پاکستان ایک نظر میں لاقانونیت کی انتہا

محکمہ صحت ملی بھگت کے بغیر پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں ایسے حکیم کا وجود کیا معنی رکھتا ہے؟

محکمہ صحت اور دوسرے متعلقہ اداروں کی ملی بھگت کے بغیر پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں ایسے حکیم کا وجود کیا معنی رکھتا ہے؟۔ فوٹو رائٹرز

کراچی کی دیواروں پر جا بجا کی گئی چا کنگ، پوسٹر ز اور دکانوں پر لگے ہوئے جعلی حکیموں اور سنیا سی با واؤں کے بورڈز محکمہ صحت اور پولیس کی بے حسی کا منہ بولتا ثبوت ہیں کہ کس طرح یہ جعلسازبغیر ڈگری شہر کے مصروف علاقوں میں اپنی دکا نیں سجا ئے انتظامیہ کی آنکھوں میں دھول جھونک کر سادہ لوح عوا م کو صحت کے نام پر بے دردی سے لوٹ رہے ہیں ۔

حکیموں اور سنیا سی باواؤں کے یہ ٹھکا نے علاج کے نام پر بلیک میلنگ کے گڑھ ہیں جہاں عورتوں کو بانجھ پن ،نسوانی حسن کی کمی اور مردوں کو جنسی کمزوری کا بھر پور احسا س دلا کر نفسیاتی حربوں کے ذریعے من چا ہی فیس لے کر انکا غیر تصدیق شدہ مضر صحت ادویات اور معجون وغیرہ سے علا ج کیا جا تا ہے ،یہ ادویات ناتجربہ کا ر حکماء اور سنیا سی خود تیا ر کرتے ہیں اور ان کی قیمت بھی الگ سے وصول کی جا تی ہے۔

علاج کو جان بوجھ کر طول دیا جا تا ہے جسکے دو فائدے ہوتے ہیں ،علا ج جتنا طویل ہوتا ہے پیسے بٹورنے کا عمل بھی اتنا طویل ہو جا تا ہے اور دوسرا فائدہ یہ کہ مریض علاج کی طو الت سے تنگ آکر حکیم کو مورد الزام ٹھہرانے کے بجا ئے علاج کروانا بند کردیتا ہے اور شر مندگی سے بچنے کیلئے کسی سے ا سکا ذکر تک کرنا پسند نہیں کرتا ، جس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ ایسے جرائم پیشہ عناصر پولیس کی گرفت میں آنے سے بچ جاتے ہیں۔اگر کوئی بھولا بسراپولیس تک رسائی حاصل بھی کر لے تو اس کی شنوائی نہیں ہوتی جس کی بڑی وجہ وہ پیشگی اجازت ہے جو جرم کرنے سے پہلے ایسے عناصر متعلقہ تھانوں سے حاصل کرلیتے ہیں پھر اس کے بعد انہیں کسی اور سرٹیفکیٹ کی چنداں ضرورت نہیں رہتی۔

خواتین اور بڑی عمر کے افراد فطری طور پر ایسے حکیموں کے چنگل میں جلد پھنس جا تے ہیں۔خواتین کو جنسی طو ر پر ہراساں کرنے کے کیسزآئے دن سامنے آتے رہتے ہیں ۔ایک خا تون نے نام ظا ہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ وہ با نجھ پن کے علاج کے لئے ایک عامل کے پاس گئیں، پہلے پہل تو عامل نے ان سے علاج کی غرض سے اچھی خا ص رقم بٹوری ، یہاں تک کے خاتون نے اپنے زیور تک حکیم کو دے دئیے اورجب علاج کا رگر نہ ہوا تو عامل نے ان سے جنسی تعلقات استوار کرنے کی کو شش کی جب اس میں بھی کامیابی نہ ہوئی تو وہ انہیں بلیک میل کرنے لگا۔


ایک صاحب مردانہ طا قت کے علاج کے لئے ایک سنیاسی باوا کے پاس گئے اورمضر صحت ادویات کی وجہ سے اتنے بیما رہوئے کہ بستر سے جا لگے۔کراچی کی ایک مشہور شاہراہ پر ایک حکیم کے بورڈپر لکھا ہوا ہے کہ"ہر طرح کے کینسر ،ہیپا ٹا ئٹس اور دما غی امراض کا علاج ایک ہفتے میں کیا جا تا ہے "حالانکہ اس قسم کا دعویٰ کوئی کوالیفا ئڈ ڈاکٹر بھی نہیں کرسکتا۔

کراچی کے علا قوں،تین ہٹی ،لسبیلہ ،شیر شاہ،محمود آباد،بلدیہ ، اورنگی ،قصبہ، صدر ٹاون، ملیر، قا ئدآباد ، داؤد چورنگی اور بھینس کالونی میں ایسے ہی جعلی حکیموں اور سنیا سی باوؤں کے ٹھکانے پھیلے ہوئے ہیں جہاں کینسر،ہیپا ٹائٹس،بواسیر شوگر ،گردے اور مثانے کی پتھری،بلڈپریشر اور خواتین و حضرات کے پوشیدہ جنسی امراض کا علاج ہوتا ہے ۔حیرت کی با ت یہ ہے کہ کراچی کے 90% حکماء نہ صرف جعلی سندوں پر کام کرتے ہیں بلکہ وہ ابتدائی تعلیم سے بھی بے بہرہ ہیں اس کے سا تھ سا تھ ان کا پس منظر بھی قابل بھروسہ نہیں ان میں سے زیادہ ترکا تعلق جرائم پیشہ گروہوں سے ہوتا ہے۔انتظامیہ تو ان سے شاذونادرہی الجھتی ہے اگر ان کے ہاتھوں لٹنے والاان سے جھگڑا کر بیٹھے تو آناًفاناً ان کے حمایتی نکل آتے ہیں اور اس موقع پر لینے کے دینے بھی پڑجاتے ہیں ۔

جبکہ کراچی کے مضا فاتی علاقوں میں پھیلے ان حکماء کا زیا دہ تر تعلق پنجا ب کے شہروں گجرات،سیالکوٹ،ملتان ، لاہور،اورگجرانوالہ سے ہے۔ان کی دکا نوں پر فریم میں سجی سندیں بھی پنجا ب کے نام نہا د حکمت کے اداروں کی جا ری کردہ ہوتی ہیں۔جن کاوہاں کوئی وجودیا ریکا رڈ ہی نہیں ہوتا اور بعض اصلی سندوں پر نام تبدیل کرکے بھی کا م کررہے ہیں ۔فیس کا بھی کوئی خاص تعین نہیں، آ سامی دیکھ کر مو قع محل کے مطا بق فیس طے کر لی جا تی ہے اور بسا اوقات مرض کو خطرناک بتا کر مزید پیسے ہتھیانے کا سلسلہ بھی چلتا رہتا ہے۔کچھ حکماء روحانی علاج بھی کر تے ہیں اور جادوی ٹوٹکوں کی مددسے آنے والوں کو ذہنی مریض ظا ہر کرکے اپنے مذموم مقا صد حا صل کر تے ہیں۔

کرا چی میں ایسے جعلسازوں کی ایک بہت بڑی کھیپ مو جود ہے جو وقت اور حا لا ت کے مطا بق کبھی حکیم ،کبھی سنیا سی ،کبھی عا مل ،کبھی روحانی استخارہ کرنے والے تو کبھی ماہر ڈینٹسٹ بن جا تے ہیں ۔اور ان سب کا اولین مقصد عوام کو لو ٹنا اور اپنی جیبوں کو گرم کرنا ہے ان جعلسازوں کے جرم میں انتظا میہ برابرکی شریک ہے ورنہ محکمہ صحت اور دوسرے متعلقہ اداروں کی ملی بھگت کے بغیر پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں ایسے حکیم کا وجود کیا معنی رکھتا ہے؟

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔
Load Next Story