پاکستان ایک نظر میں ایک سوال میرا بھی
کم از کم یہ تو واضح ہونا چا ہیے کہ کس جماعت کا پاکستانی پرچم اپنی گلی یا محلے میں سجا یا جائے گا؟۔
اگست کے مہینے میں گہما گہمی کا عالم کوئی نئی با ت نہیں لیکن اس بار یہ ہلچل پاکستان کے بننے سے زیادہ نیا پا کستان بننے کی خواہش میں ہے۔ ہر جماعت کا ایک ہی نعرہ ہے کہ ہم نیا پا کستان بنانا چا ہتے ہیں جو ہر لحاظ ایک آئیڈیل ملک ہو گا۔ ہر کسی کے ذہن میں نئے پاکستان کا اپنا ہی نقشہ ہے۔ کوئی آرٹیکل 62 اور 63 کے مطا بق تما م اداروں خا ص طور پر عدلیہ اور حکومت میں تقرری کو را ئج کرنا چا ہتا ہے۔ اور کوئی نئی بنیادوں پر الیکشن کمیشن کی بنیا د رکھ کر کرپشن فری حکومت بنانے کی خوا ہش کا اظہا ر کر رہا ہے۔ اور کوئی اس زعم میں بیٹھا ہے کہ نیا پا کستان تو ہم نے بنا لیا ہے جہاں لوگ خوشحال ہیں۔
کچھ سا لوں پہلے تک ہم اگست کے مہینے میں اپنے گلی محلوں کو سبز پرچم اور رنگ برنگی جھنڈیوں سے سجا یا کرتے تھے۔ تما م تر مسا ئل کے با وجود وعوام اگست کے مہینے کو شایانِ شان منانے کی اپنی سی کوشش کیا کرتے تھے۔ 14 اگست کو بچے پا کستان کے خوبصورت اور تا ریخی مقامات کے ما ڈلز بنا کر اپنے وطن اور اس کے حصول کے لئے اپنا سب کچھ قربا ن کرنے والوں کو خراجِ تحسین پیش کرتے تھے۔ لیکن تب اندرونی اختلافات کی بجا ئے اہم مقصد پوری دنیا کو یہ پیغام دینا ہوتا تھا کہ ہم زندہ قوم ہیں اور اس سبز ہلالی پر چم کے نیچے ہم سب ایک ہیں۔ اب پرچم علیحدہ ہیں، نعرے الگ ہیں، اور سوچ مختلف ہے۔ قا ئدِ اعظم کے بنا ئے ہوئے پا کستان کو اپنے ہا تھوں سے خرا ب کرنے والے اب دو سے تین بلکہ چار دھروں میں بٹ گئے ہیں۔ ہر کوئی اسی با ت پر مصر ہے کہ وہ درست اور با قی سب غلط ہیں۔
عجیب با ت یہ ہے کہ ان میں سے کوئی خا رجی یا کا فر نہیں۔ سب ایک ہی قوم اور ایک ہی مذہب کے پیروکار ہیں۔ ما رنے والا بھی مسلمان ہے اور مرنے والا بھی مگر ہر کسی کا شہید اپنا اپنا ہے۔ ملک میں تما م مسا ئل جوں کے توں ہیں۔ لوڈشیڈنگ کا دورانیہ کم ہونے کی بجا ئے بڑھ گیا ہے۔ ہڑتا لوں اور دھرنوں کی وجہ سے ملکی معیشت کا پہیہ جو پہلے ہی رک رک کے چل رہا تھا اب با لکل رک گیا ہے ۔اور اسلام آباد میں موجود بلیو ایریا جو ایک بین الاقوامی تجا رت کے لئے جانا جاتا ہے ، سب سے زیادہ متا ثر ہوا ہے۔اس کا ثبوت یہ ہے کہ مولا نا طا ہر القادری کے گذشتہ دھرنے کے نتیجے میں بلیو ایریا کے تا جروں کو ایک سے دو ارب تک نقصان اٹھا نا پڑا تھا۔
یومِ آزادی کو ملکی انتشار کی نظر کر نے سے سوائے جگ ہنسائی کے اور کوئی فا ئدہ حا صل ہوتا نظر نہیں آتا۔ کیا پا کستان میں بھی حالات مصر، لیبیا، عراق یا شا م سے بد تر ہو گئے ہیں کہ حکومت کا تختہ الٹنا نا گزیر ہو گیا ہے؟ کیا ہم سب مل کر مارشل لاء کو پھر سے خود پر مسلط کرنے پر مصر ہیں ؟ شا ید ہمیں ما رشل لاء جیسی بلاء میں مبتلا رہنے کی عا دت ہو چکی ہے۔
ہما رے حکمران یومِ آزادی پر اس با ت کی تر غیب دے رہے ہیں کہ پا کستان کے پر چم کے بجائے اپنی اپنی جماعتوں کے جھنڈے اٹھا کر سڑکوں پر آجا ئیں کیونکہ اس کے علاوہ اور کوئی آپشن اُن کے پا س موجود نہیں ہے۔ حالات کی بگڑتی ہوئی صورتحال میں ایک اور سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ انتظا میہ کے تشخص کو جس بے دردی سے مسخ کیا جا رہا ہے کیا 14اگست کے گزرنے کے بعد کوئی بھی حکمران اُس وقار کو دوبا رہ بحا ل کر پا ئے گا؟ کیا عوام اور انتظامیہ کے درمیان پیدا ہونے والی خلیج کو کم کیا جا سکے گا؟ کیا کسی بھی انقلابی لیڈر کے پا س قا ئدِ اعظم جیسی دور اندیشی یا حکمت ہے جو نیا پاکستان بغیرکسی فساد اور تشدد کے بنا سکے؟ 2013 کے انتخابات ایک آئیڈیل صورتحال لے کر آئے تھے جس میں ملک کی بڑی جما عتوں کو ایک ایک صوبہ مل گیا تھا جس کو وہ ایک منی پا کستان بنا کر دنیا کو اپنی صلا حتیوں کا معترف بنا سکتے تھے۔
پاکستان تحریک انصاف خیبر پختونخوا کی بہتری کے لئے اپنی تما م تر تو انا ئیاں صرف کرتی اور اپنی پا لیسیوں سے اگلے الیکشن میں جیت کی راہ ہموار کرتی۔ لیکن پی ٹی آئی کے لئے عوام سے زیا دہ اہم چا ر حلقوں کے انتخابات تھے۔ پنجاب میں مسلم لیگ ن کے لیے بھی ایک بڑا چیلنج تھا کہ حکمران جماعت ہونے کی وجہ سے وہ تمام جما عتوں کو اپنے سا تھ ملا کر ملک کے مفا د کے لئے فیصلے کرتی مگر پنجا ب میں اپنی با دشا ہت قا ئم رکھنے کے لئے تمام اداروں کا وقار داؤ پر لگا دیا۔ سندھ اور بلوچستان کی صورتحال بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ اگر اقتدار میں موجود سب جماعتیں اپنی اعلٰی کا رکردگی کا مظاہرہ کرتیں تو کسی بھی انقلاب کی ضرورت ہی با قی نہ رہتی۔ اور نہ ہی اس ڈیڈلاک کا سامنا کرنا پڑتا جس میں اب سب جما عتیں بُری طرح سے پھنسی ہوئی محسوس ہو رہی ہیں۔ اور تو اورکوئی بھی پیچھے ہٹنے کو تیا ر نہیں ہے کیونکہ پا کستان اُن کا ہے با قی سب اُس پر غا صبا نہ قا بض ہیں۔
اس سب صورتحال میں صرف ایک سوال تما م حکمرانوں سے ہے کہ اس بار کس کے پاکستان کا دن منا یا جا ئے گا؟ یہ سوال اس لئے اہم ہے کہ حالات جیسے بھی ہوں پا کستانی عوام جشن آزادی تو منائیں گے۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
کچھ سا لوں پہلے تک ہم اگست کے مہینے میں اپنے گلی محلوں کو سبز پرچم اور رنگ برنگی جھنڈیوں سے سجا یا کرتے تھے۔ تما م تر مسا ئل کے با وجود وعوام اگست کے مہینے کو شایانِ شان منانے کی اپنی سی کوشش کیا کرتے تھے۔ 14 اگست کو بچے پا کستان کے خوبصورت اور تا ریخی مقامات کے ما ڈلز بنا کر اپنے وطن اور اس کے حصول کے لئے اپنا سب کچھ قربا ن کرنے والوں کو خراجِ تحسین پیش کرتے تھے۔ لیکن تب اندرونی اختلافات کی بجا ئے اہم مقصد پوری دنیا کو یہ پیغام دینا ہوتا تھا کہ ہم زندہ قوم ہیں اور اس سبز ہلالی پر چم کے نیچے ہم سب ایک ہیں۔ اب پرچم علیحدہ ہیں، نعرے الگ ہیں، اور سوچ مختلف ہے۔ قا ئدِ اعظم کے بنا ئے ہوئے پا کستان کو اپنے ہا تھوں سے خرا ب کرنے والے اب دو سے تین بلکہ چار دھروں میں بٹ گئے ہیں۔ ہر کوئی اسی با ت پر مصر ہے کہ وہ درست اور با قی سب غلط ہیں۔
عجیب با ت یہ ہے کہ ان میں سے کوئی خا رجی یا کا فر نہیں۔ سب ایک ہی قوم اور ایک ہی مذہب کے پیروکار ہیں۔ ما رنے والا بھی مسلمان ہے اور مرنے والا بھی مگر ہر کسی کا شہید اپنا اپنا ہے۔ ملک میں تما م مسا ئل جوں کے توں ہیں۔ لوڈشیڈنگ کا دورانیہ کم ہونے کی بجا ئے بڑھ گیا ہے۔ ہڑتا لوں اور دھرنوں کی وجہ سے ملکی معیشت کا پہیہ جو پہلے ہی رک رک کے چل رہا تھا اب با لکل رک گیا ہے ۔اور اسلام آباد میں موجود بلیو ایریا جو ایک بین الاقوامی تجا رت کے لئے جانا جاتا ہے ، سب سے زیادہ متا ثر ہوا ہے۔اس کا ثبوت یہ ہے کہ مولا نا طا ہر القادری کے گذشتہ دھرنے کے نتیجے میں بلیو ایریا کے تا جروں کو ایک سے دو ارب تک نقصان اٹھا نا پڑا تھا۔
یومِ آزادی کو ملکی انتشار کی نظر کر نے سے سوائے جگ ہنسائی کے اور کوئی فا ئدہ حا صل ہوتا نظر نہیں آتا۔ کیا پا کستان میں بھی حالات مصر، لیبیا، عراق یا شا م سے بد تر ہو گئے ہیں کہ حکومت کا تختہ الٹنا نا گزیر ہو گیا ہے؟ کیا ہم سب مل کر مارشل لاء کو پھر سے خود پر مسلط کرنے پر مصر ہیں ؟ شا ید ہمیں ما رشل لاء جیسی بلاء میں مبتلا رہنے کی عا دت ہو چکی ہے۔
ہما رے حکمران یومِ آزادی پر اس با ت کی تر غیب دے رہے ہیں کہ پا کستان کے پر چم کے بجائے اپنی اپنی جماعتوں کے جھنڈے اٹھا کر سڑکوں پر آجا ئیں کیونکہ اس کے علاوہ اور کوئی آپشن اُن کے پا س موجود نہیں ہے۔ حالات کی بگڑتی ہوئی صورتحال میں ایک اور سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ انتظا میہ کے تشخص کو جس بے دردی سے مسخ کیا جا رہا ہے کیا 14اگست کے گزرنے کے بعد کوئی بھی حکمران اُس وقار کو دوبا رہ بحا ل کر پا ئے گا؟ کیا عوام اور انتظامیہ کے درمیان پیدا ہونے والی خلیج کو کم کیا جا سکے گا؟ کیا کسی بھی انقلابی لیڈر کے پا س قا ئدِ اعظم جیسی دور اندیشی یا حکمت ہے جو نیا پاکستان بغیرکسی فساد اور تشدد کے بنا سکے؟ 2013 کے انتخابات ایک آئیڈیل صورتحال لے کر آئے تھے جس میں ملک کی بڑی جما عتوں کو ایک ایک صوبہ مل گیا تھا جس کو وہ ایک منی پا کستان بنا کر دنیا کو اپنی صلا حتیوں کا معترف بنا سکتے تھے۔
پاکستان تحریک انصاف خیبر پختونخوا کی بہتری کے لئے اپنی تما م تر تو انا ئیاں صرف کرتی اور اپنی پا لیسیوں سے اگلے الیکشن میں جیت کی راہ ہموار کرتی۔ لیکن پی ٹی آئی کے لئے عوام سے زیا دہ اہم چا ر حلقوں کے انتخابات تھے۔ پنجاب میں مسلم لیگ ن کے لیے بھی ایک بڑا چیلنج تھا کہ حکمران جماعت ہونے کی وجہ سے وہ تمام جما عتوں کو اپنے سا تھ ملا کر ملک کے مفا د کے لئے فیصلے کرتی مگر پنجا ب میں اپنی با دشا ہت قا ئم رکھنے کے لئے تمام اداروں کا وقار داؤ پر لگا دیا۔ سندھ اور بلوچستان کی صورتحال بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ اگر اقتدار میں موجود سب جماعتیں اپنی اعلٰی کا رکردگی کا مظاہرہ کرتیں تو کسی بھی انقلاب کی ضرورت ہی با قی نہ رہتی۔ اور نہ ہی اس ڈیڈلاک کا سامنا کرنا پڑتا جس میں اب سب جما عتیں بُری طرح سے پھنسی ہوئی محسوس ہو رہی ہیں۔ اور تو اورکوئی بھی پیچھے ہٹنے کو تیا ر نہیں ہے کیونکہ پا کستان اُن کا ہے با قی سب اُس پر غا صبا نہ قا بض ہیں۔
اس سب صورتحال میں صرف ایک سوال تما م حکمرانوں سے ہے کہ اس بار کس کے پاکستان کا دن منا یا جا ئے گا؟ یہ سوال اس لئے اہم ہے کہ حالات جیسے بھی ہوں پا کستانی عوام جشن آزادی تو منائیں گے۔
تقسیم کیا تھا ہم نے جسے جمع ہو کر
اپنی تفریق سے پھر اُسے تقسیم کرتے ہیں
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔