یوکرین فاشسٹ اقتدار میں

1951 کے انتخابات میں قومی اسمبلی کی بیشتر نشستیں کمیونسٹ پارٹی (جگتو فرنٹ کے نام سے) حاصل کر لی تھیں۔

zb0322-2284142@gmail.com

یوکرین میں دائیں بازو کی 'میدان موومنٹ' اقتدار میں آ گئی ہے، جس پر نیو فاشسٹ عناصر کا غلبہ ہے۔ نئی حکومت روسی زبان بولنے والوں کی جنوب مشرقی آبادی اور کریمیا کو الگ تھلگ کرنا چاہتی ہے۔ دوسری جانب پوتن کی رجعتی سرمایہ دار روسی حکومت اپنے مفادات کے حصول کے لیے فائدہ اٹھانے کی کوششوں میں لگی ہوئی ہے۔ 'دہشت گرد مخالف کارروائی' کے نام سے اپنے ہی عوام کی تمام تر جمہوری حقوق کو روندتے ہوئے شہری آبادی 'دونباس' میں بمباری اور گولیاں برسا رہی ہے۔

بائیں بازو کے کمیونسٹ اور ٹریڈ یونینوں پر حملے، اغوا، قتل، ان کے دفاتر کو تباہ کرنے، لوٹنے اور جلانے اور ان کی تنظیموں کو زیر زمین جانے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ اس عمل میں کمیونسٹوں سمیت کم از کم 48 لوگ پارلیمانی فاشسٹ گروہ کے ذریعے قتل ہوئے۔ گزشتہ پارلیمانی انتخابات میں کمیونسٹ پارٹی آف یوکرین نے 26 لاکھ ووٹ حاصل کیے تھے، اس جماعت کو غیر قانونی قرار دلوانے کی مذموم کوششیں کی جا رہی ہیں۔

انٹرنیشنل مارکسسٹ ٹینڈینسی نے یوکرین کی فاشسٹ حکومت کے خلاف دنیا بھر کی مزدور تحریکوں اور نوجوانوں سے یوکرین کے عوام کے جمہوری حقوق کو سلب کرنے پر 'کیو' حکام کے خلاف اپنی جدوجہد کو تیز تر کرنے کی اپیل کی ہے، اس کے ساتھ ساتھ آئی ایم ٹی یہ سمجھتی ہے کہ فاشسٹ ٹولے کو صرف بین الاقوامی محنت کشوں کی یکجہتی کے ذریعے اور عالمی سرمایہ داری کے خاتمے سے ہی شکست دی جا سکتی ہے۔

ٹھیک اسی قسم کے حالات سابق مشرقی پاکستان میں پیدا ہوئے۔ 1951 کے انتخابات میں قومی اسمبلی کی بیشتر نشستیں کمیونسٹ پارٹی (جگتو فرنٹ کے نام سے) حاصل کر لی تھیں۔ مسلم لیگ کو صرف 19 نشستیں ملی تھیں۔ اسی وقت سے پاکستانی حکمراں طبقات ہوشیار اور جارح ہو گئے تھے۔ جس کا آگے چل کر نتیجہ بنگلہ دیش کی شکل میں نکلا۔ بنگلہ دیش تشکیل پانے کے وقت بھی 'مکتی باہنی' (فوج آزادی) اور 'جاتیو سماج تانترک دل' (سوشلسٹ پارٹی) عوام کی حامی نمایندہ قوت بن کر ملوں، کھیتوں، کھلیانوں اور محلوں میں عوامی کمیٹیاں بنانا شروع کر دی تھیں جسے برصغیر کے حکمران طبقات نے بے دردی سے کچل دیا۔

آج بھی مسلم لیگ ن کی دائیں بازو کی متنازع بھاری مینڈیٹ والی حکومت ہے۔ پی پی پی کی حکومت کے عوام کو ان کی بنیادی ضروریات فراہم کرنے میں ناکام ہونے پر مسلم لیگ ن اقتدار میں آ گئی۔ اس نے اقتدار میں آنے سے قبل عوام سے وعدہ کیا تھا کہ 3 ماہ سے 3 سال کے دوران بجلی کی لوڈشیڈنگ ختم کر دیں گے۔ مگر اب وہ بری طرح عوام کے سامنے بے نقاب ہو چکی ہے۔ اس حکومت نے غیر مشروط اور یکطرفہ مطالبے کو تسلیم کرتے ہوئے آئی پی پی ایس اور آئی ایم ایف سے معاہدہ کیا اور قرضے لوٹا کر مزید ملک کی معیشت کو مشکلات سے دوچار کر دیا ہے۔

ان سامراجی اداروں کے مطالبے ماننے سے ہی بجلی اور روزمرہ کی خورونوش کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ اس بحران کے حل کا متبادل نہ ہونے کی وجہ سے حکمراں طبقات کے کم تر دھڑے مبہم اور نان ایشوز کے نعرے دے رہے ہیں۔ نہ کوئی سیاستدان دال، چاول، آٹا، چینی اور تیل کی قیمتوں میں کمی کا مطا لبہ کر رہا ہے اور نہ بڑھتی ہوئی بے روزگاری کے خلاف کوئی مطالبہ پیش کر رہا ہے۔


کوئی انتخابی دھاندلی، کوئی کرپشن کے خلاف جوشیلے نعروں اور کوئی بلدیاتی انتخابات کے بہانوں سے عوام کو محنت کشوں کے انقلاب سے روک رہے ہیں۔ انقلاب گوداموں کے آٹے بانٹ دیتا ہے، ملوں کو مزدوروں کے حوالے کر دیتا ہے اور زمین کسانوں کے۔ جب کہ یہ عالمی سرمایہ داری میں رہتے ہوئے پیوندکاریوں کی پرجوش تجویز دیتے ہیں۔

اس قسم کی صورت حال عراق میں بھی تھی۔ عراق کی بعث پارٹی اصلاحات میں لگی ہوئی تھی جب کہ کمیونسٹ پارٹی چاہتی تو اقتدار عوام کے ہاتھوں میں ہوتا اور جبر کی ریاست کا خاتمہ کر کے عراق کی دولت عراق کے محنت کشوں اور شہریوں کے ہاتھوں میں ہوتی۔ یکم مئی 1959 میں 10 لاکھ لوگوں نے بغداد میں عراقی کمیونسٹ پارٹی کے جھنڈے تلے مظاہرہ کیا۔ اس وقت کے امریکی سی آئی اے کے سربراہ ایلن ڈلس نے کہا کہ 'یہ صورت حال آج کی دنیا میں سب سے خطرناک ہے'۔

اس وقت عراقی کمیونسٹ پارٹی کے 25 ہزار کارکن تھے اور مغربی اخبارات کے مطابق وہ بغداد کی گلیوں کو کنٹرول کرتی تھی۔ اس کے نوجوانوں کے فرنٹ کی رکنیت 84 ہزار تھی جب کہ 3500 کسان کمیٹیوں میں سے 60 فیصد اس کے کنٹرول میں تھیں۔ لیکن اتنے بڑے انقلاب کو غلط حکمت عملی کے باعث ضایع کر دیا گیا۔ آج اسی عراق میں 4 جولائی 2014کو عراق اور شام کے وسیع علاقوں پر قبضہ کرنے والے ابوبکر بغدادی نے عراقی شہر موصل میں نورالدین زنگی مسجد میں خطاب کے دوران اسلامی خلافت کے قیام کا اعلان کر دیا اور اپنا نام خلیفہ ابراہیم رکھا۔

اس نے اپنے آپ کو دنیا بھر کے مسلمانوں کا خلیفہ قرار دیا اور اپنی تنظیم آئی ایس آئی ایس کا نام تبدیل کر کے اسلامی ریاست 'آئی ایس' (الدولۃ اسلامیہ) کا اعلان کیا۔ ابوبکر بغدادی کے متعلق آنے والی تفصیلات کے مطابق وہ القاعدہ کے اہم رہنما الزرقاوی کے ساتھ 1999میں افغانستان آیا اور یہاں القاعدہ کے لیے کام شروع کیا جب کہ اس دوران طالبان سے بھی اس کے قریبی تعلقات رہے۔ داعش بہیمانہ قتل و غارت اور وحشیانہ خونریزی کی نئی تاریخ رقم کر رہی ہے، وہاں مختلف گروہوں اور مسلح ملیشیا کو اپنے ساتھ ملانے کے لیے پیسے، اسلحہ اور پرکشش وعدوں کا استعمال بھی کیا جاتا ہے۔

وہ رہنما جو بیعت کرنے سے انکار کر دیں یا جن سے مفاد حاصل کر لیا ہو انھیں قتل کرنے میں بھی دیر نہیں لگائی۔ شام کے شہر دیرالزور میں انتہا پسندوں نے مقامی قبائلی سرداروں کو تیل کی فروخت سے ہونے والی آمدن میں حصہ دینے کا وعدہ کیا ہے اور شرعی قوانین میں نرمی بھی برتی جا رہی ہے۔ داعش کے لیے لڑنے والے سپاہیوں کو 2 سے 3 ہزار ڈالر ماہانہ تنخواہ بھی دی جا رہی ہے۔ حال ہی میں فٹ بال کا ورلڈ کپ دیکھنے پر اس نے نوجوانوں کو کوڑوں کی سزا دی۔ عراقی حکومت بھی اپنے ڈوبتے اقتدار کو بچانے کے لیے وحشیانہ سرگرمیوں میں ملوث ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق 9 جون 2014 کے بعد سے اب تک 300 قیدیوں کو فرقہ وارانہ بنیادوں پر سزائے موت دی گئی۔ 2003میں امریکی جارحیت کے خلاف الصدر کی سامراج مخالف تقاریر لاکھوں لوگوں کو متاثر کر رہی تھیں لیکن اس دوران امریکا بہت سے شیعہ رہنمائوں کو الصدر کے خلاف ابھارنے میں کامیاب ہوا۔ کچھ رپورٹوں کے مطابق امریکا ایران گٹھ جوڑ کے نتیجے میں الصدر کو 2007میں ایران بلا کر نظر بند کر دیا گیا۔

2011 میں عراق واپسی پر بھی اس کی حمایت اسی طرح موجود رہی۔ اب الصدر نے مالکی کے استعفیٰ کا بھی مطالبہ کر دیا ہے۔ ان تمام مسائل کا واحد حل یوکرین، پاکستان اور عراق سمیت دنیا بھر میں ایک ایسا محنت کشوں اور شہریوں کا انقلاب برپا ہو، جہاں کوئی طبقہ ہو اور نہ کوئی ریاست۔ ایک ایسا عالمی امداد باہمی کا سماج قائم ہو جہاں سب مل کر پیداوار کریں اور مل کر بانٹ لیں۔ یہی بنی نوع انسان کی خوشحالی کا واحد راستہ ہے۔
Load Next Story