پاکستان ایک نظر میں ’’یہ سیاسی اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا‘‘

حکومت نے فوج کوطلب کرکے پہلی غلطی کردی ۔اب بال عمران خان اور طاہر القادری کے کورٹ میں ہے کہ وہ کہاں پہلی غلطی کرتے ہیں

بات یقیناً جلسے اور حکومت کو الٹی میٹم دینے سے آگے جائے گی تو پھر حد کیا ہوگی ؟ مڈ ٹرم الیکشن ، دھاندلی کی تحقیقات ، انتخابی اصلاحات ، قومی حکومت ؟ یا سب کو روندتا ہوا مارشل لا۔ فوٹو: ایکسپریس

بلآخر 14 اگست قریب آگئی ہے ۔ سیاسی گہماگہمی ، انقلاب و مارچ کی تیاریاں ، اور حکومتی پلان بھی حتمی مراحل میں داخل ہو رہے ہیں ۔

سیاست اگر اعصاب کی جنگ ہے تو یہ دونوں طرف سے شروع ہوچکی ہے ۔ انتظار اس بات کا ہےکہ کون پہلے غلطی کر بیٹھے ۔ حکومت نے فوج کو وفاقی دارالحکومت میں بلا کر شاید پہلی غلطی کر ہی دی ہے ۔اب بال عمران خان اور طاہر القادری کے کورٹ میں ہے کہ وہ کہاں پہلی غلطی کرتے ہیں ۔

یہ دلچسپ امر ہے کہ عمران خان جو اپنے سیاسی کیرئیر کی سب سے بڑی لڑائی اور اسمبلی سے استعفوں کی صورت میں سب سے بڑا رسک بیک وقت لے رہے ہیں کہاں تک اپنے ووٹرز کو مطمئن کر پاتے ہیں ۔ بات یقیناً جلسے اور حکومت کو الٹی میٹم دینے سے آگے جائے گی تو پھر حد کیا ہوگی ؟ مڈ ٹرم الیکشن ، دھاندلی کی تحقیقات ، انتخابی اصلاحات ، قومی حکومت ؟ یا سب کو روندتا ہوا مارشل لا ....۔

طاہرالقادری کا سیاسی قد اتنا بڑا نہیں جتنا انکے مریدین اور چاہنے والوں کا حلقہ ۔ یہ پہلے بھی ایک بڑا مارچ کرچکے ہیں تاہم اس دفعہ حالات الگ ہیں ۔ چوہدی برادران کی مدد اور دأو پیچ انکے ہمراہ ہیں ۔ لیکن ہدف ابھی بھی ابہام کا شکار ہے ۔


حکومت کو دہرے محاذ کا سامنا ہے ۔ دو الگ مارچ ، دو الگ اہداف اور دو الگ لیڈران حکومتی ایوانوں کو بوکھلاہٹ اور پریشانی میں مبتلا کئے ہوئے ہیں ۔ یہ تو طے ہے کہ تحریک انصاف یا عوامی تحریک میں سے جو بھی پیچھے ہٹا اور حکومت سے بارگین کی پوزیشن پہ آیا وہ عوام میں اپنی سیاسی ساکھ کھو دیگا ۔ لہذٰا صورتحال کافی پیچیدہ ہے ۔ صرف پیپلز پارٹی ہے جو ایک طرف کھڑی تیل اور تیل کی دھار دیکھ رہی ہے ۔ ایم کیو ایم ہوا کا رخ دیکھ کر چلتی ہے اسلئے اسکے لئے کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا ۔

یہ مارچ اگر حکومت مخالف تحریک کا روپ دھار گئے اور باہم مدغم ہوگئے تو پھر شاید حکومت کا جانا ٹھہر جائے ۔ جس میں حکومتی غلطیاں کردار ادا کرسکتی ہیں ۔ اقتدار میں آنے کے بعد سے اب تک بیشمار کوتاہیاں ن ۔ لیگ کا احاطہ کئے ہوئے ہیں جنکا مداواکرنیکی کوشیشں تیزی سے جاری ہیں۔ عوامی اجتماع اگر حکومت مخالف تحریک کا روپ دھار لے تو پھر نقصان ہمیشہ حکومت کا ہوتا ہے ۔ ماضی میں بھٹو مخالف تحریک اسکا ثبوت ہے یہ الگ بات ہے آخر میں کسی کے ہاتھ کچھ نہ آیا اور ایک تختہ دار اور بقیہ طویل مارشل لا کے اختتام کے منتظر رہے ۔

اس دفعہ صورتحال کیا رنگ اختیار کرے گی اسکا فیصلہ چند دنوں میں ہوجائیگا ۔پھر اسلام آباد ، پنڈی ، مری ، لاہور میں رابطے اور کچھ لو اور کچھ دو کی پالیسی بھی زیر غور ہے ۔ اپنے سپورٹرز کو قابو میں رکھنا تحریک انصاف اور عوامی تحریک کا امتحان ہے ساتھ ہی حکومت کے لئے بھی درد سر ہےکہ اگر تصادم کی صورتحال بنی تو حکمت عملی کیا ہوگی ۔ دارالحکومت میں موجود فوج سے کیا کام لیا جائیگا ؟ ماڈل ٹاؤن جیسے سانحہ کا تدارک کیسے ہوگا ؟ سوالات ہی سوالات ہیں جواب وقت دیگا ۔حکومت اگر ایک کو منا لے تو شاید دوسرے مارچ اور لیڈر کے پاس وہ دم نہ رہے اور حکومت پریشر سے باہر آجائے ۔ گرفتاریوں کا آپشن موجود ہے تاہم ردعمل شدید ہوسکتا ہے۔

دیکھنا یہ ہے کہ لانگ مارچ اور انقلاب کی گرد جب بیٹھے گی تو کیا چیز سامنے آئیگی ۔ کوئی نیا منظر نامہ ، کوئی بیرونی یقین دہانی ، اندرونی ثالثی یا پھر حیلے بہانوں کے بعد پر جوش ہجوم کو واپسی کا پروانہ تھما کر لیڈران اپنے گھروں کی راہ لیں گےاور اگلے پڑأو کا تعین کریں گے ۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔
Load Next Story