اقتدار کے راستے

اقتدار کی کرسی قائم رکھنے کے لیے ایک حکمران کے لیے ضروری ہوتا ہے ۔۔۔۔

shaboroz@yahoo.co.uk

برطانیہ میں ان دنوں غزہ کے عوام کے لیے اظہارِیکجہتی کے لیے لوگ جلسے جلوس نکالتے رہتے ہیں اور برطانوی حکومت کی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بھی بناتے ہیں اس کے لیے لندن میں کتنی بار مظاہرے کیے جا چکے ہیں، ایک طرف برطانوی حکومت ہے کہ دوسرے ملکوں کے رہنے والوں تک کو آزادیئِ اظہار کا موقع دیتی ہے تو دوسری طرف ہماری پاکستان کی حکومت ہے کہ اپنے ہی ملک کے لوگوں کو ان کے جمہوری حق سے روکنے کے لیے غیر جمہوری اقدامات میں مصروف ہے۔

مغرب میں حکمرانوں کو اس بات کی کوئی فکر نہیں ہوتی کہ ان کے دشمن ملک یا ان کے رہنے والے ان کے غیر انسانی سیاسی چالوں کو جان لیں گے بلکہ ان کو اس بات کی فکر ہوتی ہے کہ ان کے اپنے عوام ان کے غیر جمہوری فیصلوں کو نہ جان لیں یا ایسے اقدامات جو غیر انسانی ہیں اور دوسرے ممالک میں کیے جارہے ہیں ان کی خبر ان کے عوام کو نہ ہوجائے غرض وہ اپنے عوام تک کسی بھی ایسی خبر کو پہنچنے نہیں دینا چاہتے جس سے ان کے عوام سمجھیں کہ حکمران غیرجمہوری عمل میں ملوث ہیں کیونکہ مغرب کے باشعور عوام ایسے حکمران کو کرسئی اقتدار پر ٹھہرنے نہیں دیتے جو جمہوریت کے اصولوں کے خلاف چلتے ہیں۔

ہمارے ہاں عوام کی رائے کی اہمیت صرف الیکشن تک ہوتی ہے اور بعض اوقات اس رائے کے برعکس منظم طریقے سے الیکشن کو ہی اغواء کر لیا جاتا ہے مگر آزاد میڈیا کی موجودگی میں پرانی سیاسی چالیں موجودہ سیاسی میدان میں ناکام ہوچکی ہیں کیونکہ میڈیا نے عوام کو نہ صرف باشعور کیا ہے بلکہ ان کو اس قابل بنا دیا ہے کہ عوام ملک کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک اپنی آواز پہنچا سکتے ہیں اور سیاسی کھلاڑیوں کی غیر جمہوری چالوں کو دیکھ سکتے ہیں لہذا اب ہمارے سیاسی حکمرانوں کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ عوام اب دنیا بھر کی خبروں سے آگاہ ہوتے ہیں اس لیے ان کو بدلتے وقت کے ساتھ اپنے رویے عوام کے حوالے سے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔

پی ٹی آئی کے لانگ مارچ کی بنیاد اگر الیکشن میں ہونے والی دھاندلی ہے تو اس پر الیکشن کے فوری بعد فیصلہ کن اقدامات کرنے کی ضرورت تھی مگرلگتا ہے کہ ٹھوس شواہد کی عدم دستیابی کی وجہ سے عمران خان چار و ناچار حکومت کا حصہ بن گئے تھے لیکن ان کا لانگ مارچ کا فیصلہ اب بھی جمہوریت کے خلاف قدم نہیں ہے بلکہ جمہوری عمل ہے کیونکہ پی ٹی آئی کا مڈٹرم الیکشن کا مطالبہ جمہوری اصولوں کے حوالے سے دیکھا جائے تو بالکل درست ہے۔

دوسری طرف علامہ طاہر القادری کے انقلاب کی صدا بھی جو انتہائی ابہام لیے ہوئے تھی جس کوعوامی تحریک کے بیگناہ کارکنان کے بہائے جانے والے خون اور حکومت کی غلط حکمت عملی نے خود ایک جواز بخش دیا ہے۔ یہ دونوں سیاسی مخالفین جموریت کی رو سے اختلافِ رائے کا حق رکھتے ہیں اس لیے ان کے اظہار کی راہ میں حکومتِ وقت کو رکاوٹیں کھڑی کرنے کی بجائے اسی جمہوری اقدامات سے کام لینا چاہیے تھا جس جمہوریت کا دم بھرتے آئے ہیں مگر پاکستان میں اس وقت جو صورتحال ہے اسے دیکھ کر ہر گز نہیں لگتا کہ پاکستان میں اس وقت کوئی جمہوری حکومت قائم ہے۔


جس طرح سڑکوں پر عوامی آمد و رفت کو روکنے کے لیے جا بجا کنٹینر کھڑے کر کے عوام کی روزمرہ زندگی کو معطل کر رکھا ہے اورپٹرول اسٹیشنوں کوپٹرول فراہم کرنے سے روک رکھا ہے کوئی یہ نہیں کہ سکتا کہ یہ ایک جمہوریت کے دعویدار حکمران کے حکم کا نتیجہ ہے جس نے خود کچھ ہی برس پہلے انھی سڑکوں پر انھی کنٹینروں کو راستے سے ہٹاتے ہوئے جمہوریت کی بحالی کے نام پر چیف جسٹس کی بحالی کے لیے بھر پور کوششیں کی تھیں۔

اس سارے عمل میں سب سے زیادہ نقصان پاکستان کی معیشت اور عوام کو ہورہا ہے اور ہر نقصان کا خمیازہ اور سیاسی انتشار کا نتیجہ عوام کو بھگتنا پڑتا ہے ۔کسی ریاست میں ایک دن کے لیے کاروبارِ زندگی معطل ہو جانے کا مطلب ہے کہ اس کی معیشت کو نقصان دینا۔ پاکستانی سیاستدانوں کے نزدیک جمہوریت صرف اس بات کا نام ہے کہ ان کو کسی بھی طریقے سے 5سالہ اقتدار کا عرصہ پورا کرنے دیا جائے اور بر سرِ اقتدار پارٹی کو من مانی کرنے دی جائے تو جمہوریت محفوظ ہو جاتی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ زرداری کی مفاہمت کی پالیسی کی کامیابی ہے جس کی وجہ سے وہ 5سال پورے کرنے میں کامیاب تو رہے یہ الگ بات ہے کہ اس جمہوری حکومت سے عوام کو کوئی خاطر خواہ جمہوری فائدہ نہیں ہو سکا، در اصل ہمارے سیاستدانوں کے نزدیک جمہوریت ان کے اقتدار کے عرصے کا نام ہے۔ عوام اور حکمران کا رشتہ بہت پیچیدہ ہوتا ہے جو دل کے ووٹ سے بنتا ہے جس کی بنیاد عوامی طاقت ہوتی ہے مگر اسی طاقت کی بدولت ایک نادان حکمران کرسئی اقتدار پر آتے ہی عوام کا استحصال شروع کردیتا ہے اور عوامی امنگوں اور جذبوں کے خلاف اقدامات کرنے لگتا ہے۔

آج سے ساٹھ برس پہلے پابلو نرودا نے سینیٹ میں تقریر کرتے ہوئے ٹھیک کہا تھا کہ کرسئی صدارت پر آتے ہی لوگ عجیب قسم کی دل کی بیماری میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ہمارے سیاستدان نجانے کیوں اپنے ماضی کی غلطیوں سے اور دوسروں کی غلطیوں سے کوئی بھی سبق حاصل نہیں کرتے کہ ان کو دہرانے سے گریز کرتے ہوئے ان مسائل سے بچا جاسکے جس کے نتیجے میں عوامی طاقت سے محروم ہو کر بالآخر کرسئی اقتدار سے محروم ہوتے ہیں۔

اقتدار کی کرسی قائم رکھنے کے لیے ایک حکمران کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ وہ عوامی دل کی مسند پر براجمان رہنے کے ہنر سے آشنا ہو۔ کوئی بھی لیڈر کرسئی اقتدار پر عوامی رضا کے خلاف زیادہ دیر نہیں ٹھہر سکتا ، سیاسی تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے کہ جب کسی حکمران نے عوام کی رائے کے خلاف اقدامات کیے ہیں تو اس کو ناکامی سے دوچار ہونا پڑا ہے۔

برطانوی وزیر اعظم مارگریٹ تھیچر نے جب عوامی امنگوں کے خلاف اقدامات کیے اگرچہ وہ ملکی مفادات کے پیشِ نظر تھے اس کے باوجود عوام میں غیر مقبول ہونے کی بناء پر اس کومستعفی ہونا پڑا، اسی طرح ٹونی بلئیر نے عراق جنگ کے حوالے سے لندن میں ہونیوالے عوامی مظاہرے کو نظر انداز کرتے ہوئے جب امریکا کا ساتھ دیا تو اس کو بھی اپنی ہی پارٹی کی طرف سے عوام میں غیر مقبول ہوجانے کی وجہ سے پارٹی سے الگ ہو جانے کے لیے دبائو کا سامنا کرنا پڑا جس کے نتیجے میں مستعفی ہوئے۔ یہ چھوٹی سی بات ہمارے سیاستدانوں کو سمجھ جانی چاہیے کہ جمہوری اقتدار کی مسند تک جانے والے سبھی راستے عوامی دل کی جذبوں کی گزر گاہوںسے ہو کر جاتے ہیں۔
Load Next Story