اسرائیل کے قیام پر علامہ اقبالؔ کا تاریخی بیان…
فلسطین کویہودیوں کاقومی وطن بنانیکی تجویزتومحض بہانہ ہے، حقیقت میں برطانیہ اس مقدس علاقےپراپنا تسلط قائم کرنا چاہتا ہے
آج اسرائیل میں فلسطینی مسلمانوں کی آبادی غزہ لہو لہو ہے خون مسلم کی ارزانی ہے۔ اعلان ''بالفور'' کے نتیجے میں مغرب کی سازش کے تحت 1948ء میں بننے والی ریاست ''اسرائیل'' کے قیام پر علامہ اقبالؔ نے کہا تھا کہ:
خاک فلسطیں پہ یہودی کا ہے اگر حق
ہسپانیہ پر حق نہیں کیوں اہل عرب کا
علامہ اقبالؒ نے اسرائیل کے قیام سے آیندہ عالم اسلام کو درپیش خطرات کا ادراک کرتے ہوئے اپنی زندگی کے آخری سال اپنے خدشات و جذبات کے اظہار کے لیے ایک طویل تاریخی بیان دیا جو 26 جولائی 1937ء کو لاہور کے موچی دروازہ کے مسلم لیگ کے تاریخی جلسہ عام میں پڑھا گیا اور مشہور اخبار ''نیوٹائمز'' میں شایع ہوا۔ اس بیان میں علامہؒ مرحوم نے اسرائیل کے قیام میں انگریز کی سازشوں اور فلسطین کی سرزمین کا تاریخی پس منظر بیان کیا اور مسئلہ فلسطین کو اسلامی ممالک کی حمیت و غیرت کا امتحان قرار دیا علامہ مرحوم کا یہ بیان آج کے حالات میں عالم اسلام کے لیے بیداری کا سبق دیتا ہے۔ علامہ کا بیان من و عن حسب ذیل ہے۔
علامہ اقبال نے کہا ''میں آپ لوگوں کو اس امر کا یقین دلاتا ہوں کہ عربوں کے ساتھ جو ناانصافی کی گئی ہے میں اس کو اسی شدت سے محسوس کرتا ہوں جس شدت سے ہر وہ شخص اسے محسوس کرتا ہے جسے مشرق قریب کے حالات کا تھوڑا بہت علم ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ابھی پانی سر سے نہیں گزرنے پایا اور انگریز قوم کو بیدار کر کے اس بات پر آمادہ کیا جا سکتا ہے کہ وہ ان وعدوں کو پورا کرے، جو اس نے انگلستان کے نام پر عربوں کے ساتھ کیے تھے بہرحال یہ امر کسی حد تک موجب اطمینان ہے کہ برطانوی پارلیمنٹ میں اس موضوع پر حال ہی میں جو بحث ہوئی ہے، اس میں تقسیم فلسطین کے مسئلے کا کوئی دو ٹوک فیصلہ نہیں کیا گیا۔
لہٰذا اس موقعے سے فائدہ اٹھا کر مسلمانان عالم کو چاہیے کہ پوری بلند آہنگی کے ساتھ اعلان کریں گے کہ برطانیہ کے مدبر جس عقدے کا حل تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، اس کا تعلق صرف فلسطین تک محدود نہیں، بلکہ وہ ایک سرے سے دوسرے سرے تک پورے عالم اسلام کو بری طرح متاثر کر رہا ہے۔
اگر تاریخی پس منظر کو سامنے رکھ کر اس کا مطالعہ کیا جائے، تو صاف نظر آتا ہے کہ یہ معاملہ خالصتاً اور کلیتاً مسلمانوں کا معاملہ ہے، تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ جب حضرت عمرؓ بیت المقدس تشریف لے گئے تھے اور اس واقعے پر بھی آج تیرہ سو برس کا عرصہ گزر چکا ہے تو ان کی تشریف آوری سے مدتوں پہلے یہودیوں کا فلسطین کے ساتھ کوئی تعلق باقی نہیں رہا تھا یہودیوں کو فلسطین سے زبردستی نہیں نکالا گیا تھا بلکہ جیسا کہ پروفیسر ہاگنگزی کی رائے ہے، وہ اپنی خوشی سے دوسرے ممالک میں چلے گئے تھے اور ان کے صحف مقدس کا بیشتر حصہ بھی فلسطین سے باہر ہی قلم بند کیا گیا تھا۔
یہ بھی امر واقعہ ہے کہ فلسطین کا سوال کبھی مسیحیوں کا مسئلہ نہیں بنا تھا دور حاضر کی تاریخی تحقیقات کی روشنی میں تو راہب پیٹر کا وجود بھی مشتبہ اور غیر یقینی نظر آنے لگا ہے اگر بفرض محال یہ مان بھی لیا جائے کہ صلیبی جنگوں کی غرض و غایت یہ تھی کہ فلسطین کو مسیحی مسئلہ بنایا جائے تو پھر یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ صلاح الدین کی فتوحات نے ایسی تمام کوششوں کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کر دیا تھا لہٰذا میری نگاہ میں فلسطین کا مسئلہ سراسر اور کلیتاً مسلمانوں کا مسئلہ ہے۔
مشرق قریب کے مسلمانوں کے بارے میں برطانوی شہنشاہیت کے مذموم ارادوں کو جس بری طرح رائل کمیشن نے اس رپورٹ میں بے نقاب کیا ہے اس کی مثال پہلے کبھی نظر نہیں آئی۔ فلسطین کو یہودیوں کا قومی وطن بنانے کی تجویز تو محض ایک بہانہ ہے اصلیت یہ ہے کہ مسلمانوں کی اس مقدس اور مذہبی سرزمین پر اپنا مستقل انتداب قائم رکھ کر برطانوی شہنشاہیت خود اپنے لیے ایک نیا ٹھکانہ پیدا کر رہی ہے یہ اقدام ایک خطرناک تجربہ ہے اور برطانوی پارلیمنٹ کے ایک رکن نے بھی اس کو خطرناک تجربے ہی سے تعبیر کیا ہے۔
بحر روم میں برطانیہ کو جو مشکلات درپیش ہیں یہ تجربہ ان کو رفع نہیں کر سکے گا بلکہ یوں کہنا زیادہ صحیح ہے کہ ان مشکلات کو رفع کرنے کے بجائے یہ تجویز برطانوی شہنشاہیت کے لیے بہت سے نئے مصائب کا پیش خیمہ ثابت ہو گی۔
عربوں کو جس جس طریقے سے تنگ کر کے اپنی ارض مقدس جس پر مسجد عمرؓ قائم ہے، فروخت کرنے پر مجبور کیا گیا ہے اس میں ایک طرف تو مارشل لا جاری کر دینے کی سخت دھمکیاں ہیں اور دوسری طرف عربوں کی قومی فیاضی اور ان کی روایتی مہمان نوازی کے جذبات لطیف کو برانگیختہ کرنے کی بھی کوشش کی گئی ہے۔ یہ طرز عمل گویا اس بات کا ثبوت ہے کہ برطانوی تدبر کا اب دیوالیہ نکل چکا ہے۔
یہودیوں کو زرخیز اراضی کی پیش کش کر کے اور عربوں کو پتھریلی بنجر زمین کے ساتھ کچھ نقد رقم دے کر راضی کرنے کی کوشش قطعاً کسی سیاسی ہوش مندی کا ثبوت نہیں یہ تو ایک ادنیٰ درجے کی حقیر سودے بازی ہے جو یقینا اس عظیم الشان قوم کے لیے موجب ننگ اور باعث شرم ہے جس کے نام پر عربوں سے آزادی کا وعدہ کیا گیا تھا اور یہ وعدہ بھی کیا گیا تھا کہ ان کے درمیان ایک مشترکہ ومتحدہ وفاق قائم کر دیا جائے گا۔
میں اس مختصر سے بیان میں رائل کمیشن کی رپورٹ کے تمام پہلوؤں پر تفصیلی بحث کرنے سے معذور ہوں تاہم یہ عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ اسلامی ایشیا کو زمانہ حال کی تاریخ سے بعض بے حد اہم سبق ضرور حاصل کرنا چاہئیں تجربے نے یہ بات روز روشن کی طرح واضح کر دی ہے کہ مشرق قریب کے لوگوں کی سیاسی زندگی کی بقا صرف اس راز میں مضمر ہے کہ ترکوں اور عربوں کا اتحاد جلد از جلد قائم ہو جانا چاہیے۔
مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ترکوں کو عالم اسلام سے جدا کرنے کی سازشیں بدستور جاری ہیں گاہے گاہے اس قسم کی خبریں بھی سننے میں آ جاتی ہیں کہ ترک اسلام سے منحرف ہو رہے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس سے بڑا جھوٹ شاید ہی کبھی بولا گیا ہو اس نوع کے شرارت انگیز اور فتنہ پرور پروپیگنڈے کا شکار بالعموم وہی لوگ ہوتے ہیں جنھوں نے اسلامی فقہ اور اسلامی اصول قانون کے افکار کی تاریخ کا مطالعہ نہیں کیا۔یہ عرب ہی تھے جن کے مذہبی شعور نے اسلام کو جنم دیا تھا جس نے آگے چل کر ایشیا کی مختلف قوموں کو متحد و مربوط کرنے میں حیرت انگیز کامیابی حاصل کی اس لیے عربوں کو چاہیے کہ ان نتائج کو ہرگز فراموش نہ کریں جو محض اس وجہ سے پیدا ہوئے تھے کہ انھوں نے ابتلا اور مصیبت کے وقت ترکوں کا ساتھ چھوڑ دیا تھا۔
دوسرا سبق یاد رکھنے کے قابل یہ ہے کہ عربوں کو چاہیے کہ وہ اپنے قومی مسائل پر غور و فکر کرتے وقت عرب ممالک کے بادشاہوں کے مشوروں پر اعتماد نہ کریں کیونکہ بحالات موجودہ ان بادشاہوں کی حیثیت ہر گز اس قابل نہیں کہ وہ محض اپنے ضمیر و ایمان کی روشنی میں فلسطین کے متعلق کسی صحیح فیصلے یا کسی صائب نتیجے پر پہنچ سکیں۔ تیسرا سبق یہ ہے کہ آج مسئلہ فلسطین کے بارے میں ایشیا کے تمام آزاد اسلامی ممالک کی حمیت و غیرت کا امتحان ہے خواہ وہ ممالک عرب ہیں یا غیر عرب۔ منصب خلافت کی تنسیخ کے بعد عالم اسلام کے لیے یہ پہلا بین الاقوامی مسئلہ ہے جس کی نوعیت بیک وقت مذہبی اور سیاسی ہے اور جس سے نبرد آزما ہونے کے لیے زمانے کی طاقتیں اور تاریخ کے تقاضے آزاد اسلامی ممالک کو پکار رہے ہیں۔
بہت ممکن ہے کہ یہی مسئلہ آگے چل کر ایشیا کے آزاد اسلامی ممالک کو اس اینگلو فرانسیسی ادارے سے جسے غلطی سے جمعیت اقوام کا نام دے دیا گیا ہے، اس قدر بدگمان و برگشتہ کردے کہ وہ اپنے تحفظ کے لیے اقوام مشرق کی ایک علیحدہ جمعیت قائم کرنے کے امکانات پر غور کے لیے مجبور ہو جائیں۔''
نوٹ: علامہ کا یہ بیان انگریزی میں تھا جسے جلسہ گاہ میں اردو میں ترجمہ کر کے پڑھا گیا۔
بحوالہ کتاب: ''اقبال کے آخری دو سال''
از: عاشق حسین بٹالوی
خاک فلسطیں پہ یہودی کا ہے اگر حق
ہسپانیہ پر حق نہیں کیوں اہل عرب کا
علامہ اقبالؒ نے اسرائیل کے قیام سے آیندہ عالم اسلام کو درپیش خطرات کا ادراک کرتے ہوئے اپنی زندگی کے آخری سال اپنے خدشات و جذبات کے اظہار کے لیے ایک طویل تاریخی بیان دیا جو 26 جولائی 1937ء کو لاہور کے موچی دروازہ کے مسلم لیگ کے تاریخی جلسہ عام میں پڑھا گیا اور مشہور اخبار ''نیوٹائمز'' میں شایع ہوا۔ اس بیان میں علامہؒ مرحوم نے اسرائیل کے قیام میں انگریز کی سازشوں اور فلسطین کی سرزمین کا تاریخی پس منظر بیان کیا اور مسئلہ فلسطین کو اسلامی ممالک کی حمیت و غیرت کا امتحان قرار دیا علامہ مرحوم کا یہ بیان آج کے حالات میں عالم اسلام کے لیے بیداری کا سبق دیتا ہے۔ علامہ کا بیان من و عن حسب ذیل ہے۔
علامہ اقبال نے کہا ''میں آپ لوگوں کو اس امر کا یقین دلاتا ہوں کہ عربوں کے ساتھ جو ناانصافی کی گئی ہے میں اس کو اسی شدت سے محسوس کرتا ہوں جس شدت سے ہر وہ شخص اسے محسوس کرتا ہے جسے مشرق قریب کے حالات کا تھوڑا بہت علم ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ابھی پانی سر سے نہیں گزرنے پایا اور انگریز قوم کو بیدار کر کے اس بات پر آمادہ کیا جا سکتا ہے کہ وہ ان وعدوں کو پورا کرے، جو اس نے انگلستان کے نام پر عربوں کے ساتھ کیے تھے بہرحال یہ امر کسی حد تک موجب اطمینان ہے کہ برطانوی پارلیمنٹ میں اس موضوع پر حال ہی میں جو بحث ہوئی ہے، اس میں تقسیم فلسطین کے مسئلے کا کوئی دو ٹوک فیصلہ نہیں کیا گیا۔
لہٰذا اس موقعے سے فائدہ اٹھا کر مسلمانان عالم کو چاہیے کہ پوری بلند آہنگی کے ساتھ اعلان کریں گے کہ برطانیہ کے مدبر جس عقدے کا حل تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، اس کا تعلق صرف فلسطین تک محدود نہیں، بلکہ وہ ایک سرے سے دوسرے سرے تک پورے عالم اسلام کو بری طرح متاثر کر رہا ہے۔
اگر تاریخی پس منظر کو سامنے رکھ کر اس کا مطالعہ کیا جائے، تو صاف نظر آتا ہے کہ یہ معاملہ خالصتاً اور کلیتاً مسلمانوں کا معاملہ ہے، تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ جب حضرت عمرؓ بیت المقدس تشریف لے گئے تھے اور اس واقعے پر بھی آج تیرہ سو برس کا عرصہ گزر چکا ہے تو ان کی تشریف آوری سے مدتوں پہلے یہودیوں کا فلسطین کے ساتھ کوئی تعلق باقی نہیں رہا تھا یہودیوں کو فلسطین سے زبردستی نہیں نکالا گیا تھا بلکہ جیسا کہ پروفیسر ہاگنگزی کی رائے ہے، وہ اپنی خوشی سے دوسرے ممالک میں چلے گئے تھے اور ان کے صحف مقدس کا بیشتر حصہ بھی فلسطین سے باہر ہی قلم بند کیا گیا تھا۔
یہ بھی امر واقعہ ہے کہ فلسطین کا سوال کبھی مسیحیوں کا مسئلہ نہیں بنا تھا دور حاضر کی تاریخی تحقیقات کی روشنی میں تو راہب پیٹر کا وجود بھی مشتبہ اور غیر یقینی نظر آنے لگا ہے اگر بفرض محال یہ مان بھی لیا جائے کہ صلیبی جنگوں کی غرض و غایت یہ تھی کہ فلسطین کو مسیحی مسئلہ بنایا جائے تو پھر یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ صلاح الدین کی فتوحات نے ایسی تمام کوششوں کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کر دیا تھا لہٰذا میری نگاہ میں فلسطین کا مسئلہ سراسر اور کلیتاً مسلمانوں کا مسئلہ ہے۔
مشرق قریب کے مسلمانوں کے بارے میں برطانوی شہنشاہیت کے مذموم ارادوں کو جس بری طرح رائل کمیشن نے اس رپورٹ میں بے نقاب کیا ہے اس کی مثال پہلے کبھی نظر نہیں آئی۔ فلسطین کو یہودیوں کا قومی وطن بنانے کی تجویز تو محض ایک بہانہ ہے اصلیت یہ ہے کہ مسلمانوں کی اس مقدس اور مذہبی سرزمین پر اپنا مستقل انتداب قائم رکھ کر برطانوی شہنشاہیت خود اپنے لیے ایک نیا ٹھکانہ پیدا کر رہی ہے یہ اقدام ایک خطرناک تجربہ ہے اور برطانوی پارلیمنٹ کے ایک رکن نے بھی اس کو خطرناک تجربے ہی سے تعبیر کیا ہے۔
بحر روم میں برطانیہ کو جو مشکلات درپیش ہیں یہ تجربہ ان کو رفع نہیں کر سکے گا بلکہ یوں کہنا زیادہ صحیح ہے کہ ان مشکلات کو رفع کرنے کے بجائے یہ تجویز برطانوی شہنشاہیت کے لیے بہت سے نئے مصائب کا پیش خیمہ ثابت ہو گی۔
عربوں کو جس جس طریقے سے تنگ کر کے اپنی ارض مقدس جس پر مسجد عمرؓ قائم ہے، فروخت کرنے پر مجبور کیا گیا ہے اس میں ایک طرف تو مارشل لا جاری کر دینے کی سخت دھمکیاں ہیں اور دوسری طرف عربوں کی قومی فیاضی اور ان کی روایتی مہمان نوازی کے جذبات لطیف کو برانگیختہ کرنے کی بھی کوشش کی گئی ہے۔ یہ طرز عمل گویا اس بات کا ثبوت ہے کہ برطانوی تدبر کا اب دیوالیہ نکل چکا ہے۔
یہودیوں کو زرخیز اراضی کی پیش کش کر کے اور عربوں کو پتھریلی بنجر زمین کے ساتھ کچھ نقد رقم دے کر راضی کرنے کی کوشش قطعاً کسی سیاسی ہوش مندی کا ثبوت نہیں یہ تو ایک ادنیٰ درجے کی حقیر سودے بازی ہے جو یقینا اس عظیم الشان قوم کے لیے موجب ننگ اور باعث شرم ہے جس کے نام پر عربوں سے آزادی کا وعدہ کیا گیا تھا اور یہ وعدہ بھی کیا گیا تھا کہ ان کے درمیان ایک مشترکہ ومتحدہ وفاق قائم کر دیا جائے گا۔
میں اس مختصر سے بیان میں رائل کمیشن کی رپورٹ کے تمام پہلوؤں پر تفصیلی بحث کرنے سے معذور ہوں تاہم یہ عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ اسلامی ایشیا کو زمانہ حال کی تاریخ سے بعض بے حد اہم سبق ضرور حاصل کرنا چاہئیں تجربے نے یہ بات روز روشن کی طرح واضح کر دی ہے کہ مشرق قریب کے لوگوں کی سیاسی زندگی کی بقا صرف اس راز میں مضمر ہے کہ ترکوں اور عربوں کا اتحاد جلد از جلد قائم ہو جانا چاہیے۔
مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ترکوں کو عالم اسلام سے جدا کرنے کی سازشیں بدستور جاری ہیں گاہے گاہے اس قسم کی خبریں بھی سننے میں آ جاتی ہیں کہ ترک اسلام سے منحرف ہو رہے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس سے بڑا جھوٹ شاید ہی کبھی بولا گیا ہو اس نوع کے شرارت انگیز اور فتنہ پرور پروپیگنڈے کا شکار بالعموم وہی لوگ ہوتے ہیں جنھوں نے اسلامی فقہ اور اسلامی اصول قانون کے افکار کی تاریخ کا مطالعہ نہیں کیا۔یہ عرب ہی تھے جن کے مذہبی شعور نے اسلام کو جنم دیا تھا جس نے آگے چل کر ایشیا کی مختلف قوموں کو متحد و مربوط کرنے میں حیرت انگیز کامیابی حاصل کی اس لیے عربوں کو چاہیے کہ ان نتائج کو ہرگز فراموش نہ کریں جو محض اس وجہ سے پیدا ہوئے تھے کہ انھوں نے ابتلا اور مصیبت کے وقت ترکوں کا ساتھ چھوڑ دیا تھا۔
دوسرا سبق یاد رکھنے کے قابل یہ ہے کہ عربوں کو چاہیے کہ وہ اپنے قومی مسائل پر غور و فکر کرتے وقت عرب ممالک کے بادشاہوں کے مشوروں پر اعتماد نہ کریں کیونکہ بحالات موجودہ ان بادشاہوں کی حیثیت ہر گز اس قابل نہیں کہ وہ محض اپنے ضمیر و ایمان کی روشنی میں فلسطین کے متعلق کسی صحیح فیصلے یا کسی صائب نتیجے پر پہنچ سکیں۔ تیسرا سبق یہ ہے کہ آج مسئلہ فلسطین کے بارے میں ایشیا کے تمام آزاد اسلامی ممالک کی حمیت و غیرت کا امتحان ہے خواہ وہ ممالک عرب ہیں یا غیر عرب۔ منصب خلافت کی تنسیخ کے بعد عالم اسلام کے لیے یہ پہلا بین الاقوامی مسئلہ ہے جس کی نوعیت بیک وقت مذہبی اور سیاسی ہے اور جس سے نبرد آزما ہونے کے لیے زمانے کی طاقتیں اور تاریخ کے تقاضے آزاد اسلامی ممالک کو پکار رہے ہیں۔
بہت ممکن ہے کہ یہی مسئلہ آگے چل کر ایشیا کے آزاد اسلامی ممالک کو اس اینگلو فرانسیسی ادارے سے جسے غلطی سے جمعیت اقوام کا نام دے دیا گیا ہے، اس قدر بدگمان و برگشتہ کردے کہ وہ اپنے تحفظ کے لیے اقوام مشرق کی ایک علیحدہ جمعیت قائم کرنے کے امکانات پر غور کے لیے مجبور ہو جائیں۔''
نوٹ: علامہ کا یہ بیان انگریزی میں تھا جسے جلسہ گاہ میں اردو میں ترجمہ کر کے پڑھا گیا۔
بحوالہ کتاب: ''اقبال کے آخری دو سال''
از: عاشق حسین بٹالوی