اے جی سندھ میں24ارب کا میگا کرپشن اسکینڈل کا انکشاف
کنٹرولرجنرل اکاؤنٹس نے ڈی ڈی اوزکی جانب سے 2011ء میں کرپشن کی نشاندہی کی ہے۔
اے جی سندھ میں 24 ارب کے میگاکرپشن اسکینڈل کا انکشاف ہوا ہے جبکہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے مطالبہ کیا ہے کہ چیئرمین نیب معاملے کا نوٹس لیں۔
تفصیلات کے مطابق ٹرانسپیرنسی انٹریشنل پاکستان نے چیئرمین نیب کے نام خط میں درخواست کی ہے کہ اے جی سندھ میں مالی سال 2010,11,12 اور 13ء کے دوران مالی بے ضابطگیوں کے کیسز کا احتساب آرڈیننس 1999 کے مطابق نوٹس لیا جائے اورمکمل رقم کی وصولی کے ساتھ ساتھ نیب افسروں سمیت ذمے داروں کے خلاف کارروائی کی جائے۔ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے اپنے خط میں ایک شکایت کا حوالہ دیا جس میں نشاندہی کی گئی ہے کہ کنٹرولر جنرل اکاؤنٹس نے اے جی سندھ کے ڈی ڈی اوز کی جانب سے سال 2011 میں 24.26 ارب روپے کے میگا کرپشن اسکینڈل کی نشاندہی کی، 2012,13 میں بھی جعلی ادائیگیاں کی گئیں۔
اس کے علاوہ شہید پولیس اہلکاروں کی بیواؤں کو بھی 874 ملین روپے کی ادائیگیاں اکاؤنٹس کے ذریعے نہیں کی گئیں۔ شکایت کنندہ نے یہ بھی بتایا ہے کہ نیب سندھ اور اکاؤنٹنٹ جنرل پاکستان نے ذمے داروں کے خلاف بروقت کارروائی نہیں کی۔ ڈی اے اوحیدرآباد کی جانب سے غیرقانونی ادائیگیوں کوڈی جی آڈٹ سندھ نے بھی نظراندازکیا۔ ڈی اے او حیدرآباد کے سب اکاؤنٹنٹ علی حسن ابڑو نے نیب کے سامنے حلفیہ بیان دیا تھا کہ انھوں نے انکوائری اپنے حق میں کروانے کے لیے انکوائری کمیٹی کے کنوینر ساجد خان اور رکن شہزاد خان کو 40 لاکھ روپے رشوت دی تھی۔ نیب نے اس پر بھی کوئی کارروائی نہیں کی۔ شکایت کنندہ نے اے جی سندھ کے خلاف کارروائی نہ کرنے پر نیب سندھ اور آڈیٹر جنرل پاکستان کو بھی ذمے دار ٹھہرایا ہے۔ شہید پولیس اہلکاروں کی 441 بیواؤں میں 20 لاکھ فی کس کے حساب سے 883.5 ملین روپے تقسیم کرنے کے لیے حکومتی ہدایت کے برخلاف ڈی ڈی اوز کو دے دیے گئے جوکہ بیواؤں کے اکاؤنٹ میں منتقل ہونا تھے۔ بیواؤں کو60 سال کی عمر تک تنخواہ بھی ملنی تھی، یہ تنخواہ بھی ڈی اے اوزکو دی گئی۔ سسٹم سے 128 کیسز کی تصدیق کی گئی۔
جس کے نتائج کے مطابق صرف 6 بیوہ تنخواہ وصول کررہی تھی، 50 کیسز میں تنخواہ شہید کے اکاؤنٹ میں جمع کرادی گئی، 64 کیسوں میں تنخواہ ڈی اے اوز کے ذریعے دی جارہی تھی، 20 لاکھ کی امداد بھی ڈی اے اوز کے ذریعے دی گئی، بیواؤں کو رقم کی ادائیگی کا کوئی ریکارڈ دستیاب نہیں تھا۔ گزشتہ 3 سالوں میں دھوکا دہی کے حوالے سے انکوائری کی ایک اور رپورٹ بھی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ کمپنیوں کو ملازمین کے اخراجات کی مد میں 52 ملین ادا کیے گئے۔
جس میں سے 1.8 ملین ایس اینڈ جی اے ڈی کی طرف سے غیرتصدیق شدہ چالانوں پر جمع کرائے گئے، یہ تمام چیزیں سینئیر آڈیٹر توفیق نے اے جیز کمیٹی کے سامنے پیش کیں، بقایاجات کی وصولی ابھی باقی ہے جبکہ ذمے داروں کے خلاف بھی کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ مزید کہا گیا ہے کہ مشکوک ادائیگیوں کی تصدیق کے لیے تفصیلی انکوائری کی جاسکتی ہے تاکہ ذمے داروں کا تعین ہوسکے، مشکوک ادائیگیوں کے لیے جن ملازمین کا ایس اے پی آئی ڈی استعمال ہوا، ان کے خلاف کارروائی ہوسکتی ہے، ادائیگیاں ڈی ڈی اوز کے بجائے بینک اکاؤنٹس کے ذریعے کی جائیں۔ یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ نیب افسروں نے سیکشن 25 وی آر کا غلط استعمال کیا لہذا چیئرمین نیب تمام ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کریں۔
تفصیلات کے مطابق ٹرانسپیرنسی انٹریشنل پاکستان نے چیئرمین نیب کے نام خط میں درخواست کی ہے کہ اے جی سندھ میں مالی سال 2010,11,12 اور 13ء کے دوران مالی بے ضابطگیوں کے کیسز کا احتساب آرڈیننس 1999 کے مطابق نوٹس لیا جائے اورمکمل رقم کی وصولی کے ساتھ ساتھ نیب افسروں سمیت ذمے داروں کے خلاف کارروائی کی جائے۔ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے اپنے خط میں ایک شکایت کا حوالہ دیا جس میں نشاندہی کی گئی ہے کہ کنٹرولر جنرل اکاؤنٹس نے اے جی سندھ کے ڈی ڈی اوز کی جانب سے سال 2011 میں 24.26 ارب روپے کے میگا کرپشن اسکینڈل کی نشاندہی کی، 2012,13 میں بھی جعلی ادائیگیاں کی گئیں۔
اس کے علاوہ شہید پولیس اہلکاروں کی بیواؤں کو بھی 874 ملین روپے کی ادائیگیاں اکاؤنٹس کے ذریعے نہیں کی گئیں۔ شکایت کنندہ نے یہ بھی بتایا ہے کہ نیب سندھ اور اکاؤنٹنٹ جنرل پاکستان نے ذمے داروں کے خلاف بروقت کارروائی نہیں کی۔ ڈی اے اوحیدرآباد کی جانب سے غیرقانونی ادائیگیوں کوڈی جی آڈٹ سندھ نے بھی نظراندازکیا۔ ڈی اے او حیدرآباد کے سب اکاؤنٹنٹ علی حسن ابڑو نے نیب کے سامنے حلفیہ بیان دیا تھا کہ انھوں نے انکوائری اپنے حق میں کروانے کے لیے انکوائری کمیٹی کے کنوینر ساجد خان اور رکن شہزاد خان کو 40 لاکھ روپے رشوت دی تھی۔ نیب نے اس پر بھی کوئی کارروائی نہیں کی۔ شکایت کنندہ نے اے جی سندھ کے خلاف کارروائی نہ کرنے پر نیب سندھ اور آڈیٹر جنرل پاکستان کو بھی ذمے دار ٹھہرایا ہے۔ شہید پولیس اہلکاروں کی 441 بیواؤں میں 20 لاکھ فی کس کے حساب سے 883.5 ملین روپے تقسیم کرنے کے لیے حکومتی ہدایت کے برخلاف ڈی ڈی اوز کو دے دیے گئے جوکہ بیواؤں کے اکاؤنٹ میں منتقل ہونا تھے۔ بیواؤں کو60 سال کی عمر تک تنخواہ بھی ملنی تھی، یہ تنخواہ بھی ڈی اے اوزکو دی گئی۔ سسٹم سے 128 کیسز کی تصدیق کی گئی۔
جس کے نتائج کے مطابق صرف 6 بیوہ تنخواہ وصول کررہی تھی، 50 کیسز میں تنخواہ شہید کے اکاؤنٹ میں جمع کرادی گئی، 64 کیسوں میں تنخواہ ڈی اے اوز کے ذریعے دی جارہی تھی، 20 لاکھ کی امداد بھی ڈی اے اوز کے ذریعے دی گئی، بیواؤں کو رقم کی ادائیگی کا کوئی ریکارڈ دستیاب نہیں تھا۔ گزشتہ 3 سالوں میں دھوکا دہی کے حوالے سے انکوائری کی ایک اور رپورٹ بھی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ کمپنیوں کو ملازمین کے اخراجات کی مد میں 52 ملین ادا کیے گئے۔
جس میں سے 1.8 ملین ایس اینڈ جی اے ڈی کی طرف سے غیرتصدیق شدہ چالانوں پر جمع کرائے گئے، یہ تمام چیزیں سینئیر آڈیٹر توفیق نے اے جیز کمیٹی کے سامنے پیش کیں، بقایاجات کی وصولی ابھی باقی ہے جبکہ ذمے داروں کے خلاف بھی کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ مزید کہا گیا ہے کہ مشکوک ادائیگیوں کی تصدیق کے لیے تفصیلی انکوائری کی جاسکتی ہے تاکہ ذمے داروں کا تعین ہوسکے، مشکوک ادائیگیوں کے لیے جن ملازمین کا ایس اے پی آئی ڈی استعمال ہوا، ان کے خلاف کارروائی ہوسکتی ہے، ادائیگیاں ڈی ڈی اوز کے بجائے بینک اکاؤنٹس کے ذریعے کی جائیں۔ یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ نیب افسروں نے سیکشن 25 وی آر کا غلط استعمال کیا لہذا چیئرمین نیب تمام ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کریں۔