سامری جادوگر
آپ اپنے اردگرد نظر دوڑائیے۔...
HYDERABAD:
پاکستان کی حقیقت میں آبادی کتنی ہے۔ کوئی نہیں جانتا۔ اٹھارہ کروڑ سے سے اکیس کروڑ تک کے تخمینہ کی کیا بنیاد ہے۔ کسی کو کچھ پتہ نہیں۔ مگر ہماری آبادی جتنی بھی ہو، اس کا تیس سے چالیس فیصد حصہ شدید ذہنی بیماریوں کا شکار ہے۔ ہمارے ملک میں تین سے چار کروڑ لوگ مختلف نوعیت کے دماغی امراض کا شکار ہو چکے ہیں۔
تشویشناک بات یہ ہے کہ ڈیڑھ سے دو کروڑ کے قریب افراد کو فوری علاج کی ضرورت ہے جسکے لیے انھیں مخصوص نوعیت کے اسپتالوں میں داخل کروانا چاہیے۔ مگر ہمارے پاس ذہنی امراض کے علاج کے لیے اسپتال شرمناک حد تک کم ہیں۔ شائد پورے ملک میں چار یا پانچ سرکاری اسپتال ایسے ہیں جو صرف اس نوعیت کے مریضوں کے لیے مختص ہوں۔ اب آپ ذرا ڈاکٹروں اور سائیکولجسٹ حضرات پر نظر دوڑائیے۔ چالیس پچاس ہزار پر صرف ایک ڈاکٹر ایسا ہے جو ان بیماریوں کو سمجھ کر کوئی طبی مشورہ دے سکتا ہے۔ بچوں کے لیے یہ تعداد اور بھی تشویشناک ہے۔
ذہنی مریضوں کی تعداد میں ہر منٹ اور ہر پل اضافہ ہو رہا ہے۔ ہر تیسرے یا چوتھے گھر میں کوئی نہ کوئی شخص موجود ہے جو موذی امراض کی گرفت میں آ چکا ہے۔ وہم، ڈپریشن، دورے، ہسٹریا اور مختلف ذہنی بیماریاں ہر جگہ سر اٹھائے لوگوں کی زندگی اجیرن بنانے کے لیے موجود ہیں۔ مگر قدرت کا ایک عجیب انصاف ہے۔ ان بیماریوں کی تقسیم امیر اور غریب طبقے، دونوں میں تقریباً ایک جیسی ہے۔ ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کی تقسیم بھی مکمل طور پر بے معنی ہے۔
دنیا میں صرف ڈپریشن کے مریضوں کی تعداد 35 کروڑ کے قریب ہے۔ ان کی اکثریت ترقی یافتہ ممالک میں بستی ہے۔ مگر ان کے اور ہمارے رویوں بہت فرق ہے۔ وہاں اسکو بیماری سمجھ کر علاج کیا جاتا ہے۔ علاج کے لیے ماہر ڈاکٹر موجود ہیں۔ ہمارے معاشرہ میں ان امراض کو ہر ایک سے چھپایا جاتا ہے۔ اگر گھر میں کوئی فرد ذہنی بیماری کا شکار ہو جائے تو اسے ہر ایک کی نظروں سے پوشیدہ رکھنے کی مکمل کوشش کی جاتی ہے۔ ہمیں قطعاً احساس نہیں ہوتا کہ ہمارے اس رویے سے ہمارے ایک قریبی عزیز کو انتہا درجہ کا نقصان ہو رہا ہے۔ ہمارے ملک میں ذہنی امراض کے لیے500 سے بھی کم ڈاکٹر موجود ہیں۔ W.H.O کی" ذہنی صحت کی اٹلس" کے مطابق ان کی تعداد صرف 419 ہے۔ تربیت یافتہ سائیکولجسٹ بھی محض 480 ہیں۔
ایک المیہ یہ بھی ہے کہ مستند ڈاکٹروں کی غیر موجودگی میں ایک پورا طبقہ وجود میں آ چکا ہے جو لوگوں کی زندگیوں اور مالی وسائل سے کھیل رہا ہے۔ ہمارے ہر شہر اور دیہات میں اَن گنت پیر، فقیر، درویش، جادوگر، عامل اور جعلی بزرگ موجود ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ان کی تعداد پانچ سے چھ لاکھ کے قریب ہے۔ ان کے اشتہارات موبائل فون نمبر، تصاویر اور کرشمات کی کہانیاں کوچہ کوچہ، قریہ قریہ موجود ہیں۔ یہ ٹی وی پر سرِ عام اپنے اشتہارات دیتے ہیں اور ہر طرح کے مسئلے کو منٹوں میں ٹھیک کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ان کی نظر ہمیشہ اپنے مریضوں کی جیب پر رہتی ہے۔ یہ اپنے مریضوں سے ہر طرح کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں معصوم لوگ ان لوگوں کی بربریت کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔ مگر ان ظالموں کو ان جرائم کی سزا دینے والا کوئی نہیں ہے۔
سید انتظار شاہ ایک عامل بابا ہے۔ وہ لاہور کے نزدیک ایک چھوٹی سی بستی میں رہتا ہے۔ یہ اس کی آبائی بستی ہے۔ اس کے والد اور دادا بھی یہیں رہتے تھے اور لوگوں کا روحانی علاج کرتے تھے۔ اس کا دعوی ہے کہ وہ کالے علم کو منٹوں میں ختم کر دیتا ہے۔ وہ جادو کی کاٹ کرتا ہے اور آپ کو نظر بد سے بچاتا ہے۔ اس کا گھر تنگ اور پیچیدہ گلیوں کے بعد آتا ہے۔ کمرے میں ہر طرف اس کی بڑی بڑی رنگین تصویریں لگی ہوئیں ہیں۔ اکثر تصاویر میں اس نے مختلف سائز کے سانپ اپنے گلے میں ڈال رکھے ہیں۔
ایک تصویر میں اس نے ایک مہیب الو اپنے ہاتھوں میں پکڑ رکھا ہے۔ الو کی لال آنکھیں کیمرے کی طرف مرکوز ہیں۔ ایک برطانوی محقق چار ماہ پاکستان قیام پذیر رہا۔ اس نے اس طرح کے لاتعداد عاملوں کے انٹرویو کیے۔ ان سے گھنٹوں باتیں کیں۔ ان کے علاج معالجے کے طریقۂ کار پر ریسرچ کی۔ اس کی رپورٹ بڑی غیر جانبدار اور فکر انگیز ہے۔ جب یہ انگریز سائنسدان سید انتظار شاہ کو ملنے کے لیے اس کے گھر پہنچا تو اس کا پہلا سوال تھا کہ آپ کیا کرتے ہیں اور کیسے کرتے ہیں؟
معمول کے مطابق شاہ صاحب نے تمام باتیں کرنے کے بھی معقول پیسے لیے۔ اس کے بقول وہ ایک پیر اور روحانی ڈاکٹر ہے۔ اس کی کوئی تعلیم نہیں ہے۔ اس نے تمام علم اپنے بزرگوں سے حاصل کیا ہے۔ اس علم کی حقیقت اور اصلیت کیا ہے، ان تمام سوالات کا شاہ صاحب کے پاس کوئی جواب نہیں۔ وہ اپنے مہمان یا مریض سے اس کے دشمن کا نام دریافت کرتا تھا۔ اس کے بعد ایک کاغذ پر نقش بنا کر اس شخص کا نام لکھ لیتا تھا۔ شاہ صاحب کی بیٹھک کے ساتھ ایک تاریک کمرہ تھا۔ وہ اپنے مریض کو وہاں لیجاتا تھا۔ وہاں ایک پلاسٹک کی بالٹی موجود رہتی تھی۔ اس میں پھنکارتے ہوئے اَن گنت سانپ موجود تھے۔
محقق کے سامنے شاہ صاحب نے ایک چھوٹا سا سانپ اٹھایا۔ اس کا منہ اپنے دانتوں میں لے لیا۔ اس کے بقول اس کے پاس ایک ایسا علم ہے جس سے سانپ کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ مگر اصلیت میں ان تمام سانپوں کا زہر پہلے ہی نکال لیا گیا تھا۔ یہ بے ضرر کیڑے سے زیادہ کچھ نہیں تھے۔ مگر اپنے دشمن کو کیفر کردار تک پہچانے کا جنون مریض پر حاوی ہوتا ہے۔ شاہ صاحب نے پہلے سے تیار شدہ نقش جس پر دشمن کا نام لکھا تھا، گوشت میں شامل کر کے سانپ کو کھلا دیا۔ اس کے بعد اس سانپ کو مریض کے حوالے کر دیا گیا۔ حکم دیا گیا کہ سانپ کو نزدیکی تالاب میں ڈبو دے۔ جیسے ہی یہ سانپ پانی میں جائے گا اس کا دشمن ایک ایسے لاعلاج مرض کا شکار ہو جائے گا جس سے وہ چند ہفتوں ہی میں دنیا سے کوچ کر جائے گا۔ اس عمل کی قیمت بیس ہزار روپیہ تھی۔
مریض اپنی غربت کے باوجود شاہ صاحب کو پیسے دیتے تھے۔ مگر اس انگریز محقق نے ایک بہت عجیب حرکت کی۔ وہ شاہ صاحب کے گھر کے نزدیک تالاب پر جا کر بیٹھ گیا۔ اس اثنا میں دو افراد سانپ لے کر پانی میں چھوڑنے کے لیے آئے۔ وہ سانپ کو پانی میں ڈال کر بھاگ جاتے تھے۔ وہ تمام سانپ تربیت یافتہ اور پالتو تھے۔ وہ پانچ دس منٹ کے بعد جوہڑ سے نکل کر آرام سے شاہ صاحب کے گھر چلے جاتے تھے۔ وہاں انھیں بہت اہتمام سے ٹوکری میں منتقل کر دیا جاتا تھا۔ شاہ صاحب اپنے عمل سے سیکڑوں لوگوں کو کامیابی سے بیوقوف بنا رہے تھے۔ یہ کاروبار آج بھی جاری ہے۔
آپ اپنے اردگرد نظر دوڑائیے۔ آپکو ان عاملوں، پیر، فقیروں اور درویشوں کے ایسے انہونے واقعات ملیں گے، کہ آپ حیران رہ جائینگے۔ صادق لندن سے پڑھ کر پاکستان آیا تھا۔ اس نے کئی کاروبار کرنے کی بھر پور کوشش کی۔ بدقسمتی سے ہر کاروبار میں نقصان اٹھاتا رہا۔ والدہ نے اسکو بتایا کہ اس پر کسی نے کالا جادو کروا دیا ہے اور اس کی کاٹ ضروری ہے۔ صادق کو اس توہم پرستی پر کوئی اعتماد نہیں تھا۔ والدہ کے مجبور کرنے پر وہ ملتان کے ایک بابے کے پاس چلا گیا۔ بابے نے حکم دیا کہ اسے کالے جادو سے بچائو اور کاٹ کے لیے ہر ہفتہ ملتان آنا پڑیگا۔ اس عمل کا دورانیہ سات ہفتہ کے لگ بھگ ہوگا۔
صادق سات ہفتوں تک اس عامل کے پاس حاضری دیتا رہا۔ ایک دن اسے حکم دیا گیا کہ رات کو نزدیکی قبرستان میں جانا ہے۔ رات ایک بجے عامل کے ساتھ وہ قبرستان پہنچا۔ وہاں ایک خالی قبر موجود تھی۔ صادق کو اس قبر میں لیٹنے کا حکم دیا گیا۔ وہ ایک گھنٹہ اس قبر میں لیٹا رہا۔ عامل قبر کے نزدیک زور زور سے کچھ پڑھتا رہا۔ وہ زمین سے گرد اٹھاتا تھا اور صادق کے نزدیک پھینک دیتا تھا۔ اس کے بعد صادق کو قبر سے باہر نکلنے کا حکم ملا۔
عامل نے اسے بتایا کہ اپنے عمل سے اس نے کالے جادو کی کاٹ بھی کر ڈالی ہے اور اسے ہر طرح کی آنے والی مصیبت سے محفوظ بھی کر دیا ہے۔ عامل نے صادق کو یقین دلایا کہ اب اس کا کاروبار چمکے گا۔ وہ مٹی کو بھی ہاتھ ڈالے گا تو وہ سونا بن جائے گی۔ اس عمل کے صادق نے پچاس ہزار روپے دیے تھے۔ عامل کے ڈیرے سے شہر آتے ہوئے اسی رات صادق کی گاڑی کا ٹرک کے ساتھ ایکسیڈنٹ ہوا۔ نشتر اسپتال پہنچتے پہنچتے وہ اس دنیا سے رخصت ہو چکا تھا۔ آگے لکھنا عبث ہے۔
ہماری خواتین کی نفسیات کا یہ لوگ جس طرح فائدہ اٹھاتے ہیں، وہ اور بھی المناک پہلو ہے۔ ساس بہو کی لڑائی ختم کرنے کی خواہش، مناسب رشتہ ہونے میں دیر، شوہر کو مکمل اپنی مٹھی میں کرنے کی ترکیب، نرینہ اولاد کی خواہش اور اپنے دیگر مسائل حل کرتی کرتی ہماری اکثر خواتین مختلف شخصی حادثات کا شکار ہو جاتی ہیں۔ ان کے ساتھ جو کچھ بیتتا ہے، کئی بار تو وہ بتانے سے بھی قاصر ہوتی ہیں۔ عجیب اَمر یہ ہے کہ پڑھی لکھی اور اَن پڑھ خواتین کے اس سماجی رویے میں کوئی فرق نہیں ہے۔ خواتین ہی کیا معاشرہ کا ہر طبقہ خواہ وہ سیاستدان، کاروباری، نوکری پیشہ، سول یا فوجی افسر ہوں، نجومیوں اور عاملوں کے ہاتھوں لٹ رہا ہے۔ ہمارے کئی وزراء اعظم، وزراء اعلیٰ اور صدور جادوگروں اور عاملوں کو مسلسل اپنے پاس رکھتے رہے ہیں تا کہ ان کا دور اقتدار طویل سے طویل ترین ہو جائے۔
ہمارے معاشرہ میں انصاف یا میرٹ کی مکمل عدم موجودگی لوگوں کی الجھنوں میں حد درجہ اضافہ کر چکی ہے۔ کشمکش ِمعاش، پاگل پن کی حد تک بڑھتی ہوئی سیاسی اور سماجی کھینچا تانی سے لوگوں میں ذہنی بیماریاں بڑھ رہی ہیں۔67 سال سے ظالم عامل اور بابے ہمارے شہریوں کو برباد کر رہے ہیں۔
یہ جادوگر اپنے عمل سے کسی کا مقدر ٹھیک نہیں کر سکتے! وہ صرف خدائی کام ہے۔ مگر میں کافی عرصے سے ایک مہاجادوگر کی تلاش میں ہوں۔ جو صرف چھڑی گھمائے اور ہمارے ملک کے حالات درست ہو جائیں! وہ کوئی منتر پڑھے اور ہمارے ملک میں ہر شہری کو باعزت روزگار ملنا شروع ہو جائے! وہ عمل کرے اور ہمارے بے بس لوگوں کو میرٹ اور انصاف کا گمشدہ خزانہ مل جائے! پر نہیں! یہ کام تو صرف اور صرف سامری جادوگر ہی کر سکتا ہے! شائد ہمارے ملک کے مقدر میں کوئی نیک اور باعزت عامل یا بزرگ نہیں ہے! شائد ہمارے معاملات ٹھیک کرنے والا سامری جادوگر ابھی پیدا ہی نہیں ہوا؟
پاکستان کی حقیقت میں آبادی کتنی ہے۔ کوئی نہیں جانتا۔ اٹھارہ کروڑ سے سے اکیس کروڑ تک کے تخمینہ کی کیا بنیاد ہے۔ کسی کو کچھ پتہ نہیں۔ مگر ہماری آبادی جتنی بھی ہو، اس کا تیس سے چالیس فیصد حصہ شدید ذہنی بیماریوں کا شکار ہے۔ ہمارے ملک میں تین سے چار کروڑ لوگ مختلف نوعیت کے دماغی امراض کا شکار ہو چکے ہیں۔
تشویشناک بات یہ ہے کہ ڈیڑھ سے دو کروڑ کے قریب افراد کو فوری علاج کی ضرورت ہے جسکے لیے انھیں مخصوص نوعیت کے اسپتالوں میں داخل کروانا چاہیے۔ مگر ہمارے پاس ذہنی امراض کے علاج کے لیے اسپتال شرمناک حد تک کم ہیں۔ شائد پورے ملک میں چار یا پانچ سرکاری اسپتال ایسے ہیں جو صرف اس نوعیت کے مریضوں کے لیے مختص ہوں۔ اب آپ ذرا ڈاکٹروں اور سائیکولجسٹ حضرات پر نظر دوڑائیے۔ چالیس پچاس ہزار پر صرف ایک ڈاکٹر ایسا ہے جو ان بیماریوں کو سمجھ کر کوئی طبی مشورہ دے سکتا ہے۔ بچوں کے لیے یہ تعداد اور بھی تشویشناک ہے۔
ذہنی مریضوں کی تعداد میں ہر منٹ اور ہر پل اضافہ ہو رہا ہے۔ ہر تیسرے یا چوتھے گھر میں کوئی نہ کوئی شخص موجود ہے جو موذی امراض کی گرفت میں آ چکا ہے۔ وہم، ڈپریشن، دورے، ہسٹریا اور مختلف ذہنی بیماریاں ہر جگہ سر اٹھائے لوگوں کی زندگی اجیرن بنانے کے لیے موجود ہیں۔ مگر قدرت کا ایک عجیب انصاف ہے۔ ان بیماریوں کی تقسیم امیر اور غریب طبقے، دونوں میں تقریباً ایک جیسی ہے۔ ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کی تقسیم بھی مکمل طور پر بے معنی ہے۔
دنیا میں صرف ڈپریشن کے مریضوں کی تعداد 35 کروڑ کے قریب ہے۔ ان کی اکثریت ترقی یافتہ ممالک میں بستی ہے۔ مگر ان کے اور ہمارے رویوں بہت فرق ہے۔ وہاں اسکو بیماری سمجھ کر علاج کیا جاتا ہے۔ علاج کے لیے ماہر ڈاکٹر موجود ہیں۔ ہمارے معاشرہ میں ان امراض کو ہر ایک سے چھپایا جاتا ہے۔ اگر گھر میں کوئی فرد ذہنی بیماری کا شکار ہو جائے تو اسے ہر ایک کی نظروں سے پوشیدہ رکھنے کی مکمل کوشش کی جاتی ہے۔ ہمیں قطعاً احساس نہیں ہوتا کہ ہمارے اس رویے سے ہمارے ایک قریبی عزیز کو انتہا درجہ کا نقصان ہو رہا ہے۔ ہمارے ملک میں ذہنی امراض کے لیے500 سے بھی کم ڈاکٹر موجود ہیں۔ W.H.O کی" ذہنی صحت کی اٹلس" کے مطابق ان کی تعداد صرف 419 ہے۔ تربیت یافتہ سائیکولجسٹ بھی محض 480 ہیں۔
ایک المیہ یہ بھی ہے کہ مستند ڈاکٹروں کی غیر موجودگی میں ایک پورا طبقہ وجود میں آ چکا ہے جو لوگوں کی زندگیوں اور مالی وسائل سے کھیل رہا ہے۔ ہمارے ہر شہر اور دیہات میں اَن گنت پیر، فقیر، درویش، جادوگر، عامل اور جعلی بزرگ موجود ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ان کی تعداد پانچ سے چھ لاکھ کے قریب ہے۔ ان کے اشتہارات موبائل فون نمبر، تصاویر اور کرشمات کی کہانیاں کوچہ کوچہ، قریہ قریہ موجود ہیں۔ یہ ٹی وی پر سرِ عام اپنے اشتہارات دیتے ہیں اور ہر طرح کے مسئلے کو منٹوں میں ٹھیک کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ان کی نظر ہمیشہ اپنے مریضوں کی جیب پر رہتی ہے۔ یہ اپنے مریضوں سے ہر طرح کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں معصوم لوگ ان لوگوں کی بربریت کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔ مگر ان ظالموں کو ان جرائم کی سزا دینے والا کوئی نہیں ہے۔
سید انتظار شاہ ایک عامل بابا ہے۔ وہ لاہور کے نزدیک ایک چھوٹی سی بستی میں رہتا ہے۔ یہ اس کی آبائی بستی ہے۔ اس کے والد اور دادا بھی یہیں رہتے تھے اور لوگوں کا روحانی علاج کرتے تھے۔ اس کا دعوی ہے کہ وہ کالے علم کو منٹوں میں ختم کر دیتا ہے۔ وہ جادو کی کاٹ کرتا ہے اور آپ کو نظر بد سے بچاتا ہے۔ اس کا گھر تنگ اور پیچیدہ گلیوں کے بعد آتا ہے۔ کمرے میں ہر طرف اس کی بڑی بڑی رنگین تصویریں لگی ہوئیں ہیں۔ اکثر تصاویر میں اس نے مختلف سائز کے سانپ اپنے گلے میں ڈال رکھے ہیں۔
ایک تصویر میں اس نے ایک مہیب الو اپنے ہاتھوں میں پکڑ رکھا ہے۔ الو کی لال آنکھیں کیمرے کی طرف مرکوز ہیں۔ ایک برطانوی محقق چار ماہ پاکستان قیام پذیر رہا۔ اس نے اس طرح کے لاتعداد عاملوں کے انٹرویو کیے۔ ان سے گھنٹوں باتیں کیں۔ ان کے علاج معالجے کے طریقۂ کار پر ریسرچ کی۔ اس کی رپورٹ بڑی غیر جانبدار اور فکر انگیز ہے۔ جب یہ انگریز سائنسدان سید انتظار شاہ کو ملنے کے لیے اس کے گھر پہنچا تو اس کا پہلا سوال تھا کہ آپ کیا کرتے ہیں اور کیسے کرتے ہیں؟
معمول کے مطابق شاہ صاحب نے تمام باتیں کرنے کے بھی معقول پیسے لیے۔ اس کے بقول وہ ایک پیر اور روحانی ڈاکٹر ہے۔ اس کی کوئی تعلیم نہیں ہے۔ اس نے تمام علم اپنے بزرگوں سے حاصل کیا ہے۔ اس علم کی حقیقت اور اصلیت کیا ہے، ان تمام سوالات کا شاہ صاحب کے پاس کوئی جواب نہیں۔ وہ اپنے مہمان یا مریض سے اس کے دشمن کا نام دریافت کرتا تھا۔ اس کے بعد ایک کاغذ پر نقش بنا کر اس شخص کا نام لکھ لیتا تھا۔ شاہ صاحب کی بیٹھک کے ساتھ ایک تاریک کمرہ تھا۔ وہ اپنے مریض کو وہاں لیجاتا تھا۔ وہاں ایک پلاسٹک کی بالٹی موجود رہتی تھی۔ اس میں پھنکارتے ہوئے اَن گنت سانپ موجود تھے۔
محقق کے سامنے شاہ صاحب نے ایک چھوٹا سا سانپ اٹھایا۔ اس کا منہ اپنے دانتوں میں لے لیا۔ اس کے بقول اس کے پاس ایک ایسا علم ہے جس سے سانپ کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ مگر اصلیت میں ان تمام سانپوں کا زہر پہلے ہی نکال لیا گیا تھا۔ یہ بے ضرر کیڑے سے زیادہ کچھ نہیں تھے۔ مگر اپنے دشمن کو کیفر کردار تک پہچانے کا جنون مریض پر حاوی ہوتا ہے۔ شاہ صاحب نے پہلے سے تیار شدہ نقش جس پر دشمن کا نام لکھا تھا، گوشت میں شامل کر کے سانپ کو کھلا دیا۔ اس کے بعد اس سانپ کو مریض کے حوالے کر دیا گیا۔ حکم دیا گیا کہ سانپ کو نزدیکی تالاب میں ڈبو دے۔ جیسے ہی یہ سانپ پانی میں جائے گا اس کا دشمن ایک ایسے لاعلاج مرض کا شکار ہو جائے گا جس سے وہ چند ہفتوں ہی میں دنیا سے کوچ کر جائے گا۔ اس عمل کی قیمت بیس ہزار روپیہ تھی۔
مریض اپنی غربت کے باوجود شاہ صاحب کو پیسے دیتے تھے۔ مگر اس انگریز محقق نے ایک بہت عجیب حرکت کی۔ وہ شاہ صاحب کے گھر کے نزدیک تالاب پر جا کر بیٹھ گیا۔ اس اثنا میں دو افراد سانپ لے کر پانی میں چھوڑنے کے لیے آئے۔ وہ سانپ کو پانی میں ڈال کر بھاگ جاتے تھے۔ وہ تمام سانپ تربیت یافتہ اور پالتو تھے۔ وہ پانچ دس منٹ کے بعد جوہڑ سے نکل کر آرام سے شاہ صاحب کے گھر چلے جاتے تھے۔ وہاں انھیں بہت اہتمام سے ٹوکری میں منتقل کر دیا جاتا تھا۔ شاہ صاحب اپنے عمل سے سیکڑوں لوگوں کو کامیابی سے بیوقوف بنا رہے تھے۔ یہ کاروبار آج بھی جاری ہے۔
آپ اپنے اردگرد نظر دوڑائیے۔ آپکو ان عاملوں، پیر، فقیروں اور درویشوں کے ایسے انہونے واقعات ملیں گے، کہ آپ حیران رہ جائینگے۔ صادق لندن سے پڑھ کر پاکستان آیا تھا۔ اس نے کئی کاروبار کرنے کی بھر پور کوشش کی۔ بدقسمتی سے ہر کاروبار میں نقصان اٹھاتا رہا۔ والدہ نے اسکو بتایا کہ اس پر کسی نے کالا جادو کروا دیا ہے اور اس کی کاٹ ضروری ہے۔ صادق کو اس توہم پرستی پر کوئی اعتماد نہیں تھا۔ والدہ کے مجبور کرنے پر وہ ملتان کے ایک بابے کے پاس چلا گیا۔ بابے نے حکم دیا کہ اسے کالے جادو سے بچائو اور کاٹ کے لیے ہر ہفتہ ملتان آنا پڑیگا۔ اس عمل کا دورانیہ سات ہفتہ کے لگ بھگ ہوگا۔
صادق سات ہفتوں تک اس عامل کے پاس حاضری دیتا رہا۔ ایک دن اسے حکم دیا گیا کہ رات کو نزدیکی قبرستان میں جانا ہے۔ رات ایک بجے عامل کے ساتھ وہ قبرستان پہنچا۔ وہاں ایک خالی قبر موجود تھی۔ صادق کو اس قبر میں لیٹنے کا حکم دیا گیا۔ وہ ایک گھنٹہ اس قبر میں لیٹا رہا۔ عامل قبر کے نزدیک زور زور سے کچھ پڑھتا رہا۔ وہ زمین سے گرد اٹھاتا تھا اور صادق کے نزدیک پھینک دیتا تھا۔ اس کے بعد صادق کو قبر سے باہر نکلنے کا حکم ملا۔
عامل نے اسے بتایا کہ اپنے عمل سے اس نے کالے جادو کی کاٹ بھی کر ڈالی ہے اور اسے ہر طرح کی آنے والی مصیبت سے محفوظ بھی کر دیا ہے۔ عامل نے صادق کو یقین دلایا کہ اب اس کا کاروبار چمکے گا۔ وہ مٹی کو بھی ہاتھ ڈالے گا تو وہ سونا بن جائے گی۔ اس عمل کے صادق نے پچاس ہزار روپے دیے تھے۔ عامل کے ڈیرے سے شہر آتے ہوئے اسی رات صادق کی گاڑی کا ٹرک کے ساتھ ایکسیڈنٹ ہوا۔ نشتر اسپتال پہنچتے پہنچتے وہ اس دنیا سے رخصت ہو چکا تھا۔ آگے لکھنا عبث ہے۔
ہماری خواتین کی نفسیات کا یہ لوگ جس طرح فائدہ اٹھاتے ہیں، وہ اور بھی المناک پہلو ہے۔ ساس بہو کی لڑائی ختم کرنے کی خواہش، مناسب رشتہ ہونے میں دیر، شوہر کو مکمل اپنی مٹھی میں کرنے کی ترکیب، نرینہ اولاد کی خواہش اور اپنے دیگر مسائل حل کرتی کرتی ہماری اکثر خواتین مختلف شخصی حادثات کا شکار ہو جاتی ہیں۔ ان کے ساتھ جو کچھ بیتتا ہے، کئی بار تو وہ بتانے سے بھی قاصر ہوتی ہیں۔ عجیب اَمر یہ ہے کہ پڑھی لکھی اور اَن پڑھ خواتین کے اس سماجی رویے میں کوئی فرق نہیں ہے۔ خواتین ہی کیا معاشرہ کا ہر طبقہ خواہ وہ سیاستدان، کاروباری، نوکری پیشہ، سول یا فوجی افسر ہوں، نجومیوں اور عاملوں کے ہاتھوں لٹ رہا ہے۔ ہمارے کئی وزراء اعظم، وزراء اعلیٰ اور صدور جادوگروں اور عاملوں کو مسلسل اپنے پاس رکھتے رہے ہیں تا کہ ان کا دور اقتدار طویل سے طویل ترین ہو جائے۔
ہمارے معاشرہ میں انصاف یا میرٹ کی مکمل عدم موجودگی لوگوں کی الجھنوں میں حد درجہ اضافہ کر چکی ہے۔ کشمکش ِمعاش، پاگل پن کی حد تک بڑھتی ہوئی سیاسی اور سماجی کھینچا تانی سے لوگوں میں ذہنی بیماریاں بڑھ رہی ہیں۔67 سال سے ظالم عامل اور بابے ہمارے شہریوں کو برباد کر رہے ہیں۔
یہ جادوگر اپنے عمل سے کسی کا مقدر ٹھیک نہیں کر سکتے! وہ صرف خدائی کام ہے۔ مگر میں کافی عرصے سے ایک مہاجادوگر کی تلاش میں ہوں۔ جو صرف چھڑی گھمائے اور ہمارے ملک کے حالات درست ہو جائیں! وہ کوئی منتر پڑھے اور ہمارے ملک میں ہر شہری کو باعزت روزگار ملنا شروع ہو جائے! وہ عمل کرے اور ہمارے بے بس لوگوں کو میرٹ اور انصاف کا گمشدہ خزانہ مل جائے! پر نہیں! یہ کام تو صرف اور صرف سامری جادوگر ہی کر سکتا ہے! شائد ہمارے ملک کے مقدر میں کوئی نیک اور باعزت عامل یا بزرگ نہیں ہے! شائد ہمارے معاملات ٹھیک کرنے والا سامری جادوگر ابھی پیدا ہی نہیں ہوا؟