اعتراضات مسترد نئے بلدیاتی نظام کو 3ماہ میں اسمبلی سے منظور کرالیں گے قائم علی شاہ

جس کوآرڈیننس پراعتراض ہے وہ اسمبلی میں بحث کرے،1979 سے کم اختیارات نئے بلدیاتی نظام میں بلدیاتی اداروں کودیے گئے ہیں

کراچی: وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ فریال تالپور کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کررہے ہیں۔ فوٹو: اے پی پی

وزیراعلیٰ سندھ سیدقائم علی شاہ نے سندھ پیپلزلوکل گورنمنٹ آرڈیننس2012ء پرقوم پرستوں اوردیگرجماعتوں کے اعتراضات کو مستردکرتے ہوئے کہا ہے کہ جس کواعتراض ہے وہ اسمبلی میں اس میں بحث کرے۔

تین مہینے کے اندریہ بل سندھ اسمبلی میں پیش کیا جائے گا،سندھ کانیا بلدیاتی نظام قانون اورآئین کے مطابق ہے جس میں صوبے کو مزید بااختیار بنادیا گیا ہے،قوم پرستوں نے جنرل مشرف کے دور میں بلدیاتی نظام کے خلاف تحریک کیوں نہیں چلائی،تین سال میں سیلاب متاثرین میں45 ارب روپے خرچ کیے ہیں جبکہ سندھ کوریونیوکی مد میں ملنے والے اخراجات اس کے علاوہ ہیں،یوم عشق رسولﷺ کے موقع پرہنگامہ آرائی،توڑ پھوڑ افسوسناک عمل ہے،توڑ پھوڑ جلائوگھیرائوسے دنیاکواچھا پیغام نہیں ملا،پولیس کے پاس ہرطرح کااسلحہ موجودہے۔

نئے بلدیاتی نظام کے حوالے سے آج پیپلز پارٹی کی سندھ کونسل کے اجلاس میں اپنے لوگوں کوتفصیلات سے آگاہ کیاہے اور میڈیا کے ذریعے عوام کو بھی آگاہ کررہے ہیں،ان خیالات کا اظہار انھوں نے اتوارکووزیراعلیٰ ہائوس میں پیپلزپارٹی سندھ کونسل کے اجلاس کے بعدپریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا،اس موقع پر سندھ کے وزیر اطلاعات شرجیل انعام میمن، پیپلز پارٹی سندھ کے جنرل سیکریٹری تاج حیدر، راشدحسین ربانی،وقارمہدی،سینیٹرعاجز دھامرہ اوردیگربھی موجودتھے۔


وزیر اعلیٰ نے کہا کہ آئین میں واضح طور پر درج ہے کہ صوبائی حکومتیں آئین کے تحت ملنے والے اختیارات میں سے مالیاتی، انتظامی اور سوک اختیارات بلدیاتی اداروں کو منتقل کریں گے،سندھ کو تقسیم کرنے والا اعتراض اس لیے بے بنیاد ہے کہ 1979 کے نظام کے تحت صوبے میں ایک میٹروپولیٹن کارپوریشن اور باقی ضلعی کونسلیں تھیں اس نئے نظام کے تحت پانچ میٹروپولیٹن کارپوریشن بنا کر ایک جیسا اختیار دیا ہے جبکہ 18 ضلع کونسلوں کے چیئرمین اور میٹروپولیٹن کارپوریشنوں کے میئرز کے اختیارات میں کوئی زیادہ فرق نہیں،نئے نظام کے تحت کئی ایسے محکمے 2001 کے نظام میں ضلعی حکومتوں کو منتقل کیے گئے تھے جو صوبوں کو واپس منتقل کر دیے گئے ہیں جس میں محکمہ داخلہ، ریونیو اور دیگر ادارے شامل ہیں ،1979 سے کم اختیارات موجودہ بلدیاتی نظام میں بلدیاتی اداروں کودیے گئے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ گزشتہ بلدیاتی نظام میں وزیر اعلیٰ ضلعی چیئرمین کو معطل نہیں کر سکتا تھا لیکن نئے بلدیاتی نظام میں وہ معطل کر سکتا ہے اور کمیشن کی رپورٹ کے مطابق اس کے خلاف تادیبی کارروائی بھی کر سکتا ہے صوبے میں نیا مالیاتی کمیشن بنے گا جس میں ہر ضلع کی نمائندگی ہوگی،انھوں نے کہاکہ2010، 2011 میں بڑے پیمانے پر سیلاب نے تباہی مچادی،ہم نے2010 کے70 لاکھ متاثرین کی بحالی اورریلیف14ارب روپے خرچ کیے،وزیراعلیٰ سندھ نے انکشاف کیاکہ وفاقی حکومت نے متاثرین کی امدادکیلیے80ہزارروپے فی کس دینے کا جووعدہ کیاتھا وہ رقم ابھی تک موصول نہیں ہوئی اور وزیراعظم کے حالیہ دورے میں ان کو آگاہ بھی کیاگیا۔

2011 میں16 اضلاع تقریباً تباہ ہوئے،90 لاکھ متاثر ہوئے،انھوں نے کہا کہ ہم نے مجموعی طور پر متاثرین کی بحالی اور ریلیف میں 45 ارب روپے خرچ کیے ہیں، حالیہ بارشوں میں جاں بحق ہونے والوں کیلیے صوبائی حکومت تین لاکھ اور وفاقی حکومت چار لاکھ روپے معاوضہ دے گی جبکہ انھیں ملازمتیں بھی فراہم کی جائیں گی، متاثرین کے نقصانات کے اعداد و شمار جمع کیے جا رہے ہیں،اس سے قبل سندھ کونسل کے اجلاس میں کارکنان سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعلیٰ نے ہدایت کی کہ پی پی رہنما بلدیاتی نظام کی حمایت میں مہم چلائیں۔

Recommended Stories

Load Next Story