلز کا کہنا تھا کہ اتنا جھوٹ بولو کہ لوگ سچ سمجھنا شروع ہوجائیں، پاکستان کرکٹ بورڈ میں بھی اس صفائی اور ڈھٹائی کے ساتھ جھوٹ بولا جاتارہا ہے کہ شائقین بھی جھوٹ سچ اورکھرے کھوٹے کی تمیز کرنا بھول گئے ہیں۔
کامن ویلتھ گیمز انگلینڈ کی برتری کے ساتھ آج اختتام پذیر ہو جائیں گی، اسکاٹ لینڈ کے شہر شگاگو میں شیڈول ایونٹ میں آسٹریلیا دوسری اور کینیڈا تیسری پوزیشن پکی کرچکا تھا، بھارت کا نمبر پانچواں رہا ہے۔ گو کامن ویلتھ گیمز میں پاکستانی کھلاڑی 4 میڈلز حاصل کرنے میں کامیاب رہے ہیں لیکن مجموعی پرفارمنس کا جائزہ لیا جائے تو قومی اتھلیٹس کی کارکردگی کا گراف اوپر جانے کی بجائے نیچے ہی آیا ہے۔
نئی دہلی کامن ویلتھ گیمز2010ء میں پاکستانی کھلاڑیوں نے 2 گولڈ سمیت مجموعی طور پر 5 میڈلز اپنے نام کئے تھے جبکہ اس بار گنتی آگے بڑھنے کی بجائے اس میں ایک میڈل کی کمی ہی واقع ہوئی ہے تاہم یہ بات بھی ہمیں ہر گز فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ جن حالات میں پاکستانی دستے کی میگا ایونٹ میں رسائی ممکن ہوئی ایسے میں شاہ حسین شاہ، قمر عباس، اظہر حسین اور محمد وسیم کا کھیلوں کے عالمی میلے میں میڈلز حاصل کرنا کسی بڑے کارنامے سے کم نہیں ہے۔
نہ جانے کیوں ، ہماری حکومتیں شروع سے ہی انفرادی سطح پر کھیلے جانے والے اسکواش، کشتی، پہلوانی، جوڈو، کشتی رانی، کراٹے، سنوکر، سوئمنگ، رائفل شوٹنگ اور اتھلیٹکس و دیگر کو چھوڑ کر ٹیم اسپورٹس کے پیچھے کیوں بھاگتی رہی ہیں، کیا ہم شہرۂ آفاق اسکواش کھلاڑیوں جہانگیر خان اور جان شیر خان کی ملک وقوم کے لیے دی جانے والی خدمات کو فراموش کر سکتے ہیں، کیا ہم ٹینس اسٹار اعصام الحق، ورلڈ سنوکر چیمپئن محمد یوسف اور محمد آصف کی ملک وقوم کے لیے سر انجام دیئے گئے کارناموں کو بھلا سکتے ہیں۔
دنیا کا آبادی کے لحاظ سے چھٹا ملک پاکستان عالمی کھیلوں میں مار اس لیے کھا رہا ہے کیونکہ ملکی اسپورٹس کے سیاہ سفید کا مالک بننے کے لیے پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن اور اسپورٹس فیڈریشنز کے درمیان محاذ آرائی عروج پر رہی۔
حکومت کی جانب سے عارف حسن کی پی او اے کو تسلیم کئے جانے کے بعد معاملات عدالتوں میں جانے سے ایک بار پھر غیر یقینی صورتحال پیدا ہوچکی۔ کھیلوں کی باگ دوڑ سنبھالنے والوں کو اس بات سے کوئی سروکار نہیں کہ عالمی سطح پر پاکستان کھلاڑی میڈلز لینے میں کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں بس انہیں تو دلچسپی صرف اور صرف اس بات میں رہتی ہے کہ کھیلوں کی آڑ میں ان کے غیر ملکی دوروں میں کوئی کمی نہیں آنی چاہیے، کھلاڑیوں کی بجائے اپنی ذات کو ترجیح دینے کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ عالمی سطح پر ہونے والے مقابلے میں ہمارے پلیئرز وہ کارکردگی نہیں دکھا پاتے جس کی قوم ان سے توقعات کرتی ہے۔
یہ تلخ حقیقت اور کڑوا سچ ہے کہ ہم دہشت گردی کا شکار ہیں، ہماری معیشت دم توڑ رہی ہے، ہماری پارلیمنٹ ملک کو اچھی جمہوری روایات نہیں دے سکی لیکن ہم اسپورٹس میں تو اپنی صلاحیتیں ثابت کر سکتے ہیں۔
ہمیں اس سے کس نے روکا ہے ، ہم اگر اولمپکس، کامن ویلتھ گیمز میں شامل ممالک کو دیکھیں اور خود سے سوال کریںکیا ایران، قازقستان، منگولیا،نائیجیریا، ازبکستان، یوگوسلاویہ اور کینیا ہم سے بہتر ممالک ہیں تو ہمارا جواب نفی میں ہوگا کیونکہ ان ممالک کی معیشت، ان کی صنعت اور ان کی سوسائٹی میں ہم سے زیادہ خرابیاں ہیں لیکن ان خرابیوں کے باوجود کھیلوں میں ہم سے بہت آگے ہیں۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی آڑ نہیں کہ ہم صلاحیت میں مار کھا رہے ہیں اورنیت میں بھی اور اس معاملے میں بھی ہماری قوم اور ہماری حکومت دونوں ذمہ دار ہیں۔
mian.asghar@express.com.pk
منیر احمد ڈار، کرنل دارا، بریگیڈیئر عاطف، طارق عزیز، شہناز شیخ، اصلاح الدین صدیقی، چوہدری اختر رسول، حسن سردار، کلیم اللہ، رانا مجاہد علی، شہباز سینئر اورسہیل عباس سمیت کئی عظیم کھلاڑیوں کے نام گنوائے جاسکتے ہیں جو میدان میں اترتے تو حریفوں کے ہاتھ پاؤں پھول جاتے اور انٹرنیشنل سطح پر ہونے والی ایونٹس میں فتح ہمارا مقدر بنتی، بدقسمتی سے 1994ء ورلڈ کپ کے بعد سے گرین شرٹس عالمی سطح پر ایک بھی بڑا ٹائٹل اپنے نام نہیں کر سکے۔
قومی ٹیم کی ناقص کارکردگی کا یہ عالم ہے کہ اب تو ملائشیا، چین، ارجنٹائن جیسی ٹیموں سے بھی شکست کھا جانا ہمارا مقدر بن چکا۔ سچ پوچھیں تو قومی کھیل کی موجودہ صورت حال دیکھ کر دل کڑھتا ہے، قارئین ہی ایمانداری اور سچائی کے ساتھ بتائیں کہ کیا ہماری موجودہ ہاکی اس قابل ہے کہ قوم اس پر فخر کر سکے۔ کہتے ہیں کہ ہار یتیم اور جیت کے کئی وارث ہوتے ہیں۔ پی ایچ ایف ایک سال سے ہاتھوں میں کشکول لئے وفاقی حکومت سے 50 کروڑ روپے کا تقاضا کر رہی ہے لیکن عہدیداروں کو طفل تسلیوں کے علاوہ اور کچھ نہیں مل پایا۔
حال ہی میں انٹرنیشنل ہاکی سے ریٹائرمنٹ لینے والے قومی ٹیم کے ایک سابق کپتان نے راقم کو بتایا کہ ہمارے وقت میں اس قدر انٹرنیشنل ایونٹس ہوتے تھے کہ کھلاڑیوں کو سر کجھانے کی فرصت نہیں ہوتی تھی، اب یہ عالم ہے کہ ورلڈ کپ کے بعد پاکستانی ٹیم دیگر عالمی ایونٹس بھی شرکت سے محرومی کے صدمے اٹھانے پر مجبور ہے، پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کے 2 دھڑوں میں سرد جنگ کی وجہ سے قومی ہاکی ٹیم گلاسگو میں جاری کامن ویلتھ گیمز میں شرکت نہ کرسکی، دوسری طرف گرین شرٹس نے گزشتہ 9 ماہ سے ایک بھی انٹرنیشنل میچ نہیں کھیلا، یہ ہاکی کی تباہی نہیں تو اور کیا ہے۔
2 بار عالمی ٹائٹل پاکستان کی جھولی میں ڈالنے والا کھیل کرکٹ بھی پی سی بی حکام کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے تباہی و بربادی کے دہانے تک پہنچتا جا رہا ہے،سانحہ لاہور کی وجہ سے ملک میں گزشتہ پانچ سال سے انٹرنیشنل کرکٹ کے دروازے تو پہلے ہی بند ہو چکے ہیں، اب دیار غیر میں بھی اس کے عالمی ٹیموں کے درمیان میچز سکڑتے جارہے ہیں، بنگلہ دیش میں شیڈول ٹوئنٹی 20 ورلڈ کپ کے طویل عرصہ کے بعد پاکستانی ٹیم سری لنکا کے خلاف سیریز شیڈول کرانے میں کامیاب ہوئی ہے۔
ہٹلر کے پروپیگنڈا مسنٹر گوئبلز کا کہنا تھا کہ اتنا جھوٹ بولو کہ لوگ سچ سمجھنا شروع ہوجائیں، پاکستان کرکٹ بورڈ میں بھی اس صفائی اور ڈھٹائی کے ساتھ جھوٹ بولا جاتارہا ہے کہ شائقین بھی جھوٹ سچ اورکھرے کھوٹے کی تمیز کرنا بھول گئے ہیں۔
کامن ویلتھ گیمز انگلینڈ کی برتری کے ساتھ آج اختتام پذیر ہو جائیں گی، اسکاٹ لینڈ کے شہر شگاگو میں شیڈول ایونٹ میں آسٹریلیا دوسری اور کینیڈا تیسری پوزیشن پکی کرچکا تھا، بھارت کا نمبر پانچواں رہا ہے۔ گو کامن ویلتھ گیمز میں پاکستانی کھلاڑی 4 میڈلز حاصل کرنے میں کامیاب رہے ہیں لیکن مجموعی پرفارمنس کا جائزہ لیا جائے تو قومی اتھلیٹس کی کارکردگی کا گراف اوپر جانے کی بجائے نیچے ہی آیا ہے۔
نئی دہلی کامن ویلتھ گیمز2010ء میں پاکستانی کھلاڑیوں نے 2 گولڈ سمیت مجموعی طور پر 5 میڈلز اپنے نام کئے تھے جبکہ اس بار گنتی آگے بڑھنے کی بجائے اس میں ایک میڈل کی کمی ہی واقع ہوئی ہے تاہم یہ بات بھی ہمیں ہر گز فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ جن حالات میں پاکستانی دستے کی میگا ایونٹ میں رسائی ممکن ہوئی ایسے میں شاہ حسین شاہ، قمر عباس، اظہر حسین اور محمد وسیم کا کھیلوں کے عالمی میلے میں میڈلز حاصل کرنا کسی بڑے کارنامے سے کم نہیں ہے۔
نہ جانے کیوں ، ہماری حکومتیں شروع سے ہی انفرادی سطح پر کھیلے جانے والے اسکواش، کشتی، پہلوانی، جوڈو، کشتی رانی، کراٹے، سنوکر، سوئمنگ، رائفل شوٹنگ اور اتھلیٹکس و دیگر کو چھوڑ کر ٹیم اسپورٹس کے پیچھے کیوں بھاگتی رہی ہیں، کیا ہم شہرۂ آفاق اسکواش کھلاڑیوں جہانگیر خان اور جان شیر خان کی ملک وقوم کے لیے دی جانے والی خدمات کو فراموش کر سکتے ہیں، کیا ہم ٹینس اسٹار اعصام الحق، ورلڈ سنوکر چیمپئن محمد یوسف اور محمد آصف کی ملک وقوم کے لیے سر انجام دیئے گئے کارناموں کو بھلا سکتے ہیں۔
دنیا کا آبادی کے لحاظ سے چھٹا ملک پاکستان عالمی کھیلوں میں مار اس لیے کھا رہا ہے کیونکہ ملکی اسپورٹس کے سیاہ سفید کا مالک بننے کے لیے پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن اور اسپورٹس فیڈریشنز کے درمیان محاذ آرائی عروج پر رہی۔
حکومت کی جانب سے عارف حسن کی پی او اے کو تسلیم کئے جانے کے بعد معاملات عدالتوں میں جانے سے ایک بار پھر غیر یقینی صورتحال پیدا ہوچکی۔ کھیلوں کی باگ دوڑ سنبھالنے والوں کو اس بات سے کوئی سروکار نہیں کہ عالمی سطح پر پاکستان کھلاڑی میڈلز لینے میں کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں بس انہیں تو دلچسپی صرف اور صرف اس بات میں رہتی ہے کہ کھیلوں کی آڑ میں ان کے غیر ملکی دوروں میں کوئی کمی نہیں آنی چاہیے، کھلاڑیوں کی بجائے اپنی ذات کو ترجیح دینے کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ عالمی سطح پر ہونے والے مقابلے میں ہمارے پلیئرز وہ کارکردگی نہیں دکھا پاتے جس کی قوم ان سے توقعات کرتی ہے۔
یہ تلخ حقیقت اور کڑوا سچ ہے کہ ہم دہشت گردی کا شکار ہیں، ہماری معیشت دم توڑ رہی ہے، ہماری پارلیمنٹ ملک کو اچھی جمہوری روایات نہیں دے سکی لیکن ہم اسپورٹس میں تو اپنی صلاحیتیں ثابت کر سکتے ہیں۔
ہمیں اس سے کس نے روکا ہے ، ہم اگر اولمپکس، کامن ویلتھ گیمز میں شامل ممالک کو دیکھیں اور خود سے سوال کریںکیا ایران، قازقستان، منگولیا،نائیجیریا، ازبکستان، یوگوسلاویہ اور کینیا ہم سے بہتر ممالک ہیں تو ہمارا جواب نفی میں ہوگا کیونکہ ان ممالک کی معیشت، ان کی صنعت اور ان کی سوسائٹی میں ہم سے زیادہ خرابیاں ہیں لیکن ان خرابیوں کے باوجود کھیلوں میں ہم سے بہت آگے ہیں۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی آڑ نہیں کہ ہم صلاحیت میں مار کھا رہے ہیں اورنیت میں بھی اور اس معاملے میں بھی ہماری قوم اور ہماری حکومت دونوں ذمہ دار ہیں۔
mian.asghar@express.com.pk