تحصیل لطیف آبادکا فائر بریگیڈ عملاً ناکارہ ہوگیا
3 فائر ٹینڈر میں سے دو خراب ، فائر باؤزرکو بطور فائر ٹینڈر استعمال کیا جانے لگا.
7 لاکھ نفوس پر مشتمل تحصیل لطیف آباد فائر بریگیڈ کے پاس موجود 3 فائر ٹینڈر میں سے دو خراب ہیں اور صرف ایک چھوٹی گاڑی فعال ہے۔
جس کے بعد دو فائر باؤزرکو بھی بطور فائر ٹینڈر استعمال کیا جا رہاہے، ان حالات میں آتشزدگی کے کسی بڑے واقعیکی صورت میں جانی ومالی نقصان کا خدشہ ہے۔ تحصیل فائر بریگیڈ لطیف آباد کا مجموعی اثاثہ 4 فائر ٹینڈر اور دو باؤزر تھے، جن میں سے فائر ٹینڈر معراج اپنی مدت پوری کرنے کے باعث آئے روز خراب رہتا ہے ،دوسرا فائر ٹینڈر 1964 ء کا ہے جو ڈیڑھ سال قبل خراب ہوکر ورکشاپ میں کھڑا ہے، اس وقت صرف ایک چھوٹا فائر ٹینڈر قابل استعمال حالت میں ہے۔
جبکہ چوتھا جدید غیر ملکی فائرٹینڈر بے نظیر بھٹو کی شہادت کے باعث ہنگامہ آرائی کے دوران جلا دیا گیا ، حکومت کو متعدد خطوط لکھنے کے باوجود نئی گاڑی فراہم نہیں کی گئی۔ عالمی معیار کے مطابق ہر ایک لاکھ آبادی کے لیے ایک فائر اسٹیشنز ضروری ہے اور ہر فائراسٹیشن میں تمام ساز وسامان سے لیس 4 فائیر ٹینڈر ہونے ہونے چاہیںجبکہ ہر اسٹیشن پر ایک شفٹ میں ہمہ وقت 40 فائر فائٹرز اور دیگر عملہ ضروری ہے لیکن بدقسمتی سے لطیف آبادمیں صرف ایک فائراسٹیشن ہے جبکہ اس کی حد میں حیدرآباد کا صنعتی علاقہ سائٹ، کیٹل کالونی، سبزی منڈی، بس اسٹینڈ، سرکٹ ہاؤس، بڑے بازار، ریلوے اسٹیشن اور دیگراہم عمارات ہیں۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ آگ بجھانے کا سب سے بڑا ہتھیار پانی ہے لیکن پورے حیدرآباد میںفائر بریگیڈ کی گاڑیوںکو پانی فراہم کرنے کے لیے ٹھنڈی سڑک پر صرف ایک ہائیڈرنٹ ہے۔ دوسری جانب فائر بریگیڈ کے پاس وہ آلات نہیں ہیںکہ اگر خدانخواستہ سانحہ بلدیہ کراچی جیسا آتشزدگی کا واقعہ حیدرآباد میں پیش آجائے تو وہ لوگوں کی زندگیاں بچاسکیں ۔جبکہ جو اسنارکل موجود ہے اس کی لمبائی بھی صرف 50 فٹ ہے جبکہ حیدرآباد میںکثیرالمنزلہ عمارات تیزی سے تعمیر ہورہی ہیں۔ تحصیل لطیف آباد کے چیف فائر آفیسر یونس قریشی نے ایکسپریس سے گفتگو میں اس تمام صورتحال کی تصدیق کی تاہم انکاکہنا تھاکہ ہم نے اس سے متعلق متعدد بارحکام کو صورتحال سے آگاہ کیا ہے لیکن اس کے باوجودحالات جوںکے توں ہیں۔
جس کے بعد دو فائر باؤزرکو بھی بطور فائر ٹینڈر استعمال کیا جا رہاہے، ان حالات میں آتشزدگی کے کسی بڑے واقعیکی صورت میں جانی ومالی نقصان کا خدشہ ہے۔ تحصیل فائر بریگیڈ لطیف آباد کا مجموعی اثاثہ 4 فائر ٹینڈر اور دو باؤزر تھے، جن میں سے فائر ٹینڈر معراج اپنی مدت پوری کرنے کے باعث آئے روز خراب رہتا ہے ،دوسرا فائر ٹینڈر 1964 ء کا ہے جو ڈیڑھ سال قبل خراب ہوکر ورکشاپ میں کھڑا ہے، اس وقت صرف ایک چھوٹا فائر ٹینڈر قابل استعمال حالت میں ہے۔
جبکہ چوتھا جدید غیر ملکی فائرٹینڈر بے نظیر بھٹو کی شہادت کے باعث ہنگامہ آرائی کے دوران جلا دیا گیا ، حکومت کو متعدد خطوط لکھنے کے باوجود نئی گاڑی فراہم نہیں کی گئی۔ عالمی معیار کے مطابق ہر ایک لاکھ آبادی کے لیے ایک فائر اسٹیشنز ضروری ہے اور ہر فائراسٹیشن میں تمام ساز وسامان سے لیس 4 فائیر ٹینڈر ہونے ہونے چاہیںجبکہ ہر اسٹیشن پر ایک شفٹ میں ہمہ وقت 40 فائر فائٹرز اور دیگر عملہ ضروری ہے لیکن بدقسمتی سے لطیف آبادمیں صرف ایک فائراسٹیشن ہے جبکہ اس کی حد میں حیدرآباد کا صنعتی علاقہ سائٹ، کیٹل کالونی، سبزی منڈی، بس اسٹینڈ، سرکٹ ہاؤس، بڑے بازار، ریلوے اسٹیشن اور دیگراہم عمارات ہیں۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ آگ بجھانے کا سب سے بڑا ہتھیار پانی ہے لیکن پورے حیدرآباد میںفائر بریگیڈ کی گاڑیوںکو پانی فراہم کرنے کے لیے ٹھنڈی سڑک پر صرف ایک ہائیڈرنٹ ہے۔ دوسری جانب فائر بریگیڈ کے پاس وہ آلات نہیں ہیںکہ اگر خدانخواستہ سانحہ بلدیہ کراچی جیسا آتشزدگی کا واقعہ حیدرآباد میں پیش آجائے تو وہ لوگوں کی زندگیاں بچاسکیں ۔جبکہ جو اسنارکل موجود ہے اس کی لمبائی بھی صرف 50 فٹ ہے جبکہ حیدرآباد میںکثیرالمنزلہ عمارات تیزی سے تعمیر ہورہی ہیں۔ تحصیل لطیف آباد کے چیف فائر آفیسر یونس قریشی نے ایکسپریس سے گفتگو میں اس تمام صورتحال کی تصدیق کی تاہم انکاکہنا تھاکہ ہم نے اس سے متعلق متعدد بارحکام کو صورتحال سے آگاہ کیا ہے لیکن اس کے باوجودحالات جوںکے توں ہیں۔