مسئلہ صرف شمالی وزیرستان کا نہیں ہے
ماہرین نے تحقیق اور مشاہدے کے بعد بتایا کہ ہمارے کرۂ ارض سے مماثل 750 سیارے کائنات کی وسعتوں میں گردش کر رہے ہیں
دنیا کی تاریخ تبدیلیوں کی تاریخ ہے، سماجی ارتقاء کا سفر اگرچہ تاریخ کے ہر دور میں جاری رہا ہے لیکن بیسویں صدی اس حوالے سے منفرد اس لیے ہے کہ اس صدی میں سائنس، ٹیکنالوجی، آئی ٹی کے انقلاب، خلائی سائنس اور میڈیکل سائنس نے دنیا کو یکسر بدل کر رکھ دیا۔ بیسویں صدی کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اس صدی میں انسان چاند پر پہنچ گیا، وہ چاند جس کے ساتھ طرح طرح کی روایات وابستہ تھیں، وہ سب انسان کے چاند پر اترنے کے بعد ہوا میں اڑگئیں۔ اسی صدی میں انسان نے نظام شمسی کے دوسرے سیاروں پر خلائی مشن بھیجنے کا سلسلہ شروع کیا۔
اسی صدی میں میڈیکل سائنس نے اتنی ترقی کی کہ دل، گردے اور جگر کی تبدیلی کا آغاز ہوا، دماغ کے آپریشن شروع ہوئے، اسی صدی میں کلوننگ کا سلسلہ شروع ہوا، ڈی این اے کی دریافت ہوئی، روبوٹ ایجاد ہوئے، نظام شمسی کے آگے پھیلی ہوئی وسیع و عریض کائنات کا علم حاصل ہوا اور انسان نے جدید دوربین کے ذریعے اربوں نوری سال دور گردش کرتے ہوئے نظام شمسی جیسے اور نظاموں کا مشاہدہ کیا، اسی سال آئی ٹی کا وہ انقلاب آیا جس نے دنیا کو ایک گائوں میں بدل کر رکھ دیا، یہ سفر جاری ہے۔
خلائی سائنس کے ماہرین نے تحقیق اور مشاہدے کے بعد بتایا کہ ہمارے کرۂ ارض سے مماثل 750 سیارے کائنات کی وسعتوں میں گردش کر رہے ہیں، خلائی سائنس دانوں نے خلاء میں اسٹیشن قائم کر کے تحقیق کے لیے خلاء نورد بھیجے جو عشروں سے اس اسٹیشن پر موجود ہیں اور خلائی تحقیق کا کام انجام دے رہے ہیں۔ انسانی تاریخ میں آسمان ہمیشہ اور ہر مذہب میں عقائد کا مرکز رہا ہے لیکن خلائی سائنس نے یہ انکشاف کر کے انسان کو حیرت میں ڈال دیا کہ آسمان نام کی کسی چیز کا کوئی وجود نہیں ہے، ہم جسے آسمان سمجھتے ہیں وہ آسان لفظوں میں حد نگاہ ہے۔ آسمان سے نہ سورج جڑا ہوا ہے نہ چاند، نہ ستارے کیوں کہ آسمان ہی موجود نہیں، ان دریافتوں نے ہماری روایات عقائد و نظریات کو اتھل پتھل کر کے رکھ دیا ہے۔
دنیا کی جو قومیں ان حقائق کو تسلیم کر کے اپنی اجتماعی زندگی کو جدید تبدیلیوں سے ہم آہنگ کر رہی ہیں وہ نہ صرف ترقی کی دوڑ میں شامل ہو رہی ہیں بلکہ تحقیق اور ایجادات کے میدان میں نئی نئی دریافتیں کر کے ارتقاء کے سفر کو تیز تر کر رہی ہیں۔ جو قومیں سائنس ٹیکنالوجی خلائی سائنس کی دریافتوں کو ماننے کے لیے تیار نہیں اور ان دریافتوں کو خدائی معاملات میں دخل اندازی کا نام دے کر کنویں کے مینڈک بنی ہوئی ہیں وہ بدترین نظریاتی پسماندگی کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔
اس حوالے سے سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ مسلم قوم دنیا کی وہ واحد قوم ہے جو ماضی سے نکلنا ہی نہیں چاہتی بلکہ توہمات سے بھرے ہوئے ماضی کو ترقی یافتہ جدید دنیا پر مسلط کرنا چاہتی ہیں۔ ہم اپنے ارد گرد جس مذہبی انتہا پسندی اور اس کے عملی اقدامات کو انتہائی بھیانک شکل میں دیکھ رہے ہیں وہ دراصل ماضی کو حال پر مسلط کرنے کی وہ احمقانہ جنگ ہے جو نظریاتی اندھے پن کی وجہ سے اپنے پرائے تک کی تمیز کھو بیٹھی ہے۔ ہم اس نظریاتی اندھے پن اور اس کے بدترین اثرات سے اس وقت تک باہر نہیں نکل سکتے جب تک ہم علم اور شعور کے میدانوں میں پیش قدمی کر کے اپنی اجتماعی زندگی کو جدید دنیا کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں کرتے۔
اس بڑے کام کے لیے ایک فکری انقلاب برپا کرنے کی ضرورت ہے جس کے لیے مختلف محاذوں پر جنگ لڑنی ہو گی۔ یہ کوئی آسان کام نہیں بلکہ ایسا کٹھن مرحلہ ہے جس کے راستے میں قدم قدم پر عقائد و نظریات کی دیواریں کھڑی ہوئی ہیں، اس راستے پر ماضی پرست خودکش بمباروں، بارودی گاڑیوں، ٹائم بموں، بارودی جیکٹوں کے ساتھ ساتھ اندھے دانشوروں کی ایک فوج کے ساتھ کھڑے ہیں۔
ہر طرف خوف اور دہشت کی ایک فضا قائم ہے جہاں سانس لینا بھی دشوار ہے فکری انقلاب برپا کرنے کے لیے آزادی فکر، آزادی تحریر بروقت ضروری ہے، جسے کفر کا نام دے کر واجب القتل قرار دیا جا رہا ہے، سچے مفکروں، دانشوروں اور فلسفیوں کے حلق میں اٹک کر رہ گیا ہے، ایک طرف عقل و دانش کے تقاضے ہیں دوسری طرف ماضی پرستوں کی ننگی تلواریں ہیں، ہزاروں سال میں گڑی بنیاد پرستی اور اس کے طاقتور رکھوالے ہیں، جنھیں آئینی تحفظات بھی حاصل ہیں۔
یورپ صدیوں تک اسی قسم کی صورت حال سے دوچار رہا اس صورت حال نے یورپ کو نہ صرف ذہنی جمود کا شکار کر دیا بلکہ اس پر ترقی کے سارے دروازے بند کر دیے، کلیسائی نظام عقائد و نظریات کی تلوار تھامے ہر اس نظریے کو واجب القتل قرار دیتا رہا جو اس کی روایات کی نفی کرتا ہو۔ سقراط سے لے کر گلیلیو تک ہر اس آواز کو قتل کیا جاتا رہا جو کلیسائی نظام سے ہم آہنگ نہ ہو، کسی کے ہاتھوں میں زہر کا پیالہ تھما دیا گیا اور کسی کو حقیقت بیانی کے جرم میں سزائے موت سنائی گئی۔
ان وحشیانہ مظالم سے تنگ آیا ہوا یورپ آخر مزاحمت پر اتر آیا اور ''تحریک اصلاح'' کی تلوار لے کر انسانی تہذیب و تمدن کے ان کے قاتلوں کے سامنے کھڑا ہو گیا اور بڑی قربانیوں کے بعد کلیسائی نظام کو شکست دینے میں کامیابی حاصل کی، اس کے بعد یورپ ترقی کے اس راستے پر تیزی سے آگے بڑھنے لگا جس کے نتائج آج ہم سائنس ٹیکنالوجی، میڈیکل سائنس، خلائی سائنس وغیرہ کی شکل میں دیکھ رہے ہیں۔ اگر مسلم ملکوں کو اس راستے پر آگے بڑھنا ہے تو ''ایک نئی تحریک اصلاح'' سے گزر کر جدید کلیسائی نظام کے تار پود بکھیرنا ہوں گے، اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔
اس کی جڑیں ہم قبائلی، جاگیردارانہ نظام، بادشاہتوں اور قبائلی حکمرانیوں میں گڑی ہوئی ہیں آج جو قومیں ماضی کے ولولوں سے نکل کر سماجی سیاسی اقتصادی اور سائنسی ترقی کی راہ پر پیش قدمی کر رہی ہیں، اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ان قوموں نے قبائلی جاگیردارانہ نظام اور اس کی زہر آلود نظریاتی جڑوں کو کاٹ دیا ہے، بد قسمتی سے مسلم ملک ابھی تک اسی دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں جو قبائلی جاگیردارانہ نظام کی مختلف شکلوں میں ہمارے سروں پر مسلط ہے اور اپنی بقا اور استحکام کے لیے عقائد و نظریات کا نقاب اوڑھے ہوئے ہے۔ پاکستان افغانستان اس کے وہ مضبوط مورچے ہیں جنھیں نظریاتی ہتھیاروں سے لیس کر کے مسلم ملکوں کی اجتماعی ترقی کے راستے میں اس طرح کھڑا کر دیا گیا ہے کہ 57 مسلم ملک فکری جمود کے کوما میں چلے گئے ہیں۔ یہ ایک انتہائی خطرناک صورت حال ہے۔
دس سال تک فکری بھول بھلیوں میں گم رہنے کے بعد ہماری حکومت نے مذہبی انتہا پسندی کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے، بلاشبہ یہ ایک مثبت اپروچ ہے لیکن حکومت اور فوج کی ساری توجہ شمالی وزیرستان پر لگی ہوئی ہے اگرچہ اس مہم ''ضرب عضب'' میں کامیابی کی خبریں آ رہی ہیں لیکن میڈیا میں دہشت گردی کی وارداتوں کی خبریں بھی آ رہی ہیں اور اس حوالے سے اصل صورتحال یہ ہے کہ انتہاپسند صرف شمالی وزیرستان ہی میں نہیں ہیں بلکہ ملک کے ہر شہر، ہر علاقے میں موجود ہیں اور سرگرم عمل بھی۔ پورا ملک ایک طرح سے شمالی وزیرستان بنا ہوا ہے۔
انتہا پسند طاقتوں کے فلسفے میں سادہ لوح عوام کے لیے بڑی کشش ہے لیکن اپنی بے لگام انتہا پسندی کی وجہ ان طاقتوں نے خود مسلمانوں کے خون سے اپنے ہاتھ رنگ لیے ہیں۔ اس کی وجہ سے پاکستان کے عوام کی اکثریت انتہا پسندی سے متنفر ہو گئی ہے۔ یہ ایک ایسا پہلو ہے جو حکومتی اقدامات میں معاون ثابت ہو سکتا ہے، حکومت انتہا پسندی کی جنگی طاقت کو اپنی جنگی طاقت سے ختم کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور بلا شبہ یہ ایک مثبت پیش رفت ہے لیکن انتہا پسندی کو صرف ریاستی طاقت سے ختم نہیں کیا جا سکتا بلکہ اسے ختم کرنے کے لیے ملک میں ایک فکری انقلاب لانا ہو گا۔
فکری انقلاب کے لیے علم اور شعور میں اضافہ ضروری ہے اس حوالے سے میڈیا ایک اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر وہ لوگ قابض ہیں جو نظریاتی حوالے سے انتہا پسندی کے حامی ہیں، میڈیا میں روشن خیال طاقتوں کا حال نقاد خانے میں طوطی جیسا ہو کر رہ گیا ہے۔ اس پس منظر میں ضرورت اس بات کی ہے کہ معاشرے کی ترقی اور عوام کے بہتر مستقبل کے حامی میڈیا کے جس شعبے میں بھی موجود ہیں وہ ترقی پسند نظریات کی حوصلہ افزائی کریں۔ یہ حوصلہ افزائی کسی فرد یا افراد کی نہیں بلکہ تاریکی کی اتھاہ گہرائیوں میں روشنی کی حوصلہ افزائی ہے، کاش! میڈیا میں موجود مثبت فکر کے حامل لوگ اس حقیقت کو سمجھ سکیں۔
اسی صدی میں میڈیکل سائنس نے اتنی ترقی کی کہ دل، گردے اور جگر کی تبدیلی کا آغاز ہوا، دماغ کے آپریشن شروع ہوئے، اسی صدی میں کلوننگ کا سلسلہ شروع ہوا، ڈی این اے کی دریافت ہوئی، روبوٹ ایجاد ہوئے، نظام شمسی کے آگے پھیلی ہوئی وسیع و عریض کائنات کا علم حاصل ہوا اور انسان نے جدید دوربین کے ذریعے اربوں نوری سال دور گردش کرتے ہوئے نظام شمسی جیسے اور نظاموں کا مشاہدہ کیا، اسی سال آئی ٹی کا وہ انقلاب آیا جس نے دنیا کو ایک گائوں میں بدل کر رکھ دیا، یہ سفر جاری ہے۔
خلائی سائنس کے ماہرین نے تحقیق اور مشاہدے کے بعد بتایا کہ ہمارے کرۂ ارض سے مماثل 750 سیارے کائنات کی وسعتوں میں گردش کر رہے ہیں، خلائی سائنس دانوں نے خلاء میں اسٹیشن قائم کر کے تحقیق کے لیے خلاء نورد بھیجے جو عشروں سے اس اسٹیشن پر موجود ہیں اور خلائی تحقیق کا کام انجام دے رہے ہیں۔ انسانی تاریخ میں آسمان ہمیشہ اور ہر مذہب میں عقائد کا مرکز رہا ہے لیکن خلائی سائنس نے یہ انکشاف کر کے انسان کو حیرت میں ڈال دیا کہ آسمان نام کی کسی چیز کا کوئی وجود نہیں ہے، ہم جسے آسمان سمجھتے ہیں وہ آسان لفظوں میں حد نگاہ ہے۔ آسمان سے نہ سورج جڑا ہوا ہے نہ چاند، نہ ستارے کیوں کہ آسمان ہی موجود نہیں، ان دریافتوں نے ہماری روایات عقائد و نظریات کو اتھل پتھل کر کے رکھ دیا ہے۔
دنیا کی جو قومیں ان حقائق کو تسلیم کر کے اپنی اجتماعی زندگی کو جدید تبدیلیوں سے ہم آہنگ کر رہی ہیں وہ نہ صرف ترقی کی دوڑ میں شامل ہو رہی ہیں بلکہ تحقیق اور ایجادات کے میدان میں نئی نئی دریافتیں کر کے ارتقاء کے سفر کو تیز تر کر رہی ہیں۔ جو قومیں سائنس ٹیکنالوجی خلائی سائنس کی دریافتوں کو ماننے کے لیے تیار نہیں اور ان دریافتوں کو خدائی معاملات میں دخل اندازی کا نام دے کر کنویں کے مینڈک بنی ہوئی ہیں وہ بدترین نظریاتی پسماندگی کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔
اس حوالے سے سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ مسلم قوم دنیا کی وہ واحد قوم ہے جو ماضی سے نکلنا ہی نہیں چاہتی بلکہ توہمات سے بھرے ہوئے ماضی کو ترقی یافتہ جدید دنیا پر مسلط کرنا چاہتی ہیں۔ ہم اپنے ارد گرد جس مذہبی انتہا پسندی اور اس کے عملی اقدامات کو انتہائی بھیانک شکل میں دیکھ رہے ہیں وہ دراصل ماضی کو حال پر مسلط کرنے کی وہ احمقانہ جنگ ہے جو نظریاتی اندھے پن کی وجہ سے اپنے پرائے تک کی تمیز کھو بیٹھی ہے۔ ہم اس نظریاتی اندھے پن اور اس کے بدترین اثرات سے اس وقت تک باہر نہیں نکل سکتے جب تک ہم علم اور شعور کے میدانوں میں پیش قدمی کر کے اپنی اجتماعی زندگی کو جدید دنیا کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں کرتے۔
اس بڑے کام کے لیے ایک فکری انقلاب برپا کرنے کی ضرورت ہے جس کے لیے مختلف محاذوں پر جنگ لڑنی ہو گی۔ یہ کوئی آسان کام نہیں بلکہ ایسا کٹھن مرحلہ ہے جس کے راستے میں قدم قدم پر عقائد و نظریات کی دیواریں کھڑی ہوئی ہیں، اس راستے پر ماضی پرست خودکش بمباروں، بارودی گاڑیوں، ٹائم بموں، بارودی جیکٹوں کے ساتھ ساتھ اندھے دانشوروں کی ایک فوج کے ساتھ کھڑے ہیں۔
ہر طرف خوف اور دہشت کی ایک فضا قائم ہے جہاں سانس لینا بھی دشوار ہے فکری انقلاب برپا کرنے کے لیے آزادی فکر، آزادی تحریر بروقت ضروری ہے، جسے کفر کا نام دے کر واجب القتل قرار دیا جا رہا ہے، سچے مفکروں، دانشوروں اور فلسفیوں کے حلق میں اٹک کر رہ گیا ہے، ایک طرف عقل و دانش کے تقاضے ہیں دوسری طرف ماضی پرستوں کی ننگی تلواریں ہیں، ہزاروں سال میں گڑی بنیاد پرستی اور اس کے طاقتور رکھوالے ہیں، جنھیں آئینی تحفظات بھی حاصل ہیں۔
یورپ صدیوں تک اسی قسم کی صورت حال سے دوچار رہا اس صورت حال نے یورپ کو نہ صرف ذہنی جمود کا شکار کر دیا بلکہ اس پر ترقی کے سارے دروازے بند کر دیے، کلیسائی نظام عقائد و نظریات کی تلوار تھامے ہر اس نظریے کو واجب القتل قرار دیتا رہا جو اس کی روایات کی نفی کرتا ہو۔ سقراط سے لے کر گلیلیو تک ہر اس آواز کو قتل کیا جاتا رہا جو کلیسائی نظام سے ہم آہنگ نہ ہو، کسی کے ہاتھوں میں زہر کا پیالہ تھما دیا گیا اور کسی کو حقیقت بیانی کے جرم میں سزائے موت سنائی گئی۔
ان وحشیانہ مظالم سے تنگ آیا ہوا یورپ آخر مزاحمت پر اتر آیا اور ''تحریک اصلاح'' کی تلوار لے کر انسانی تہذیب و تمدن کے ان کے قاتلوں کے سامنے کھڑا ہو گیا اور بڑی قربانیوں کے بعد کلیسائی نظام کو شکست دینے میں کامیابی حاصل کی، اس کے بعد یورپ ترقی کے اس راستے پر تیزی سے آگے بڑھنے لگا جس کے نتائج آج ہم سائنس ٹیکنالوجی، میڈیکل سائنس، خلائی سائنس وغیرہ کی شکل میں دیکھ رہے ہیں۔ اگر مسلم ملکوں کو اس راستے پر آگے بڑھنا ہے تو ''ایک نئی تحریک اصلاح'' سے گزر کر جدید کلیسائی نظام کے تار پود بکھیرنا ہوں گے، اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔
اس کی جڑیں ہم قبائلی، جاگیردارانہ نظام، بادشاہتوں اور قبائلی حکمرانیوں میں گڑی ہوئی ہیں آج جو قومیں ماضی کے ولولوں سے نکل کر سماجی سیاسی اقتصادی اور سائنسی ترقی کی راہ پر پیش قدمی کر رہی ہیں، اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ان قوموں نے قبائلی جاگیردارانہ نظام اور اس کی زہر آلود نظریاتی جڑوں کو کاٹ دیا ہے، بد قسمتی سے مسلم ملک ابھی تک اسی دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں جو قبائلی جاگیردارانہ نظام کی مختلف شکلوں میں ہمارے سروں پر مسلط ہے اور اپنی بقا اور استحکام کے لیے عقائد و نظریات کا نقاب اوڑھے ہوئے ہے۔ پاکستان افغانستان اس کے وہ مضبوط مورچے ہیں جنھیں نظریاتی ہتھیاروں سے لیس کر کے مسلم ملکوں کی اجتماعی ترقی کے راستے میں اس طرح کھڑا کر دیا گیا ہے کہ 57 مسلم ملک فکری جمود کے کوما میں چلے گئے ہیں۔ یہ ایک انتہائی خطرناک صورت حال ہے۔
دس سال تک فکری بھول بھلیوں میں گم رہنے کے بعد ہماری حکومت نے مذہبی انتہا پسندی کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے، بلاشبہ یہ ایک مثبت اپروچ ہے لیکن حکومت اور فوج کی ساری توجہ شمالی وزیرستان پر لگی ہوئی ہے اگرچہ اس مہم ''ضرب عضب'' میں کامیابی کی خبریں آ رہی ہیں لیکن میڈیا میں دہشت گردی کی وارداتوں کی خبریں بھی آ رہی ہیں اور اس حوالے سے اصل صورتحال یہ ہے کہ انتہاپسند صرف شمالی وزیرستان ہی میں نہیں ہیں بلکہ ملک کے ہر شہر، ہر علاقے میں موجود ہیں اور سرگرم عمل بھی۔ پورا ملک ایک طرح سے شمالی وزیرستان بنا ہوا ہے۔
انتہا پسند طاقتوں کے فلسفے میں سادہ لوح عوام کے لیے بڑی کشش ہے لیکن اپنی بے لگام انتہا پسندی کی وجہ ان طاقتوں نے خود مسلمانوں کے خون سے اپنے ہاتھ رنگ لیے ہیں۔ اس کی وجہ سے پاکستان کے عوام کی اکثریت انتہا پسندی سے متنفر ہو گئی ہے۔ یہ ایک ایسا پہلو ہے جو حکومتی اقدامات میں معاون ثابت ہو سکتا ہے، حکومت انتہا پسندی کی جنگی طاقت کو اپنی جنگی طاقت سے ختم کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور بلا شبہ یہ ایک مثبت پیش رفت ہے لیکن انتہا پسندی کو صرف ریاستی طاقت سے ختم نہیں کیا جا سکتا بلکہ اسے ختم کرنے کے لیے ملک میں ایک فکری انقلاب لانا ہو گا۔
فکری انقلاب کے لیے علم اور شعور میں اضافہ ضروری ہے اس حوالے سے میڈیا ایک اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر وہ لوگ قابض ہیں جو نظریاتی حوالے سے انتہا پسندی کے حامی ہیں، میڈیا میں روشن خیال طاقتوں کا حال نقاد خانے میں طوطی جیسا ہو کر رہ گیا ہے۔ اس پس منظر میں ضرورت اس بات کی ہے کہ معاشرے کی ترقی اور عوام کے بہتر مستقبل کے حامی میڈیا کے جس شعبے میں بھی موجود ہیں وہ ترقی پسند نظریات کی حوصلہ افزائی کریں۔ یہ حوصلہ افزائی کسی فرد یا افراد کی نہیں بلکہ تاریکی کی اتھاہ گہرائیوں میں روشنی کی حوصلہ افزائی ہے، کاش! میڈیا میں موجود مثبت فکر کے حامل لوگ اس حقیقت کو سمجھ سکیں۔