راجہ کی اننگز
ان کا پہلا چھکا لوڈ شیڈنگ میں کمی کی شکل میں سامنے آیا، چھکے پہ...
ان کا پہلا چھکا لوڈ شیڈنگ میں کمی کی شکل میں سامنے آیا، چھکے پہ چھکا چیف الیکشن کمشنر کی متفقہ تعیناتی ہے۔ تماشائی داد دیے بغیر نہیں رہ سکے۔ پیپلز پارٹی ایک زمانے میں انقلابی جماعت تھی، یہ مزاحمت کی شہرت رکھتی تھی مگر اب تو یہ پارٹی جیسے مکھن اور بالائی کی طرح نرم و گداز ہے، کیا مجال جو کسی سے جھگڑا کرے، پہلے پارٹی چیئرمین اور پہلے منتخب وزیر اعظم کو پھانسی لگ گئی، پارٹی نے کہیں دھرنا نہیں دیا نہ لانگ مارچ کیا، نہ احتجاج میں کہیں ٹینٹ آفس نصب کیا۔ بس قربانیوں پہ قربانیاں دیے چلے جا رہی ہے اور مقصد صرف یہ ہے کہ مفاہمت اور اتفاق رائے سے کام چلایا جائے، انتقام اور محاذ آرائی سے گریز کیا جائے، جمہوریت کو حتی المقدور بچانے کی کوشش کی جائے، محترمہ بے نظیر نے بھی مفاہمت اور مصالحت کی سیاست کی اور پھر جمہوری عمل کے احیا کے لیے جان کا نذرانہ پیش کر کے شہادت کے عظیم مرتبے پر سرفراز ہوئیں، صدر زرداری اور وزیر اعظم گیلانی بھی موم کے مجسمے ثابت ہوئے۔
گیلانی کو ہٹانے کے لیے کس نے ایڑی چوٹی کا زور نہیں لگایا، ان کے مخالفین خواب دیکھتے تھے کہ ایک وزیر اعظم کو سزا ہو گئی اور اسے نااہل قرار دے کر گھر بھیج دیا گیا تو پھر کوئی قربانی کے خوف سے آگے نہیں آئے گا مگر ہوا ان کی خواہشات کے برعکس، مخالفین کے منہ کھلے کے کھلے رہ گئے جب ایک نہیں چار امیدوار میدان میں اترے، ایک امیدوار کے وارنٹ نکال دیے گئے' وہ ضمانتوں میں الجھ گئے، کورنگ امیدوار راجہ پرویز اشرف کے خلاف بھی مقدمات کی طویل فہرست گنوائی گئی مگر بظاہر یہ ہنس مکھ اور نرم مزاج شخص اندر سے فولاد ی عزم کا مالک نکلا۔ اس نے جس دھج سے وزارت عظمی کی کانٹوں بھری سیج پر قدم رکھے وہ شان ہمیشہ یادگار اور سلامت رہے گی۔ لوگوں کو یاد آیا کہ ن لیگ کی حکومت ٹوٹی، اس کے قائد کو جیلوں اور قلعوں میں ڈالا گیا تو دور دور تک ان کی جگہ سنبھالنے والا کوئی نظر نہ آتا تھا اور اگر اس اوکھلی میں جاوید ہاشمی نے سر دیا بھی تو اس کا تورا بورا بنا دیا گیا۔
راجہ پرویز اشرف کون ہے، وہ دراز قد اور صحت مند جسم اور چاق و چوبند ذہن کا مالک ہے۔ پوٹھوہار کی بنجر اور بے آب و گیاہ سرزمین نے کتنے ہی نابغہ روزگار پیدا کیے، بالکسر میں کرنل محمد خاں محو خواب ہیں، آس پاس ہی سید ضمیر جعفری کی خوشبو بکھری ہوئی ہے، یہیں کہیں وہ گائوں ہے جہاں بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ پلے بڑھے اور پرائمری تک پڑھتے رہے، یہ مردم خیز خطہ ہے، پاکستان کے دفاع کی فصیل ہے اور اس کے ہر گھر میں شہادت کے تمغے سجے ہوئے ہیں۔ یہ درست ہے کہ فوج پر یہ خطہ حاوی ہے لیکن ایوب خان، یحییٰ خان، ضیاء الحق، مشرف میں سے کوئی بھی پوٹھوہاری نہیں اس لیے اس خطے کے فوجی جرنیلوں کو آمریت مسلط کرنے کا طعنہ نہیں دیا جا سکتا بلکہ اسے نشان حیدر کا اعزاز پانے والوں کا کریڈٹ ملا۔
لاہور سے جاتے ہوئے دریائے جہلم پار کریں تو یکایک احساس ہوتا ہے کہ انسان کسی ویرانے میں آن نکلا ہے، حد نظر تک کچی مٹی کے اونچے نیچے تودے، بل کھاتے ہوئے ندی نالے اور پہاڑی چوٹیوں کی ڈھلوانوں میں کہیں کہیں زندگی کے آثار، یہاں کوئی کلمہ چوک نہیں، کوئی مال روڈ انڈر پاس نہیں، کہیں فورٹریس اسٹیڈیم نہیں، بس چھوٹی چھوٹی سڑکیں ہیں جو اچانک نظروں سے اوجھل ہو جاتی ہیں۔ کیا ان کے دوسرے سرے پر کسی زندگی کے آثار ہیں، یہ ہے وہ سوال جو ایک سو بیس کلومیٹر کی رفتار سے گاڑی چلاتے ہوئے ایک لمحے کے لیے ذہن میں ابھرتا ہے اور پھر کوئی خطرناک موڑ ڈرائیونگ پر ساری توجہ مرکوز کر دیتا ہے۔ کہا جاتا ہے جنوبی پنجاب پس ماندہ علاقہ ہے مگر یہاں زرخیز ترین زمینیں ہیں، لینڈ لارڈز ہیں، مخدوم زادہ احمد محمود، چوہدری منیر، جہانگیر ترین جیسے جیٹ ہوائی جہازوں کے مالک ہیں۔ متحدہ عرب امارات کے شہزادے یہاں شکار کھیلنے آتے ہیں۔
ان کے پُرشکوہ محلات ہیں اور ان کے فنڈز سے جدید ترین اسپتال قائم ہیں، پھر بھی یہ علاقہ پس ماندہ ہے تو پوٹھوہار کو کیا کہیں گے جہاں سواری اور باربرداری کے لیے گدھے اور بکریوں کے ریوڑوں کے سوا کچھ نظر نہیں آتا، اب اس خطے میں سے پہلی بار کسی شخص کو ملک کے چیف ایگزیکٹو کے منصب پر سرفراز ہونے کا اعزاز ملا ہے، خدا کرے اب ہی اس خطے کی تقدیر انگڑائی لے، یہاں کہیں ایک لبرٹی ہی بنے، کہیں جناح سپر مارکیٹ تعمیر کی جائے، کہیں انارکلی کی رونقیں نظر نواز ہوں، کہیں ڈیفنس جیسی چکاچوند آنکھوں کو خیرہ کرے۔ کہیں چمنیوں سے دھواں اٹھتا دکھائی دے۔
مگر راجہ پرویز اشرف کے سامنے پوٹھوہار کا ایک مسئلہ نہیں، بیس کروڑ لوگ ان کی طرف دیکھ رہے ہیں، کوئی بھوک کا مارا ہے، کوئی بے روزگار ہے، کوئی بیماری سے تڑپ رہا ہے، کسی کو ان جوہڑوں کا پانی پینا پڑتا ہے جہاں مویشی نہا رہے ہوتے ہیں' کوئی بیوہ چولہا جلانے کو ترس رہی ہے، کسی یتیم کا آنگن اندھیروں میں ڈوبا ہوا ہے اور اصل پہاڑ جیسا مسئلہ جمہوری عمل کو بچانا ہے جسے چاروں طرف سے نہنگ لقمہ تر بنانے کے انتظار میں ہیں۔ دہشت گردی کی جنگ نے ہمارے جسد قومی سے خون نچوڑ لیا ہے، انتہا پسندی نے طوائف الملوکی کا چلن عام کر دیا ہے، اداروں کے ٹکرائو کا خدشہ ہے، پارلیمنٹ کی برتری قائم کرنا الگ درد سری ہے، امریکا سے تعلقات دائو پر لگے ہوئے ہیں۔ راجہ صاحب بڑی احتیاط سے کریز پر کھڑے ہیں، لگتا تو یہ ہے کہ وہ ٹھپ ٹھپ نہیں کھیلیں گے بلکہ اپنے قول کے مطابق ایک سو بیس میل کی رفتار سے کھیل کو آگے بڑھائیں گے، الیکشن کمیشن کے سربراہ کا متفقہ نام تلاش کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا مگر راجہ صاحب کی ابتدائی ہفتوں کی کارکردگی کا نتیجہ ہے کہ یہ کام خوش اسلوبی سے نمٹ گیا اور ن لیگ کے ساتھ فخرالدین ابراہیم جیسے زیرک انسان پر اتفاق ہو چکا ہے، فخرو بھائی اس چیلنج کو قبول کرنے کا اعلان کر چکے ہیں،
دوسری طرف پارلیمنٹ میں حکومتی کاروائی تیزی سے جاری ہے ، توہین عدالت کے نظرثانی بل کو منظور کر لیا گیا ہے اور دہری شہریت کا بل بھی سینیٹ میں پیش کر دیا گیا ہے۔ منگل کو انھوں نے کارکن ہونے کا ثبوت فراہم کیا اور سرکاری خبر رساں ایجنسی کے چار سو سے زاید ورک چارج اور کنٹریکٹ ملازمین کو مستقلی کے تقررنامے عطا کیے، یہی نہیں نئے سیکریٹری انفارمیشن چوہدری رشید احمد کی درخواست پر اس ادارے کے لیے فوری طور پر تین کروڑ کی گرانٹ بھی منظور کر لی۔ مجھے ذاتی طور پر راجہ صاحب کا یہ اقدام بہت اچھا لگا۔ انھوں نے اپنے پس ماندہ علاقے کے لوگوں کو وزیر اعظم ہائوس میں مدعو کیا، اس علاقے کے لوگ باسٹھ سال سے اسلام آباد کی بغل میں آباد ہیں مگر وہ وزیر اعظم ہائوس کا دور سے بھی مشاہدہ نہیں کر سکے ہوں گے۔ ایک زمانے میں میاں اظہر نے گورنر ہائوس لاہور کے دروازے بچوں پر کھول دیے تھے، اس طرح لاٹ صاحب کی رہائش گاہ کو نئی پود نے بھی آنکھوں سے دیکھ لیا۔
میں راجہ پرویز اشرف کو عارضی وزیر اعظم نہیں سمجھتا، وہ ایک مستقل وزیر اعظم ہیں، عارضی تو اپنے آپ کو چوہدری شجاعت بھی نہیں سمجھتے تھے حالانکہ وہ محض ڈنگ ٹپائو مقصد کے لیے وزیر اعظم بنے تھے۔ راجہ صاحب تو جس چیلنج کا سامنا کر رہے ہیں، اس کے پیش نظر وہ صدیوں تک ملکی اور قومی اور سیاسی تاریخ میں زندہ جاوید رہیں گے۔ اقوام عالم کی نظروں میں نیٹو سپلائی کی بحالی کے ایک فیصلے سے راجہ صاحب کا مقام و مرتبہ بلند ہو گیا ہے، امریکا سے سرد مہری میں کمی آ گئی ہے اور اس کا سہرا بھی راجہ صاحب کے سر سجتا ہے۔ بھارت کے ساتھ تعلقات معمول پر آ رہے ہیں اور جاپان میں افغان ڈونرز کانفرنس میں پاکستان کی شرکت سے ہم عالمی تنہائی سے باہر نکل آئے ہیں۔ راجہ صاحب دھیمے مزاج کے لگتے ہیں مگر ان کی اننگز تیز رفتاری سے جاری ہے۔ ایک عام اور اوسط طبقے سے تعلق رکھنے کے باوصف میری طرح ہر شخص ان کو اپنے دل کے قریب محسوس کرتا ہے۔
گیلانی کو ہٹانے کے لیے کس نے ایڑی چوٹی کا زور نہیں لگایا، ان کے مخالفین خواب دیکھتے تھے کہ ایک وزیر اعظم کو سزا ہو گئی اور اسے نااہل قرار دے کر گھر بھیج دیا گیا تو پھر کوئی قربانی کے خوف سے آگے نہیں آئے گا مگر ہوا ان کی خواہشات کے برعکس، مخالفین کے منہ کھلے کے کھلے رہ گئے جب ایک نہیں چار امیدوار میدان میں اترے، ایک امیدوار کے وارنٹ نکال دیے گئے' وہ ضمانتوں میں الجھ گئے، کورنگ امیدوار راجہ پرویز اشرف کے خلاف بھی مقدمات کی طویل فہرست گنوائی گئی مگر بظاہر یہ ہنس مکھ اور نرم مزاج شخص اندر سے فولاد ی عزم کا مالک نکلا۔ اس نے جس دھج سے وزارت عظمی کی کانٹوں بھری سیج پر قدم رکھے وہ شان ہمیشہ یادگار اور سلامت رہے گی۔ لوگوں کو یاد آیا کہ ن لیگ کی حکومت ٹوٹی، اس کے قائد کو جیلوں اور قلعوں میں ڈالا گیا تو دور دور تک ان کی جگہ سنبھالنے والا کوئی نظر نہ آتا تھا اور اگر اس اوکھلی میں جاوید ہاشمی نے سر دیا بھی تو اس کا تورا بورا بنا دیا گیا۔
راجہ پرویز اشرف کون ہے، وہ دراز قد اور صحت مند جسم اور چاق و چوبند ذہن کا مالک ہے۔ پوٹھوہار کی بنجر اور بے آب و گیاہ سرزمین نے کتنے ہی نابغہ روزگار پیدا کیے، بالکسر میں کرنل محمد خاں محو خواب ہیں، آس پاس ہی سید ضمیر جعفری کی خوشبو بکھری ہوئی ہے، یہیں کہیں وہ گائوں ہے جہاں بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ پلے بڑھے اور پرائمری تک پڑھتے رہے، یہ مردم خیز خطہ ہے، پاکستان کے دفاع کی فصیل ہے اور اس کے ہر گھر میں شہادت کے تمغے سجے ہوئے ہیں۔ یہ درست ہے کہ فوج پر یہ خطہ حاوی ہے لیکن ایوب خان، یحییٰ خان، ضیاء الحق، مشرف میں سے کوئی بھی پوٹھوہاری نہیں اس لیے اس خطے کے فوجی جرنیلوں کو آمریت مسلط کرنے کا طعنہ نہیں دیا جا سکتا بلکہ اسے نشان حیدر کا اعزاز پانے والوں کا کریڈٹ ملا۔
لاہور سے جاتے ہوئے دریائے جہلم پار کریں تو یکایک احساس ہوتا ہے کہ انسان کسی ویرانے میں آن نکلا ہے، حد نظر تک کچی مٹی کے اونچے نیچے تودے، بل کھاتے ہوئے ندی نالے اور پہاڑی چوٹیوں کی ڈھلوانوں میں کہیں کہیں زندگی کے آثار، یہاں کوئی کلمہ چوک نہیں، کوئی مال روڈ انڈر پاس نہیں، کہیں فورٹریس اسٹیڈیم نہیں، بس چھوٹی چھوٹی سڑکیں ہیں جو اچانک نظروں سے اوجھل ہو جاتی ہیں۔ کیا ان کے دوسرے سرے پر کسی زندگی کے آثار ہیں، یہ ہے وہ سوال جو ایک سو بیس کلومیٹر کی رفتار سے گاڑی چلاتے ہوئے ایک لمحے کے لیے ذہن میں ابھرتا ہے اور پھر کوئی خطرناک موڑ ڈرائیونگ پر ساری توجہ مرکوز کر دیتا ہے۔ کہا جاتا ہے جنوبی پنجاب پس ماندہ علاقہ ہے مگر یہاں زرخیز ترین زمینیں ہیں، لینڈ لارڈز ہیں، مخدوم زادہ احمد محمود، چوہدری منیر، جہانگیر ترین جیسے جیٹ ہوائی جہازوں کے مالک ہیں۔ متحدہ عرب امارات کے شہزادے یہاں شکار کھیلنے آتے ہیں۔
ان کے پُرشکوہ محلات ہیں اور ان کے فنڈز سے جدید ترین اسپتال قائم ہیں، پھر بھی یہ علاقہ پس ماندہ ہے تو پوٹھوہار کو کیا کہیں گے جہاں سواری اور باربرداری کے لیے گدھے اور بکریوں کے ریوڑوں کے سوا کچھ نظر نہیں آتا، اب اس خطے میں سے پہلی بار کسی شخص کو ملک کے چیف ایگزیکٹو کے منصب پر سرفراز ہونے کا اعزاز ملا ہے، خدا کرے اب ہی اس خطے کی تقدیر انگڑائی لے، یہاں کہیں ایک لبرٹی ہی بنے، کہیں جناح سپر مارکیٹ تعمیر کی جائے، کہیں انارکلی کی رونقیں نظر نواز ہوں، کہیں ڈیفنس جیسی چکاچوند آنکھوں کو خیرہ کرے۔ کہیں چمنیوں سے دھواں اٹھتا دکھائی دے۔
مگر راجہ پرویز اشرف کے سامنے پوٹھوہار کا ایک مسئلہ نہیں، بیس کروڑ لوگ ان کی طرف دیکھ رہے ہیں، کوئی بھوک کا مارا ہے، کوئی بے روزگار ہے، کوئی بیماری سے تڑپ رہا ہے، کسی کو ان جوہڑوں کا پانی پینا پڑتا ہے جہاں مویشی نہا رہے ہوتے ہیں' کوئی بیوہ چولہا جلانے کو ترس رہی ہے، کسی یتیم کا آنگن اندھیروں میں ڈوبا ہوا ہے اور اصل پہاڑ جیسا مسئلہ جمہوری عمل کو بچانا ہے جسے چاروں طرف سے نہنگ لقمہ تر بنانے کے انتظار میں ہیں۔ دہشت گردی کی جنگ نے ہمارے جسد قومی سے خون نچوڑ لیا ہے، انتہا پسندی نے طوائف الملوکی کا چلن عام کر دیا ہے، اداروں کے ٹکرائو کا خدشہ ہے، پارلیمنٹ کی برتری قائم کرنا الگ درد سری ہے، امریکا سے تعلقات دائو پر لگے ہوئے ہیں۔ راجہ صاحب بڑی احتیاط سے کریز پر کھڑے ہیں، لگتا تو یہ ہے کہ وہ ٹھپ ٹھپ نہیں کھیلیں گے بلکہ اپنے قول کے مطابق ایک سو بیس میل کی رفتار سے کھیل کو آگے بڑھائیں گے، الیکشن کمیشن کے سربراہ کا متفقہ نام تلاش کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا مگر راجہ صاحب کی ابتدائی ہفتوں کی کارکردگی کا نتیجہ ہے کہ یہ کام خوش اسلوبی سے نمٹ گیا اور ن لیگ کے ساتھ فخرالدین ابراہیم جیسے زیرک انسان پر اتفاق ہو چکا ہے، فخرو بھائی اس چیلنج کو قبول کرنے کا اعلان کر چکے ہیں،
دوسری طرف پارلیمنٹ میں حکومتی کاروائی تیزی سے جاری ہے ، توہین عدالت کے نظرثانی بل کو منظور کر لیا گیا ہے اور دہری شہریت کا بل بھی سینیٹ میں پیش کر دیا گیا ہے۔ منگل کو انھوں نے کارکن ہونے کا ثبوت فراہم کیا اور سرکاری خبر رساں ایجنسی کے چار سو سے زاید ورک چارج اور کنٹریکٹ ملازمین کو مستقلی کے تقررنامے عطا کیے، یہی نہیں نئے سیکریٹری انفارمیشن چوہدری رشید احمد کی درخواست پر اس ادارے کے لیے فوری طور پر تین کروڑ کی گرانٹ بھی منظور کر لی۔ مجھے ذاتی طور پر راجہ صاحب کا یہ اقدام بہت اچھا لگا۔ انھوں نے اپنے پس ماندہ علاقے کے لوگوں کو وزیر اعظم ہائوس میں مدعو کیا، اس علاقے کے لوگ باسٹھ سال سے اسلام آباد کی بغل میں آباد ہیں مگر وہ وزیر اعظم ہائوس کا دور سے بھی مشاہدہ نہیں کر سکے ہوں گے۔ ایک زمانے میں میاں اظہر نے گورنر ہائوس لاہور کے دروازے بچوں پر کھول دیے تھے، اس طرح لاٹ صاحب کی رہائش گاہ کو نئی پود نے بھی آنکھوں سے دیکھ لیا۔
میں راجہ پرویز اشرف کو عارضی وزیر اعظم نہیں سمجھتا، وہ ایک مستقل وزیر اعظم ہیں، عارضی تو اپنے آپ کو چوہدری شجاعت بھی نہیں سمجھتے تھے حالانکہ وہ محض ڈنگ ٹپائو مقصد کے لیے وزیر اعظم بنے تھے۔ راجہ صاحب تو جس چیلنج کا سامنا کر رہے ہیں، اس کے پیش نظر وہ صدیوں تک ملکی اور قومی اور سیاسی تاریخ میں زندہ جاوید رہیں گے۔ اقوام عالم کی نظروں میں نیٹو سپلائی کی بحالی کے ایک فیصلے سے راجہ صاحب کا مقام و مرتبہ بلند ہو گیا ہے، امریکا سے سرد مہری میں کمی آ گئی ہے اور اس کا سہرا بھی راجہ صاحب کے سر سجتا ہے۔ بھارت کے ساتھ تعلقات معمول پر آ رہے ہیں اور جاپان میں افغان ڈونرز کانفرنس میں پاکستان کی شرکت سے ہم عالمی تنہائی سے باہر نکل آئے ہیں۔ راجہ صاحب دھیمے مزاج کے لگتے ہیں مگر ان کی اننگز تیز رفتاری سے جاری ہے۔ ایک عام اور اوسط طبقے سے تعلق رکھنے کے باوصف میری طرح ہر شخص ان کو اپنے دل کے قریب محسوس کرتا ہے۔