نیا راستہ

ہمیں تو بحیثیت قوم اس مسئلے پر سوچنا چاہیے....

ساری دنیا میں ایک سوچ مشترک ہے سوائے چند ایسے ملکوں کے جو بہت ترقی یافتہ ہیں اور شاید ان کے وسائل دوسروں سے بہتر اور مختلف ہیں اور وہ سوچ یہ ہے کہ نئے آنے والے لوگوں کے لیے جگہ خالی ہونی چاہیے۔

یہ ایک قدرتی بات ہے کہ دنیا کے ہر ملک کی آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے اور وہاں روزگار کے مسائل ضرور پیدا ہو رہے ہیں مگر دنیا کی ہر سمجھدار قوم نے اس کے لیے کوئی راستہ ضرور اختیار کیا ہے۔ ہم بھی کبھی کوئی اچھا راستہ اختیار کر لیں گے۔ اس توقع پر وقت گزرتا جا رہا ہے اور پتہ نہیں چل رہا کہ ہم Forword ہیں یا Backword کیوں کہ ہم بحیثیت چار قدم اگر کسی دور میں آگے جاتے ہیں تو پھر کسی اور دور میں چھ قدم پیچھے آ جاتے ہیں۔ اب اس تقسیم کو چھوڑیے کہ کونسا دور کس کا ہے۔

ہمیں تو بحیثیت قوم اس مسئلے پر سوچنا چاہیے۔ لوگ شاید برا مان جائیں میری بات کا مگر یہ سچ ہے کہ پڑوسی کے گھر کے آگے کوڑا حکومت نہیں ڈالتی نہ کبھی حکومت نے کیلے کا چھلکا فرش پر کبھی پھینکا ہے۔ یہ سارے ہمارے کارنامے ہیں۔ بحیثیت قوم۔

اب اگر وہ ایک پرانی بات کہوں تو شاید کچھ خاص لوگ خوش ہو جائیں کہ یہ ان کا سلوگن تھا۔ ''تمہارے اعمال تمہارے حاکم'' مگر یہ سلوگن کسی ایک کا نہیں ہے، یہ ایک حقیقت ہے کہ اچھے حاکموں کے لیے ایک اچھی قوم بھی ضروری ہے۔

میرے کہنے کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ قوم اچھی نہیں ہے یا حاکم برے ہیں۔ بات یہ ہے کہ توازن درست جب ہو گا جب ترازو کے دونوں پلڑوں کا وزن برابر ہو جائے۔ عوام کے مطالبے بھی Reasonable ہونے چاہئیں اور حکومت کا رویہ بھی مفاہمانہ۔

سیاست کا مطلب یہ نہیں ہے کہ عوام کو خواہشات کی بھٹی میں جھونک دو! التحریر اسکوائر آپ کو یاد ہے نا! وہ بھی عوام تھے ہم بھی عوام ہیں۔ ماسکو کا ریڈ اسکوائر آپ کو یاد ہوگا وہ بھی عوام تھے طالب علم اور ہم بھی قوم ہیں۔ Container Politics بھی آپ نے دیکھی ہے اور بہت کچھ!

اب میں نے اپنے قلم کو راستہ بدلنا سکھا دیا ہے۔ کیونکہ قلم کو اپنا کام کرنا چاہیے۔ کچھ نہ ہونے سے کچھ ہونا بہتر ہے۔ راستے بند ہیں تو فٹ پاتھوں سے گزرو۔ جھاڑیاں ہیں تو راستہ بنائو، اشرف المخلوقات ہو تم سے بڑا تو صرف اﷲ ہی ہے جس کے نائب ہو۔

خیر اس سے پہلے کہ میں آپ کو نامعلوم جزیروں کی سیر کو لے جائوں واپس آ جاتا ہوں اپنے مقصد کی طرف بات ہم کر رہے تھے لوگوں کے لیے نئے راستے، نئی جگہوں کے پیدا کرنے کی تو ویسے کچھ ملکوں میں عجیب رواج ہے کہ ان کے یہاں بندہ جتنا پرانا ہو جائے ''نوادرات'' کی طرح قیمتی ہوتا جاتا ہے اور جب تک وہ خود آرام کرنے کا ارادہ نہ ظاہر کرے اسے ریٹائر نہیں کیا جاتا یوں سمجھ لیجیے کہ شاید ان ملکوں میں Self Retirement کا رواج ہے، بھارت پاکستان کا Structure انگریز بنا کرگیا اور آج تک یہ دونوں ممالک اس پر ہی چل رہے ہیں۔ Talent کو Retire کرنا رواج ہے اور یوں وہ لوگ یا تو اس دکھ کو سہ نہیں پاتے یا ''عضو معطل'' بن کر معاشرے پر بوجھ بن جاتے ہیں۔


ہمارا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم ریٹائرمنٹ کی مخالفت کریں، جو حالات ہیں ان کے مطابق تو یہی بہتر لگتا ہے مگر ان لوگوں کو یکسر معاشرے سے ''کاٹ'' دینا ٹھیک نہیں ہے۔ خصوصاً فن و ثقافت کے شعبے پر زیادہ لاگو ہوتا ہے وہ بھلا کیا ریٹائر ہوں گے۔ کیا ایک شاعر، موسیقار، لیکھک یعنی ادیب، مائیکرو فون پر بولنے والے کہاں ریٹائر ہوتے ہیں بھلا یہ تو اور سنورتے ہیں۔

ہم کہنا چاہتے ہیں کہ ریٹائرڈ لوگوں کے ساتھ ایک قانون بنا کے اس پر عمل کیجیے اور انھیں الگ الگ تقسیم مت کیجیے کہ ان کی دل شکنی ہو جائے جو آج فیصلے کرتے ہیں کل انھیں ریٹائر ہونا ہوتا ہے۔ حیرت یہ ہوتی ہے کہ عدالت کے ایسے فیصلے موجود ہیں کہ کسی ایک علاقے کے لوگوں کو فائدہ پہنچانے کا فیصلہ دے کر آیندہ کے لیے وہ قانون ختم کر دیا گیا۔ یہ ریکارڈ پر ہے 20% کے کیسز کے سلسلے میں۔

اب ایک ظالمانہ فیصلہ مشرف صاحب کے دور میں کیا گیا جو ظالمانہ ہونے کے ساتھ ساتھ احمقانہ بھی ہے۔ ظاہر ہے کہ وہ ایک بادشاہت سی تھی جس میں لوگ جو شریک تھے وہ آج بھی سامنے ہیں۔ Active ہیں ان کے ساتھ اب نہیں ہیں کسی اور کے ساتھ ہیں۔ بہر حال وہ ہمارے مقصود اس طرح نہیں ہیں کہ اب کیا کر رہے ہیں۔ شکایت یہ ہے کہ انھوں نے اس وقت کیا کیا؟ مشرف صاحب کا فیصلہ ابھی عرض کرتا ہوں۔ پہلے قانون جو تھا، اس کا ذکر کر دوں کہ شاید 75 سال کی عمر ہو جانے کے بعد ریٹائرڈ ملازم کی پنشن Full ہو جاتی تھی۔

یہ اس اعتبار سے درست بھی ہے کہ پندرہ سال بعد ''بازار کا بھائو'' بھی کہیں سے کہیں پہنچ جاتا تھا۔ اور گزارا مشکل ہوتا تھا کیوں کہ پنشن میں تو وہ برائے نام Increment بھی نہیں ہوتا اور پنشن خود تنخواہ کا بمشکل 40 فی صد ہوتی ہے یا دس دن میں ختم اس 40 فی صد تنخواہ عرف پنشن میں زندہ بھی رہو، مکان میں رہو، لباس بھی پہنو، سارے بل بھی ادا کرو، مہنگائی بھی برداشت کرو، کیوں کہ پنشن کا دس فی صد بھی 40 کا دس فی صد ہوتا ہے اور بازار میں اشیاء سب کو ایک بار ملتی ہیں۔

پنشنر کا کوئی کارڈ نہیں ہے کہ سامان سستا ملے اور اگر پاکستان میں بن بھی جائے تو آپ کو معلوم ہے کیا ہو گا۔ان حالات میں جو پنشنرز کے کسمپرسی کے حالات ہیں۔ اس وقت کے بادشاہ سلامت جنرل مشرف نے ایک آرڈر کیا کہ جو لوگ 2001ء سے پہلے ریٹائر ہوئے ہیں صرف وہ Full Pension کے حق دار ہوں گے۔ ہمارے ملک میں ایک افسوس ناک صورت حال ہے کہ عوام کی بھلائی کے بارے میں سوچ نہایت محدود ہے اور اسے ایک خیرات کے طور پر عوام کو دیا جاتا ہے جو کچھ بھی عوام کے لیے مقرر کیا جائے جب کہ یہ حق ہے ''خیرات نہیں''

اب موجودہ حکومت نے بھی اس سلسلے میں ''خاموشی'' اختیار کر رکھی ہے۔ جب کہ فوری طور پر ضرورت اس بات کی ہے کہ آمرانہ دور کے تمام نشانات مٹانے کے ساتھ ساتھ قوانین کو بھی درست کیا جائے۔ اور اس ناجائز حکم کو ختم کیا جائے جو عوام دشمنی کے برابر ہے۔

اگر اب تک کسی نے حکومت کی توجہ اس طرف نہیں دلائی ہے تو یہ کام ہم کرتے ہیں۔ مجھے ہے حکم ازاں حکومت کو چاہیے کہ یہ ظالمانہ حکم واپس لے اور ایک بہتری اور ساتھ کرے کہ پندرہ سال کو کم کر کے دس سال کر دے کہ جو پنشنر ریٹائرمنٹ کے بعد دس سال پورے کر لے اس کی پنشن پوری کر دی جائے اس سے بہت خاندان حکومت کو دعا دیں گے اور دلوں کو سکون ملے گا۔

ہم سمجھتے ہیں کہ وقت آ گیا ہے کہ حکومت وہ فیصلے کرے جو عوام کی پسند کے فیصلے ہوں اور وہ لوگوں کو اپنے فیصلوں کے ذریعے قائل کرے اور ثابت کر دے کہ جو لوگ اس حکومت کو عوامی حکومت نہیں سمجھتے اور نہیں کہتے وہ غلط ہیں۔ یہ ایک اور سنہری موقع ہے بات ثابت کرنے کا۔
Load Next Story