ایک غلطی کا جواب دوسری غلطی سے نہ دیں

پرائیویٹ چینلز کو بوجوہ اس کی ضرورت نہیں اور سرکاری ٹی وی کو اپنی مخصوص ساخت کی وجہ سے یہ دوائی راس ہی نہیں آتی ۔۔۔

Amjadislam@gmail.com

بھنور میں کھو گئے ایک ایک کر کے ڈوبنے والے

سر ساحل کھڑے تھے سب تماشا دیکھنے والے

خدا کا رزق تو ہر گز زمیں پر کم نہیں یارو

مگر یہ کاٹنے والے! مگر یہ بانٹنے والے!

شفیق الرحمن مرحوم نے اپنے کسی مضمون میں بچے کو نہلانے کا طریقہ لکھا تھا جو کچھ یوں شروع ہوتا تھا ''ایک بچہ لیں'' ہمارے حکمرانوں' سیاستدانوں اور تجزیہ کاروں نے اس جملے سے خوب فیض حاصل کیا ہے اور مل جل کر ایک نیا مضمون لکھا ہے جس کا عنوان ہے ''مسئلے کو حل کرنے کا طریقہ'' مگر گڑ بڑ یہ ہوئی کہ ہر کوئی اپنا اپنا مسئلہ لے کر آ گیا اور اب یہ فیصلہ نہیں ہو پا رہا کہ کون سا مسئلہ لیں۔ ٹی وی اسکرین پر ایک طرف عمران خان نعرہ لگاتے سنائی دیتے ہیں کہ 14 اگست کو میاں برادران کی بادشاہت کا خاتمہ کرکے نیا پاکستان قائم کریں گے اور دوسری طرف بڑے میاں صاحب کا بیان چل رہا ہوتا ہے کہ ہمیں کسی طرح کے لانگ مارچ سے کوئی خطرہ نہیں۔

طاہر القادری کسی عجیب و غریب انقلاب کی بھرپور آمد کی تاریخ دینے کا اعلان کرتے ہیں اور پرویز رشید صاحب کوئی ایسا بیان دیتے دکھائی دیتے ہیں جو ان کے چہرے اور آواز کی بے یقینی سے یکسر مختلف ہوتا ہے۔ اب ان چاروں پارٹیوں کے مرکزی کرداروں کے پیچھے ہمنوائوں کی ایک لمبی قطار بغیر سوچے تالیاں بجاتی نظر آئے گی۔ میں نے زرداری' خورشید شاہ اور مولانا فضل الرحمن وغیرہ کا ذکر دانستہ نہیں کیا کہ اس کے لیے ہمیں چینل بدلنا پڑے گا۔

مشرف دور سے لے کر مئی 2013 کے انتخابات تک کے TALK SHOWS کو اگر دھیان میں لانے کی کوشش کی جائے تو اکا دکا سے قطع نظر سارے اینکرز آپ کو ایک ہی مخصوص انداز میں اپنا اپنا تماشا دکھاتے نظر آئیں گے کہ ان کے ایک ہاتھ میں متنازعہ اور فسادی سوالوں کی ڈگڈگی ہوتی تھی اور دوسرے ہاتھ میں مداریوں والی وہ رسی' جس کے ساتھ بندھے وہ مختلف سیاسی پارٹیوں کے نمایندوں کو ایک دوسرے سے لڑانے کے لیے طرح طرح سے حرکت دیتے رہتے تھے۔


انتخابات کے بعد سے ان شوز کی بے ہودگی میں کسی حد تک کمی ضرور آئی ہے لیکن بیشتر کی ایک خصوصیت اب بھی برقرار ہے کہ یہ شوز کسی بھی معاملے کو اس کے حل کی طرف لے جانے کے بجائے لفظوں کی لڈو کھیلنے تک ہی محدود رکھتے ہیں۔ چند روزقبل پی ٹی وی کے ایک ایسے مذاکرہ نما پروگرام میں شرکت کا موقع ملا جس کا عمومی عنوان ''آزادی کے تقاضے'' تھا پروگرام کے اختتام پر تمام شرکاء اس بات پر متفق نظر آئے کہ میڈیا کی تمام تر آزادی کے باوجود اب بھی اس میں پورا سچ بولنے کی گنجائش نہ ہونے کے برابر ہے۔

پرائیویٹ چینلز کو بوجوہ اس کی ضرورت نہیں اور سرکاری ٹی وی کو اپنی مخصوص ساخت کی وجہ سے یہ دوائی راس ہی نہیں آتی کہ اس سے پیدا ہونے والی الرجی پہلے حاکم طبقے کو اپنی گرفت میں لیتی ہے اور اس کے بعد تمام متعلقہ لوگوں کو چھینکیں آنا شروع ہو جاتی ہیں مثال کے طور پر یہ بات سامنے آئی کہ اگر میاں برادران کے ساتھی مصاحبین' خوشامدی' درباری اور ان کی من پسند بیورو کریسی اور پولیس کے افسران انھیں صحیح صورت حال سے آگاہ رکھیں اور ان کی انا کی تسکین کے بجائے انھیں درست اور صائب مشورے دیں تو شاید وہ مسائل کی ترجیحات اور ان کی اہمیت کو بہتر طور پر سمجھ سکیں۔

اس وقت بدقسمتی سے جلد بازی' بلند بانگ دعوے اور Playing to the gallery کا رواج اس قدر بڑھ گیا ہے کہ ہر کھلاڑی کھیل کے نتیجے کے بجائے تماشائیوں کی تالیوں کے شور کا اسیر ہو کر رہ گیا ہے۔ سیاست میں ایک اصطلاح ''ماسٹر سٹروک'' کے نام سے معروف ہے یعنی ایک ایسا سٹروک جو چاہے روائتی ہو یا غیر روائتی' پورے کھیل کا رخ بدل دے۔

اسی حوالے سے ایک دوست نے کہا کہ اگر میاں صاحب کے مشیر اچھے اور دور اندیش ہوتے تو وہ ایک ماسٹر سٹروک سے عمران خان جیسے ماہر اور جذباتی کھلاڑی کو بیک فٹ پر لا سکتے تھے مثلاً جب انھوں نے الیکشن کے کچھ عرصہ بعد ہی جان لیا کہ عمران خان چار حلقوں میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی کرائے بغیر نہیں مانے گا اور وہ خود (کسی بھی وجہ سے) ایسا نہیں کرنا چاہتے تو اس کا بہترین طریقہ یہ تھا کہ وہ ٹی وی پر آ کر پوری قوم کو اعتماد میں لیتے ہوئے اعلان کر دیتے کہ اگرچہ آئینی طریقہ کار کے مطابق یہ معاملہ الیکشن کمیشن نے ہی طے کرنا ہے مگر جھگڑے کو ختم کرنے اور باہمی اعتماد کو بحال کرنے کے لیے متعلقہ چاروں سیٹوں پر ان کے کامیاب اراکین اسمبلی رضاکارانہ طور پر استعفے دے دیتے ہیں چلیے ان پر دوبارہ سے انتخاب کرا لیتے ہیں۔

اسی سلسلے میں بہت سی مجوزہ انتخابی اصلاحات کا تجربہ بھی کیا جا سکتا تھا اور یوں تحریک انصاف کے پاس مڈٹرم الیکشن یا لانگ مارچ وغیرہ کے لیے کوئی موثر دلیل نہ بچتی مگر ایسا کرنے کے بجائے انھوں نے معاملات کو لٹکانے اور قانونی موشگافیوں کا راستہ اختیار کیا جس کے نتیجے میں اب لینے کے دینے پڑ گئے ہیں۔ اس صورت حال کو مزید خراب سانحہ ماڈل ٹائون اور اس کے بعد میڈیا اور ڈاکٹر طاہر القادری کے ضمن میں غلط فیصلوں اور غیر موثر وضاحتوں نے کیا۔ اب تک سامنے آنے والی اطلاعات سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اگرچہ پولیس کی کارروائی انتہائی غلط اور وحشیانہ تھی مگر یہ یک طرفہ نہیں تھی اس سے قطع نظر کہ شہر بلکہ ماڈل ٹائون میں موجود اتنے بہت سے بیرئیرز کے ہوتے ہوئے متعلقہ بیرئیرز کو ہٹانے کی کارروائی بنیادی طور پر ہی غلط تھی۔

یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ دوسری طرف سے اتنی طویل اور بھرپور مزاحمت کیوں کی گئی اور اس میں کون کون اور کیوں شامل تھا۔ کیس چونکہ عدالت میں ہے اس لیے مزید تفصیلات سے گریز کرتے ہوئے اسی پر اکتفا کروں گا کہ حاکموں کی سوچ اور ان کے مشیر دونوں میں ہی اصلاح اور تبدیلی کی زبردست گنجائش اور ضرورت ہے ملک کی نازک صورت حال (جو پتہ نہیں کب سے اسی طرح چلی آ رہی ہے)' ضرب عضب کے لیے عوامی حمایت کی ضرورت اور آئی ڈی پیز کے مسائل کی سنگینی اپنی جگہ لیکن ان کی بنیاد پر یوم آزادی کو یوم احتجاج بنانے کے ضمن میں حکومتی نمایندے جو بیانات دے رہے ہیں وہ بھی ایک جذباتی متنازعہ صورت حال کو پیش کرتے ہیں۔

اسی طرح عمران کے حکومت کی کارکردگی پر اعتراضات کے جواب میں یہ دلیل کہ خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت کے حوالے سے خان صاحب اپنے گریبان میں منہ ڈالیں بھی بہت حد تک جذباتی اور متنازعہ ہے کیونکہ ایک غلطی کا جواب اگر دوسری غلطی سے دیا جائے تو دونوں میں سے کوئی بھی ٹھیک تو نہیں ہوتی البتہ ان کی تعداد ایک سے بڑھ کر دو ضرور ہو جاتی ہے۔ اس وقت قوم کو دلیلوں کی نہیں موثر' بروقت اور درست فیصلوں کی ہے چاہے وہ حکومت کرے عمران خان یا کوئی بھی اور۔ شرط صرف یہ ہے کہ فیصلے آگ بجھانے کے لیے ہوں لگانے اور بھڑکانے کے لیے نہیں۔
Load Next Story