کالم نگار کے لیے ہدایت کی دعا کے ساتھ
موصوف نے تحریر کیا ہے کہ کالم میں انھوں نے بینکاری سود کے بارے میں جامعہ الازہر کے فتوے کا ذکر کیا تھا ۔۔۔
QUETTA:
پاک ہے میرا اللہ جو دلوں میں چھپی سچائیوں اور جھوٹ کو جانتا ہے، اور سچا ہے اس کا کلام جو سود کی حمایت کرنے والوں کی ذہنی حالت کو بیان کرتے ہوئے بتاتا ہے کہ انھیں شیطان نے چھو کر بائولا کر دیا ہے (البقرہ)۔ اس سچے کلام پر ایمان لانے کے بعد مجھے قطعاً حیرت نہ ہوئی جب سود کے موضوع پر ''زیورچ'' شہر پر لکھے گئے ایک کالم نگار کے کالم پر میں نے خالصتاً علمی بنیاد پر بحث کی، تو جواب میں میری ذات پر کیچڑ اچھالا گیا۔ میں اپنی ذات کے حوالے سے کوئی جواب نہیں دونگا کہ میرے سامنے سیّدنا علیؓ کا وہ اسوہ ہے کہ ایک معرکے میں آپ ایک کافر کو زیر کر کے اس کی چھاتی پر چڑھ گئے۔
قریب تھا کہ اس کی گردن اڑا دیتے، مگر اس نے ان کے چہرے پر تھوک دیا۔ آپ فوراً نیچے اتر آئے۔ کافر نے پوچھا کہ آپ نے مجھے قتل کیوں نہ کیا، تو جواب دیا کہ اگر اب میں تمہیں قتل کرتا تو اس میں میرا ذاتی انتقام بھی شامل ہو جاتا اور میں اس لڑائی کو اللہ کے لیے خاص رکھنا چاہتا ہوں۔ میں بھی اللہ اور اُس کے رسول کی طرف سے اعلان کردہ سود کے خلاف جنگ میں ذاتی انتقام کو شامل نہیں کرنا چاہتا۔ البتہ اس کالم میں اٹھائے گئے چند علمی طور پر بحث طلب نکات کا جواب دینا چاہتا ہوں تا کہ خلقِ خدا گمراہی سے بچ سکے۔
موصوف نے تحریر کیا ہے کہ کالم میں انھوں نے بینکاری سود کے بارے میں جامعہ الازہر کے فتوے کا ذکر کیا تھا جس کا جواب نہیں دیا گیا۔ شیطان جب کسی کو چھو جائے تو یادداشت بھی ساتھ لے جاتا ہے۔ موصوف کے جس کالم ''زیورچ'' کا جواب دیا گیا وہ مورخہ13جولائی 2014ء کو چھپا تھا اور اس میں اس فتوے کا دور دور تک ذکر نہیں۔ البتہ آج سے دو سال قبل جب موصوف نے سود کی کھلم کھلا حمایت میں کالموں کا آغاز کیا تو کسی کالم میں اس فتوے کا ذکر کیا تھا۔ جس کا صراحتاً جواب میں نے دیا تھا اور ان سے فون پر بھی اس کے عربی متن کے حوالے سے گفتگو بھی کی تھی، تا کہ اللہ اور اس کے رسول کی اصل منشا واضح کر سکوں۔
یہ فتویٰ ہے کیا؟ کس نے تحریر کیا؟ اس کے مقاصد کیا تھے اور اس کو دنیا بھر کے تمام علما جن میں ہر مسلک کے عالم شامل تھے انھوں نے کیسے مسترد کیا۔ ان تمام سوالوں کا جواب حاضر ہے۔ یہ جواب کسی ویب سائٹ کے لنک سے حاصل مواد سے نہیں بلکہ اصل عربی متن کے مقالہ سے دیا جا رہا ہے۔ یہ فتویٰ ڈاکٹر محمد سید طنطاوی کا جاری کردہ ہے۔ یہ فتویٰ ڈاکٹر صاحب نے1989ء میں تحریر کیا تھا جب ان کا الازہر سے کوئی تعلق ہی نہ تھا۔
انھوں نے ایم اے آنرز کی ڈگری تعلیم کے شعبہ میں حاصل کی اور پی ایچ ڈی کا مقالہ بنی اسرائیل پر تحریر کیا۔ اسی تعلیم کی بنیاد پر مصر کی حکومت نے انھیں ایک سرکاری عہدے ''مفتی اعظم'' کی نشست پر1986ء میں بٹھا دیا۔1989ء میں مصر میں اسلامی معاشی نظام کے نفاذ کی ایک زور دار تحریک شروع ہوئی اور مغربی طرزِ سودی بینکاری کے خاتمے کا مطالبہ زور پکڑا تو حکومت نے طنطاوی کو فتویٰ جاری کرنے کے لیے کہا۔ جس پر انھوں نے ایک گول مول سا فتویٰ جاری کیا جس میں صرف حکومت کے سیکیورٹی بانڈز اور سیونگ اکاؤنٹ کے منافع کو جائز قرار دیا گیا مگر بینکوں کے قرضوں پر وصول کی جانے والی رقم کو سود ہی قرار دیا۔
اپنے اسی فتوے کی تشریح میں طنطاوی نے2001ء میں ایک کتاب ''معاملات البنوک'' لکھی جس کے صفحہ139 سے 142 تک انھوں نے بینک کے قرضوں اور بینکوں کے ڈیپازٹ پر بھی ہر قسم کے منافع کو حرام اور رباء (سود) قرار دیا۔ ان کے اس فتوے کو مصر میں بھی کوئی پذیرائی نہ مل سکی اس لیے کہ علامہ یوسف القرضاوی کی سربراہی میں تمام علماء نے اسے مضبوط دلائل کی بنیاد پر مسترد کر دیا۔ اور ان تمام علماء نے بینکوں کے ہر قسم کے منافع کو سود قرار دیا۔ مصر کی حکومت کی حالت بھی پاکستان کی طرح رہی کہ کسی جانب مت جھکو، بس خاموشی سے سودی نظامِ بینکاری کو چلنے دو۔
ڈاکٹر طنطاوی کو اپنے انھی خیالات کے انعام میں حسنی مبارک نے ایک انتظامی حکم نامے کے ذریعے27 مارچ1997ء کو الازہر کا سربراہ ''الامام اکبر'' مقرر کر دیا۔ اس مسند پر انھوں نے28 نومبر2002ء کو الامام اکبر کی حیثیت سے کالم نگار کا محبوب فتویٰ جاری کیا۔ فتویٰ چار صفحات پر مشتمل ہے اور صر ف سیکیورٹی بانڈز اور سیونگ اکائونٹ سے متعلق ہے۔ فتوے میں کہا گیا ہے کہ اگر دو افراد یا دو گروہ ایک پہلے سے طے شدہ منافع کی شرح پر متفق ہو جائیں تو یہ شرعاً حلال ہے کیونکہ منافع کی شرح حالات کے مطابق گھٹتی بڑھتی رہتی ہے۔
فتویٰ میں مصر کے حکومتی سیکیورٹی بانڈ کی مثال دی گئی جو پہلے 4 فیصد منافع دیتے تھے پھر15 فیصد دینے لگے اور اب10 فیصد دے رہے ہیں۔ اس فتوے میں کسی قسم کے نقصان میں شراکت کا ذکر تک نہیں۔ اور بینکاری کی بھی کسی اور قسم کو حلال نہیں بتایا گیا۔ عربی متن یوں ہے (وممالاشک فیہ ان تراضی الطرفین علی تحدید الربح مقدمامن الامور المقبولۃ شرعا و عقلا حتی یعرف کل طرف حقہ)۔ اس کا ترجمہ جناب کالم نگار اپنے کسی بھی سیکولر، لادین اور اللہ اور اس کے رسول کے احکامات کا مذاق اڑانے والوں سے ہی کروالیں۔
یہ سب لوگ آجکل موصوف کے کالم بڑے شوق سے حوالوں کے طور پر نیٹ پر پیش کرتے ہیں، اور انھیں سودی بینکاری کا مبلغ ثابت کرتے ہیں۔ انھیں کہیں بھی اس فتوے میں بینک کا سود حلال نہیں ملے گا۔ یہ سب الگ بات ہے کہ اس ذریعے سے جو تھوڑی سی گنجائش طنطاوی صاحب نے نکالی ہے، اللہ کے رسول نے اس کی بھی نفی کی ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا'' ہر وہ قرض جس سے نفع اٹھایا جائے وہ رباء (سود) ہے۔ (ییقہی، مسند حارث بن اسامہ) طنطاوی نے صرف حکومتی بانڈز اور سیونگ اکائونٹ پر منافع وغیرہ کو جائز قرار دیا ہے۔
البتہ باقی تمام بینکاری کو وہ کلیتہ حرام تصور کرتے ہیں ان کی کتاب ''معاملات البنوک'اس پر واضح ہے۔ لیکن فتوے میں دی گئی رعایت کو بھی پوری امت کے علماء نے مسترد کیا ہے۔ یہ طنطاوی وہی ہیں جنہوں اسقاطِ حمل کے حلال ہونے کا فتویٰ دیا تھا۔ اکتوبر 2009ء میں طنطاوی قاہرہ کے نصر کے علاقے میں لڑکیوں کے ایک اسکول گئے اور نوجوان لڑکیوں کو حجاب اتارنے کا حکم دیا اور کہا کہ تمہیں زندگی بھر حجاب پہننے کی شرعاً ضرورت نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب دس مارچ2010ء میں ان کا انتقال ہوا تو تعزیت کرنے والوں میں بارک اوباما، پوپ اور ہلیری کلنٹن شامل تھے۔
موصوف کالم نگار نے دوسرا معاملہ کار ساز کمپنی کے بارے میں لوگوں کو گمراہ کرنے اور سود کی پر زور حمایت میں اٹھایا ہے۔ اس سوال کا جواب بھی میں اپنے27 جنوری 2014ء کے کالم بعنوان ''سود ایک کا، لاکھوں کے لیے مرگِ مفاجات'' میں تفصیلاً دے چکا ہوں۔ کار ساز کمپنی کے بانی نے بینکوں سے قرضہ لے کر کاروبار کرنے سے انکار کیا تھا اور اس کے بعد سے اب تک کمپنی صرف دو فیصد حصے اپنے پاس رکھ کر لوگوں میں نفع اور نقصان کی بنیاد پر شراکت کرتے ہوئے ان سے انوسٹمنٹ مانگتی ہے۔
اس خالصتاً غیر سودی کاروبار میں لوگوں نے بھی سرمایہ لگایا ہے فنانس کمپنیاں بھی لگاتی ہیں کیونکہ کمپنی کی ساکھ مضبوط ہے۔ اس کمپنی کی موجودہ مالیت 120 ارب ڈالر ہے جس میں مالک خاندان کا حصہ صرف2.2 ارب ڈالر ہے۔ اس کمپنی (Tandoku) کی بیلنس شیٹ میں کہیں اس بات کا ذکر نہیں کہ انھوں نے کسی بینک سے سود پر قرضہ لیا ہو۔ البتہ کمپنی کے پاس اگر انوسٹمنٹ زیادہ آ جائے تو وہ اسے بینک میں رکھتی ہے جس پر اسے سود مل جاتا ہے۔ لیکن یہ پورے کاروبار کا ایک فیصد ہے۔ مختلف فنانس کمپنیاں کار ساز کمپنی کے حصص خریدتی ہیں اور کمپنی کے منافع میں سے حصہ لیتی ہے۔
یہ تو خالصتاً ایک غیر سودی کاروبار ہے۔ اگر کوئی اپنی سود یا کسی اور ناجائز کاروبار سے کمائی رقم یہاں لگاتا ہے تو اس سے کیا یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ کار ساز کمپنی سودی کاروبار کر رہی ہے۔ مگر کیا کیا جائے سود کی وکالت کرنے والوں کے بارے میں اللہ نے قرآن میں کتنی وضاحت سے ان کی نفسیاتی حالت کی تصویر کشی کر دی ہے۔ تیسرا نکتہ یہ اٹھایا گیا کہ میں لوگوں کو ڈراتا ہوں۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ میں لوگوں کو اللہ کے عذاب سے ڈراتا ہوں تو یہ سنت تو انبیاء کی ہے۔
قرآن پاک میں بار بار منکرین کا ذکر ہے جو اللہ سے ڈرانے کا تمسخر اڑاتے تھے اور اسے جھوٹ کا کاروبار کہتے تھے، جیسے موصوف کالم نگار نے مجھے کہا ہے۔ تمام پیغمبر یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک ان کو بس ایک جواب دیتے جو قرآن پاک میں درج ہے۔ ''یہ لوگ کہتے ہیں کہ بتائو کب آئے گی وہ گھڑی جس کا وعدہ ہے، ان سے کہہ دو، اس کا علم تو صرف اللہ کے پاس ہے اور میں تو بس صاف صاف خبر دار کرنے والا ہوں'' (الملک26)۔
میں نے اپنے ہر کالم میں لکھا کہ عالم الغیب صرف اللہ کی ذات ہے لیکن خبردار کرنا ہماری سب کی ذمے داری ہے۔ اگر یہ جھوٹ کا کاروبار ہے تو مشرکین مکہ بھی اسے جھوٹ کا کاروبار ہی کہتے تھے اور وہ بھی یہی پوچھتے تھے کہ کب آئے گا وہ عذاب۔ میں ایک کم علم گناہ گار، کم مایہ اور بے وقعت شخص ہوں لیکن میرے اللہ کا فضل ہے کہ اس نے مجھے سود کے خلاف اس جنگ میں حصہ بننے کی توفیق عطا کی جس کا اعلان اللہ اور اس کے رسول نے کیا ہے۔ جب کہ موصوف کالم نگار جس صف میں کھڑے ہیں ان کے لیے میں صرف ہدایت کی دعا کر سکتا ہوں۔ جو میں دل کی انتہائی گہرائیوں سے کر رہا ہوں۔
پاک ہے میرا اللہ جو دلوں میں چھپی سچائیوں اور جھوٹ کو جانتا ہے، اور سچا ہے اس کا کلام جو سود کی حمایت کرنے والوں کی ذہنی حالت کو بیان کرتے ہوئے بتاتا ہے کہ انھیں شیطان نے چھو کر بائولا کر دیا ہے (البقرہ)۔ اس سچے کلام پر ایمان لانے کے بعد مجھے قطعاً حیرت نہ ہوئی جب سود کے موضوع پر ''زیورچ'' شہر پر لکھے گئے ایک کالم نگار کے کالم پر میں نے خالصتاً علمی بنیاد پر بحث کی، تو جواب میں میری ذات پر کیچڑ اچھالا گیا۔ میں اپنی ذات کے حوالے سے کوئی جواب نہیں دونگا کہ میرے سامنے سیّدنا علیؓ کا وہ اسوہ ہے کہ ایک معرکے میں آپ ایک کافر کو زیر کر کے اس کی چھاتی پر چڑھ گئے۔
قریب تھا کہ اس کی گردن اڑا دیتے، مگر اس نے ان کے چہرے پر تھوک دیا۔ آپ فوراً نیچے اتر آئے۔ کافر نے پوچھا کہ آپ نے مجھے قتل کیوں نہ کیا، تو جواب دیا کہ اگر اب میں تمہیں قتل کرتا تو اس میں میرا ذاتی انتقام بھی شامل ہو جاتا اور میں اس لڑائی کو اللہ کے لیے خاص رکھنا چاہتا ہوں۔ میں بھی اللہ اور اُس کے رسول کی طرف سے اعلان کردہ سود کے خلاف جنگ میں ذاتی انتقام کو شامل نہیں کرنا چاہتا۔ البتہ اس کالم میں اٹھائے گئے چند علمی طور پر بحث طلب نکات کا جواب دینا چاہتا ہوں تا کہ خلقِ خدا گمراہی سے بچ سکے۔
موصوف نے تحریر کیا ہے کہ کالم میں انھوں نے بینکاری سود کے بارے میں جامعہ الازہر کے فتوے کا ذکر کیا تھا جس کا جواب نہیں دیا گیا۔ شیطان جب کسی کو چھو جائے تو یادداشت بھی ساتھ لے جاتا ہے۔ موصوف کے جس کالم ''زیورچ'' کا جواب دیا گیا وہ مورخہ13جولائی 2014ء کو چھپا تھا اور اس میں اس فتوے کا دور دور تک ذکر نہیں۔ البتہ آج سے دو سال قبل جب موصوف نے سود کی کھلم کھلا حمایت میں کالموں کا آغاز کیا تو کسی کالم میں اس فتوے کا ذکر کیا تھا۔ جس کا صراحتاً جواب میں نے دیا تھا اور ان سے فون پر بھی اس کے عربی متن کے حوالے سے گفتگو بھی کی تھی، تا کہ اللہ اور اس کے رسول کی اصل منشا واضح کر سکوں۔
یہ فتویٰ ہے کیا؟ کس نے تحریر کیا؟ اس کے مقاصد کیا تھے اور اس کو دنیا بھر کے تمام علما جن میں ہر مسلک کے عالم شامل تھے انھوں نے کیسے مسترد کیا۔ ان تمام سوالوں کا جواب حاضر ہے۔ یہ جواب کسی ویب سائٹ کے لنک سے حاصل مواد سے نہیں بلکہ اصل عربی متن کے مقالہ سے دیا جا رہا ہے۔ یہ فتویٰ ڈاکٹر محمد سید طنطاوی کا جاری کردہ ہے۔ یہ فتویٰ ڈاکٹر صاحب نے1989ء میں تحریر کیا تھا جب ان کا الازہر سے کوئی تعلق ہی نہ تھا۔
انھوں نے ایم اے آنرز کی ڈگری تعلیم کے شعبہ میں حاصل کی اور پی ایچ ڈی کا مقالہ بنی اسرائیل پر تحریر کیا۔ اسی تعلیم کی بنیاد پر مصر کی حکومت نے انھیں ایک سرکاری عہدے ''مفتی اعظم'' کی نشست پر1986ء میں بٹھا دیا۔1989ء میں مصر میں اسلامی معاشی نظام کے نفاذ کی ایک زور دار تحریک شروع ہوئی اور مغربی طرزِ سودی بینکاری کے خاتمے کا مطالبہ زور پکڑا تو حکومت نے طنطاوی کو فتویٰ جاری کرنے کے لیے کہا۔ جس پر انھوں نے ایک گول مول سا فتویٰ جاری کیا جس میں صرف حکومت کے سیکیورٹی بانڈز اور سیونگ اکاؤنٹ کے منافع کو جائز قرار دیا گیا مگر بینکوں کے قرضوں پر وصول کی جانے والی رقم کو سود ہی قرار دیا۔
اپنے اسی فتوے کی تشریح میں طنطاوی نے2001ء میں ایک کتاب ''معاملات البنوک'' لکھی جس کے صفحہ139 سے 142 تک انھوں نے بینک کے قرضوں اور بینکوں کے ڈیپازٹ پر بھی ہر قسم کے منافع کو حرام اور رباء (سود) قرار دیا۔ ان کے اس فتوے کو مصر میں بھی کوئی پذیرائی نہ مل سکی اس لیے کہ علامہ یوسف القرضاوی کی سربراہی میں تمام علماء نے اسے مضبوط دلائل کی بنیاد پر مسترد کر دیا۔ اور ان تمام علماء نے بینکوں کے ہر قسم کے منافع کو سود قرار دیا۔ مصر کی حکومت کی حالت بھی پاکستان کی طرح رہی کہ کسی جانب مت جھکو، بس خاموشی سے سودی نظامِ بینکاری کو چلنے دو۔
ڈاکٹر طنطاوی کو اپنے انھی خیالات کے انعام میں حسنی مبارک نے ایک انتظامی حکم نامے کے ذریعے27 مارچ1997ء کو الازہر کا سربراہ ''الامام اکبر'' مقرر کر دیا۔ اس مسند پر انھوں نے28 نومبر2002ء کو الامام اکبر کی حیثیت سے کالم نگار کا محبوب فتویٰ جاری کیا۔ فتویٰ چار صفحات پر مشتمل ہے اور صر ف سیکیورٹی بانڈز اور سیونگ اکائونٹ سے متعلق ہے۔ فتوے میں کہا گیا ہے کہ اگر دو افراد یا دو گروہ ایک پہلے سے طے شدہ منافع کی شرح پر متفق ہو جائیں تو یہ شرعاً حلال ہے کیونکہ منافع کی شرح حالات کے مطابق گھٹتی بڑھتی رہتی ہے۔
فتویٰ میں مصر کے حکومتی سیکیورٹی بانڈ کی مثال دی گئی جو پہلے 4 فیصد منافع دیتے تھے پھر15 فیصد دینے لگے اور اب10 فیصد دے رہے ہیں۔ اس فتوے میں کسی قسم کے نقصان میں شراکت کا ذکر تک نہیں۔ اور بینکاری کی بھی کسی اور قسم کو حلال نہیں بتایا گیا۔ عربی متن یوں ہے (وممالاشک فیہ ان تراضی الطرفین علی تحدید الربح مقدمامن الامور المقبولۃ شرعا و عقلا حتی یعرف کل طرف حقہ)۔ اس کا ترجمہ جناب کالم نگار اپنے کسی بھی سیکولر، لادین اور اللہ اور اس کے رسول کے احکامات کا مذاق اڑانے والوں سے ہی کروالیں۔
یہ سب لوگ آجکل موصوف کے کالم بڑے شوق سے حوالوں کے طور پر نیٹ پر پیش کرتے ہیں، اور انھیں سودی بینکاری کا مبلغ ثابت کرتے ہیں۔ انھیں کہیں بھی اس فتوے میں بینک کا سود حلال نہیں ملے گا۔ یہ سب الگ بات ہے کہ اس ذریعے سے جو تھوڑی سی گنجائش طنطاوی صاحب نے نکالی ہے، اللہ کے رسول نے اس کی بھی نفی کی ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا'' ہر وہ قرض جس سے نفع اٹھایا جائے وہ رباء (سود) ہے۔ (ییقہی، مسند حارث بن اسامہ) طنطاوی نے صرف حکومتی بانڈز اور سیونگ اکائونٹ پر منافع وغیرہ کو جائز قرار دیا ہے۔
البتہ باقی تمام بینکاری کو وہ کلیتہ حرام تصور کرتے ہیں ان کی کتاب ''معاملات البنوک'اس پر واضح ہے۔ لیکن فتوے میں دی گئی رعایت کو بھی پوری امت کے علماء نے مسترد کیا ہے۔ یہ طنطاوی وہی ہیں جنہوں اسقاطِ حمل کے حلال ہونے کا فتویٰ دیا تھا۔ اکتوبر 2009ء میں طنطاوی قاہرہ کے نصر کے علاقے میں لڑکیوں کے ایک اسکول گئے اور نوجوان لڑکیوں کو حجاب اتارنے کا حکم دیا اور کہا کہ تمہیں زندگی بھر حجاب پہننے کی شرعاً ضرورت نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب دس مارچ2010ء میں ان کا انتقال ہوا تو تعزیت کرنے والوں میں بارک اوباما، پوپ اور ہلیری کلنٹن شامل تھے۔
موصوف کالم نگار نے دوسرا معاملہ کار ساز کمپنی کے بارے میں لوگوں کو گمراہ کرنے اور سود کی پر زور حمایت میں اٹھایا ہے۔ اس سوال کا جواب بھی میں اپنے27 جنوری 2014ء کے کالم بعنوان ''سود ایک کا، لاکھوں کے لیے مرگِ مفاجات'' میں تفصیلاً دے چکا ہوں۔ کار ساز کمپنی کے بانی نے بینکوں سے قرضہ لے کر کاروبار کرنے سے انکار کیا تھا اور اس کے بعد سے اب تک کمپنی صرف دو فیصد حصے اپنے پاس رکھ کر لوگوں میں نفع اور نقصان کی بنیاد پر شراکت کرتے ہوئے ان سے انوسٹمنٹ مانگتی ہے۔
اس خالصتاً غیر سودی کاروبار میں لوگوں نے بھی سرمایہ لگایا ہے فنانس کمپنیاں بھی لگاتی ہیں کیونکہ کمپنی کی ساکھ مضبوط ہے۔ اس کمپنی کی موجودہ مالیت 120 ارب ڈالر ہے جس میں مالک خاندان کا حصہ صرف2.2 ارب ڈالر ہے۔ اس کمپنی (Tandoku) کی بیلنس شیٹ میں کہیں اس بات کا ذکر نہیں کہ انھوں نے کسی بینک سے سود پر قرضہ لیا ہو۔ البتہ کمپنی کے پاس اگر انوسٹمنٹ زیادہ آ جائے تو وہ اسے بینک میں رکھتی ہے جس پر اسے سود مل جاتا ہے۔ لیکن یہ پورے کاروبار کا ایک فیصد ہے۔ مختلف فنانس کمپنیاں کار ساز کمپنی کے حصص خریدتی ہیں اور کمپنی کے منافع میں سے حصہ لیتی ہے۔
یہ تو خالصتاً ایک غیر سودی کاروبار ہے۔ اگر کوئی اپنی سود یا کسی اور ناجائز کاروبار سے کمائی رقم یہاں لگاتا ہے تو اس سے کیا یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ کار ساز کمپنی سودی کاروبار کر رہی ہے۔ مگر کیا کیا جائے سود کی وکالت کرنے والوں کے بارے میں اللہ نے قرآن میں کتنی وضاحت سے ان کی نفسیاتی حالت کی تصویر کشی کر دی ہے۔ تیسرا نکتہ یہ اٹھایا گیا کہ میں لوگوں کو ڈراتا ہوں۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ میں لوگوں کو اللہ کے عذاب سے ڈراتا ہوں تو یہ سنت تو انبیاء کی ہے۔
قرآن پاک میں بار بار منکرین کا ذکر ہے جو اللہ سے ڈرانے کا تمسخر اڑاتے تھے اور اسے جھوٹ کا کاروبار کہتے تھے، جیسے موصوف کالم نگار نے مجھے کہا ہے۔ تمام پیغمبر یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک ان کو بس ایک جواب دیتے جو قرآن پاک میں درج ہے۔ ''یہ لوگ کہتے ہیں کہ بتائو کب آئے گی وہ گھڑی جس کا وعدہ ہے، ان سے کہہ دو، اس کا علم تو صرف اللہ کے پاس ہے اور میں تو بس صاف صاف خبر دار کرنے والا ہوں'' (الملک26)۔
میں نے اپنے ہر کالم میں لکھا کہ عالم الغیب صرف اللہ کی ذات ہے لیکن خبردار کرنا ہماری سب کی ذمے داری ہے۔ اگر یہ جھوٹ کا کاروبار ہے تو مشرکین مکہ بھی اسے جھوٹ کا کاروبار ہی کہتے تھے اور وہ بھی یہی پوچھتے تھے کہ کب آئے گا وہ عذاب۔ میں ایک کم علم گناہ گار، کم مایہ اور بے وقعت شخص ہوں لیکن میرے اللہ کا فضل ہے کہ اس نے مجھے سود کے خلاف اس جنگ میں حصہ بننے کی توفیق عطا کی جس کا اعلان اللہ اور اس کے رسول نے کیا ہے۔ جب کہ موصوف کالم نگار جس صف میں کھڑے ہیں ان کے لیے میں صرف ہدایت کی دعا کر سکتا ہوں۔ جو میں دل کی انتہائی گہرائیوں سے کر رہا ہوں۔