اس میں حیرت کی کیا بات ہے

اسرائیل ہے جس کو مظلوم بننے کے لیے ہمیشہ ایک کمزور دشمن چاہیے۔

اگر اسرائیل 47 سال سے اپنے عرب پڑوسی ملکوں کے سرحدی علاقوں پر قبضہ جمائے بیٹھا ہے۔ عرب دنیا کو تگنی کا ناچ نچا رہا ہے۔ عالم اسلام کو آنکھیں دکھا رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے پرزے اڑا رہا ہے۔ اپنے دشمنوں کو کچلنے کے لیے امریکی فوج اور ہتھیار استعمال کر رہا ہے۔

حیرت تو اس بات پر ہے کہ اسرائیلی قوم اپنے پیغمبر حضرت موسیٰ کے قابو میں بھی نہیں تھی۔ حضرت موسیٰ کا سارا دور نبوت اپنی امت پر پے در پے نازل ہونے والے عذابوں کو ٹالنے کے لیے اللہ سے گڑگڑا گڑگڑا کر التجائیں کرنے میں صرف ہوا۔ بار بار اللہ کی نافرمانی، بار بار اپنے نبی سے وعدہ خلافی، بار بار عذاب الٰہی۔ یہ ہے بنی اسرائیل کی رام کہانی۔

عذاب الٰہی میں مبتلا بنی اسرائیل نے چالیس سال صحرائے سینائے میں بھٹکنے کے بعد بھی صراط مستقیم اختیار نہیں کیا۔ اللہ نے اس قوم پر من و سلویٰ اتارا لیکن یہ نافرمانی سے پھر بھی باز نہیں آئے۔ آخر کار راندہ درگاہ ٹھہرے۔ برس ہا برس دربدر کی ٹھوکریں کھاتے رہے۔ حضرت عمرؓ کے دور میں جب فلسطین فتح ہوا تو حضرت عمرؓ نے نہ صرف ان کو فلسطین میں داخل ہونے کی اجازت بلکہ بسایا بھی۔ جب کہ یورپ کے عیسائی حکمرانوں فرڈی نینڈ اور ازابیلا نے جب اسپین فتح کیا تو حسب معمول یہودیوں کا قتل عام کیا۔ ہٹلر نے ان کے قتل عام کے بعد کہا تھا کہ اس نے چند اسرائیلی نمونتاً زندہ چھوڑ دیے ہیں۔ چنانچہ آج یہ وہی ''نمونے'' ہیں جو غزہ پر بمباری کر رہے ہیں جب کہ دنیا ان کو انسانی حقوق کا درس دیتی ہے صرف اس لیے کہ یہ ہو بہو انسانوں جیسے لگتے ہیں۔

ہے نا حیرت کی بات! امریکا اور اسرائیل کا قارورہ اس لیے ملتا ہے کہ ایک طرف اسرائیل ہے جس کو مظلوم بننے کے لیے ہمیشہ ایک کمزور دشمن چاہیے۔ جب کہ دوسری طرف امریکا ہے جو دوستیاں اتنی تیزی سے بدلتا ہے کہ کوئی ماں اتنی تیزی سے اپنے شیرخوار کے ڈائپر نہیں بدلتی۔

ایکسپریس 25 جولائی کے کالم میں اوریا مقبول جان نے ایک اہم مسئلے کا تذکرہ کیا ہے۔ یہودی عقیدے کے مطابق تاریخ میں جب بھی چار خونی چاند گہن ترتیب سے رونما ہوئے ہیں تو بنی اسرائیل کے لیے ایک ایسی آفت کا آغاز ہوتا ہے جس میں آخری فتح بنی اسرائیل کی ہی ہوتی ہے اور یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔ کیونکہ اس وقت 15 اپریل 2014 اور 18 ستمبر 2015کے درمیان مسلسل چار خونی چاند گہن دکھائی دینے والے ہیں اس لیے یہودی عقیدے کے مطابق اب یہودیوں کی عالمی حکومت کے قیام کے دن آ گئے ہیں۔ اور اوریا مقبول جان کے مطابق اسرائیل نے اس جنگ کا آغاز کر دیا ہے۔

یہاں ایک انکشاف اور بھی کروں گا وہ یہ کہ جنم جنم کے جانی دشمن عیسائی اور یہودی ایک دوسرے کے آج جو جگری دوست بنے ہوئے ہیں اس کی وجہ بھی یہی عقیدہ ہے عیسائی دنیا بھی اس عقیدے کی قائل ہے کہ جب یہودیوں کی عالمی حکومت قائم ہو گی تو حضرت عیسیٰ کا نزول و اجلال ہو گا۔

اس وقت کی جاری حقیقت یہ ہے کہ فلسطین عربوں کی اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کے لیے جو دنیا کے چپے چپے سے یہودیوں کو لا کر فلسطین کے مقبوضہ علاقوں میں (ان کی بستیاں مسمار کر کے ان کو زبردستی علاقہ بدر کر کے) بسایا گیا تھا وہ حماس کے راکٹوں کی زد میں ہیں۔ جب راکٹ چلتے ہیں تو یہ یہودی غیر ملکی آبادکاروں میں خوف و ہراس پھیل جاتا ہے اور حکومت اسرائیل پر لرزہ طاری ہو جاتا ہے کہ کہیں یہ آوارہ وطن پنچھی پھر سے اپنے پرانے گھونسلوں کی طرف پرواز نہ کر جائیں۔ اگر ایسا ہوا تو بچی کچھی یہودی آبادی تو ویسے ہی ڈھیر ہو جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت اسرائیل (عالمی حکومت کی دعویدار) بدحواسی میں راکٹ کے جواب میں F-16 استعمال کرتی ہے یعنی تیتر کا شکار توپ سے کرتی ہے۔

صدیوں بنی اسرائیل کے قدم دھرتی پر اکھڑے اکھڑے ہی رہے۔ آج بھی اسرائیل کے قدم دھرتی پر ٹکے ہوئے نہیں ہیں۔ ایسی قوموں کو زندہ رہنے کے لیے آسمانی دلاسوں، ہوائی امیدوں اور فضائی خوشخبریوں کی ضرورت پڑتی ہے۔


اس وقت مٹھی بھر آبادی والی ہاتھ بھرکی حکومت اسرائیل کو پھونک پھونک کر قدم رکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ

(1)۔ساری دنیا کے یہودی اسرائیل میں آباد ہیں یعنی ایک ہی جہاز میں سوار ہیں۔

(2)۔امریکی فوج اسرائیل کے کام کی نہیں رہی کیونکہ امریکی عوام اسرائیل سے نفرت کرتے ہیں۔

(3)۔دولت کسی مسئلے کا حل نہیں ہے بلکہ خود ایک مسئلہ ہے۔

(4)۔اسرائیل ''عالمی حکومت'' کے قیام کا معاملہ اللہ پر چھوڑ دے تو بہتر ہے۔ دنیا سرتسلیم خم کر دے گی۔ اگر اسرائیل نے یہ کام اپنے ذمے لیا تو پھر یہودی بطور ''نمونہ'' بھی دستیاب نہیں ہوں گے۔

انسانوں کی بستی میں انسانوں کی طرح زندگی گزارنے کی صرف ایک ہی شرط ہے۔ اپنے پڑوسی ملکوں سے خوشگوار تعلقات۔ اس کے بعد چین ہی چین، سکون ہی سکون۔ ورنہ آج نہیں تو کل پھر وہی تاریخی در بدر کی ٹھوکریں۔ آج یہاں تو کل وہاں۔ پرسوں کا پتہ نہیں۔

سنتے تھے کہ اگر عرب دنیا اسرائیل کی طرف رخ کر کے تھوک بھی دے تو اسرائیل تھوک میں غرق ہو جائے گا۔ آج دیکھتے ہیں کہ عرب دنیا کا اسرائیل کا نام سن کر ہی حلق خشک ہو جاتا ہے۔ باقی اقوام عالم ہیں جن کی اپنی اپنی تھیوریاں ہیں، اپنی اپنی مصلحتیں ہیں اور اپنی اپنی مجبوریاں۔ دکھاوے کی بھاگ دوڑ ہے، دکھاوے کی ٹامک ٹوئیاں ہیں اور دکھاوے کی امریکی کچن کیبنٹ یعنی اقوام متحدہ کی ''ریشمی تڑیاں''۔ دنیا کو دکھانے کا ڈراما یہ ہے کہ ''میں مارے جیسا کرتوں' تو روئے جیسا کر''۔ لیکن درپردہ حقیقت یہ ہے کہ ''میں ہوں ناں! ''

اس میں حیرت کی کیا بات ہے؟
Load Next Story