بانی مزدور تحریک مرزا محمد ابراہیم
حکومت سے اختلافات کے بعد دسمبر 1947 میں وہ گرفتار کرلیے گئے اور پاکستان کے پہلے سیاسی قیدی بنے۔
لاہور:
برصغیر پاک و ہند میں ٹریڈ یونین تحریک کے بانی بابائے محنت کشاں مرزا محمد ابراہیم کو پاکستان کے محنت کشوں سے جدا ہوئے 15 برس گزر گئے ہیں۔ 11 اگست 2014 کو ان کی پندرہویں برسی منائی جا رہی ہے۔ مرزا ابراہیم 1905 میں جہلم کے قریب ایک گاؤں کالا گجراں میں پیدا ہوئے، ان کے والد کا نام مرزا عبداﷲ بیگ تھا۔ وہ ایک چھوٹے اور بے زمین کسان تھے، ان کے ایک بڑے بھائی مرزا اﷲ دتہ چغتائی پشاور سے ایک اخبار روشنی نکالا کرتے تھے۔
مرزا ابراہیم مدرسہ تعلیم سے آگے نہ پڑھ سکے، جوانی میں قدم رکھتے ہی 1920-21 میں خلافت موومنٹ تحریک میں شمولیت اختیار کی۔ اس دور میں یہ تحریک پورے برصغیر میں موجود تھی جس کی قیادت مولانا محمد علی جوہر اور شوکت علی کر رہے تھے۔ مرزا ابراہیم نے اپنی ملازمت کا آغاز بطور مالی کیا اور پھر بھٹہ مزدور بن گئے، بعدازاں وہ 1925 میں برج ورکشاپ جہلم میں بطور معاون بھرتی ہوگئے۔ مزدوروں میں کام کرنا شروع کردیا۔ 1930 میں ان کا تبادلہ جہلم سے مغلپورہ کیرج ورکشاپ لاہور ہوگیا۔
ریلوے میں 1920 میں یونین بن چکی تھی۔ جہاں انھوں نے یونین میں حصہ لینا شروع کردیا۔ اس وقت ریلوے میں این ڈبلیو آر (NWR) یونین موجود تھی جس کے صدر ایک انگریز جے بی میلر (J.B. Millar) تھے، جو ریلوے میں گارڈ تھے جب کہ جنرل سیکریٹری ایم اے خان تھے۔ مرزا صاحب اس یونین میں شامل ہوگئے۔ مرزا ابراہیم مغلپورہ ورکشاپ کے صدر مقرر ہوئے، 1930 میں برطانیہ میں صنعتی بحران آیا ہوا تھا، اس کا اثر پورے ہندوستان کے محنت کشوں پر بھی پڑا، برطانیہ میں ہڑتالیں اور کارخانے بند ہونے لگے۔
ریلوے مزدوروں کی بھی چھانٹیاں ہونے لگیں، ان اقدامات کے خلاف مرزا ابراہیم کی قیادت میں مزدوروں نے بھی زبردست مظاہرے شروع کردیے، ادھر روس میں 1917 میں انقلاب آچکا تھا، جس کا اثر ہندوستان کے محنت کشوں پر بھی ہوا۔ 1935 میں کمیونسٹ پارٹی کی بنیاد پڑ چکی تھی۔ جس کے پہلے جنرل سیکریٹری پورن چند جوشی تھے، کمیونسٹ پارٹی محنت کشوں میں کام کر رہی تھی، اس دوران مرزا ابراہیم کا رابطہ لاہور میں ایک طالب علم جے گوپال کے ذریعے کمیونسٹ پارٹی سے ہوگیا اور یوں مرزا ابراہیم کمیونسٹ پارٹی کے حوالے سے لیبر ونگ کے انچارج بن گئے۔
مرزا صاحب نے بتایا کہ مجھے کمیونسٹ پارٹی والوں نے خوب پڑھایا اور سمجھایا کہ پارٹی محنت کشوں کا راج چاہتی ہے، سرمایہ کیا ہے، محنت کیا ہے، سرپلس ویلیو کیا ہے، طبقات کیا ہیں، مذہب کیا ہے، قومیں کیا ہیں، ملک کیا ہیں، سرمایہ داری کیا ہے، سوشلزم کیا ہے، مزدور طبقے کا کیا کردار ہونا چاہیے؟ اس طرح میں مکمل طور پر باخبر ہوگیا۔
بعد میں ہندوستان میں کمیونسٹ پارٹی نے کانگریس سے مل کر ریلوے میں ایک ریلوے مین فیڈریشن (Railway Man Federation) کی بنیاد رکھی، وہ اس کے بانیوں میں شامل تھے، وہ اس کے سینئر نائب صدر بنے جب کہ صدر وی وی گری (V.V. Gari) مقرر ہوئے جو بعد میں ہندوستان کے صدر بنے۔ جنرل سیکریٹری ایس اے ڈانگے مقرر ہوئے، ہندوستان میں انگریزوں کے خلاف سخت نفرت اور بغاوت تھی۔
1946 بغاوتوں کا سال تھا، اس دوران بری، بحری اور ایئرفورس میں بھی ہلچل تھی، دہلی میں پولیس نے بھی ہڑتال کردی۔ رائل فورس نے انبالہ میں بغاوت کردی، اسی سال ریلوے میں بھی برطرفیوں کے خلاف اور تنخواہوں میں اضافے کے لیے ریلوے میں فیڈریشن نے بھی ہڑتال کی کال دے دی اور پھر یکم مئی 1946 کو صبح 8 بجے تا 12 بجے (4 گھنٹے) مکمل ہڑتال کردی۔ اس طرح پورے ملک میں ہڑتالوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔
ملک تقسیم ہونے جا رہا تھا۔ اس موقع پر حکمرانوں نے مرزا صاحب کو بھاری معاوضے اور پروموشن دے کر حیدر آباد سندھ میں ورکشاپ کا اسسٹنٹ ورکس منیجر بنانے کی پیش کش کی جو انھوں نے ٹھکرا دی، بعدازاں انھیں اور ان کے ساتھیوں پر بغاوت کا مقدمہ بناکر گرفتار کرنے کی کوششیں کی گئیں مگر حکمران کامیاب نہ ہوسکے۔
مرزا ابراہیم انڈر گراؤنڈ ہوگئے، بعد میں حکمرانوں نے یونین رہنماؤں سے مذاکرات کیے اور ڈیڑھ لاکھ مزدور بے کار ہونے سے بچ گئے، جنھیں دوسری جنگ عظیم کے دوران بھرتی کیا گیا تھا اور اب حکومت ان کو نکالنا چاہتی تھی۔ مگر فیڈریشن اور یونین کی حکمت عملی، منصوبہ بندی اور ہڑتال کے باعث یہ مزدور بے روزگار ہونے سے بچ گئے اور حکومت کو کئی کروڑ روپے تنخواہوں کی مد میں دینے پڑے۔ ہڑتال اور بغاوت کے مقدمے کے سلسلے میں تقسیم سے 5 ماہ قبل مارچ1947 میں مرزا ابراہیم کو ملازمت سے برطرف کردیا گیا۔
اس وقت ان کی ملازمت کو 23 برس ہوچکے تھے اور کوئی معاوضہ بھی نہیں دیا گیا، وہ پارٹی اور مزدور فیڈریشن کے کل وقتی کارکن بن گئے۔ تقسیم کے بعد بھی انھوں نے کام جاری رکھا۔ پاکستان کمیونسٹ پارٹی کی بنیاد رکھی۔ قیام پاکستان کے بعد ریلوے ورکرز یونین اور پہلی مزدور فیڈریشن جس کا نام پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن رکھا گیا اس کے بانی صدر بنے۔ وزیراعظم لیاقت علی خان نے مرزا ابراہیم کو پیشکش کی کہ اب ملک بن چکا ہے، آپ کمیونسٹ پارٹی چھوڑ کر مسلم لیگ کا ساتھ دیں اور وزارت محنت کا قلم دان آپ کو دیا جائے گا، مگر انھوں نے اس پیشکش کو ٹھکرا دیا۔
حکومت سے اختلافات کے بعد دسمبر 1947 میں وہ گرفتار کرلیے گئے اور پاکستان کے پہلے سیاسی قیدی بنے۔ رہائی کے بعد پھر کام شروع کیا، 1949 میں پھر گرفتار ہوئے، 1951 میں جیل میں تھے۔ کمیونسٹ پارٹی اور پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن کی جانب سے انھیں ٹکٹ دیا گیا، وہ جیل میں تھے اور الیکشن پارٹی ورکرز لڑ رہے تھے، ان کے مقابلے پر حکمران جماعت کے احمد سعید کرمانی حسب امیدوار تھے، مرزا ابراہیم یہ الیکشن جیت گئے، ریڈیو سے ان کے جیتنے کا اعلان بھی ہوا.
بعد میں لیاقت علی خان کی ہدایات کے مطابق ہارنے والے احمد سعید کرمانی کو سرکاری امیدوار کی حیثیت سے کامیابی کا اعلان کردیا گیا اور مرزا ابراہیم کے 600 ووٹ رد کردیے گئے جو محنت کشوں نے ووٹ کے ساتھ ایک روپے کا نوٹ بھی لگا کر دیا تھا، یوں پہلی مرتبہ ملک میں الیکشن میں دھاندلی کی گئی۔ مرزا ابراہیم بار بار جیل جاتے رہے، شاہی قلعہ میں نظر بند رہے، 17 مرتبہ جیل گئے، 6 مرتبہ شاہی قلعہ میں نظر بند رہے۔
انھوں نے قائداعظم محمد علی جناح، موہن داس گاندھی، پنڈت جواہر لال نہرو، خان عبدالغفار خان، عبدالصمد خان اچکزئی، جی ایم سید، لیاقت علی خان، مولانا ابوالکلام آزاد سمیت کئی اہم رہنماؤں سے ملاقاتیں کیں، انھوں نے کئی اہم رہنماؤں کے ساتھ کام کیا، جیل کاٹی۔ وہ سیاست اور ٹریڈ یونین میں عبادت سمجھ کر کام کرتے تھے۔ وہ مرتے دم تک کارل مارکس، لینن، ماؤزے تنگ اور ہوچی منہ کو مانتے رہے اور زندگی کے آخری لمحات میں محنت کشوں کو منظم اور متحد کرنے میں لگے رہے۔ مزدوروں کا یہ قلندر 11 اگست 1999 کو کروڑوں محنت کشوں کو سوگوار چھوڑ گیا۔
برصغیر پاک و ہند میں ٹریڈ یونین تحریک کے بانی بابائے محنت کشاں مرزا محمد ابراہیم کو پاکستان کے محنت کشوں سے جدا ہوئے 15 برس گزر گئے ہیں۔ 11 اگست 2014 کو ان کی پندرہویں برسی منائی جا رہی ہے۔ مرزا ابراہیم 1905 میں جہلم کے قریب ایک گاؤں کالا گجراں میں پیدا ہوئے، ان کے والد کا نام مرزا عبداﷲ بیگ تھا۔ وہ ایک چھوٹے اور بے زمین کسان تھے، ان کے ایک بڑے بھائی مرزا اﷲ دتہ چغتائی پشاور سے ایک اخبار روشنی نکالا کرتے تھے۔
مرزا ابراہیم مدرسہ تعلیم سے آگے نہ پڑھ سکے، جوانی میں قدم رکھتے ہی 1920-21 میں خلافت موومنٹ تحریک میں شمولیت اختیار کی۔ اس دور میں یہ تحریک پورے برصغیر میں موجود تھی جس کی قیادت مولانا محمد علی جوہر اور شوکت علی کر رہے تھے۔ مرزا ابراہیم نے اپنی ملازمت کا آغاز بطور مالی کیا اور پھر بھٹہ مزدور بن گئے، بعدازاں وہ 1925 میں برج ورکشاپ جہلم میں بطور معاون بھرتی ہوگئے۔ مزدوروں میں کام کرنا شروع کردیا۔ 1930 میں ان کا تبادلہ جہلم سے مغلپورہ کیرج ورکشاپ لاہور ہوگیا۔
ریلوے میں 1920 میں یونین بن چکی تھی۔ جہاں انھوں نے یونین میں حصہ لینا شروع کردیا۔ اس وقت ریلوے میں این ڈبلیو آر (NWR) یونین موجود تھی جس کے صدر ایک انگریز جے بی میلر (J.B. Millar) تھے، جو ریلوے میں گارڈ تھے جب کہ جنرل سیکریٹری ایم اے خان تھے۔ مرزا صاحب اس یونین میں شامل ہوگئے۔ مرزا ابراہیم مغلپورہ ورکشاپ کے صدر مقرر ہوئے، 1930 میں برطانیہ میں صنعتی بحران آیا ہوا تھا، اس کا اثر پورے ہندوستان کے محنت کشوں پر بھی پڑا، برطانیہ میں ہڑتالیں اور کارخانے بند ہونے لگے۔
ریلوے مزدوروں کی بھی چھانٹیاں ہونے لگیں، ان اقدامات کے خلاف مرزا ابراہیم کی قیادت میں مزدوروں نے بھی زبردست مظاہرے شروع کردیے، ادھر روس میں 1917 میں انقلاب آچکا تھا، جس کا اثر ہندوستان کے محنت کشوں پر بھی ہوا۔ 1935 میں کمیونسٹ پارٹی کی بنیاد پڑ چکی تھی۔ جس کے پہلے جنرل سیکریٹری پورن چند جوشی تھے، کمیونسٹ پارٹی محنت کشوں میں کام کر رہی تھی، اس دوران مرزا ابراہیم کا رابطہ لاہور میں ایک طالب علم جے گوپال کے ذریعے کمیونسٹ پارٹی سے ہوگیا اور یوں مرزا ابراہیم کمیونسٹ پارٹی کے حوالے سے لیبر ونگ کے انچارج بن گئے۔
مرزا صاحب نے بتایا کہ مجھے کمیونسٹ پارٹی والوں نے خوب پڑھایا اور سمجھایا کہ پارٹی محنت کشوں کا راج چاہتی ہے، سرمایہ کیا ہے، محنت کیا ہے، سرپلس ویلیو کیا ہے، طبقات کیا ہیں، مذہب کیا ہے، قومیں کیا ہیں، ملک کیا ہیں، سرمایہ داری کیا ہے، سوشلزم کیا ہے، مزدور طبقے کا کیا کردار ہونا چاہیے؟ اس طرح میں مکمل طور پر باخبر ہوگیا۔
بعد میں ہندوستان میں کمیونسٹ پارٹی نے کانگریس سے مل کر ریلوے میں ایک ریلوے مین فیڈریشن (Railway Man Federation) کی بنیاد رکھی، وہ اس کے بانیوں میں شامل تھے، وہ اس کے سینئر نائب صدر بنے جب کہ صدر وی وی گری (V.V. Gari) مقرر ہوئے جو بعد میں ہندوستان کے صدر بنے۔ جنرل سیکریٹری ایس اے ڈانگے مقرر ہوئے، ہندوستان میں انگریزوں کے خلاف سخت نفرت اور بغاوت تھی۔
1946 بغاوتوں کا سال تھا، اس دوران بری، بحری اور ایئرفورس میں بھی ہلچل تھی، دہلی میں پولیس نے بھی ہڑتال کردی۔ رائل فورس نے انبالہ میں بغاوت کردی، اسی سال ریلوے میں بھی برطرفیوں کے خلاف اور تنخواہوں میں اضافے کے لیے ریلوے میں فیڈریشن نے بھی ہڑتال کی کال دے دی اور پھر یکم مئی 1946 کو صبح 8 بجے تا 12 بجے (4 گھنٹے) مکمل ہڑتال کردی۔ اس طرح پورے ملک میں ہڑتالوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔
ملک تقسیم ہونے جا رہا تھا۔ اس موقع پر حکمرانوں نے مرزا صاحب کو بھاری معاوضے اور پروموشن دے کر حیدر آباد سندھ میں ورکشاپ کا اسسٹنٹ ورکس منیجر بنانے کی پیش کش کی جو انھوں نے ٹھکرا دی، بعدازاں انھیں اور ان کے ساتھیوں پر بغاوت کا مقدمہ بناکر گرفتار کرنے کی کوششیں کی گئیں مگر حکمران کامیاب نہ ہوسکے۔
مرزا ابراہیم انڈر گراؤنڈ ہوگئے، بعد میں حکمرانوں نے یونین رہنماؤں سے مذاکرات کیے اور ڈیڑھ لاکھ مزدور بے کار ہونے سے بچ گئے، جنھیں دوسری جنگ عظیم کے دوران بھرتی کیا گیا تھا اور اب حکومت ان کو نکالنا چاہتی تھی۔ مگر فیڈریشن اور یونین کی حکمت عملی، منصوبہ بندی اور ہڑتال کے باعث یہ مزدور بے روزگار ہونے سے بچ گئے اور حکومت کو کئی کروڑ روپے تنخواہوں کی مد میں دینے پڑے۔ ہڑتال اور بغاوت کے مقدمے کے سلسلے میں تقسیم سے 5 ماہ قبل مارچ1947 میں مرزا ابراہیم کو ملازمت سے برطرف کردیا گیا۔
اس وقت ان کی ملازمت کو 23 برس ہوچکے تھے اور کوئی معاوضہ بھی نہیں دیا گیا، وہ پارٹی اور مزدور فیڈریشن کے کل وقتی کارکن بن گئے۔ تقسیم کے بعد بھی انھوں نے کام جاری رکھا۔ پاکستان کمیونسٹ پارٹی کی بنیاد رکھی۔ قیام پاکستان کے بعد ریلوے ورکرز یونین اور پہلی مزدور فیڈریشن جس کا نام پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن رکھا گیا اس کے بانی صدر بنے۔ وزیراعظم لیاقت علی خان نے مرزا ابراہیم کو پیشکش کی کہ اب ملک بن چکا ہے، آپ کمیونسٹ پارٹی چھوڑ کر مسلم لیگ کا ساتھ دیں اور وزارت محنت کا قلم دان آپ کو دیا جائے گا، مگر انھوں نے اس پیشکش کو ٹھکرا دیا۔
حکومت سے اختلافات کے بعد دسمبر 1947 میں وہ گرفتار کرلیے گئے اور پاکستان کے پہلے سیاسی قیدی بنے۔ رہائی کے بعد پھر کام شروع کیا، 1949 میں پھر گرفتار ہوئے، 1951 میں جیل میں تھے۔ کمیونسٹ پارٹی اور پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن کی جانب سے انھیں ٹکٹ دیا گیا، وہ جیل میں تھے اور الیکشن پارٹی ورکرز لڑ رہے تھے، ان کے مقابلے پر حکمران جماعت کے احمد سعید کرمانی حسب امیدوار تھے، مرزا ابراہیم یہ الیکشن جیت گئے، ریڈیو سے ان کے جیتنے کا اعلان بھی ہوا.
بعد میں لیاقت علی خان کی ہدایات کے مطابق ہارنے والے احمد سعید کرمانی کو سرکاری امیدوار کی حیثیت سے کامیابی کا اعلان کردیا گیا اور مرزا ابراہیم کے 600 ووٹ رد کردیے گئے جو محنت کشوں نے ووٹ کے ساتھ ایک روپے کا نوٹ بھی لگا کر دیا تھا، یوں پہلی مرتبہ ملک میں الیکشن میں دھاندلی کی گئی۔ مرزا ابراہیم بار بار جیل جاتے رہے، شاہی قلعہ میں نظر بند رہے، 17 مرتبہ جیل گئے، 6 مرتبہ شاہی قلعہ میں نظر بند رہے۔
انھوں نے قائداعظم محمد علی جناح، موہن داس گاندھی، پنڈت جواہر لال نہرو، خان عبدالغفار خان، عبدالصمد خان اچکزئی، جی ایم سید، لیاقت علی خان، مولانا ابوالکلام آزاد سمیت کئی اہم رہنماؤں سے ملاقاتیں کیں، انھوں نے کئی اہم رہنماؤں کے ساتھ کام کیا، جیل کاٹی۔ وہ سیاست اور ٹریڈ یونین میں عبادت سمجھ کر کام کرتے تھے۔ وہ مرتے دم تک کارل مارکس، لینن، ماؤزے تنگ اور ہوچی منہ کو مانتے رہے اور زندگی کے آخری لمحات میں محنت کشوں کو منظم اور متحد کرنے میں لگے رہے۔ مزدوروں کا یہ قلندر 11 اگست 1999 کو کروڑوں محنت کشوں کو سوگوار چھوڑ گیا۔