’’آزادی اور انقلاب مارچ‘‘ کیا رنگ لائے گا

کچھ بھی ہو انقلاب کا یہ سفر بڑا ہی پر خطر ہے، پھولوں کی سیج سے تو ممکن نہیں ہے حکومت انقلابیوں کیلئے کانٹوں کی سیج۔۔۔

کچھ بھی ہو انقلاب کا یہ سفر بڑا ہی پر خطر ہے، پھولوں کی سیج سے تو ممکن نہیں ہے حکومت انقلابیوں کیلئے کانٹوں کی سیج سجا چکی ہے۔ فوٹو: فائل

پاکستانی عوام کیلئے خوشخبری ہے کہ پاکستان کے 68ویں یوم آزادی کے موقع پر اب انقلاب اور آزادی اکٹھے ملیں گے۔

یہ خوشخبری انقلاب کے داعی عوامی تحریک کے سربراہ طاہر القادری نے لاہور میں ''یومِ شہدا''کے موقع پر اپنے خطاب میں سُنائی اور یہ بھی اعلان کیا کہ اب وہ عمران خان کے ساتھ چل کر ظلم کا خاتمہ کریں گے۔ اب نہیں معلوم عمران خان کے ساتھ چلنے کا علان کرکے طاہرالقادری نے پاکستان تحریک انصاف کے آزادی مارچ کو کُمک و تقویت فراہم کرنے کی نوید سُنائی ہے یا ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے، کے مصداق پاکستان تحریک انصاف کے لانگ مارچ کو راوی بُرد کرنے کا سامان فراہم کرنے کا بندوبست کیا ہے۔

یہ تو خیر چودہ اگست کو ہی معلوم ہوسکے گا کہ یہ انقلاب فوجی بوٹوں کی چاپ کی صورت آتا ہے یا پرامن جمہوری تسلسل کے ذریعے آتا ہے۔ البتہ فی الحال تو ''آزادی اور انقلاب مارچ''سٹاک مارکیٹ اور ملکی معیشت کیلئے بربادی کا بھرپور سامان مہیا کر رہے ہیں۔ گزشتہ ایک سال سے انڈیکس میں اضافہ کا رجحان برقرار رکھنے والی سٹاک مارکیٹ بالآخر آزادی مارچ اور انقلاب مارچ کے آگے گھُٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوگئی اور عوامی تحریک کے یوم شہداء کے موقع پر سٹاک مارکیٹ تین سو پوائنٹس سے بھی زیادہ نیچے گری ہے۔

رواں کاروباری ہفتہ کا آغاز ہی مندی سے ہوا ہے، ایف بی آر کا ریونیو بُری طرح متاثر ہو رہا ہے۔ ملکی معیشت کو اب تک پچاس ارب روپے سے زیادہ کا نقصان پہنچ چُکا ہے،اب دیکھنا ہے کہ یہ انقلاب اور آزادی مارچ آگے کیا رنگ لاتے ہیں۔

کچھ بھی ہو انقلاب کا یہ سفر بڑا ہی پر خطر ہے، پھولوں کی سیج سے تو ممکن نہیں ہے حکومت انقلابیوں کیلئے کانٹوں کی سیج سجا چکی ہے، جو کچھ بھی ہو لگ یہ رہا ہے کہ خدانخواستہ ایک بار پھر پاکستان کی آزادی لہو لہان ضرور ہوگی ۔ یہ سب کچھ ہونے کے بعد جس انقلاب کا رونا رویا جارہا ہے ،کیا اس کے بعد ہر بے گھر کو گھر ملے گا، ہر شہری کو نوکری ملے گی، پانی، بجلی، گیس کو ٹیکسز کی چھوٹ ملے گی، مفت تعلیم ملے گی، دہشتگردی،انتہا پسندی ختم کرنے کیلئے دس ہزار تربیتی سنٹرز قائم کیے جائیں گے اور اگر یہ نہیں ہوتا تو پھر اس ملک میں گزشتہ ایک ہفتہ بلکہ پندرہ دن سے جو مار دھاڑ اور افراتفری پھیلی ہوئی ہے اس سے ہونے والا جانی و مالی نقصان کس کے سر ہوگا ۔

یہ بھی دیکھنا ہے کہ جس انقلاب کا چرچا ہے اس نام نہاد انقلابی قافلے کی قیادت کون کر رہا ہے۔ طاہرالقادری جن کی اپنی شہریت کینیڈا کی ہے مگر دُکھ اور درد انہیں پاکستان کا ہے اور عوام سے شہادت کی قربانی مانگتے ہیں مگر خود پاکستان اور پاکستانیوں کیلئے اپنی کینیڈین شہریت تک کی قُربانی دینے کو جائز نہیں سجھتے ہیں یا پھر شیخ رشید احمد جن کی اپنی عوامی مسلم لیگ کے سارے حامی ایک تانگے میں پورے آجاتے ہیں یا چوہدری برادران وزارت اعلی جن کا دیرینہ خواب تھا اور اس خواب کی تعبیر آمریت کی گود میں بیٹھ کر پائی، نہ صرف وزارت اعلی بلکہ وزارت عُظمٰی کا قلمدان بھی حاصل کیا۔ جن کے اپنے پاوں نہ ہوں اور فرشتوں کے محتاج ہوں انقلاب لانا ان کے بس کی بات نہیں ہے کیونکہ اگر انقلاب لانا ہے تو نیلسن منڈیلا کے انقلاب جیسا انقلاب لائیں یا اپنے پڑوسی ملک چین کے ماوزے تنگ کے انقلاب جیسا انقلاب لائیں۔


پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے پریس کانفرنس کے دوران گزشتہ برس ہونے والے عام انتخابات میں دھاندلی کے الزامات پر سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری، سابق جج خلیل الرحمن رمدے، پنجاب سے الیکشن کمیشن کے رکن ریاض کیانی اور سابق نگراں وزیر اعلیٰ پنجاب نجم سیٹھی پر عائد کرکے لانگ مارچ کی قیادت کیلئے لاہور پہنچ چُکے ہیں۔

اگرچہ عمران خان نے جن لوگوں پر الزامات عائد کئے ہیں ان سب کی طرف سے فوری ردعمل میں الزامات کی تردید کی جاچکی ہے اور لگ یہ رہا ہے کہ اب ٹیریان کا کیس بھی زور پکڑے گااورارسلان افتخار بھی چُپ کا روضہ توڑیں گے ۔ مگر یہ حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے جو سوالات اٹھائے گئے ہیں ان کا نہ صرف جواب دیا جائے بلکہ دھاندلی کے الزامات لگانے والوں کو مطمئن بھی کیا جائے۔ یہ خوش آئند بات ہے کہ وزیراعظم میاں نواز شریف نے اپنے ویژن 2025 کے اجراء کے موقع پر اپنے خطاب میں مسئلہ کے حل کیلئے پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے پاس چل کر جانے کا پیغام دے کر بڑے پن کا ثبوت دیا ہے۔

اگر یہ جذبہ ایک ماہ قبل دکھا دیا جاتا تو شائد پاکستان کے یوم آزادی کے موقع پر قوم کو یہ دن نہ دیکھنا پڑتا کہ یوم آزادی سے دو دن قبل ہی کنٹینرز لگاکر راستے بند کرکے عوام کو محصور کرنے کی نوبت نہ آتی ۔ اب چونکہ صورتحال انتہائی خوفناک ہے اس لئے تمام جماعتوں کو دانشمدی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی سیاسی و ذاتی اناء سے بالاتر ہوکر سوچنا چاہیے اور ملکی مفاد کو مقدم رکھنا چاہیے، خصوصاً تحریک انصاف کو سیاسی مفادات کیلئے ایک بار پھر آمریت کا طوق عوام کے گلے میں ڈالنے کا موقع فراہم کرنے سے گریز کرنا چاہیے ۔

دوسری جانب طاہر القادری سے لانگ مارچ کے ساتھ اپنا انقلاب مارچ بھی اسلام آباد لے جانے کا اعلان کرکے عمران خان کو ایک نئے امتحان سے دوچار کردیا ہے ۔ جہاں عمران خان کے لانگ مارچ کو ہائی جیک کرنے کا اندیشہ ہے تو وہیں یہ بھی نہ صرف اندیشہ ہے بلکہ حکمت عملی کا حصہ معلوم ہوتا ہے کہ عوامی تحریک کے کارکنوں کی آڑ میں پاکستان تحریک انصاف کے کارکنوں کی تاریخی دُھلائی کی جائے گی کیونکہ عوامی تحریک کے رہنما پہلے ہی پُرتشدد خطابات کرکے عوام میں اشتعال پھیلا چُکے ہیں جس کی عدلیہ سمیت معاشرے کے کسی بھی طبقے نے حمایت نہیں کی ہے۔

اگر تحریک انصاف کے ساتھ جاری بیک ڈور ڈپلومیسی کامیاب نہیں ہوتی اور لانگ مارچ کا مسئلہ حل کرنے کے حوالے سے عمران خان کے ساتھ معاملات طے نہیں پاتے تو ایسے میں اگر پاکستان تحریک انصاف جوبن کے ساتھ لانگ مارچ کرتی ہے تو تحریک انصاف کے کارکنوں کو اسلام آباد پہنچنے سے روکنے کے تمام تر طریقے اختیار کئے جائیں گے جن میں ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے کارکنوں کی اشتعال کی صورت میں شدید پٹائی کی جائے اور ظاہر یہ کیا جائے گا کہ پاکستان تحریک انصاف کے کارکنوں کوکچھ نہیں کہا جا رہا ہے صرف پاکستان عوامی تحریک کے پُرتشدد کارکنوں کے خلاف کاروائی کی جا رہی ہے۔

کمشنر اسلام آباد کی جانب سے پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے نام ایک خط ارسال کیا گیا ہے جس میں انھیں مطلع کیا گیا ہے کہ اسلام آباد میں دفعہ 144 نافذ ہے اور کسی بھی ریلی یا اجتماع کے لیے متعلقہ انتظامیہ کو قبل از وقت آگاہ کرنا ضروری ہے۔

ایسے میں کہ جب دفعہ 144 نافذ ہو اور جماعت اسلامی سمیت دوسری جماعتیں اسلام آباد میں ریلیاں کر رہی ہوں، تحریک انصاف کو اجازت لینے کا کہنا سمجھ سے بالاتر ہے کیونکہ قانون سب کیلئے یکساں ہے ۔دوسری طرف وزیراعظم میاں نواز شریف رات کو قوم سے خطاب کرنے جارہے ہیں جو اپنے خطاب میں قوم کو اعتماد میں لیں گے اور حکومت کی کارکردگی قوم کے سامنے رکھیں گے۔
Load Next Story