آزادی سے ڈکیتیاں
گھاؤ نظر نہیں آتے، لیکن درحقیقت کراچی کے لوگ کتنی ہی دفعہ جیتے ہیں اور کتنی ہی دفعہ مرتے ہیں۔
SIRTE/LIBYA:
جس کے جسم میں گھاؤ لگتا ہے تکلیف کی شدت کو وہی محسوس کرسکتا ہے۔ باقی تو فقط ہمدردی کرسکتے ہیں، لیکن گھائل ہونے والا شخص تمام عمر اس کرب کے احساس کے ساتھ گزارتا ہے۔ایسے ایسے واقعات میرے ساتھ رونما ہوئے کہ میں ششدر ہوں یہ سوچ کر آخر یہ سب کچھ اگر میرے ساتھ نہ ہوتا تو میں کیوں کرکسی اور کی تکلیف کو محسوس کرسکتی اور ایک قلم کار کی حیثیت سے وہ سب کیسے میرے لفظوں میں ڈھلتا جو آج کراچی کا ہر شہری سہ رہا ہے۔
کراچی! میرا لاوارث کراچی، یہ روشنیوں کا شہر کراچی۔۔۔۔روشنیاں جلتی ہیں اور آنکھیں چندھیا جاتی ہیں۔ یکایک انجانی سمت سے وار ہوتا ہے، کبھی جسم گھائل ہوتے ہیں اور کبھی یہاں کا کرپشن روح کو زخمی کرجاتا ہے، لیکن سانسوں کا قافلہ رواں دواں رہتا ہے اور دوسرے ہی لمحے زندگی پھر معمول پر آجاتی ہے۔ صبح سے لے کر رات تک یہاں کے باسیوں کو نہ جانے کتنے زخم لگتے ہیں اور انھیں سہنا ان کی مجبوری ہے۔ آواز کون اٹھائے فکر روز گار میں اتنا پاگل کردیا گیا ہے کہ آوازیں حلق میں پھنس کر رہ گئی ہیں۔ گھاؤ نظر نہیں آتے، لیکن درحقیقت کراچی کے لوگ کتنی ہی دفعہ جیتے ہیں اور کتنی ہی دفعہ مرتے ہیں۔ حکومت کو زندہ رہنے کا ٹیکس کراچی کے عوام اپنی زندگیوں کی قربانی دیتے ہوئے ادا کر رہے ہیں۔
چھ اگست کی رات بچوں کو جشن آزادی کا سامان دلانے رات 9 بجے میں اور میرے رفیق حیات اپنی دونوں بیٹیوں کے ساتھ باہر نکلے ہوئے تھے۔ ناظم آباد کی مشہور شاہراہ نورجہاں لوگوں کا ہجوم رات گئے تک رہتا ہے۔ گاڑی روک کر میرے رفیق حیات سامان لینے دکان تک گئے اور میں اپنی بیٹی کو غبارہ دلانے کی غرض سے باہر آگئی۔ اچانک ایک شخص بھاگتا ہوا آیا اور میرے قریب کھڑے ہوکر کچھ کہنے لگا۔ ایک اجنبی کو اس طرح خود سے مخاطب دیکھ میں نے غصے سے اسے پہلے خود سے فاصلہ رکھنے کے لیے کہا۔
میں ابھی معاملے کی نوعیت سمجھ نہ پائی تھی کہ اس نے نہایت تیزی سے میری ڈھائی سالہ بیٹی کو میرے ہاتھوں سے چھین کر اپنے ہاتھوں میں جکڑلیا اور اس پر پستول تان لی۔ اب میرے پاس اس کی بات سننے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہ تھا۔ میں نے اسے بچی کو چھوڑنے کے لیے کہا۔ میری بات ختم ہونے سے پہلے ہی اس نے میری بیٹی کو جان سے مارنے کی دھمکی دی اور ساتھ ہی مجھ سے میرا موبائل فون اور نقدی مانگ لی۔ اب معاملہ صاف تھا۔
وہ ایک راہ زن تھا اور وہ ہی کچھ میرے ساتھ ہو رہا تھا، جو کراچی میں رہنے والے 98 فیصد لوگوں کے ساتھ ہوچکا ہے۔ اس دفعہ نشانے پر میں تھی۔ میری بڑی بیٹی جو چپ چاپ یہ تماشا دیکھ رہی تھی مجھے معلوم نہیں کب اپنے والد کو مدد کے لیے پکارتے ہوئے ان کی طرف دوڑنے لگی۔ اسے یوں بھاگتا دیکھ کر راہ زن نے اس کی طرف پستول تان لی۔
اس سے پہلے کہ وہ کچھ کرتا، میں نے اس کا ہاتھ نہایت تیزی سے نیچے کردیا اور ساتھ ہی اس سے کہا کہ میں تمھیں سامان دے رہی ہوں بچوں کو کچھ مت کہنا۔ لمحہ بھر میں نے اسے اپنا تمام قیمتی سامان تھمادیا۔ دور سے میری بیٹی اور میرے شوہر کو آتا دیکھ کر وہ سروس روڈ سے مین روڈ کی طرف بھاگا۔ میں اور میری دونوں بیٹیاں محفوظ تھیں، مالک کا کرم تھا۔ اتنا ہی کافی تھا۔ قیمتی سامان سے زیادہ مجھے اپنے کاغذات کی فکر تھی، جو وہ اپنے ساتھ لے گیا تھا۔
یہ واقعہ کوئی انوکھا نہیں۔ شہر قائد میں تو یہ ہوتا ہی رہتا ہے۔ اب تو یہاں کے شہری اس قسم کے واقعات کو اتنا ہی معمولی سمجھتے ہیں جیسے کوئی راہ زن یا ڈکیت ان سے اپنا ہی مال لے گیا ہو۔ خاص طور پر سستے موبائل فون اور کچھ رقم مخصوص کرکے لٹیرے کو دینے کے لیے رکھ دی جاتی ہے۔ کچھ یوں ہی ہوا ہے کہ روشنی میں کالے سیاہ دھبے پڑنا شروع ہوئے اول تو یہ آنکھوں کو برے لگے، لیکن رفتہ رفتہ ساری روشنی ہی ختم ہوگئی اور اب حال یہ ہے کہ اندھیرا آنکھوں کو اتنا بھلا لگنے لگا ہے کہ روشنی کا ایک نقطہ بھی اب آنکھوں کو چندھیا دیتا ہے۔
کراچی میں راہ زنی اب کوئی واردات نہیں معمول کی کہانی ہے اور کہا یہ جاتا ہے کہ آخر بے روزگار یہ بھی نہ کریں تو کیا کریں۔۔۔۔۔تف ہے اس سوچ پر، یہ اندازفکر رکھنے والے اس قسم کے جملے ادا کر کے اپنے ہی بچوں کے مستقبل کو نگل رہے ہیں۔
کراچی میں امن و امان قائم کرنا خواب ہی رہا۔ خواب کی تعبیر کے دعوے عرصۂ دراز سے ہم سنتے آ رہے ہیں، لیکن حقیقت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وزیراعظم بھی کراچی میں امن قائم کرنے کی غرض سے شروع کیے جانے والے منصوبے کا جائزہ لیتے ہوئے مایوس نظر آئے۔بہتری کے لیے کیے جانے والے اقدامات کے کوئی نتائج برآمد ہوئے ہوں یا نہ ہوئے ہوں عوام اور سکیورٹی ادارے کے درمیان دوری ضرور پیدا ہوگئی، رہی پولیس، اسے اختیار حاصل تو ہیں، لیکن یہ اختیارات صرف ان افسران کو حاصل ہیں جو حکومت کے آشیرواد کے ساتھ فرائض انجام دے رہے ہیں۔ حکومت سندھ کراچی پر اپنا حق تو جتاتی ہے، لیکن یہ شہر ہمیشہ حکومت کے دست شفقت سے محروم رہا ہے۔
اگر پولیس چاہے تو کراچی میں امن وامان کی صورت حال خاصی حد تک بہتر بناسکتی ہے۔ زمینی حقائق کا جائزہ لیا جائے تو پولیس ہی وہ واحد ادارہ ہے جس کی مثبت اور فعال کارروائیاں مسائل کا حل ہیں۔ لیکن صد افسوس کہ اس محکمے میں 80 فیصد بھرتیاں سفارش پر کی جاتی ہیں۔ چھوٹے درجے سے لے کر اعلیٰ عہدوں تک ذاتی پسندیدگی، پرچیوں اور پیسوں کے بل پر کرسی سونپ دی جاتی ہے۔ ادارے میں آٹے میں نمک کے برابر موجود مخلص اور دیانت دار افسران میں سے کوئی جرم کا صفایا کرنے کا سوچ ہی لے تو یا تو اس کے تبادلے کے احکامات جاری کردیے جاتے ہیں یا وہ بے چارہ اپنی جان ہی سے جاتا ہے۔
عوام کی حالت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پہلے تو خوف کا شکار شہری اپنے ساتھ ہونے والے واقعے کی رپورٹ درج کروانے تھانے کا رخ نہیں کرتا اور اگر کر بھی لے تو اس کے ساتھ بھی شاید وہ ہی سب کچھ ہو جو میرے ساتھ ہوا۔ نارتھ ناظم آباد پولیس اسٹیشن ویسٹ زون میں پولیس اہلکار نے ایف آئی آر درج کرنے پر اس وقت رضامندی ظاہر کی جب اس کے اصرار پر جیب گرم کرنے کے لیے اسے ڈیڑھ سو روپے دیے گئے۔ یہ صورت حال میرے شہر میں لا اینڈ آرڈر کی ہے۔ یعنی لا تو کہیں کتابوں میں کھو کر رہ گیا ہے، جب کہ آرڈر دینے والے ڈیڑھ سو روپے میں آرڈر جاری کرتے ہیں۔جس وقت میں یہ کالم لکھ رہی ہوں گھر میں بجلی نہیں ہے، پانی۔۔۔۔وہ تو آدھے کراچی کا خواب بن کر رہ گیا ہے۔ موبائل فون راہ زن لے گیا اور وولٹیج کی اچانک زیادتی سے کل رات انٹرنیٹ کا موڈیم بھی جل بسا۔
ہائے یہ میرا کراچی، کہاں گیا میرا وہ شہر جو درحقیقت روشنیوں کا شہر تھا۔ لوٹ مار اسلحے کے زور ہی پر نہیں ہورہی، اور بھی لٹیرے ہیں جو دیگر طریقوں سے لوٹ رہے ہیں۔ ضروریات زندگی، بلدیاتی نظام، پانی اور بجلی کی ڈکیتی جاری ہے اور ہر ڈکیتی اور راہ زنی بڑی آزادی سے ہورہی ہے۔۔۔ ہم عوام روز ہی لٹ رہے ہیں ۔
جس کے جسم میں گھاؤ لگتا ہے تکلیف کی شدت کو وہی محسوس کرسکتا ہے۔ باقی تو فقط ہمدردی کرسکتے ہیں، لیکن گھائل ہونے والا شخص تمام عمر اس کرب کے احساس کے ساتھ گزارتا ہے۔ایسے ایسے واقعات میرے ساتھ رونما ہوئے کہ میں ششدر ہوں یہ سوچ کر آخر یہ سب کچھ اگر میرے ساتھ نہ ہوتا تو میں کیوں کرکسی اور کی تکلیف کو محسوس کرسکتی اور ایک قلم کار کی حیثیت سے وہ سب کیسے میرے لفظوں میں ڈھلتا جو آج کراچی کا ہر شہری سہ رہا ہے۔
کراچی! میرا لاوارث کراچی، یہ روشنیوں کا شہر کراچی۔۔۔۔روشنیاں جلتی ہیں اور آنکھیں چندھیا جاتی ہیں۔ یکایک انجانی سمت سے وار ہوتا ہے، کبھی جسم گھائل ہوتے ہیں اور کبھی یہاں کا کرپشن روح کو زخمی کرجاتا ہے، لیکن سانسوں کا قافلہ رواں دواں رہتا ہے اور دوسرے ہی لمحے زندگی پھر معمول پر آجاتی ہے۔ صبح سے لے کر رات تک یہاں کے باسیوں کو نہ جانے کتنے زخم لگتے ہیں اور انھیں سہنا ان کی مجبوری ہے۔ آواز کون اٹھائے فکر روز گار میں اتنا پاگل کردیا گیا ہے کہ آوازیں حلق میں پھنس کر رہ گئی ہیں۔ گھاؤ نظر نہیں آتے، لیکن درحقیقت کراچی کے لوگ کتنی ہی دفعہ جیتے ہیں اور کتنی ہی دفعہ مرتے ہیں۔ حکومت کو زندہ رہنے کا ٹیکس کراچی کے عوام اپنی زندگیوں کی قربانی دیتے ہوئے ادا کر رہے ہیں۔
چھ اگست کی رات بچوں کو جشن آزادی کا سامان دلانے رات 9 بجے میں اور میرے رفیق حیات اپنی دونوں بیٹیوں کے ساتھ باہر نکلے ہوئے تھے۔ ناظم آباد کی مشہور شاہراہ نورجہاں لوگوں کا ہجوم رات گئے تک رہتا ہے۔ گاڑی روک کر میرے رفیق حیات سامان لینے دکان تک گئے اور میں اپنی بیٹی کو غبارہ دلانے کی غرض سے باہر آگئی۔ اچانک ایک شخص بھاگتا ہوا آیا اور میرے قریب کھڑے ہوکر کچھ کہنے لگا۔ ایک اجنبی کو اس طرح خود سے مخاطب دیکھ میں نے غصے سے اسے پہلے خود سے فاصلہ رکھنے کے لیے کہا۔
میں ابھی معاملے کی نوعیت سمجھ نہ پائی تھی کہ اس نے نہایت تیزی سے میری ڈھائی سالہ بیٹی کو میرے ہاتھوں سے چھین کر اپنے ہاتھوں میں جکڑلیا اور اس پر پستول تان لی۔ اب میرے پاس اس کی بات سننے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہ تھا۔ میں نے اسے بچی کو چھوڑنے کے لیے کہا۔ میری بات ختم ہونے سے پہلے ہی اس نے میری بیٹی کو جان سے مارنے کی دھمکی دی اور ساتھ ہی مجھ سے میرا موبائل فون اور نقدی مانگ لی۔ اب معاملہ صاف تھا۔
وہ ایک راہ زن تھا اور وہ ہی کچھ میرے ساتھ ہو رہا تھا، جو کراچی میں رہنے والے 98 فیصد لوگوں کے ساتھ ہوچکا ہے۔ اس دفعہ نشانے پر میں تھی۔ میری بڑی بیٹی جو چپ چاپ یہ تماشا دیکھ رہی تھی مجھے معلوم نہیں کب اپنے والد کو مدد کے لیے پکارتے ہوئے ان کی طرف دوڑنے لگی۔ اسے یوں بھاگتا دیکھ کر راہ زن نے اس کی طرف پستول تان لی۔
اس سے پہلے کہ وہ کچھ کرتا، میں نے اس کا ہاتھ نہایت تیزی سے نیچے کردیا اور ساتھ ہی اس سے کہا کہ میں تمھیں سامان دے رہی ہوں بچوں کو کچھ مت کہنا۔ لمحہ بھر میں نے اسے اپنا تمام قیمتی سامان تھمادیا۔ دور سے میری بیٹی اور میرے شوہر کو آتا دیکھ کر وہ سروس روڈ سے مین روڈ کی طرف بھاگا۔ میں اور میری دونوں بیٹیاں محفوظ تھیں، مالک کا کرم تھا۔ اتنا ہی کافی تھا۔ قیمتی سامان سے زیادہ مجھے اپنے کاغذات کی فکر تھی، جو وہ اپنے ساتھ لے گیا تھا۔
یہ واقعہ کوئی انوکھا نہیں۔ شہر قائد میں تو یہ ہوتا ہی رہتا ہے۔ اب تو یہاں کے شہری اس قسم کے واقعات کو اتنا ہی معمولی سمجھتے ہیں جیسے کوئی راہ زن یا ڈکیت ان سے اپنا ہی مال لے گیا ہو۔ خاص طور پر سستے موبائل فون اور کچھ رقم مخصوص کرکے لٹیرے کو دینے کے لیے رکھ دی جاتی ہے۔ کچھ یوں ہی ہوا ہے کہ روشنی میں کالے سیاہ دھبے پڑنا شروع ہوئے اول تو یہ آنکھوں کو برے لگے، لیکن رفتہ رفتہ ساری روشنی ہی ختم ہوگئی اور اب حال یہ ہے کہ اندھیرا آنکھوں کو اتنا بھلا لگنے لگا ہے کہ روشنی کا ایک نقطہ بھی اب آنکھوں کو چندھیا دیتا ہے۔
کراچی میں راہ زنی اب کوئی واردات نہیں معمول کی کہانی ہے اور کہا یہ جاتا ہے کہ آخر بے روزگار یہ بھی نہ کریں تو کیا کریں۔۔۔۔۔تف ہے اس سوچ پر، یہ اندازفکر رکھنے والے اس قسم کے جملے ادا کر کے اپنے ہی بچوں کے مستقبل کو نگل رہے ہیں۔
کراچی میں امن و امان قائم کرنا خواب ہی رہا۔ خواب کی تعبیر کے دعوے عرصۂ دراز سے ہم سنتے آ رہے ہیں، لیکن حقیقت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وزیراعظم بھی کراچی میں امن قائم کرنے کی غرض سے شروع کیے جانے والے منصوبے کا جائزہ لیتے ہوئے مایوس نظر آئے۔بہتری کے لیے کیے جانے والے اقدامات کے کوئی نتائج برآمد ہوئے ہوں یا نہ ہوئے ہوں عوام اور سکیورٹی ادارے کے درمیان دوری ضرور پیدا ہوگئی، رہی پولیس، اسے اختیار حاصل تو ہیں، لیکن یہ اختیارات صرف ان افسران کو حاصل ہیں جو حکومت کے آشیرواد کے ساتھ فرائض انجام دے رہے ہیں۔ حکومت سندھ کراچی پر اپنا حق تو جتاتی ہے، لیکن یہ شہر ہمیشہ حکومت کے دست شفقت سے محروم رہا ہے۔
اگر پولیس چاہے تو کراچی میں امن وامان کی صورت حال خاصی حد تک بہتر بناسکتی ہے۔ زمینی حقائق کا جائزہ لیا جائے تو پولیس ہی وہ واحد ادارہ ہے جس کی مثبت اور فعال کارروائیاں مسائل کا حل ہیں۔ لیکن صد افسوس کہ اس محکمے میں 80 فیصد بھرتیاں سفارش پر کی جاتی ہیں۔ چھوٹے درجے سے لے کر اعلیٰ عہدوں تک ذاتی پسندیدگی، پرچیوں اور پیسوں کے بل پر کرسی سونپ دی جاتی ہے۔ ادارے میں آٹے میں نمک کے برابر موجود مخلص اور دیانت دار افسران میں سے کوئی جرم کا صفایا کرنے کا سوچ ہی لے تو یا تو اس کے تبادلے کے احکامات جاری کردیے جاتے ہیں یا وہ بے چارہ اپنی جان ہی سے جاتا ہے۔
عوام کی حالت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پہلے تو خوف کا شکار شہری اپنے ساتھ ہونے والے واقعے کی رپورٹ درج کروانے تھانے کا رخ نہیں کرتا اور اگر کر بھی لے تو اس کے ساتھ بھی شاید وہ ہی سب کچھ ہو جو میرے ساتھ ہوا۔ نارتھ ناظم آباد پولیس اسٹیشن ویسٹ زون میں پولیس اہلکار نے ایف آئی آر درج کرنے پر اس وقت رضامندی ظاہر کی جب اس کے اصرار پر جیب گرم کرنے کے لیے اسے ڈیڑھ سو روپے دیے گئے۔ یہ صورت حال میرے شہر میں لا اینڈ آرڈر کی ہے۔ یعنی لا تو کہیں کتابوں میں کھو کر رہ گیا ہے، جب کہ آرڈر دینے والے ڈیڑھ سو روپے میں آرڈر جاری کرتے ہیں۔جس وقت میں یہ کالم لکھ رہی ہوں گھر میں بجلی نہیں ہے، پانی۔۔۔۔وہ تو آدھے کراچی کا خواب بن کر رہ گیا ہے۔ موبائل فون راہ زن لے گیا اور وولٹیج کی اچانک زیادتی سے کل رات انٹرنیٹ کا موڈیم بھی جل بسا۔
ہائے یہ میرا کراچی، کہاں گیا میرا وہ شہر جو درحقیقت روشنیوں کا شہر تھا۔ لوٹ مار اسلحے کے زور ہی پر نہیں ہورہی، اور بھی لٹیرے ہیں جو دیگر طریقوں سے لوٹ رہے ہیں۔ ضروریات زندگی، بلدیاتی نظام، پانی اور بجلی کی ڈکیتی جاری ہے اور ہر ڈکیتی اور راہ زنی بڑی آزادی سے ہورہی ہے۔۔۔ ہم عوام روز ہی لٹ رہے ہیں ۔