ردھم
مجھے عربی زباں نہیں آتی مگر پھر بھی جب کوئی عربی گیت بجتا ہے تو میں اس کے سروں میں کھو سا جاتا ہوں
میرا وہ دوست شیخ ایاز کے شہر سے تعلق رکھتا ہے۔ وہ جس کے مزاج میں مزاح بھی موسیقیت سے بھرپور ہے۔ وہ جب بات کرتا ہے تب ایسا لگتا ہے جیسے کسی نے ستار چھیڑی ہوئی ہے۔ گو وہ مجھے شاعری نہیں سناتا، وہ ادب پر گفتگو نہیں کرتا، اس کے فقرے ہمیشہ طنز و مزاح کے سبب نمکین ہوتے ہیں، وہ ایسی باتیں بھی کہہ جاتا ہے جو دوسرے لوگوں کے لیے کہنا ناممکن حد تک مشکل ہوتی ہیں مگر اس کی آواز میں وہ جادو ہے جس کو بروئے کار لاکر وہ ایسی باتیں کہہ جاتا ہے جس کے بارے میں وہ سوچتے رہ جاتے ہیں کہ کہیں یا نہیں؟
جب میں نے اس کی اس صلاحیت پر سوچا تو مجھے محسوس ہوا کہ اس کا سبب اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کہ قدرت نے اس کی آواز میں وہ ردھم رکھا ہے جس کی وجہ سے وہ مشکل باتیں آسانی سے کہہ جاتا ہے۔ جس طرح ادب میں نثر بڑی پابندیوں سے لکھا جاتا ہے مگر شاعروں کے لیے کہتے ہیں کہ انھیں ''شاعرانہ آزادی'' حاصل ہے، اس لیے وہ اگر گرامر کے قوانین کو تہہ و بالا کردیتے ہیں تو انھیں کوئی کچھ نہیں کہتا۔ کیوں کہ ان کے انداز میں جو ردھم ہوتا ہے ان کی وجہ سے انھیں رعایت مل جاتی ہے۔
میرا وہ دوست سندھ کے عظیم شاعر کے شہر سے تعلق رکھنے کے باوجود شاعر نہیں، مگر اس کی گفتگو محفل کو زعفران کی خوشبو سے بھر دیتی ہے۔ اس کی اس صلاحیت کا سبب تو اس کا ردھمیٹک مزاج ہے اور اس مزاج والے لوگ بھلے ادب اور فنون لطیفہ سے وابستہ نہ ہوں مگر پھر بھی ان کی پسند کبھی بے سری نہیں ہوسکتی۔ یہی وجہ تھی جب اس نے مجھے کہا کہ میرے اسمارٹ فون پر ایک رقص کی وڈیو ہے آپ دیکھیں گے؟
تب میں نے کہا ضرور! اور جب اس نے مجھے وہ وڈیو دکھائی تو میں حیران رہ گیا۔ وہ وڈیو کسی عام فلمی ڈانس کی نہیں تھی، وہ وڈیو کسی انڈین فلم کی نہیں تھی، وہ رقص امریکن تھا اور نہ یورپی۔ وہ رقص عربی تھا اور اس میں رقاصہ جس انداز سے ناچ رہی تھی اس کو دیکھ کر مجھے محسوس ہوا کہ وہ عورت کے روپ میں کسی ساز کی لرزتی ہوئی تار ہے۔ جس طرح گلزار نے اپنی ایک نظم میں لکھا ہے کہ:
''جیسے چھناکے چٹخ جائے... کسی ساز کی تار... جیسے ریشم کی کسی ڈور سے... انگلی کٹ جائے''
ویسے ہی کبھی وہ مجھے ریشم کی ڈور کے مانند ملائم لگ رہی تھی اور کبھی ساز کی تنی ہوئی تار کی طرح! مگر میں اس کے لرزتے ہوئے جسم سے زیادہ اس کے اس ردھم سے متاثر ہو رہا تھا جو اس کی ذات کا حصہ نہیں بلکہ اس کا پورا وجود ردھم کا خوبصورت روپ لگ رہا تھا۔ وہ عرب رقاصہ اس طرح اپنے فن کا مظاہرہ کر رہی تھی گویا وہ ردھم سے بنی ہوئی ہو۔
ویسے تو رقص کے لیے یہ الفاظ بہت مشہور ہیں کہ ''رقص جسم کی شاعری ہے'' مگر اس عرب رقاصہ کا فن دیکھ کر مجھے وہ عرب اشعار یاد آنے لگے جن میں محبت کا مقام بہت بلند محسوس ہوتا ہے۔ اس وقت مجھے اس عرب شاعر کا نام تو یاد نہیں آ رہا لیکن وہ مشہور کلاسیکل عرب شاعر امراء القیس کے دور سے تعلق رکھتا تھا، جس نے اپنے ایک قصیدے میں لکھا تھا کہ:
''آہ میری محبوبہ... تو کل چلی جائے گی... اور میرا دل... اس ریت میں دفن ہوجائے گا... جہاں ہم نے چاندنی راتوں میں... محبت کی ہے!''
اس شعر کو یاد کرتے ہوئے میں سوچتا ہوں کہ جس شعر کا ترجمہ بھی اتنا خوبصورت ہے وہ شعر اس زبان میں کتنا غضب کا ہوگا، جس زبان کے بارے میں پوری دنیا اس بات پر متفق ہے کہ عربی زبان جیسی فصیح اور بلیغ زبان اور کوئی نہیں۔
مجھے عربی زباں نہیں آتی مگر پھر بھی جب کوئی عربی گیت بجتا ہے تو میں اس کے سروں میں کھو سا جاتا ہوں۔ کیوں کہ عربی زباں میں وہ ردھم ہے جو مطلب نہ آنے کے باوجود انسان کو اپنی کشش میں قابو کرلیتا ہے۔ چند برس پہلے پاکستان میں ایک عربی گیت نے بڑی دھوم مچائی تھی۔ وہ گیت جو عرب سنگر خالد نے گایا تھا۔ کون بھلا سکتا ہے وہ خالد کا گیت ''دیدی''، مگر وہ گیت ان عربی گیتوں کے مقابلے میں کچھ نہیں جن گیتوں کو سنتے ہوئے میں نے عرب لڑکوں اور لڑکیوں کو بے خودی کے عالم میں روتے ہوئے دیکھا ہے۔
اس وقت جب میں عرب کلچر اور عرب مزاج پر چند الفاظ لکھنے بیٹھا ہوں تب مجھے بار بار یاد آرہی ہے اس رقص کی جس رقص کی وڈیو مجھے میرے دوست صلاح الدین سومرو نے دکھائی تھی۔ اور میرا جی چاہتا ہے کہ میں اس رقص والی وڈیو کو بنیاد بنا کر اپنا یہ خیال پیش کروں کہ عرب قوم تاریخی طور پر ردھم سے بھرپور رہی ہے اور اس کا وہ ردھم صرف شاعری اور رقص تک محدود نہیں ہے بلکہ ان کے وہ ریگستان جن میں چلتی ہوئی ہواؤں کی صدائیں موسیقیت سے بھری ہوئی محسوس ہوتی ہے انھوں نے عرب قوم کی پوری زندگی کو ردھم سے بھر دیا ہے۔
یہ کوئی اتفاق نہیں کہ آپ کو وہ عرب مشکل سے ملے گا جس کا شعر و شاعری سے شغف نہ ہو۔ کیوں کہ ان تاریخ اور تمدن میں موسیقیت کا بھرپور اثر رہا ہے۔ اس لیے جب تاریخ میں وہ جنگیں کرتے تھے تب ان کی تلواریں بھی آپس میں ایک ردھم سے ٹکراتی تھیں۔ ان کا وہ ردھم صرف تاریخ کا حصہ نہیں بلکہ دور رواں میں وہ ردھم ان کی زندگی کی بڑی طاقت بن گیا۔
یہی سبب ہے کہ مشرق وسطیٰ میں ایٹمی طاقت کا ملک وہ اسرائیل جس کی مدد امریکا اور پورا مغرب کر رہا ہے اس نے بارود کی بارش کرنے کے باوجود عربوں کے ایک چھوٹے سے شہر غزہ کو فتح نہیں کیا۔غزہ پر ہونے والی بمباری کی وجہ سے ہمیں صرف فلسطین کے لوگوں کی مظلومیت دکھائی جا رہی ہے مگر مجھے اس مظلومیت کے پیچھے عرب قوم کا وہ آہنی عزم نظر آ رہا ہے اور مجھے یہ بات شدت سے محسوس ہو رہی ہے، وہ طاقت اور توانائی جس نے اہل غزہ کو ابھی تک ثابت قدم رکھا ہے اور وہ اپنے معصوم بچوں کی لاشیں دفن کرنے کے بعد بھی فتح کے یقین سے منور چہروں کے ساتھ میڈیا پر آتے ہیں، ان کے رگ و ریشے میں اگر اس قدر ردھم نہ ہوتا تو وہ شاید کمزور پڑ جاتے۔
اس لیے یہ بات صرف سیاست کی نہیں۔ سیاست تو ہمارے پاس بھی ہے مگر ہمارے وجود میں وہ موسیقیت نہیں جو انسان میں توانائی کا طوفان بن کر چلتی ہے تو انسان اپنے دکھ اور درد بھول جاتا ہے۔ اگر عرب شاعر فلسطین کے حوالے سے یہ الفاظ لکھتے ہیں کہ:
''میری زندگی... میرے وطن کی... آزادی کی کنجی ہے... اور میں موت سے ... پنجہ آزمائی کرسکتا ہوں... کیوں کہ میری رگوں میں... میرے وطن کی محبت... محو گردش ہے''
تو وہ لوگ اپنے مزاج میں موسیقیت سے بھرپور ہونے کی وجہ سے اس شاعری کی طاقت کو اپنے آپ میں جذب کرلیتے ہیں اور دھول سے ماتھا اٹھا کر پھر جدوجہد کے میدان میں جت جاتے ہیں اور پھر ان کے بچوں کے ہاتھوں میں احتجاج والے پتھر نظر آتے ہیں اور اسرائیل کے کمانڈوز ان سے ڈر کر پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔ کیوں کہ وہ احتجاج کے دوران بھی اپنے وجود میں موجود ردھم کی طاقت کو بھرپور انداز کے ساتھ بروئے کار لاتے ہیں۔
مجھے یاد آرہا ہے اس روسی دانشور کے وہ الفاظ جس نے لکھا تھا کہ ''انقلاب میں صرف ہتھیار نہیں بلکہ موسیقی سے بھرے ہوئے ساز بھی اپنا کردار ادا کرتے ہیں''۔ وہ حسن اور وہ خوبی آج اگر ہمیں دیکھنی ہے تو ہمیں ان اہل غزہ کی ہمت جرأت اور مسلسل مزاحمت میں دیکھنی چاہیے جن کی تعریف کرتے ہوئے پاکستان کے عظیم انقلابی شاعر فیض احمد فیض نے لکھا تھا کہ:
''پھر برق فروزاں ہے... سر وادی سینا... پھر رنگ پہ ہے شعلہ رخسار حقیقت... پیغام اجل دعوت دیدار حقیقت... اے دیدہ بینا!... اب وقت ہے دیدار کا... دم ہے کہ نہیں ہے؟''
وہ دیدار آج غزہ کے ان عرب انسانوں کی صورت دیکھ رہی ہیں ہماری آنکھیں۔ وہ عرب قوم جو اپنے پورے معاشرتی اور سیاسی مزاج میں ردھم سے بھری ہوئی ہے اس لیے لڑتے ہوئے نہ تو ٹوٹ کر بکھرتی ہے اور نہ تھک کر بیٹھ جاتی ہے۔
جب میں نے اس کی اس صلاحیت پر سوچا تو مجھے محسوس ہوا کہ اس کا سبب اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کہ قدرت نے اس کی آواز میں وہ ردھم رکھا ہے جس کی وجہ سے وہ مشکل باتیں آسانی سے کہہ جاتا ہے۔ جس طرح ادب میں نثر بڑی پابندیوں سے لکھا جاتا ہے مگر شاعروں کے لیے کہتے ہیں کہ انھیں ''شاعرانہ آزادی'' حاصل ہے، اس لیے وہ اگر گرامر کے قوانین کو تہہ و بالا کردیتے ہیں تو انھیں کوئی کچھ نہیں کہتا۔ کیوں کہ ان کے انداز میں جو ردھم ہوتا ہے ان کی وجہ سے انھیں رعایت مل جاتی ہے۔
میرا وہ دوست سندھ کے عظیم شاعر کے شہر سے تعلق رکھنے کے باوجود شاعر نہیں، مگر اس کی گفتگو محفل کو زعفران کی خوشبو سے بھر دیتی ہے۔ اس کی اس صلاحیت کا سبب تو اس کا ردھمیٹک مزاج ہے اور اس مزاج والے لوگ بھلے ادب اور فنون لطیفہ سے وابستہ نہ ہوں مگر پھر بھی ان کی پسند کبھی بے سری نہیں ہوسکتی۔ یہی وجہ تھی جب اس نے مجھے کہا کہ میرے اسمارٹ فون پر ایک رقص کی وڈیو ہے آپ دیکھیں گے؟
تب میں نے کہا ضرور! اور جب اس نے مجھے وہ وڈیو دکھائی تو میں حیران رہ گیا۔ وہ وڈیو کسی عام فلمی ڈانس کی نہیں تھی، وہ وڈیو کسی انڈین فلم کی نہیں تھی، وہ رقص امریکن تھا اور نہ یورپی۔ وہ رقص عربی تھا اور اس میں رقاصہ جس انداز سے ناچ رہی تھی اس کو دیکھ کر مجھے محسوس ہوا کہ وہ عورت کے روپ میں کسی ساز کی لرزتی ہوئی تار ہے۔ جس طرح گلزار نے اپنی ایک نظم میں لکھا ہے کہ:
''جیسے چھناکے چٹخ جائے... کسی ساز کی تار... جیسے ریشم کی کسی ڈور سے... انگلی کٹ جائے''
ویسے ہی کبھی وہ مجھے ریشم کی ڈور کے مانند ملائم لگ رہی تھی اور کبھی ساز کی تنی ہوئی تار کی طرح! مگر میں اس کے لرزتے ہوئے جسم سے زیادہ اس کے اس ردھم سے متاثر ہو رہا تھا جو اس کی ذات کا حصہ نہیں بلکہ اس کا پورا وجود ردھم کا خوبصورت روپ لگ رہا تھا۔ وہ عرب رقاصہ اس طرح اپنے فن کا مظاہرہ کر رہی تھی گویا وہ ردھم سے بنی ہوئی ہو۔
ویسے تو رقص کے لیے یہ الفاظ بہت مشہور ہیں کہ ''رقص جسم کی شاعری ہے'' مگر اس عرب رقاصہ کا فن دیکھ کر مجھے وہ عرب اشعار یاد آنے لگے جن میں محبت کا مقام بہت بلند محسوس ہوتا ہے۔ اس وقت مجھے اس عرب شاعر کا نام تو یاد نہیں آ رہا لیکن وہ مشہور کلاسیکل عرب شاعر امراء القیس کے دور سے تعلق رکھتا تھا، جس نے اپنے ایک قصیدے میں لکھا تھا کہ:
''آہ میری محبوبہ... تو کل چلی جائے گی... اور میرا دل... اس ریت میں دفن ہوجائے گا... جہاں ہم نے چاندنی راتوں میں... محبت کی ہے!''
اس شعر کو یاد کرتے ہوئے میں سوچتا ہوں کہ جس شعر کا ترجمہ بھی اتنا خوبصورت ہے وہ شعر اس زبان میں کتنا غضب کا ہوگا، جس زبان کے بارے میں پوری دنیا اس بات پر متفق ہے کہ عربی زبان جیسی فصیح اور بلیغ زبان اور کوئی نہیں۔
مجھے عربی زباں نہیں آتی مگر پھر بھی جب کوئی عربی گیت بجتا ہے تو میں اس کے سروں میں کھو سا جاتا ہوں۔ کیوں کہ عربی زباں میں وہ ردھم ہے جو مطلب نہ آنے کے باوجود انسان کو اپنی کشش میں قابو کرلیتا ہے۔ چند برس پہلے پاکستان میں ایک عربی گیت نے بڑی دھوم مچائی تھی۔ وہ گیت جو عرب سنگر خالد نے گایا تھا۔ کون بھلا سکتا ہے وہ خالد کا گیت ''دیدی''، مگر وہ گیت ان عربی گیتوں کے مقابلے میں کچھ نہیں جن گیتوں کو سنتے ہوئے میں نے عرب لڑکوں اور لڑکیوں کو بے خودی کے عالم میں روتے ہوئے دیکھا ہے۔
اس وقت جب میں عرب کلچر اور عرب مزاج پر چند الفاظ لکھنے بیٹھا ہوں تب مجھے بار بار یاد آرہی ہے اس رقص کی جس رقص کی وڈیو مجھے میرے دوست صلاح الدین سومرو نے دکھائی تھی۔ اور میرا جی چاہتا ہے کہ میں اس رقص والی وڈیو کو بنیاد بنا کر اپنا یہ خیال پیش کروں کہ عرب قوم تاریخی طور پر ردھم سے بھرپور رہی ہے اور اس کا وہ ردھم صرف شاعری اور رقص تک محدود نہیں ہے بلکہ ان کے وہ ریگستان جن میں چلتی ہوئی ہواؤں کی صدائیں موسیقیت سے بھری ہوئی محسوس ہوتی ہے انھوں نے عرب قوم کی پوری زندگی کو ردھم سے بھر دیا ہے۔
یہ کوئی اتفاق نہیں کہ آپ کو وہ عرب مشکل سے ملے گا جس کا شعر و شاعری سے شغف نہ ہو۔ کیوں کہ ان تاریخ اور تمدن میں موسیقیت کا بھرپور اثر رہا ہے۔ اس لیے جب تاریخ میں وہ جنگیں کرتے تھے تب ان کی تلواریں بھی آپس میں ایک ردھم سے ٹکراتی تھیں۔ ان کا وہ ردھم صرف تاریخ کا حصہ نہیں بلکہ دور رواں میں وہ ردھم ان کی زندگی کی بڑی طاقت بن گیا۔
یہی سبب ہے کہ مشرق وسطیٰ میں ایٹمی طاقت کا ملک وہ اسرائیل جس کی مدد امریکا اور پورا مغرب کر رہا ہے اس نے بارود کی بارش کرنے کے باوجود عربوں کے ایک چھوٹے سے شہر غزہ کو فتح نہیں کیا۔غزہ پر ہونے والی بمباری کی وجہ سے ہمیں صرف فلسطین کے لوگوں کی مظلومیت دکھائی جا رہی ہے مگر مجھے اس مظلومیت کے پیچھے عرب قوم کا وہ آہنی عزم نظر آ رہا ہے اور مجھے یہ بات شدت سے محسوس ہو رہی ہے، وہ طاقت اور توانائی جس نے اہل غزہ کو ابھی تک ثابت قدم رکھا ہے اور وہ اپنے معصوم بچوں کی لاشیں دفن کرنے کے بعد بھی فتح کے یقین سے منور چہروں کے ساتھ میڈیا پر آتے ہیں، ان کے رگ و ریشے میں اگر اس قدر ردھم نہ ہوتا تو وہ شاید کمزور پڑ جاتے۔
اس لیے یہ بات صرف سیاست کی نہیں۔ سیاست تو ہمارے پاس بھی ہے مگر ہمارے وجود میں وہ موسیقیت نہیں جو انسان میں توانائی کا طوفان بن کر چلتی ہے تو انسان اپنے دکھ اور درد بھول جاتا ہے۔ اگر عرب شاعر فلسطین کے حوالے سے یہ الفاظ لکھتے ہیں کہ:
''میری زندگی... میرے وطن کی... آزادی کی کنجی ہے... اور میں موت سے ... پنجہ آزمائی کرسکتا ہوں... کیوں کہ میری رگوں میں... میرے وطن کی محبت... محو گردش ہے''
تو وہ لوگ اپنے مزاج میں موسیقیت سے بھرپور ہونے کی وجہ سے اس شاعری کی طاقت کو اپنے آپ میں جذب کرلیتے ہیں اور دھول سے ماتھا اٹھا کر پھر جدوجہد کے میدان میں جت جاتے ہیں اور پھر ان کے بچوں کے ہاتھوں میں احتجاج والے پتھر نظر آتے ہیں اور اسرائیل کے کمانڈوز ان سے ڈر کر پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔ کیوں کہ وہ احتجاج کے دوران بھی اپنے وجود میں موجود ردھم کی طاقت کو بھرپور انداز کے ساتھ بروئے کار لاتے ہیں۔
مجھے یاد آرہا ہے اس روسی دانشور کے وہ الفاظ جس نے لکھا تھا کہ ''انقلاب میں صرف ہتھیار نہیں بلکہ موسیقی سے بھرے ہوئے ساز بھی اپنا کردار ادا کرتے ہیں''۔ وہ حسن اور وہ خوبی آج اگر ہمیں دیکھنی ہے تو ہمیں ان اہل غزہ کی ہمت جرأت اور مسلسل مزاحمت میں دیکھنی چاہیے جن کی تعریف کرتے ہوئے پاکستان کے عظیم انقلابی شاعر فیض احمد فیض نے لکھا تھا کہ:
''پھر برق فروزاں ہے... سر وادی سینا... پھر رنگ پہ ہے شعلہ رخسار حقیقت... پیغام اجل دعوت دیدار حقیقت... اے دیدہ بینا!... اب وقت ہے دیدار کا... دم ہے کہ نہیں ہے؟''
وہ دیدار آج غزہ کے ان عرب انسانوں کی صورت دیکھ رہی ہیں ہماری آنکھیں۔ وہ عرب قوم جو اپنے پورے معاشرتی اور سیاسی مزاج میں ردھم سے بھری ہوئی ہے اس لیے لڑتے ہوئے نہ تو ٹوٹ کر بکھرتی ہے اور نہ تھک کر بیٹھ جاتی ہے۔