کپاس کی پیداوار
پیداواری لاگت میں اضافہ ہونے کے بعد لاگت سے بھی انتہائی کم قیمت پر فروخت کرنے سے کاشتکاروں میں شدید بد دلی ...
2009-10 کی بات ہے جب ملک میں31 لاکھ ہیکڑ رقبے پرکپاس کی کاشت کی گئی تھی اور اس سال ایک کروڑ 29 لاکھ 14 ہزار بیلزکی پیداوار حاصل ہوئی تھی۔ اگلے سال سیلاب اور موسمی حالات کی خرابی کے باعث زیرکاشت رقبے میں 13 فیصد کمی واقع ہوئی۔ اس سال پیداواری رقبہ گھٹ کر 26 لاکھ 89 ہزار ہیکڑ رہی۔ یوں 5 لاکھ ہیکڑ کی کمی سے پیداوار میں 11 فیصد کمی واقع ہوئی اس سال ایک کروڑ14 لاکھ بیلز کی پیداوار حاصل ہوئی تھی۔
2011-12 میں زیر کاشت رقبے میں 5 فیصد اضافہ ہوا اور زیر کاشت رقبہ 28 لاکھ 35 ہزار ہیکڑ تک جا پہنچا۔اس سال پیداوار میں پہلے کی نسبت 18.6 فیصد اضافہ ہوا۔ کل پیداوار ایک کروڑ 36 لاکھ بیلز ہوئی۔ 2013 تک پیداواری رقبہ 29 لاکھ ہیکڑ رہا اور پیداوار ایک کروڑ30 لاکھ بیلز سے زائد رہی۔ 2014 میں پیداوار میں مزید اضافہ ہوا۔ پاکستان میں دنیا کے دیگر ملکوں کی نسبت فی ہیکڑ پیداوار نصف نوٹ کی گئی۔ 2008 میں کپاس کی فی ہیکڑ پیداوار 713 کلوگرام تھی جس میں کمی بیشی ہوتی رہی۔
2010 میں 700 کلوگرام فی ہیکڑ اور 2011 میں 725 کلوگرام فی ہیکڑ پیداوار حاصل ہوئی اور اب 750 کلوگرام تک فی ہیکڑ پیداوار حاصل ہو رہی ہے۔ اگر دنیا کے دیگر ممالک کا فی ہیکٹر کلوگرام پیداوار کا گوشوارہ دیکھا جائے تو پاکستان میں پیداوار کا تناسب انتہائی کم ترین سطح پر ہے مثلاً چین میں کپاس کی پیداوار 13 سو کلو گرام فی ہیکٹر ہے۔ امریکا میں ایک ہزار کلوگرام سے زائد ہے۔ ازبکستان میں تقریباً 9 سو کلوگرام، ترکی میں 13 سو کلوگرام فی ہیکٹر پیداوار ہے۔ سب سے زیادہ پیداوار آسٹریلیا میں حاصل ہوتی ہے۔ وہاں کا اوسط 2 ہزارکلوگرام فی ہیکٹر ہے۔ برازیل میں فی ہیکڑ پیداوار کی اوسط 15 سو کلو گرام ہے۔
اس طرح پاکستان تقریباً نصف پیداوار حاصل کر رہا ہے۔ سالہا سال سے یہی اوسط چلا آرہا ہے کہ 7 سو سے ساڑھے 7سو کلوگرام تک اور اس میں تبدیلی لانے کی کوشش بھی نہیں کی جا رہی۔ چین، ترکی،آسٹریلیا سے ہم اس سلسلے میں بھرپور تعاون حاصل کرسکتے ہیں۔ سوچیے کہ اتنے کم اوسط کے ساتھ بھی ہم دنیا کے چوتھے بڑے ملک میں کپاس کی پیداوار، میں ہمیں اہم مقام حاصل ہے دنیا کی کل پیداوار کا تقریباً 10 فیصد پاکستان کی پیداوار ہے۔ اگر ہم کپاس کی فی ہیکڑ پیداوار میں کم ازکم ایک تہائی مزید اضافہ کرنے کے قابل ہوجاتے ہیں تو ہماری پیداوار 2 کروڑ بیلز سے بھی زائد ہوکر رہ جائے پاکستان کو بیرونی دنیا سے اپنی ضرورت کے لیے مزید کپاس امپورٹ کرنے کی بھی ضرورت باقی نہ رہے۔
پیداوار میں اضافہ کرنا اس کے لیے کوشش کرنا جتن کرنا، تحقیق کرنا دیگر ممالک سے معاونت حاصل کرنا، تعاون حاصل کرنا ان کی تحقیقات سے استفادہ کرنا، یہ ہر حکومت کا کام تھا لیکن حکومتیں کسی اور جانب متوجہ رہیں، اگر پیداوار میں اضافے کا ہدف حاصل کرلیا جاتا تو اس کی وجہ سے اصل فائدہ کاشتکار کو حاصل ہوتا۔ پاکستان دنیا کی پیداوار کا 9 تا10 فیصد مہیا کرتا ہے، پاکستان نے دنیا کی کل پیداوار کا 2008-09 میں تقریباً ساڑھے 8 فیصد مہیا کیا تھا جب کہ 2009-10 میں دنیا کی کل پیداوار کا 9.1 فیصد مہیا کیا گیا۔
2010-11 میں یہ پیداواری تناسب گھٹ کر 7.6فیصد رہ گیا البتہ 2012 میں اس میں اضافہ ہوا اور یہ تناسب 9.3 فیصد تک جا پہنچا اسی لحاظ سے پاکستان میں کپاس کی کھپت بھی تقریباً9 تا 10 فیصد تک ہے۔اگر مختلف سالوں کا جائزہ لیا جائے تو پہلے کی نسبت اب کپاس کی کھپت میں کمی ہوتی جا رہی ہے۔ دنیا کی کل کپاس کی کھپت میں پاکستان کا حصہ 2005-06 میں 10.16 فیصد تھا جو اگلے ہی سال کم ہوکر 2006-07 میں 10 فیصد رہ گیا اور آیندہ سال بھی یہی صورتحال برقرار رہی البتہ 2008-09 میں تناسب میں اضافہ ہوا اور 11 فیصد تک پہنچنے کے بعد آیندہ برس 2009-10 میں 9.52 فیصد تک جا پہنچا۔
2010-11 میں یہ تناسب 9.56 فیصد تک رہا البتہ 2012 میں اس میں مزید کمی ہوکر 9.33 فیصد تک تھا۔ پاکستان میں کپاس کی پیداوار میں مزید اضافہ ہر صورت میں ممکن ہے اور ایسا کرنے میں کوئی 5 تا 10 سال کی منصوبہ بندی کی ضرورت بھی نہیں ہے البتہ کسانوں اور کاشتکاروں کے مسائل کو سامنے رکھا جائے انھیں زمین کی تیاری سے لے کر بیج اور فصل اٹھانے کے بعد فروخت کے مسائل سے جس طرح سے نمٹنا پڑتا ہے اس طریق کار کو سمپل اور آسان کرنے اور حکومت کی طرف سے مراعات دینے کی ضرورت ہے۔
اس عید سعید کے موقع پر کپاس کے کسانوں کاشتکاروں کو کپاس کی فروخت کے سلسلے میں بیشمار مسائل کا سامنا کرنا پڑا اگرچہ دنیا میں کپاس کی طلب میں قدرے کمی واقع ہوئی اور عالمی مارکیٹ میں کپاس کی قیمت میں قدرے کمی کی گئی لیکن پاکستان میں عید کے موقعے پر اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے کاشتکاروں نے بڑی تعداد میں کپاس فروخت کے لیے پیش کی لیکن رسد زیادہ ہونے اور طلب میں کمی کا اصل فائدہ خریداروں نے اٹھایا اور نمایاں طور پر قیمت میں کمی کردی گئی جس سے کاشتکاروں کو شدید نقصان برداشت کرنا پڑا پہلے ہی لاگت میں اضافہ ناقص بیج اور جعلی ادویات اور کھاد کے باعث کاشتکاروں کو بہت زیادہ لاگت کے ساتھ فصل تیار کرنا پڑتی ہے۔
پیداواری لاگت میں اضافہ ہونے کے بعد لاگت سے بھی انتہائی کم قیمت پر فروخت کرنے سے کاشتکاروں میں شدید بد دلی، مایوسی پیدا ہوئی جس کے باعث بعض کاشتکار اس حد تک شاکی رہے کہ انھوں نے آیندہ سال کپاس کی پیداوار سے منہ موڑنے کی ٹھان لی ہے کپاس کا شمار کیش کرائسس میں ہوتا ہے یہ روپہلی ریشہ بھی کہلاتی ہے لیکن اس کے باعث کسانوں اور غریب ہاریوں کی مالی حالت میں بہتری کے بجائے اگر انھیں نقصان برداشت کرنا پڑے تو دیہی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں لہٰذا حکومت کو اس سلسلے میں ایک نگرانی کا موثر انتظام کرنا چاہیے تاکہ کاشتکاروں کو بلاوجہ شدید نقصان نہ برداشت کرنا پڑے اور وہ دلجمعی کے ساتھ ملکی زرعی پیداوار میں مسلسل اضافہ کرتے رہیں۔
2011-12 میں زیر کاشت رقبے میں 5 فیصد اضافہ ہوا اور زیر کاشت رقبہ 28 لاکھ 35 ہزار ہیکڑ تک جا پہنچا۔اس سال پیداوار میں پہلے کی نسبت 18.6 فیصد اضافہ ہوا۔ کل پیداوار ایک کروڑ 36 لاکھ بیلز ہوئی۔ 2013 تک پیداواری رقبہ 29 لاکھ ہیکڑ رہا اور پیداوار ایک کروڑ30 لاکھ بیلز سے زائد رہی۔ 2014 میں پیداوار میں مزید اضافہ ہوا۔ پاکستان میں دنیا کے دیگر ملکوں کی نسبت فی ہیکڑ پیداوار نصف نوٹ کی گئی۔ 2008 میں کپاس کی فی ہیکڑ پیداوار 713 کلوگرام تھی جس میں کمی بیشی ہوتی رہی۔
2010 میں 700 کلوگرام فی ہیکڑ اور 2011 میں 725 کلوگرام فی ہیکڑ پیداوار حاصل ہوئی اور اب 750 کلوگرام تک فی ہیکڑ پیداوار حاصل ہو رہی ہے۔ اگر دنیا کے دیگر ممالک کا فی ہیکٹر کلوگرام پیداوار کا گوشوارہ دیکھا جائے تو پاکستان میں پیداوار کا تناسب انتہائی کم ترین سطح پر ہے مثلاً چین میں کپاس کی پیداوار 13 سو کلو گرام فی ہیکٹر ہے۔ امریکا میں ایک ہزار کلوگرام سے زائد ہے۔ ازبکستان میں تقریباً 9 سو کلوگرام، ترکی میں 13 سو کلوگرام فی ہیکٹر پیداوار ہے۔ سب سے زیادہ پیداوار آسٹریلیا میں حاصل ہوتی ہے۔ وہاں کا اوسط 2 ہزارکلوگرام فی ہیکٹر ہے۔ برازیل میں فی ہیکڑ پیداوار کی اوسط 15 سو کلو گرام ہے۔
اس طرح پاکستان تقریباً نصف پیداوار حاصل کر رہا ہے۔ سالہا سال سے یہی اوسط چلا آرہا ہے کہ 7 سو سے ساڑھے 7سو کلوگرام تک اور اس میں تبدیلی لانے کی کوشش بھی نہیں کی جا رہی۔ چین، ترکی،آسٹریلیا سے ہم اس سلسلے میں بھرپور تعاون حاصل کرسکتے ہیں۔ سوچیے کہ اتنے کم اوسط کے ساتھ بھی ہم دنیا کے چوتھے بڑے ملک میں کپاس کی پیداوار، میں ہمیں اہم مقام حاصل ہے دنیا کی کل پیداوار کا تقریباً 10 فیصد پاکستان کی پیداوار ہے۔ اگر ہم کپاس کی فی ہیکڑ پیداوار میں کم ازکم ایک تہائی مزید اضافہ کرنے کے قابل ہوجاتے ہیں تو ہماری پیداوار 2 کروڑ بیلز سے بھی زائد ہوکر رہ جائے پاکستان کو بیرونی دنیا سے اپنی ضرورت کے لیے مزید کپاس امپورٹ کرنے کی بھی ضرورت باقی نہ رہے۔
پیداوار میں اضافہ کرنا اس کے لیے کوشش کرنا جتن کرنا، تحقیق کرنا دیگر ممالک سے معاونت حاصل کرنا، تعاون حاصل کرنا ان کی تحقیقات سے استفادہ کرنا، یہ ہر حکومت کا کام تھا لیکن حکومتیں کسی اور جانب متوجہ رہیں، اگر پیداوار میں اضافے کا ہدف حاصل کرلیا جاتا تو اس کی وجہ سے اصل فائدہ کاشتکار کو حاصل ہوتا۔ پاکستان دنیا کی پیداوار کا 9 تا10 فیصد مہیا کرتا ہے، پاکستان نے دنیا کی کل پیداوار کا 2008-09 میں تقریباً ساڑھے 8 فیصد مہیا کیا تھا جب کہ 2009-10 میں دنیا کی کل پیداوار کا 9.1 فیصد مہیا کیا گیا۔
2010-11 میں یہ پیداواری تناسب گھٹ کر 7.6فیصد رہ گیا البتہ 2012 میں اس میں اضافہ ہوا اور یہ تناسب 9.3 فیصد تک جا پہنچا اسی لحاظ سے پاکستان میں کپاس کی کھپت بھی تقریباً9 تا 10 فیصد تک ہے۔اگر مختلف سالوں کا جائزہ لیا جائے تو پہلے کی نسبت اب کپاس کی کھپت میں کمی ہوتی جا رہی ہے۔ دنیا کی کل کپاس کی کھپت میں پاکستان کا حصہ 2005-06 میں 10.16 فیصد تھا جو اگلے ہی سال کم ہوکر 2006-07 میں 10 فیصد رہ گیا اور آیندہ سال بھی یہی صورتحال برقرار رہی البتہ 2008-09 میں تناسب میں اضافہ ہوا اور 11 فیصد تک پہنچنے کے بعد آیندہ برس 2009-10 میں 9.52 فیصد تک جا پہنچا۔
2010-11 میں یہ تناسب 9.56 فیصد تک رہا البتہ 2012 میں اس میں مزید کمی ہوکر 9.33 فیصد تک تھا۔ پاکستان میں کپاس کی پیداوار میں مزید اضافہ ہر صورت میں ممکن ہے اور ایسا کرنے میں کوئی 5 تا 10 سال کی منصوبہ بندی کی ضرورت بھی نہیں ہے البتہ کسانوں اور کاشتکاروں کے مسائل کو سامنے رکھا جائے انھیں زمین کی تیاری سے لے کر بیج اور فصل اٹھانے کے بعد فروخت کے مسائل سے جس طرح سے نمٹنا پڑتا ہے اس طریق کار کو سمپل اور آسان کرنے اور حکومت کی طرف سے مراعات دینے کی ضرورت ہے۔
اس عید سعید کے موقع پر کپاس کے کسانوں کاشتکاروں کو کپاس کی فروخت کے سلسلے میں بیشمار مسائل کا سامنا کرنا پڑا اگرچہ دنیا میں کپاس کی طلب میں قدرے کمی واقع ہوئی اور عالمی مارکیٹ میں کپاس کی قیمت میں قدرے کمی کی گئی لیکن پاکستان میں عید کے موقعے پر اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے کاشتکاروں نے بڑی تعداد میں کپاس فروخت کے لیے پیش کی لیکن رسد زیادہ ہونے اور طلب میں کمی کا اصل فائدہ خریداروں نے اٹھایا اور نمایاں طور پر قیمت میں کمی کردی گئی جس سے کاشتکاروں کو شدید نقصان برداشت کرنا پڑا پہلے ہی لاگت میں اضافہ ناقص بیج اور جعلی ادویات اور کھاد کے باعث کاشتکاروں کو بہت زیادہ لاگت کے ساتھ فصل تیار کرنا پڑتی ہے۔
پیداواری لاگت میں اضافہ ہونے کے بعد لاگت سے بھی انتہائی کم قیمت پر فروخت کرنے سے کاشتکاروں میں شدید بد دلی، مایوسی پیدا ہوئی جس کے باعث بعض کاشتکار اس حد تک شاکی رہے کہ انھوں نے آیندہ سال کپاس کی پیداوار سے منہ موڑنے کی ٹھان لی ہے کپاس کا شمار کیش کرائسس میں ہوتا ہے یہ روپہلی ریشہ بھی کہلاتی ہے لیکن اس کے باعث کسانوں اور غریب ہاریوں کی مالی حالت میں بہتری کے بجائے اگر انھیں نقصان برداشت کرنا پڑے تو دیہی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں لہٰذا حکومت کو اس سلسلے میں ایک نگرانی کا موثر انتظام کرنا چاہیے تاکہ کاشتکاروں کو بلاوجہ شدید نقصان نہ برداشت کرنا پڑے اور وہ دلجمعی کے ساتھ ملکی زرعی پیداوار میں مسلسل اضافہ کرتے رہیں۔