صنف نازک کا وجود اب بھی ناپسندیدہ
صنف نازک کے ساتھ متواتر ایسے واقعات پیش آتے رہتے ہیں، جو حقیقت حال کھولنے کے لیے کافی ہیں۔
کہنے کو ہم بہت تہذیب یافتہ اور مہذب دور میں جی رہے ہیں۔ انسان نے بہت زیادہ ترقی کر لی ہے۔۔۔ کائنات کے دور دراز ستاروں پر کمند ڈال دی ہے، تو دوسری طرف تہذیب و ہنر بھی بام عروج پر ہے۔
ذات پات اور طبقات کی اونچ نیچ اور اس کی بنیاد پر نفرت اب ماضی کا حصہ تصور کی جاتی ہے، جب خواتین کو انسانیت سے کم تر مخلوق گردانا جاتا تھا۔ گھر میں زر خرید غلام کا سا سلوک ہوتا، تو معاشرے میں بھی انہیں دھتکارا جاتا، مگر آج کے دور میں ہر مقام پر تہذیب اور مساوات کی بات ہوتی ہے۔ اس کے باوجود صنف نازک کے ساتھ متواتر ایسے واقعات پیش آتے رہتے ہیں، جو حقیقت حال کھولنے کے لیے کافی ہیں۔ گھر سے شروع ہونے والی یہ تفریق دراصل پورے معاشرے میں ان کے استحصال کا آغاز ہوتی ہے، جو پھر لحد تک ان کا پیچھا کرتی ہے۔
شادی کے موقع پر لڑکیوں سے کہا جاتا ہے کہ اب تم اپنے گھر جا رہی ہو۔ یہ سوچتی ہیں کہ میں بھی ایک بیٹی ہوں۔۔۔ والدین بڑے پیار سے میری پرورش کرتے ہیں، پھر جب میں اپنے ہوش و حواس سنبھالنے کے لائق ہوتی ہوں تو مجھے گلی، محلہ، سڑکوں پر ڈر، ڈر کر جانا پڑتا ہے۔ ہر پل مجھے اپنی عزت و عصمت کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ پھر جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی مجھے اپنے تیسرے پڑائو یعنی سسرال جانا پڑتا ہے۔ اپنا گھر، اپنے والدین، بھائی اور بہن کو چھوڑنا پڑتا ہے۔ اس موقع پر کہا جاتا ہے کہ اب تک کی عمر میں رہنے والا میرے والدین کا گھر، میرا نہیں تھا اور دراصل اب میں اپنے گھر جا رہی ہوں۔
میری زندگی ایسی تبدیل ہوتی ہے کہ مجھے اپنا نام تک تبدیل کرنا پڑتا ہے، اس پر بھی بس نہیں ہوتا لوگ مجھے بھی بدلنے کی کوشش کرتے ہیں اور میں ڈھل جاتی ہوں۔ سماج نے ''اچھی لڑکی'' کے لیے یہ پیمانہ بنایا کہ میری اپنی کوئی شکل نہ ہو، جو چاہو اور جیسی چاہو بنا لو۔۔۔ اس لیے میں نے اب اپنی پوری زندگی بدل دی۔۔۔ جو میرے سسرال والے کہتے ہیں، وہی کرتی ہوں اس کے باوجود وہ مجھے نہیں اپناتے۔ جانے کیوں ہر بات میں مجھ سے خائف رہتے ہیں۔ کبھی ساس کا طعنہ، کبھی نند کے نخرے، کبھی شوہر کا غصہ اور کبھی والدین کے حوالے سے تنقید۔
آخر کب تک میں یہ سب کچھ سہوں گی اورکیوں؟ میرا گناہ کیا ہے؟ صرف یہ کہ میری پیدایش ایک لڑکی کے روپ میں ہوئی ہے۔ اگر ایسا ہے تو معاف کیجیے گا۔ یہ میری غلطی نہیں ہے یا یوں کہوں کہ یہ میری قدرت سے باہر تھا۔ مجھے لڑکی بناکر اس رب تعالیٰ نے پیدا کیا۔ جوہر غلطیوں سے پاک ہے اور اس کے کسی بھی فیصلے میں غلطی کی کوئی گنجایش نہیں ہوتی۔ مجھے اپنے رب سے کوئی شکایت نہیں، کیوں کہ اس نے تو مساوات کا حکم دیا ہے۔ خواتین کا مرتبہ بلند کیا ہے۔ ان کی عزت و توقیر اور ان کے حقوق پورے کرنے کا حکم دیا ہے۔ مجھے شکایت معاشرے سے ہے، جو ایسا نہیں کرتا۔
اس صورت حال کی اصل وجہ یہ ہے کہ دراصل لڑکیوں کا پورا جیون ہی بوجھ سمجھا جاتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ان کا بس چلے تو یہ زمانہ جاہلیت کی طرح پیدایش کے وقت ہی ان کا گلا گھونٹ دیں۔ اسی سوچ کے تحت زندگی بھر اس کے ساتھ ناروا سلوک اور مظالم کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔
کیا اپ میں سے کسی نے سوچا ہے کہ ان حالات کا کون ذمہ دار ہے۔ سوچیے اور فیصلہ کیجیے۔ ساتھ یہ بھی کہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے آپ نے کیا اقدام کیے؟ خواتین کے بغیر یہ کائنات بے رنگ ہے۔ نہ جانے کیوں ہمیں عورت والدہ کے روپ میں بہت عزیز۔۔۔ بیوی کے روپ میں چاہیے۔۔۔ بہن بھی ہمیں بہت مقدم۔۔۔ لیکن بیٹی کے وجود سے ہم گھبراتے ہیں؟ یہ مانتے بھی ہیں کہ بیٹی اللہ کی رحمت ہے، مگر پھر بھی اس کی پیدایش ہمیں بیٹے کی پیدایش جتنی خوشی نہیں دیتی۔۔۔ آپ کے پاس ہے کوئی جواب؟
ذات پات اور طبقات کی اونچ نیچ اور اس کی بنیاد پر نفرت اب ماضی کا حصہ تصور کی جاتی ہے، جب خواتین کو انسانیت سے کم تر مخلوق گردانا جاتا تھا۔ گھر میں زر خرید غلام کا سا سلوک ہوتا، تو معاشرے میں بھی انہیں دھتکارا جاتا، مگر آج کے دور میں ہر مقام پر تہذیب اور مساوات کی بات ہوتی ہے۔ اس کے باوجود صنف نازک کے ساتھ متواتر ایسے واقعات پیش آتے رہتے ہیں، جو حقیقت حال کھولنے کے لیے کافی ہیں۔ گھر سے شروع ہونے والی یہ تفریق دراصل پورے معاشرے میں ان کے استحصال کا آغاز ہوتی ہے، جو پھر لحد تک ان کا پیچھا کرتی ہے۔
شادی کے موقع پر لڑکیوں سے کہا جاتا ہے کہ اب تم اپنے گھر جا رہی ہو۔ یہ سوچتی ہیں کہ میں بھی ایک بیٹی ہوں۔۔۔ والدین بڑے پیار سے میری پرورش کرتے ہیں، پھر جب میں اپنے ہوش و حواس سنبھالنے کے لائق ہوتی ہوں تو مجھے گلی، محلہ، سڑکوں پر ڈر، ڈر کر جانا پڑتا ہے۔ ہر پل مجھے اپنی عزت و عصمت کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ پھر جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی مجھے اپنے تیسرے پڑائو یعنی سسرال جانا پڑتا ہے۔ اپنا گھر، اپنے والدین، بھائی اور بہن کو چھوڑنا پڑتا ہے۔ اس موقع پر کہا جاتا ہے کہ اب تک کی عمر میں رہنے والا میرے والدین کا گھر، میرا نہیں تھا اور دراصل اب میں اپنے گھر جا رہی ہوں۔
میری زندگی ایسی تبدیل ہوتی ہے کہ مجھے اپنا نام تک تبدیل کرنا پڑتا ہے، اس پر بھی بس نہیں ہوتا لوگ مجھے بھی بدلنے کی کوشش کرتے ہیں اور میں ڈھل جاتی ہوں۔ سماج نے ''اچھی لڑکی'' کے لیے یہ پیمانہ بنایا کہ میری اپنی کوئی شکل نہ ہو، جو چاہو اور جیسی چاہو بنا لو۔۔۔ اس لیے میں نے اب اپنی پوری زندگی بدل دی۔۔۔ جو میرے سسرال والے کہتے ہیں، وہی کرتی ہوں اس کے باوجود وہ مجھے نہیں اپناتے۔ جانے کیوں ہر بات میں مجھ سے خائف رہتے ہیں۔ کبھی ساس کا طعنہ، کبھی نند کے نخرے، کبھی شوہر کا غصہ اور کبھی والدین کے حوالے سے تنقید۔
آخر کب تک میں یہ سب کچھ سہوں گی اورکیوں؟ میرا گناہ کیا ہے؟ صرف یہ کہ میری پیدایش ایک لڑکی کے روپ میں ہوئی ہے۔ اگر ایسا ہے تو معاف کیجیے گا۔ یہ میری غلطی نہیں ہے یا یوں کہوں کہ یہ میری قدرت سے باہر تھا۔ مجھے لڑکی بناکر اس رب تعالیٰ نے پیدا کیا۔ جوہر غلطیوں سے پاک ہے اور اس کے کسی بھی فیصلے میں غلطی کی کوئی گنجایش نہیں ہوتی۔ مجھے اپنے رب سے کوئی شکایت نہیں، کیوں کہ اس نے تو مساوات کا حکم دیا ہے۔ خواتین کا مرتبہ بلند کیا ہے۔ ان کی عزت و توقیر اور ان کے حقوق پورے کرنے کا حکم دیا ہے۔ مجھے شکایت معاشرے سے ہے، جو ایسا نہیں کرتا۔
اس صورت حال کی اصل وجہ یہ ہے کہ دراصل لڑکیوں کا پورا جیون ہی بوجھ سمجھا جاتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ان کا بس چلے تو یہ زمانہ جاہلیت کی طرح پیدایش کے وقت ہی ان کا گلا گھونٹ دیں۔ اسی سوچ کے تحت زندگی بھر اس کے ساتھ ناروا سلوک اور مظالم کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔
کیا اپ میں سے کسی نے سوچا ہے کہ ان حالات کا کون ذمہ دار ہے۔ سوچیے اور فیصلہ کیجیے۔ ساتھ یہ بھی کہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے آپ نے کیا اقدام کیے؟ خواتین کے بغیر یہ کائنات بے رنگ ہے۔ نہ جانے کیوں ہمیں عورت والدہ کے روپ میں بہت عزیز۔۔۔ بیوی کے روپ میں چاہیے۔۔۔ بہن بھی ہمیں بہت مقدم۔۔۔ لیکن بیٹی کے وجود سے ہم گھبراتے ہیں؟ یہ مانتے بھی ہیں کہ بیٹی اللہ کی رحمت ہے، مگر پھر بھی اس کی پیدایش ہمیں بیٹے کی پیدایش جتنی خوشی نہیں دیتی۔۔۔ آپ کے پاس ہے کوئی جواب؟