ہمارے سوداگر
علم کہ جس کا حاصل کرنا ہمارے مذہب اسلام نے ہر مسلمان پر فرض قرار دیا ہے ۔۔۔۔
دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ، اغوا برائے تاوان، بھتہ خوری، لوٹ مار، بے روزگاری، صحت و صفائی اور توانائی بحران سمیت بے شمار مسائل نے ہمیں چاروں سمت سے گھیر رکھا ہے اور یہ سب سنگین مسائل خود بخود ہی پیدا نہیں ہو گئے بلکہ ایک طویل جدوجہد کے بعد اسلام اور پاکستان کے دشمنوں نے ہمارے رہنمائوں کا روپ دھار کر اپنے دوغلے پن اور منافقت کے موروثی ہنر کا زبردست استعمال کرتے ہوئے ہمیں اس آگ میں جھونک دیا۔
معمولی نفسانی خواہشات کی تکمیل کے لیے اپنا ننگ و نام، اپنا دین و مذہب سب کچھ بہت ہی کم داموں کے عوض فروخت کر کے ان نام نہاد رہبروں نے سب سے پہلے ہمارے تعلیمی نظام پر حملہ کیا، اسے تباہ و برباد کر دیا یا اسے پنپنے ہی نہیں دیا اور یا پھر اسے غلط سمت پر ڈال دیا تا کہ جہالت کے اندھیروں میں اندھے ہو کر ہم اخلاقی پستی کی ہر حد کو چھو جائیں اور انھی کی طرح بے ضمیر بن کر اسلام دشمن قوتوں کے خلاف جہاد کے نام پر اپنے ہی کلمہ گو بھائیوں کا قتل عام شروع کر دیں، یا منافرت کے فروغ اور ترغیب میں اتنے آگے نکل جائیں کہ کسی غیر دشمن کو ہمارے خلاف اپنی توانائیاں صرف کرنے کی ضرورت ہی پیش نہ آئے، چند لوگوں کے افعال و کردار کے باعث پوری قوم کا یہ تاثر ابھرنے لگے کہ ہم خود ہی اپنی نسلوں کو اپنی ہی دینی تعلیم سے خوفزدہ کر کے ان سے دور کرنے کے در پے ہیں۔
علم کہ جس کا حاصل کرنا ہمارے مذہب اسلام نے ہر مسلمان پر فرض قرار دیا ہے اور تحقیق' جس کی دعوت قرآن کریم میں بار بار دی گئی ہے کہ عقل والے اللہ تعالیٰ کی نشانیوں پر غور و فکر کر کے اپنے معبود کی شان کا ادراک کر سکیں مگر دنیا جو تعلیم کے میدان میں انتہائی تیزی کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے اس کے مقابل ہم ابھی یہی جاننے سے قاصر ہیں کہ دنیاوی تعلیمات بھی دینی تعلیم ہی کا ایک باب ہیں۔
ہمیں یہ سوچ کر کبھی شرمندگی نہیں ہوتی کہ پاکستان میں اب بھی پانچ سال سے زائد عمر کے ڈیڑھ کروڑ بچے اسکول جانے سے محروم ہیں، اقوام متحدہ کے ادارہ برائے تعلیم، سائنس و ثقافت (یونیسکو) کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں نہ صرف سرکاری بلکہ نجی شعبے کے اسکولوں کا تدریسی معیار اتنا پست ہے کہ پانچویں جماعت کے 36 فیصد طلبہ انگریزی زبان کا ایک عام سا جملہ نہیں پڑھ سکتے۔
اسی طرح عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں تعلیم کا معیار ایسا ہے کہ تیسری جماعت کے صرف اکتالیس فی صد بچے اردو کا جملہ پڑھ پاتے ہیں جب کہ دیہی علاقوں میں تعلیم کے حوالے سے صورت حال کہیں ابتر ہے، 59 فی صد بچے تیسری جماعت میں ہونے کے باوجود اردو کا ایک جملہ بھی مکمل طور پر نہیں پڑھ سکتے، پانچویں جماعت کے 50 فی صد اور آٹھویں جماعت کے 25 فی صد طالب علم اردو زبان میں مختصر کہانی پڑھنے کی بھی اہلیت نہیں رکھتے۔
عالمی سطح پر مختلف ملکوں میں تعلیم، سرمایہ کاری، آزادیِ صحافت اور قانونی کی حکمرانی کے لحاظ سے حال ہی میں مرتب کی گئی ایک سالانہ تقابلی رپورٹ میں پاکستان کا نمبر مغربی ممالک سے ہی نہیں بلکہ جنوبی مشرقی ایشیا کے ملکوں سے بھی بہت نیچے نظر آتا ہے۔ کورنل یونیورسٹی آسٹریلیا اور اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے ورلڈ انٹلیکچوئل پراپرٹی رائٹس کی جانب سے کیے جانے والے مشترکہ گلوبل انوویشن انڈیکس (جی آئی آئی) کے ساتویں سالانہ سروے کے مطابق پاکستان مختلف شعبہ ہائے زندگی میں جنوبی مشرقی ایشیا کے نیپال، بنگلہ دیش اور بھوٹان جیسے چھوٹے ملکوں سے بھی کہیں پیچھے ہے۔
گلوبل انوویشن انڈیکس کی رپورٹ دنیا کی تقریباً ڈیڑھ سو معیشتوں کی ایجاد، اختراع اور ترقی کی صلاحیتوں کے بارے میں ہوتی ہے اور گزشتہ سات برس میں اس سروے یا رپورٹ نے اپنی افادیت کی وجہ سے خاصی اہمیت حاصل کرلی ہے۔ رپورٹ میں تعلیم کے شعبے میں 142 ملکوں کا تقابلی جائزہ پیش کیا گیا ہے جس میں پاکستان کا نمبر 141 واں رہا، پاکستان کو تعلیم جیسے اہم شعبے میں صرف 10.7 نمبر دیے گئے، چین جو اس فہرست میں اول نمبر پر ہے اس کا اسکور 71.3 رہا، تعلیمی کارکردگی میں بھوٹان 71، نیپال 112، سری لنکا 119، انڈیا 128، بنگلہ دیش 134 ویں نمبر پر رہا۔ سیاسی ماحول کے لحاظ سے 143 ملکوں کا جائزہ لیا گیا جس میں ایک مرتبہ پھر پاکستان کا نام فہرست میں 141ویں نمبر پر نظر آیا جب کہ قانون کی حکمرانی کے اعتبار سے پاکستان 143 ملکوں کی فہرست میں 122 ویں نمبر پر رہا۔
سیاسی ماحول اور قانون کی حکمرانی سے تعلیم کا صرف تعلق ہی نہیں بلکہ اسی پر انحصار ہے، کیونکہ قانون کی حکمرانی کا تعلق ملکی سیاست سے ہے، جب سیاسی ماحول مستحکم ہو گا تو ہی قانون کی رٹ مضبوط ہو گی، اگر سیاسی ماحول کرپشن، رشوت، اقربا پروری، مفاد پرستی، خود غرضی، بے جا فوجی مداخلت اور اس جیسے دیگر عوامل کی زد میں رہے گا تو اس کا براہ راست اثر قانون کی حکمرانی قائم کرنے والے اداروں پر پڑے گا جس سے قانون کی رٹ کمزور سے کمزور تر ہوتی چلی جائے گی اور نتیجتا دوسرے شعبے بھی بری طرح متاثر ہوں گے۔
پاکستان میں شعبہ تعلیم کی زبوں حالی کا باعث بھی یہاں کی سیاست اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والا قانون کی حکمرانی کا فقدان ہے، جس کے ذریعے یہاں بیک وقت کئی اقسام کے نظام تعلیم رائج کیے گئے، ایک طرف اردو میڈیم تو دوسری طرف انگلش میڈیم، ایک طرف مذہبی تعلیم تو دوسری جانب عام رسمی تعلیم، پھر ہر صوبے کے اپنے اپنے معیارات اور اس کے ساتھ ستم در ستم یہ کہ تدریسی نظام انگریزی میں ہو تو کسی کو اعتراض نہیں، اگر اردو میں ہو تو اس کے مقابل مقامی زبان لا کھڑی کر دی جائے، کہ یہاں کا پڑھا وہاں کسی کام نہ آ سکے اور وہاں کا پڑھا یہاں۔
قوم پرستی کی آڑ میں اپنے لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کے نام پر تعلیم کے معیار کو نچلے سے نچلے درجے پر لے جا کر غریب کے بچے کو ورکر یا کلرک اور اپنے بچوں کو مہنگے اسکولوں میں معیاری تعلیم دلوا کر لیڈر یا اعلیٰ افسر بننے کی تربیت دلوانا، غریب کے بچے کے لیے مقامی زبان میں تعلیم اور اپنے بچوں کے لیے او لیول اور اے لیول۔
اقوام متحدہ نے تمام ترقی پذیر ممالک کو اپنے جی ڈی پی یعنی قومی شرح پیداوار کا پانچ فیصد تعلیم کے لیے مختص کرنے کی تجویز دی ہے، اکثر و بیشتر ممالک اس تجویز پر عمل پیرا ہیں جب کہ پاکستان نے بھی اس سلسلے میں یقین دہانی کرائی ہے کہ2015ء تک تعلیم کی شرح 87 فیصد تک لے جائی جائے گی۔
یقینا حکومتی کوششیں اگر نیک نیتی کے ساتھ کی گئیں تو شرح خواندگی میں اضافہ ہو جائے گا مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ صرف ایک جملہ صحیح یا غلط پڑھ لینے والوں کی تعداد بڑھانے سے کیا ہم ترقی کی منازل طے کر لیں گے؟
ترقی کی منازل طے کرنا ہیں تو سب سے پہلے ملک بھر میں تمام طلبہ کے لیے یکساں نظام تعلیم رائج کرنا ہو گا، عالمی بینک سے بارہ ارب ڈالر کا قرض معاشی ترقی کے لیے نہیں بلکہ تعلیمی ترقی کے لیے لینا اور پھر واقعی اس پر خرچ بھی کرنا ہو گا، اور سب سے زیادہ اہم یہ کہ شعبہ تعلیم اور اس سے وابستہ تمام اداروں سے کالی بھیڑوں کو خصوصی قانون سازی کے ذریعے نشان عبرت بنانا ہو گا۔
مگر یہ کرے گا کون؟ جن کے ہاتھ میں یہ سب کچھ ہے وہی تو ہمارے سوداگر بنے ہوئے ہیں۔
معمولی نفسانی خواہشات کی تکمیل کے لیے اپنا ننگ و نام، اپنا دین و مذہب سب کچھ بہت ہی کم داموں کے عوض فروخت کر کے ان نام نہاد رہبروں نے سب سے پہلے ہمارے تعلیمی نظام پر حملہ کیا، اسے تباہ و برباد کر دیا یا اسے پنپنے ہی نہیں دیا اور یا پھر اسے غلط سمت پر ڈال دیا تا کہ جہالت کے اندھیروں میں اندھے ہو کر ہم اخلاقی پستی کی ہر حد کو چھو جائیں اور انھی کی طرح بے ضمیر بن کر اسلام دشمن قوتوں کے خلاف جہاد کے نام پر اپنے ہی کلمہ گو بھائیوں کا قتل عام شروع کر دیں، یا منافرت کے فروغ اور ترغیب میں اتنے آگے نکل جائیں کہ کسی غیر دشمن کو ہمارے خلاف اپنی توانائیاں صرف کرنے کی ضرورت ہی پیش نہ آئے، چند لوگوں کے افعال و کردار کے باعث پوری قوم کا یہ تاثر ابھرنے لگے کہ ہم خود ہی اپنی نسلوں کو اپنی ہی دینی تعلیم سے خوفزدہ کر کے ان سے دور کرنے کے در پے ہیں۔
علم کہ جس کا حاصل کرنا ہمارے مذہب اسلام نے ہر مسلمان پر فرض قرار دیا ہے اور تحقیق' جس کی دعوت قرآن کریم میں بار بار دی گئی ہے کہ عقل والے اللہ تعالیٰ کی نشانیوں پر غور و فکر کر کے اپنے معبود کی شان کا ادراک کر سکیں مگر دنیا جو تعلیم کے میدان میں انتہائی تیزی کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے اس کے مقابل ہم ابھی یہی جاننے سے قاصر ہیں کہ دنیاوی تعلیمات بھی دینی تعلیم ہی کا ایک باب ہیں۔
ہمیں یہ سوچ کر کبھی شرمندگی نہیں ہوتی کہ پاکستان میں اب بھی پانچ سال سے زائد عمر کے ڈیڑھ کروڑ بچے اسکول جانے سے محروم ہیں، اقوام متحدہ کے ادارہ برائے تعلیم، سائنس و ثقافت (یونیسکو) کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں نہ صرف سرکاری بلکہ نجی شعبے کے اسکولوں کا تدریسی معیار اتنا پست ہے کہ پانچویں جماعت کے 36 فیصد طلبہ انگریزی زبان کا ایک عام سا جملہ نہیں پڑھ سکتے۔
اسی طرح عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں تعلیم کا معیار ایسا ہے کہ تیسری جماعت کے صرف اکتالیس فی صد بچے اردو کا جملہ پڑھ پاتے ہیں جب کہ دیہی علاقوں میں تعلیم کے حوالے سے صورت حال کہیں ابتر ہے، 59 فی صد بچے تیسری جماعت میں ہونے کے باوجود اردو کا ایک جملہ بھی مکمل طور پر نہیں پڑھ سکتے، پانچویں جماعت کے 50 فی صد اور آٹھویں جماعت کے 25 فی صد طالب علم اردو زبان میں مختصر کہانی پڑھنے کی بھی اہلیت نہیں رکھتے۔
عالمی سطح پر مختلف ملکوں میں تعلیم، سرمایہ کاری، آزادیِ صحافت اور قانونی کی حکمرانی کے لحاظ سے حال ہی میں مرتب کی گئی ایک سالانہ تقابلی رپورٹ میں پاکستان کا نمبر مغربی ممالک سے ہی نہیں بلکہ جنوبی مشرقی ایشیا کے ملکوں سے بھی بہت نیچے نظر آتا ہے۔ کورنل یونیورسٹی آسٹریلیا اور اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے ورلڈ انٹلیکچوئل پراپرٹی رائٹس کی جانب سے کیے جانے والے مشترکہ گلوبل انوویشن انڈیکس (جی آئی آئی) کے ساتویں سالانہ سروے کے مطابق پاکستان مختلف شعبہ ہائے زندگی میں جنوبی مشرقی ایشیا کے نیپال، بنگلہ دیش اور بھوٹان جیسے چھوٹے ملکوں سے بھی کہیں پیچھے ہے۔
گلوبل انوویشن انڈیکس کی رپورٹ دنیا کی تقریباً ڈیڑھ سو معیشتوں کی ایجاد، اختراع اور ترقی کی صلاحیتوں کے بارے میں ہوتی ہے اور گزشتہ سات برس میں اس سروے یا رپورٹ نے اپنی افادیت کی وجہ سے خاصی اہمیت حاصل کرلی ہے۔ رپورٹ میں تعلیم کے شعبے میں 142 ملکوں کا تقابلی جائزہ پیش کیا گیا ہے جس میں پاکستان کا نمبر 141 واں رہا، پاکستان کو تعلیم جیسے اہم شعبے میں صرف 10.7 نمبر دیے گئے، چین جو اس فہرست میں اول نمبر پر ہے اس کا اسکور 71.3 رہا، تعلیمی کارکردگی میں بھوٹان 71، نیپال 112، سری لنکا 119، انڈیا 128، بنگلہ دیش 134 ویں نمبر پر رہا۔ سیاسی ماحول کے لحاظ سے 143 ملکوں کا جائزہ لیا گیا جس میں ایک مرتبہ پھر پاکستان کا نام فہرست میں 141ویں نمبر پر نظر آیا جب کہ قانون کی حکمرانی کے اعتبار سے پاکستان 143 ملکوں کی فہرست میں 122 ویں نمبر پر رہا۔
سیاسی ماحول اور قانون کی حکمرانی سے تعلیم کا صرف تعلق ہی نہیں بلکہ اسی پر انحصار ہے، کیونکہ قانون کی حکمرانی کا تعلق ملکی سیاست سے ہے، جب سیاسی ماحول مستحکم ہو گا تو ہی قانون کی رٹ مضبوط ہو گی، اگر سیاسی ماحول کرپشن، رشوت، اقربا پروری، مفاد پرستی، خود غرضی، بے جا فوجی مداخلت اور اس جیسے دیگر عوامل کی زد میں رہے گا تو اس کا براہ راست اثر قانون کی حکمرانی قائم کرنے والے اداروں پر پڑے گا جس سے قانون کی رٹ کمزور سے کمزور تر ہوتی چلی جائے گی اور نتیجتا دوسرے شعبے بھی بری طرح متاثر ہوں گے۔
پاکستان میں شعبہ تعلیم کی زبوں حالی کا باعث بھی یہاں کی سیاست اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والا قانون کی حکمرانی کا فقدان ہے، جس کے ذریعے یہاں بیک وقت کئی اقسام کے نظام تعلیم رائج کیے گئے، ایک طرف اردو میڈیم تو دوسری طرف انگلش میڈیم، ایک طرف مذہبی تعلیم تو دوسری جانب عام رسمی تعلیم، پھر ہر صوبے کے اپنے اپنے معیارات اور اس کے ساتھ ستم در ستم یہ کہ تدریسی نظام انگریزی میں ہو تو کسی کو اعتراض نہیں، اگر اردو میں ہو تو اس کے مقابل مقامی زبان لا کھڑی کر دی جائے، کہ یہاں کا پڑھا وہاں کسی کام نہ آ سکے اور وہاں کا پڑھا یہاں۔
قوم پرستی کی آڑ میں اپنے لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کے نام پر تعلیم کے معیار کو نچلے سے نچلے درجے پر لے جا کر غریب کے بچے کو ورکر یا کلرک اور اپنے بچوں کو مہنگے اسکولوں میں معیاری تعلیم دلوا کر لیڈر یا اعلیٰ افسر بننے کی تربیت دلوانا، غریب کے بچے کے لیے مقامی زبان میں تعلیم اور اپنے بچوں کے لیے او لیول اور اے لیول۔
اقوام متحدہ نے تمام ترقی پذیر ممالک کو اپنے جی ڈی پی یعنی قومی شرح پیداوار کا پانچ فیصد تعلیم کے لیے مختص کرنے کی تجویز دی ہے، اکثر و بیشتر ممالک اس تجویز پر عمل پیرا ہیں جب کہ پاکستان نے بھی اس سلسلے میں یقین دہانی کرائی ہے کہ2015ء تک تعلیم کی شرح 87 فیصد تک لے جائی جائے گی۔
یقینا حکومتی کوششیں اگر نیک نیتی کے ساتھ کی گئیں تو شرح خواندگی میں اضافہ ہو جائے گا مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ صرف ایک جملہ صحیح یا غلط پڑھ لینے والوں کی تعداد بڑھانے سے کیا ہم ترقی کی منازل طے کر لیں گے؟
ترقی کی منازل طے کرنا ہیں تو سب سے پہلے ملک بھر میں تمام طلبہ کے لیے یکساں نظام تعلیم رائج کرنا ہو گا، عالمی بینک سے بارہ ارب ڈالر کا قرض معاشی ترقی کے لیے نہیں بلکہ تعلیمی ترقی کے لیے لینا اور پھر واقعی اس پر خرچ بھی کرنا ہو گا، اور سب سے زیادہ اہم یہ کہ شعبہ تعلیم اور اس سے وابستہ تمام اداروں سے کالی بھیڑوں کو خصوصی قانون سازی کے ذریعے نشان عبرت بنانا ہو گا۔
مگر یہ کرے گا کون؟ جن کے ہاتھ میں یہ سب کچھ ہے وہی تو ہمارے سوداگر بنے ہوئے ہیں۔