بچے … بال بال
ہمیں نہایت ہی افسوس ہے اور ان تمام سرکاری اہل کاروں، سوداگروں اور دکان داروں سے معذرت خواہ ہیں
KARACHI:
غلط ہی سہی لیکن خیال تو خیال ہوتا ہے جو بن بلائے اور بغیر کسی سخت یا نرم نوٹس کے آجاتا ہے۔ ہم نے بھی عید سے ایک دو دن پہلے جب اخبار اٹھایا اور پہلی نظر اس عنوان پر پڑی ''روزہ دار بچے'' ۔۔۔ اور اس کے نیچے چند چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں کی تصاویر دیکھیں تو دل دھک سے ہوگیا، وہی ہو گیا جس کا ڈر تھا۔ حکومت، دکان داروں اور روزہ داروں کے ہاتھوں سے صرف یہ دو تین بچے ہی زندہ بچے ہیں اور باقی سب کے سب ۔۔۔۔ آہ کلیجہ منہ کو آنے لگا۔ نہ جانے کتنے دوست عزیز یاد آنے لگے جو اب سارے کے سارے ''خدا بخشے'' ہو چکے تھے۔
پھر ایک روز ''خود غرضانہ'' اور تسلی بخش سا خیال یہ آیا کہ اخبار والوں کو پتہ نہیں کہ ان تین معصوم بچوں کے علاوہ جو ''بچے'' ہیں، ایک اور بوڑھا بچہ بھی بچا ہوا ہے جو یہ خبر پڑھ رہا ہے اوراب ایک تعزیتی کالم کے بارے میں سوچ رہا ہے کیونکہ ان تین بچوں کے علاوہ ہم بھی تو بچے ہوئے تھے یا کم از کم اب تک بچے ہوئے ہیں، لیکن فی الحال تو اخبار والوں کو اس ''بریکنگ نیوز'' کا پتہ نہیں چلا ہے کہ ان تین بچوں کے علاوہ دور دراز کے ایک گاؤں میں سخت جاں بڈھا بھی بچا ہوا ہے، لیکن بعد میں جب اس خبر کی تفصیل پڑھی اور دوسرے صفحات پر بھانت بھانت کی خبریں اور بیانات دیکھے تو جان میں جان آئی، بات وہ نہ تھی جو ہم سمجھ رہے تھے۔
دراصل ہمیں اس افیونی جیسی غلطی لگی تھی جس نے ایک شخص کو دریا کنارے نہاتے ہوئے دیکھا تھا۔ اس افیونی نے دور سے دیکھا کہ ایک شخص دریا کے کنارے اپنا لباس اتار رہا ہے، وہ بے چارا نہانا چاہتا تھا اور افیونی نے خود پر قیاس کر کے پانی میں اترنا خودکشی سمجھا، کیونکہ افیونی لوگ پانی سے اتنا ہی ڈرتے ہیں جتنا کوئی بجلی کے ننگے تاروں یا سانپ بچھو سے ڈر سکتا ہے چنانچہ دوڑ کر اس ''خودکشی کرتے ہوئے'' شخص کو پکڑ کر بچا لیا۔
دراصل اس مرتبہ روزوں اور عید کے ایام سے دو چارمہینے پہلے ہی ہم نے جب حکومت، دکان داروں اور سوداگروں کے ''تیور'' دیکھے کہ کس تیزی سے ''روزہ داروں'' کو مارنے کے لیے ''اسلحہ و بارود'' جمع کر رہے تھے اور تو اور ہم نے اپنے پڑوسی کو بھی دیکھا کہ روزوں سے تین مہینے پہلے ہی اس نے نہ صرف داڑھی بڑھانا شروع کی بلکہ خضاب کا اضافہ بھی کر دیا تھا۔ اس کے علاوہ بازار میں دکان داروں، سوداگروں اور دوسرے صالح لوگوں کو بھی دیکھا تھا جو اپنی اپنی ''تیغ'' کو مختلف طریقوں سے ''آب'' دے رہے تھے۔
ان ساری تیاریوں کو جو اس مرتبہ باقاعدہ جنگی بنیادوں پر ہو رہی تھیں، ہم نے قیاس کر لیا تھا کہ اب کے کسی روزہ دار کے بچنے کے چانسز نہ ہونے کے برابر ہیں کیونکہ ''خوبی قسمت'' سے اس مرتبہ ایک اور محاذ بھی کھل گیا تھا ، آئی ڈی پیز کے لیے چندہ وصولنے، اور کسی نہ کسی طرح ''امداد'' کی تقسیم میں گھسنے کا رجحان بھی خاصا تیز تھا۔ مختلف قسم کے سرکاری و غیر سرکاری ماہرین کو ہم دیکھ رہے تھے کہ مختلف مقامات پر مورچہ زن ہو رہے تھے چونکہ اس مرتبہ ''گنگا'' کچھ زیادہ زوروں پر بہہ رہی تھی، اس لیے ہم نے ''عوامی منتخب نمایندوں'' کو بھی دیکھا کہ گھروں سے مختلف برتن بھانڈے اٹھا کر دریا کنارے جمع کر رہے تھے۔
ایک منتخب نمایندے نے تو اپنے سال خوردہ باپ کو بھی اٹھا کر گھسا دیا جو کام کے تو نہیں تھے لیکن تنخواہ والے دن کسی نہ طرح حاضری دینے لائق تھے۔ ایک محترمہ منتخب نمایندہ (پتہ نہیں نمایندے کی مونث کیا ہوتی ہے شاید نمایندن) کے بارے میں تو پتہ چلا کہ گھر میں کوئی برتن بھانڈہ نہ ہونے کے کارن باقاعدہ پائپ لگا کر اپنے آنگن تک لائی، اس پر ہمیں ایک پرانا لطیفہ یاد آیا کچھ لوگوں نے پکنک منانے کا پروگرام بنایا اور طے کیا کہ ہر کوئی اپنے گھر سے ''کھانے کے لیے'' کچھ نہ کچھ ضرور لائے گا۔
ایک شخص کوئی کھانے کی چیز تو نہیں لایا لیکن اپنے چھوٹے بھائی کو ساتھ لے کر آگیا، ساتھیوں نے کہا ہم نے تو کہا تھا کہ ہر کوئی کچھ نہ کچھ لے کر آئے گا، تو وہ شخص بولا ، ہاں لایا ہوں نا میں اپنے بھائی کو۔ دوسروں نے کہا، نہیں کھانے کے لیے؟ اس پر اس نے برجستہ جواب دیتے ہوئے کہا ۔۔۔ ہاں تو کھانے ''کے لیے'' تو لایا ہوں، ذرا کھانا اس کے سامنے رکھ دیجیے پھر دیکھیے انداز گل افشانی و گفتار۔۔
ہمیں نہایت ہی افسوس ہے اور ان تمام سرکاری اہل کاروں، سوداگروں اور دکان داروں سے معذرت خواہ ہیں جن پر ہم نے ''پیڑے پیڑے شک'' کیے، ہو سکتا ہے اس میں کچھ عمر کا تقاضا بھی شامل ہو لیکن معاف کیجیے گا آپ لوگ بھی اچھی کارکردگی دکھا نہیں پائے کیونکہ بجٹ پھراس کے بعد چھوٹے والے بجٹ اور پھر اس کے بعد ایک لاکھ ایک ہزار ایک سو ایک چھوٹے والے بجٹوں ۔۔۔ اور آپ کے ارادوں اور تیاریوں سے ہم نے یہ قیاس کر لیا تھا کہ اس مرتبہ کسی روزہ دار کے بچنے کا دور دور تک امکان نہیں ہے لیکن ایسا نہیں ہوا، ہم یہ تو نہیں کہیں گے کہ آپ نے کوئی کمی کی، آپ نے تو خوب خوب کوشش کی لیکن خدا کو شاید یہی منظور تھا کہ روزہ دار ایک سال اور جیئں ۔
شکست و فتح نصیبوں سے ہے ولے اے میر
مقابلہ تو دل ناتواں نے خوب کیا
بلکہ ہمیں تو اس میں کچھ ''شائبہ خوبی تقدیر'' بھی نظر آرہا ہے کیونکہ جس قسم کے ''انتظامات'' اس مرتبہ کیے گئے تھے اور جو عزائم نظر آرہے تھے اور جو خطرناک ہتھیار جمع کیے گئے اس کے پیش نظر تو یہی ہونا چاہیے تھا جو ہمیں غلط فہمی ہوئی یعنی دو چار ہی روزہ دار کو بچ جانا چاہیے تھا باقی سب نے جنت میں ''آرائیول'' دینا تھا مگر
تھی خبر گرم کہ غالب کے اڑایں گے پرزے
دیکھنے ہم بھی گئے تھے پہ تماشا نہ ہوا
ان تمام باتوں کا نچوڑ جو ہمارے ذہن میں آرہا ہے وہ یہ ہے کہ یہ روزہ دار جو بچے، جتنے بچے جیسے بھی بچے ہیںکچھ زیادہ ہی سخت جان ہو چکے ہیں ورنہ اب کے ۔۔۔ تو ''انتظامات'' ہر لحاظ سے مکمل تھے، عید بھی شامل تھی، ایک طرف مہنگائی کے ایٹم بم، دوسری طرف لوڈ شیڈنگ کی بمباری تیسری طرف سے حکومت کی ساری بڑی توپیں اور چوتھی طرف سے دکان داروں اور سوداگروں کی یلغار ۔۔۔ ایسے تو اگر کوئی نو جانوں والی بلی ہوتی تو اس کا مرنا بھی طے تھا لیکن یہ سخت جان روزہ دار بچے رمضان بھی گزار گئے اور عید بھی منانے میں کامیاب رہے ۔۔۔۔ خیر جائیں گے کہاں، اگلے سال اس سے بھی زیادہ گرمی ہو گی، اس سے بھی زیادہ لمبے دن ہو ںگے اور اس سے بھی زیادہ بہتر انتظامات اور شاید پھر ایسی خبر بھی پڑھنے کو نہ ملے کہ روزہ دار بچے ۔۔۔
غلط ہی سہی لیکن خیال تو خیال ہوتا ہے جو بن بلائے اور بغیر کسی سخت یا نرم نوٹس کے آجاتا ہے۔ ہم نے بھی عید سے ایک دو دن پہلے جب اخبار اٹھایا اور پہلی نظر اس عنوان پر پڑی ''روزہ دار بچے'' ۔۔۔ اور اس کے نیچے چند چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں کی تصاویر دیکھیں تو دل دھک سے ہوگیا، وہی ہو گیا جس کا ڈر تھا۔ حکومت، دکان داروں اور روزہ داروں کے ہاتھوں سے صرف یہ دو تین بچے ہی زندہ بچے ہیں اور باقی سب کے سب ۔۔۔۔ آہ کلیجہ منہ کو آنے لگا۔ نہ جانے کتنے دوست عزیز یاد آنے لگے جو اب سارے کے سارے ''خدا بخشے'' ہو چکے تھے۔
پھر ایک روز ''خود غرضانہ'' اور تسلی بخش سا خیال یہ آیا کہ اخبار والوں کو پتہ نہیں کہ ان تین معصوم بچوں کے علاوہ جو ''بچے'' ہیں، ایک اور بوڑھا بچہ بھی بچا ہوا ہے جو یہ خبر پڑھ رہا ہے اوراب ایک تعزیتی کالم کے بارے میں سوچ رہا ہے کیونکہ ان تین بچوں کے علاوہ ہم بھی تو بچے ہوئے تھے یا کم از کم اب تک بچے ہوئے ہیں، لیکن فی الحال تو اخبار والوں کو اس ''بریکنگ نیوز'' کا پتہ نہیں چلا ہے کہ ان تین بچوں کے علاوہ دور دراز کے ایک گاؤں میں سخت جاں بڈھا بھی بچا ہوا ہے، لیکن بعد میں جب اس خبر کی تفصیل پڑھی اور دوسرے صفحات پر بھانت بھانت کی خبریں اور بیانات دیکھے تو جان میں جان آئی، بات وہ نہ تھی جو ہم سمجھ رہے تھے۔
دراصل ہمیں اس افیونی جیسی غلطی لگی تھی جس نے ایک شخص کو دریا کنارے نہاتے ہوئے دیکھا تھا۔ اس افیونی نے دور سے دیکھا کہ ایک شخص دریا کے کنارے اپنا لباس اتار رہا ہے، وہ بے چارا نہانا چاہتا تھا اور افیونی نے خود پر قیاس کر کے پانی میں اترنا خودکشی سمجھا، کیونکہ افیونی لوگ پانی سے اتنا ہی ڈرتے ہیں جتنا کوئی بجلی کے ننگے تاروں یا سانپ بچھو سے ڈر سکتا ہے چنانچہ دوڑ کر اس ''خودکشی کرتے ہوئے'' شخص کو پکڑ کر بچا لیا۔
دراصل اس مرتبہ روزوں اور عید کے ایام سے دو چارمہینے پہلے ہی ہم نے جب حکومت، دکان داروں اور سوداگروں کے ''تیور'' دیکھے کہ کس تیزی سے ''روزہ داروں'' کو مارنے کے لیے ''اسلحہ و بارود'' جمع کر رہے تھے اور تو اور ہم نے اپنے پڑوسی کو بھی دیکھا کہ روزوں سے تین مہینے پہلے ہی اس نے نہ صرف داڑھی بڑھانا شروع کی بلکہ خضاب کا اضافہ بھی کر دیا تھا۔ اس کے علاوہ بازار میں دکان داروں، سوداگروں اور دوسرے صالح لوگوں کو بھی دیکھا تھا جو اپنی اپنی ''تیغ'' کو مختلف طریقوں سے ''آب'' دے رہے تھے۔
ان ساری تیاریوں کو جو اس مرتبہ باقاعدہ جنگی بنیادوں پر ہو رہی تھیں، ہم نے قیاس کر لیا تھا کہ اب کے کسی روزہ دار کے بچنے کے چانسز نہ ہونے کے برابر ہیں کیونکہ ''خوبی قسمت'' سے اس مرتبہ ایک اور محاذ بھی کھل گیا تھا ، آئی ڈی پیز کے لیے چندہ وصولنے، اور کسی نہ کسی طرح ''امداد'' کی تقسیم میں گھسنے کا رجحان بھی خاصا تیز تھا۔ مختلف قسم کے سرکاری و غیر سرکاری ماہرین کو ہم دیکھ رہے تھے کہ مختلف مقامات پر مورچہ زن ہو رہے تھے چونکہ اس مرتبہ ''گنگا'' کچھ زیادہ زوروں پر بہہ رہی تھی، اس لیے ہم نے ''عوامی منتخب نمایندوں'' کو بھی دیکھا کہ گھروں سے مختلف برتن بھانڈے اٹھا کر دریا کنارے جمع کر رہے تھے۔
ایک منتخب نمایندے نے تو اپنے سال خوردہ باپ کو بھی اٹھا کر گھسا دیا جو کام کے تو نہیں تھے لیکن تنخواہ والے دن کسی نہ طرح حاضری دینے لائق تھے۔ ایک محترمہ منتخب نمایندہ (پتہ نہیں نمایندے کی مونث کیا ہوتی ہے شاید نمایندن) کے بارے میں تو پتہ چلا کہ گھر میں کوئی برتن بھانڈہ نہ ہونے کے کارن باقاعدہ پائپ لگا کر اپنے آنگن تک لائی، اس پر ہمیں ایک پرانا لطیفہ یاد آیا کچھ لوگوں نے پکنک منانے کا پروگرام بنایا اور طے کیا کہ ہر کوئی اپنے گھر سے ''کھانے کے لیے'' کچھ نہ کچھ ضرور لائے گا۔
ایک شخص کوئی کھانے کی چیز تو نہیں لایا لیکن اپنے چھوٹے بھائی کو ساتھ لے کر آگیا، ساتھیوں نے کہا ہم نے تو کہا تھا کہ ہر کوئی کچھ نہ کچھ لے کر آئے گا، تو وہ شخص بولا ، ہاں لایا ہوں نا میں اپنے بھائی کو۔ دوسروں نے کہا، نہیں کھانے کے لیے؟ اس پر اس نے برجستہ جواب دیتے ہوئے کہا ۔۔۔ ہاں تو کھانے ''کے لیے'' تو لایا ہوں، ذرا کھانا اس کے سامنے رکھ دیجیے پھر دیکھیے انداز گل افشانی و گفتار۔۔
ہمیں نہایت ہی افسوس ہے اور ان تمام سرکاری اہل کاروں، سوداگروں اور دکان داروں سے معذرت خواہ ہیں جن پر ہم نے ''پیڑے پیڑے شک'' کیے، ہو سکتا ہے اس میں کچھ عمر کا تقاضا بھی شامل ہو لیکن معاف کیجیے گا آپ لوگ بھی اچھی کارکردگی دکھا نہیں پائے کیونکہ بجٹ پھراس کے بعد چھوٹے والے بجٹ اور پھر اس کے بعد ایک لاکھ ایک ہزار ایک سو ایک چھوٹے والے بجٹوں ۔۔۔ اور آپ کے ارادوں اور تیاریوں سے ہم نے یہ قیاس کر لیا تھا کہ اس مرتبہ کسی روزہ دار کے بچنے کا دور دور تک امکان نہیں ہے لیکن ایسا نہیں ہوا، ہم یہ تو نہیں کہیں گے کہ آپ نے کوئی کمی کی، آپ نے تو خوب خوب کوشش کی لیکن خدا کو شاید یہی منظور تھا کہ روزہ دار ایک سال اور جیئں ۔
شکست و فتح نصیبوں سے ہے ولے اے میر
مقابلہ تو دل ناتواں نے خوب کیا
بلکہ ہمیں تو اس میں کچھ ''شائبہ خوبی تقدیر'' بھی نظر آرہا ہے کیونکہ جس قسم کے ''انتظامات'' اس مرتبہ کیے گئے تھے اور جو عزائم نظر آرہے تھے اور جو خطرناک ہتھیار جمع کیے گئے اس کے پیش نظر تو یہی ہونا چاہیے تھا جو ہمیں غلط فہمی ہوئی یعنی دو چار ہی روزہ دار کو بچ جانا چاہیے تھا باقی سب نے جنت میں ''آرائیول'' دینا تھا مگر
تھی خبر گرم کہ غالب کے اڑایں گے پرزے
دیکھنے ہم بھی گئے تھے پہ تماشا نہ ہوا
ان تمام باتوں کا نچوڑ جو ہمارے ذہن میں آرہا ہے وہ یہ ہے کہ یہ روزہ دار جو بچے، جتنے بچے جیسے بھی بچے ہیںکچھ زیادہ ہی سخت جان ہو چکے ہیں ورنہ اب کے ۔۔۔ تو ''انتظامات'' ہر لحاظ سے مکمل تھے، عید بھی شامل تھی، ایک طرف مہنگائی کے ایٹم بم، دوسری طرف لوڈ شیڈنگ کی بمباری تیسری طرف سے حکومت کی ساری بڑی توپیں اور چوتھی طرف سے دکان داروں اور سوداگروں کی یلغار ۔۔۔ ایسے تو اگر کوئی نو جانوں والی بلی ہوتی تو اس کا مرنا بھی طے تھا لیکن یہ سخت جان روزہ دار بچے رمضان بھی گزار گئے اور عید بھی منانے میں کامیاب رہے ۔۔۔۔ خیر جائیں گے کہاں، اگلے سال اس سے بھی زیادہ گرمی ہو گی، اس سے بھی زیادہ لمبے دن ہو ںگے اور اس سے بھی زیادہ بہتر انتظامات اور شاید پھر ایسی خبر بھی پڑھنے کو نہ ملے کہ روزہ دار بچے ۔۔۔