کراچی کے ساحل سے غزہ تک
ہندوستان میں امریکی مشروبات کا بائیکاٹ کردیا گیا ہے، ہمارے ہاں یہ مشروب خوب پیے جا رہے ہیں
اور کچھ نہ ہوا تو سمندر نے ہی انسانوں کو نگل لیا۔ اب تک سمندر 38 افراد کو اگل چکا ہے، بہت سے لوگ اب بھی لاپتا ہیں۔ ہمارے ملک میں عرصہ دراز سے بہت کچھ ہو رہا ہے، ڈرون حملے، خودکش حملے، بم دھماکے، ٹارگٹڈ کلنگ، اغوا برائے تاوان۔ یہ ایک قیامت خیز سلسلہ ہے۔
دوسری طرف حالات کے ہاتھوں مایوس و مجبور لوگوں کا خودکشیاں کرنا، تیسری طرف دولت مندوں کا دولت کے نشے میں دھت اپنے اپنے اسلحہ برداروں کے ساتھ انسانوں کا شکار کرنا اور بے دست و پا قانون کے محافظوں کی بے چارگی۔ اللہ کی زمین پر قابض زمینداروں، جاگیرداروں، وڈیروں، سرداروں، خانوں کا کہنا ہے کہ ''ہم اس زمین کے مالک ہیں، یہاں ہماری مرضی چلے گی، ہمارا قانون چلے گا۔ ابھی چند دن پہلے ایک ممبر صوبائی اسمبلی جو پولیس کو مطلوب تھا۔ مگر مجبور پولیس اس پر ہاتھ نہ ڈال سکی جب کہ ملزم ایم پی اے صاحب کا فرمانا تھا کہ پہلے عدالت میری ضمانت قبل از گرفتاری منظور کرے تب پولیس سے ملوں گا۔
سو ایسا ہی کیا گیا۔ دراصل ہمارے ملک میں ایک بہت بڑی بیماری نے مضبوط جڑیں پکڑ لی ہیں۔ یہ بیماری ہے جاگیرداری۔ ہمارے ہاں اتنے بڑے بڑے جاگیردار پائے جاتے ہیں کہ جو کھڑے کھڑے جسے چاہیں خرید لیں اور الیکشن میں یہی اللہ کی زمینوں کے مالک اپنی اپنی زمینوں سے کھڑے ہوتے ہیں اور اسمبلیوں میں پہنچ جاتے ہیں۔ عرصہ ہوا ہمارے ایک جاگیردار نے انتخابی جلسے میں اپنے دو سال کے پوتے کو ہاتھوں میں اٹھا کر اپنی رعایا کو دکھاتے ہوئے ارشاد فرمایا ''لوگو! دیکھو یہ ہے تمہارا مستقبل کا ممبر اسمبلی'' اور واقعی جاگیردار صاحب نے سو فیصد درست فرمایا تھا کیونکہ آج وہی دو سال کا بچہ ولیت پاس کرکے ممبر بنا بیٹھا ہے۔ جالب نے فلم ''خاموش رہو'' کے لیے لکھا تھا:
رات کے بعد اک رات نئی آجائے گی
اس گھر میں ہوگی نہ سحر خاموش رہو
مگر وہ فلم تھی اور کہانی کی مجبوری تھی۔ سو یہ گیت لکھا گیا۔ ہمارے ملک کے حالات خاموش رہنے سے نہیں بدلیں گے۔ یہ دادے پوتے کا کھلواڑ آخر کب تک ہوگا؟
پچھلے ہفتے ایک جاگیردار کے بیٹے کو ذرا غصہ آگیا اور اس نے دس سالہ بچے تبسم سے زندگی بھر کے لیے ہنسی چھین لی اور اس کے دونوں بازو کاٹ ڈالے۔ تبسم کی کوئی خطا نہیں تھی۔ وہ جاگیردار کے ٹیوب ویل پر نہانے کا جرم کر بیٹھا اور اللہ کی زمین کے دنیاوی مالک نے ننھے منے بچے کے ہونٹوں کا تبسم ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھین لیا۔ جوش صاحب یاد آگئے:
غنچے تری قسمت پر جگر ہلتا ہے
صرف ایک تبسم کے لیے کھلتا ہے
غنچے نے کہا ہنس کر بابا
یہ تبسم بھی کسے ملتا ہے
تبسم نے دوڑ کر کھیتوں میں پناہ لی۔ مگر زمینی مالک کے بندوں نے اسے ڈھونڈ نکالا، اور مالک کے سامنے پیش کردیا۔ جس نے خون اتری آنکھوں سے بچے کو دیکھا اور چلا کر بولا ''اے گستاخ، نافرمان، میرے گناہ گار اپنے دونوں بازو مجھے دے دے'' اور پھر چشم زدن میں ننھے تبسم کے دونوں بازو کٹ کے دور جا گرے۔
ان زمینی خداؤں پر اﷲ کی لعنت ہو۔ کیا ہم نے قربانیاں دے کر ''پاکستان'' اس لیے بنایا تھا کہ یہاں ناپاک لوگ قابض ہوجائیں! آزادی کے بعد جب خواب بکھرنے لگے، ذرا ٹھہریں، مجھے یاد آیا کہ یہ ماہ اگست ہے، آزادی کے مہینے کا آغاز۔ یہ عید کیسی گزری ہے مت پوچھیے۔ سارا وطن جانتا تھا کوئی بے حس اگر نہیں جانتا تو نہ جانے۔ دل والے تو سبھی جانتے ہیں۔ ساری قوم کا دل ''بنوں'' میں اٹکا رہا۔ جہاں لاکھوں انسان، عورتیں، مرد، بوڑھے، جوان، بچے باپردہ بیبیاں اپنے گھروں کو چھوڑ کر خیموں میں ڈیرے ڈال دیے ہیں۔
رمضان شریف جیسا عبادت کا مہینہ، جسے سکون واطمینان سے اپنے گھروں میں گزارا جاتا ہے۔ شمالی وزیرستان کے لوگوں نے یہ بابرکت مہینہ کیمپوں میں کسمپرسی کے عالم میں گزار دیا۔ ہم ان کا دین کیسے دے سکیں گے۔ انھوں نے ہمارے سکھ چین کی خاطر اپنا سکھ چین برباد کردیا۔ ان کے گھروں کے اردگرد گولے برس رہے ہیں، ان کے گھروں کے در و دیوار چھلنی ہو رہے ہیں۔ ان کے کھیت کھلیان باغات میں خون بہہ رہا ہے ان کے سرسبز پہاڑوں کی ڈھلانوں پر بھیڑ بکریاں نہیں چر رہیں، ڈر کر وہ چھپ گئی ہیں۔
میں کیا کروں میرے پاس بیان کرنے کو اور کچھ بھی نہیں ہے۔ بقول ساحر ''میں چاہوں بھی تو خواب آور ترانے گا نہیں سکتا'سو اپنے وطن کو جلتا دیکھوں اور خاموش رہوں' آخر کیوں!'' ابھی نوحہ گری باقی ہے۔ دور غزہ میں میرے اپنے دنیا میں بسنے والے ہر انسان کے اپنے پر قیامت گزر رہی ہے۔ ایک مہینہ ہوگیا غزہ پر اسرائیل بم برسا رہا ہے پورا شہر ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے جو سلامت ہیں وہ اپنے پیاروں کو قبروں میں اتار رہے ہیں، مائیں بہنیں بیٹیاں آسمان کی طرف ہاتھ اٹھائے اللہ کو مدد کے لیے بلا رہی ہیں، یہ قبلہ اول کی بیٹیاں ہیں، قبلہ اول کی بنیادیں بھی کھود دی گئی ہیں۔ امریکا اپنے بغل بچے کے ذریعے فلسطین کے خاتمے کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم کہہ رہا ہے ''ہم اپنا ہدف پورا کیے بغیر جنگ بندی نہیں کریں گے اور کسی کا کوئی حکم نہیں مانیں گے۔''
ہندوستان میں امریکی مشروبات کا بائیکاٹ کردیا گیا ہے، ہمارے ہاں یہ مشروب خوب پیے جا رہے ہیں۔ شاباش! ہندوستان تم نے غیرت مندی کا ثبوت دیا۔ فی الحال ہمارے فٹ پاتھ ان امریکی یہودی مشروبات سے اٹے پڑے ہیں چلنے کا راستہ نہیں ہے۔ باقی ہماری ہر سیاسی پارٹی میں ''ظلم کے ڈرامے'' موجود ہیں جو کل ظالم کے ہمنوا تھے۔ آج وہ انقلابی بنے ہوئے ہیں۔ اللہ ہی جانے انقلاب کیسے آئے گا کہ جب ہر ایک کی عزت ہوگی اللہ کی زمین دنیاوی خدائوں سے چھین کر اللہ کے بندوں میں مساوی تقسیم کردی جائے گی۔ جب کسی ظالم جاگیردار کو کسی معصوم بچے کا تبسم ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھیننے کی جرأت نہیں ہوگی۔ جب قانون کے محافظ ہر ملزم اور مجرم کو پکڑ کر جیلوں میں ڈالیں گے۔ جالب کہتا ہے کہ دو برائیوں کا خاتمہ کردو۔ انقلاب آجائے گا۔
دوسری طرف حالات کے ہاتھوں مایوس و مجبور لوگوں کا خودکشیاں کرنا، تیسری طرف دولت مندوں کا دولت کے نشے میں دھت اپنے اپنے اسلحہ برداروں کے ساتھ انسانوں کا شکار کرنا اور بے دست و پا قانون کے محافظوں کی بے چارگی۔ اللہ کی زمین پر قابض زمینداروں، جاگیرداروں، وڈیروں، سرداروں، خانوں کا کہنا ہے کہ ''ہم اس زمین کے مالک ہیں، یہاں ہماری مرضی چلے گی، ہمارا قانون چلے گا۔ ابھی چند دن پہلے ایک ممبر صوبائی اسمبلی جو پولیس کو مطلوب تھا۔ مگر مجبور پولیس اس پر ہاتھ نہ ڈال سکی جب کہ ملزم ایم پی اے صاحب کا فرمانا تھا کہ پہلے عدالت میری ضمانت قبل از گرفتاری منظور کرے تب پولیس سے ملوں گا۔
سو ایسا ہی کیا گیا۔ دراصل ہمارے ملک میں ایک بہت بڑی بیماری نے مضبوط جڑیں پکڑ لی ہیں۔ یہ بیماری ہے جاگیرداری۔ ہمارے ہاں اتنے بڑے بڑے جاگیردار پائے جاتے ہیں کہ جو کھڑے کھڑے جسے چاہیں خرید لیں اور الیکشن میں یہی اللہ کی زمینوں کے مالک اپنی اپنی زمینوں سے کھڑے ہوتے ہیں اور اسمبلیوں میں پہنچ جاتے ہیں۔ عرصہ ہوا ہمارے ایک جاگیردار نے انتخابی جلسے میں اپنے دو سال کے پوتے کو ہاتھوں میں اٹھا کر اپنی رعایا کو دکھاتے ہوئے ارشاد فرمایا ''لوگو! دیکھو یہ ہے تمہارا مستقبل کا ممبر اسمبلی'' اور واقعی جاگیردار صاحب نے سو فیصد درست فرمایا تھا کیونکہ آج وہی دو سال کا بچہ ولیت پاس کرکے ممبر بنا بیٹھا ہے۔ جالب نے فلم ''خاموش رہو'' کے لیے لکھا تھا:
رات کے بعد اک رات نئی آجائے گی
اس گھر میں ہوگی نہ سحر خاموش رہو
مگر وہ فلم تھی اور کہانی کی مجبوری تھی۔ سو یہ گیت لکھا گیا۔ ہمارے ملک کے حالات خاموش رہنے سے نہیں بدلیں گے۔ یہ دادے پوتے کا کھلواڑ آخر کب تک ہوگا؟
پچھلے ہفتے ایک جاگیردار کے بیٹے کو ذرا غصہ آگیا اور اس نے دس سالہ بچے تبسم سے زندگی بھر کے لیے ہنسی چھین لی اور اس کے دونوں بازو کاٹ ڈالے۔ تبسم کی کوئی خطا نہیں تھی۔ وہ جاگیردار کے ٹیوب ویل پر نہانے کا جرم کر بیٹھا اور اللہ کی زمین کے دنیاوی مالک نے ننھے منے بچے کے ہونٹوں کا تبسم ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھین لیا۔ جوش صاحب یاد آگئے:
غنچے تری قسمت پر جگر ہلتا ہے
صرف ایک تبسم کے لیے کھلتا ہے
غنچے نے کہا ہنس کر بابا
یہ تبسم بھی کسے ملتا ہے
تبسم نے دوڑ کر کھیتوں میں پناہ لی۔ مگر زمینی مالک کے بندوں نے اسے ڈھونڈ نکالا، اور مالک کے سامنے پیش کردیا۔ جس نے خون اتری آنکھوں سے بچے کو دیکھا اور چلا کر بولا ''اے گستاخ، نافرمان، میرے گناہ گار اپنے دونوں بازو مجھے دے دے'' اور پھر چشم زدن میں ننھے تبسم کے دونوں بازو کٹ کے دور جا گرے۔
ان زمینی خداؤں پر اﷲ کی لعنت ہو۔ کیا ہم نے قربانیاں دے کر ''پاکستان'' اس لیے بنایا تھا کہ یہاں ناپاک لوگ قابض ہوجائیں! آزادی کے بعد جب خواب بکھرنے لگے، ذرا ٹھہریں، مجھے یاد آیا کہ یہ ماہ اگست ہے، آزادی کے مہینے کا آغاز۔ یہ عید کیسی گزری ہے مت پوچھیے۔ سارا وطن جانتا تھا کوئی بے حس اگر نہیں جانتا تو نہ جانے۔ دل والے تو سبھی جانتے ہیں۔ ساری قوم کا دل ''بنوں'' میں اٹکا رہا۔ جہاں لاکھوں انسان، عورتیں، مرد، بوڑھے، جوان، بچے باپردہ بیبیاں اپنے گھروں کو چھوڑ کر خیموں میں ڈیرے ڈال دیے ہیں۔
رمضان شریف جیسا عبادت کا مہینہ، جسے سکون واطمینان سے اپنے گھروں میں گزارا جاتا ہے۔ شمالی وزیرستان کے لوگوں نے یہ بابرکت مہینہ کیمپوں میں کسمپرسی کے عالم میں گزار دیا۔ ہم ان کا دین کیسے دے سکیں گے۔ انھوں نے ہمارے سکھ چین کی خاطر اپنا سکھ چین برباد کردیا۔ ان کے گھروں کے اردگرد گولے برس رہے ہیں، ان کے گھروں کے در و دیوار چھلنی ہو رہے ہیں۔ ان کے کھیت کھلیان باغات میں خون بہہ رہا ہے ان کے سرسبز پہاڑوں کی ڈھلانوں پر بھیڑ بکریاں نہیں چر رہیں، ڈر کر وہ چھپ گئی ہیں۔
میں کیا کروں میرے پاس بیان کرنے کو اور کچھ بھی نہیں ہے۔ بقول ساحر ''میں چاہوں بھی تو خواب آور ترانے گا نہیں سکتا'سو اپنے وطن کو جلتا دیکھوں اور خاموش رہوں' آخر کیوں!'' ابھی نوحہ گری باقی ہے۔ دور غزہ میں میرے اپنے دنیا میں بسنے والے ہر انسان کے اپنے پر قیامت گزر رہی ہے۔ ایک مہینہ ہوگیا غزہ پر اسرائیل بم برسا رہا ہے پورا شہر ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے جو سلامت ہیں وہ اپنے پیاروں کو قبروں میں اتار رہے ہیں، مائیں بہنیں بیٹیاں آسمان کی طرف ہاتھ اٹھائے اللہ کو مدد کے لیے بلا رہی ہیں، یہ قبلہ اول کی بیٹیاں ہیں، قبلہ اول کی بنیادیں بھی کھود دی گئی ہیں۔ امریکا اپنے بغل بچے کے ذریعے فلسطین کے خاتمے کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم کہہ رہا ہے ''ہم اپنا ہدف پورا کیے بغیر جنگ بندی نہیں کریں گے اور کسی کا کوئی حکم نہیں مانیں گے۔''
ہندوستان میں امریکی مشروبات کا بائیکاٹ کردیا گیا ہے، ہمارے ہاں یہ مشروب خوب پیے جا رہے ہیں۔ شاباش! ہندوستان تم نے غیرت مندی کا ثبوت دیا۔ فی الحال ہمارے فٹ پاتھ ان امریکی یہودی مشروبات سے اٹے پڑے ہیں چلنے کا راستہ نہیں ہے۔ باقی ہماری ہر سیاسی پارٹی میں ''ظلم کے ڈرامے'' موجود ہیں جو کل ظالم کے ہمنوا تھے۔ آج وہ انقلابی بنے ہوئے ہیں۔ اللہ ہی جانے انقلاب کیسے آئے گا کہ جب ہر ایک کی عزت ہوگی اللہ کی زمین دنیاوی خدائوں سے چھین کر اللہ کے بندوں میں مساوی تقسیم کردی جائے گی۔ جب کسی ظالم جاگیردار کو کسی معصوم بچے کا تبسم ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھیننے کی جرأت نہیں ہوگی۔ جب قانون کے محافظ ہر ملزم اور مجرم کو پکڑ کر جیلوں میں ڈالیں گے۔ جالب کہتا ہے کہ دو برائیوں کا خاتمہ کردو۔ انقلاب آجائے گا۔