بڑھتے ہوئے ترسیلات زر…
یہ ترسیلات پاکستانی خاندانوں کے معیار زندگی اور بچت بڑھانے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں۔.....
ترقی پذیر ملک ہونے کے ناتے پاکستان کو کئی بڑے معاشی چیلنجز کا سامنا ہے۔ بڑھتا ہوا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ، کرنسی کی گرتی ہوئی قدر اور کم ہوتے ہوئے زرمبادلہ کے ذخائر، ان میں سے اہم ہیں۔ کیونکہ ان تمام کا آپس میں گہرا تعلق ہے، اسی لیے ان کو ملک میں آنے والے زرمبادلہ سے جوڑا جا سکتا ہے جن پر ہمیشہ سے دباؤ رہا ہے۔
اس دباؤ کی وجوہات میں کم ہوتی ہوئی غیر ملکی سرمایہ کاری، آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی طرف سے کڑی شرائط اور امریکا اور اتحادی ملکوں کی طرف سے بروقت امداد کا نہ پہنچنا شامل ہیں، البتہ پچھلے کچھ سالوں میں ایک مثبت پیش رفت ملک میں آتی ہوئی بڑھتی ہوئی ترسیلات ہیں جن کی وجہ سے ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر کو بہت تقویت ملی ہے۔ پچھلے کچھ سال کے ریکارڈ اور اعداد و شمار اس پہلو کی وضاحت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
مالی سال 2008 میں ترسیلات امریکی ڈالرز میں 6.45 فیصد، 2009 میں 7.81 فیصد، 2010 میں 8.91 فیصد، 2011 میں11.20 فیصد، 2012 میں 13.19 فیصد، 2013 میں 13.92 فیصد رہیں۔ جب کہ تازہ ترین اسٹیٹ بینک کے ریکارڈ مندرجہ ذیل اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں: دسمبر 2013 میں 1.385 فیصد، جنوری 2014میں 1.246 فیصد، فروری 2014میں 1.210 فیصد، مارچ 2014میں 1.337 فیصد، اپریل 2014 میں 1.312 فیصد اور مئی 2014 میں 1.438 فیصد رہیں۔
اس بات کی امید کی جا رہی ہے کہ آیندہ جون کے مہینے کے اعداد و شمار کے بعد یہ رقم تقریباً 14 سے 15 بلین ڈالر تک پہنچ جائے گی۔ جیسا کہ چند مہینوں کا 2014 کا ریکارڈ ظاہر کر رہا ہے کہ یہ تقریباً 1.2 بلین ڈالرز فی مہینہ کے اوسط کے برابر ہے۔ دنیا بھر میں معاشی سست روی کی وجہ سے یہ خیال کیا جا رہا تھا کہ ترسیلات کے حجم میں بھی کمی واقع ہو گی، لیکن ایسا نہ ہوا بلکہ ان کا کل حجم آنے والے سال میں 494 بلین ڈالرز تک پہنچنے کی امید ہے جس میں سے ترقی پذیر ممالک کا حصہ 449 بلین ڈالر ہے۔
یہ ترسیلات پاکستانی خاندانوں کے معیار زندگی اور بچت بڑھانے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں۔ سعودی عرب ان تمام ملکوں میں اول نمبر پر ہے جہاں سے یہ ترسیلات بھیجی جاتی ہیں جس کے بعد متحدہ عرب امارات کا نمبر آتا ہے۔ حالانکہ وہ پاکستانی جو مغربی ممالک میں رہائش پذیر ہیں وہ زیادہ خوشحال تصور کیے جاتے ہیں لیکن وہ اپنی بچت ان ہی ملکوں میں رکھنے پر ترجیح دیتے ہیں تا کہ وہاں کی قومیت حاصل کرنے کے مواقع کو بڑھایا جا سکے اور اپنے مستقبل کو محفوظ بنایا جا سکے جب کہ عرب ممالک میں اس طرح کی کوئی ترغیب حاصل نہیں۔
ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر کے 232 بین الاقوامی تارکین وطن اس سال تقریباً 550 بلین ڈالر اور 2016 تک 700 بلین ڈالر تک ترسیلات اپنے ملکوں کو بھیجیں گے۔ اس رپورٹ کے مطابق بھارت 2013 میں ان ترسیلات کو وصول کرنے میں سرفہرست ہے۔
امریکی ڈالرز میں مختلف ممالک کی ترسیلات کچھ یوں ہیں، بھارت 71، چین 60، فلپائن26، میکسیکو22، نائجیریا21، مصر20، بنگلہ دیش 15.2، پاکستان14، ویت نام10.65، یوکرین 9.29۔ مجموعی قومی پیداوار کی Percentage کے حساب سے ان ترسیلات میں سب سے آگے تاجکستان ہے جس میں یہ ترسیلات جی ڈی پی کا 48 فیصد ہیں جب کہ باقی ملکوں میں کرغزستان 31 فیصد، لیسوتھو اور نیپال 25 فیصد جب کہ مالدیپ 24 فیصد کے ساتھ قابل ذکر ہیں۔
ترسیلات کے بڑھتے ہوئے کردار کو دنیا بھر میں ہر جگہ محسوس کیا جا رہا ہے سوائے جنوبی امریکا اور کیربین ملکوں کے جو امریکا کی معاشی کمزوری کی وجہ سے کچھ دشواریاں محسوس کر رہے ہیں جب کہ جنوبی ایشیا میں یہ ترسیلات ادائیگی کے توازن کو بہت حد تک سپورٹ کر رہی ہیں۔ بھارت میں یہ ترسیلات اس کی انفارمیشن ٹیکنالوجی کی برآمدات سے بھی زیادہ ہیں جب کہ بنگلہ دیش، نیپال، سری لنکا اور پاکستان میں یہ ترسیلات زرمبادلہ کے ذخائر سے بھی زیادہ ہیں، ان تمام ممالک (خصوصاً پاکستان) میں ان ترسیلات کو فروغ دینے کے مختلف ترغیبات کا آغاز کیا گیا ہے۔
عام طور پر پاکستانیوں کو رقم بھیجنے کے لیے بہت ہی تکلیف اٹھانی پڑتی تھی جس کی وجہ سے ان کو زیادہ لاگت کے ساتھ 10 سے 15 دن تک انتظار کرنا پڑتا تھا لیکن جب سے Pakistan Remittance Initiative (PRI) کا آغاز 2009 سے کیا گیا ہے یہ پورا عمل انتہائی مربوط ہو گیا ہے اور اب 20 سے زیادہ بینک اس سہولت کو فراہم کر رہے ہیں جب کہ رقم بھیجنے کی مدت کم ہو کر 15 دن سے 24 گھنٹے تک رہ گئی ہے۔
ورلڈ بینک کی طرف سے باضابطہ چینل سے رقم بھیجنے میں زیادہ لاگت سب سے بڑی رکاوٹ ہے جس کی وجہ سے لوگ ہنڈی اور دوسرے غیر روایتی طریقے استعمال کرتے ہیں۔ ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق رقم بھیجنے کی اوسط لاگت 9 فیصد ہے جو تقریباً 2011سے جوں کی توں ہے۔
اوسطاً تقریباً 25 سے 30 بلین ڈالر ترسیلات سرکاری ذرایع سے بھیجی جاتی ہیں جو کہ اس وقت بھی کافی کم ہیں۔ اگر بیرون ملک پاکستانیوں کو سپورٹ اور مدد فراہم کی جائے تو ہمارے تقریباً 70 فیصد تجارتی خسارے کو پورا کیا جا سکتا ہے ساتھ ہی ساتھ سرمایہ کاری کے مواقع کو بھی بڑھایا جا سکتا ہے، اس حوالے سے مزید مربوط کوششوں کی ضرورت ہے تا کہ اس حوصلہ افزا رجحان کو مزید تقویت مل سکے اور ملکی معیشت کو مزید توانا کیا جا سکے۔
اس دباؤ کی وجوہات میں کم ہوتی ہوئی غیر ملکی سرمایہ کاری، آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی طرف سے کڑی شرائط اور امریکا اور اتحادی ملکوں کی طرف سے بروقت امداد کا نہ پہنچنا شامل ہیں، البتہ پچھلے کچھ سالوں میں ایک مثبت پیش رفت ملک میں آتی ہوئی بڑھتی ہوئی ترسیلات ہیں جن کی وجہ سے ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر کو بہت تقویت ملی ہے۔ پچھلے کچھ سال کے ریکارڈ اور اعداد و شمار اس پہلو کی وضاحت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
مالی سال 2008 میں ترسیلات امریکی ڈالرز میں 6.45 فیصد، 2009 میں 7.81 فیصد، 2010 میں 8.91 فیصد، 2011 میں11.20 فیصد، 2012 میں 13.19 فیصد، 2013 میں 13.92 فیصد رہیں۔ جب کہ تازہ ترین اسٹیٹ بینک کے ریکارڈ مندرجہ ذیل اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں: دسمبر 2013 میں 1.385 فیصد، جنوری 2014میں 1.246 فیصد، فروری 2014میں 1.210 فیصد، مارچ 2014میں 1.337 فیصد، اپریل 2014 میں 1.312 فیصد اور مئی 2014 میں 1.438 فیصد رہیں۔
اس بات کی امید کی جا رہی ہے کہ آیندہ جون کے مہینے کے اعداد و شمار کے بعد یہ رقم تقریباً 14 سے 15 بلین ڈالر تک پہنچ جائے گی۔ جیسا کہ چند مہینوں کا 2014 کا ریکارڈ ظاہر کر رہا ہے کہ یہ تقریباً 1.2 بلین ڈالرز فی مہینہ کے اوسط کے برابر ہے۔ دنیا بھر میں معاشی سست روی کی وجہ سے یہ خیال کیا جا رہا تھا کہ ترسیلات کے حجم میں بھی کمی واقع ہو گی، لیکن ایسا نہ ہوا بلکہ ان کا کل حجم آنے والے سال میں 494 بلین ڈالرز تک پہنچنے کی امید ہے جس میں سے ترقی پذیر ممالک کا حصہ 449 بلین ڈالر ہے۔
یہ ترسیلات پاکستانی خاندانوں کے معیار زندگی اور بچت بڑھانے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں۔ سعودی عرب ان تمام ملکوں میں اول نمبر پر ہے جہاں سے یہ ترسیلات بھیجی جاتی ہیں جس کے بعد متحدہ عرب امارات کا نمبر آتا ہے۔ حالانکہ وہ پاکستانی جو مغربی ممالک میں رہائش پذیر ہیں وہ زیادہ خوشحال تصور کیے جاتے ہیں لیکن وہ اپنی بچت ان ہی ملکوں میں رکھنے پر ترجیح دیتے ہیں تا کہ وہاں کی قومیت حاصل کرنے کے مواقع کو بڑھایا جا سکے اور اپنے مستقبل کو محفوظ بنایا جا سکے جب کہ عرب ممالک میں اس طرح کی کوئی ترغیب حاصل نہیں۔
ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر کے 232 بین الاقوامی تارکین وطن اس سال تقریباً 550 بلین ڈالر اور 2016 تک 700 بلین ڈالر تک ترسیلات اپنے ملکوں کو بھیجیں گے۔ اس رپورٹ کے مطابق بھارت 2013 میں ان ترسیلات کو وصول کرنے میں سرفہرست ہے۔
امریکی ڈالرز میں مختلف ممالک کی ترسیلات کچھ یوں ہیں، بھارت 71، چین 60، فلپائن26، میکسیکو22، نائجیریا21، مصر20، بنگلہ دیش 15.2، پاکستان14، ویت نام10.65، یوکرین 9.29۔ مجموعی قومی پیداوار کی Percentage کے حساب سے ان ترسیلات میں سب سے آگے تاجکستان ہے جس میں یہ ترسیلات جی ڈی پی کا 48 فیصد ہیں جب کہ باقی ملکوں میں کرغزستان 31 فیصد، لیسوتھو اور نیپال 25 فیصد جب کہ مالدیپ 24 فیصد کے ساتھ قابل ذکر ہیں۔
ترسیلات کے بڑھتے ہوئے کردار کو دنیا بھر میں ہر جگہ محسوس کیا جا رہا ہے سوائے جنوبی امریکا اور کیربین ملکوں کے جو امریکا کی معاشی کمزوری کی وجہ سے کچھ دشواریاں محسوس کر رہے ہیں جب کہ جنوبی ایشیا میں یہ ترسیلات ادائیگی کے توازن کو بہت حد تک سپورٹ کر رہی ہیں۔ بھارت میں یہ ترسیلات اس کی انفارمیشن ٹیکنالوجی کی برآمدات سے بھی زیادہ ہیں جب کہ بنگلہ دیش، نیپال، سری لنکا اور پاکستان میں یہ ترسیلات زرمبادلہ کے ذخائر سے بھی زیادہ ہیں، ان تمام ممالک (خصوصاً پاکستان) میں ان ترسیلات کو فروغ دینے کے مختلف ترغیبات کا آغاز کیا گیا ہے۔
عام طور پر پاکستانیوں کو رقم بھیجنے کے لیے بہت ہی تکلیف اٹھانی پڑتی تھی جس کی وجہ سے ان کو زیادہ لاگت کے ساتھ 10 سے 15 دن تک انتظار کرنا پڑتا تھا لیکن جب سے Pakistan Remittance Initiative (PRI) کا آغاز 2009 سے کیا گیا ہے یہ پورا عمل انتہائی مربوط ہو گیا ہے اور اب 20 سے زیادہ بینک اس سہولت کو فراہم کر رہے ہیں جب کہ رقم بھیجنے کی مدت کم ہو کر 15 دن سے 24 گھنٹے تک رہ گئی ہے۔
ورلڈ بینک کی طرف سے باضابطہ چینل سے رقم بھیجنے میں زیادہ لاگت سب سے بڑی رکاوٹ ہے جس کی وجہ سے لوگ ہنڈی اور دوسرے غیر روایتی طریقے استعمال کرتے ہیں۔ ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق رقم بھیجنے کی اوسط لاگت 9 فیصد ہے جو تقریباً 2011سے جوں کی توں ہے۔
اوسطاً تقریباً 25 سے 30 بلین ڈالر ترسیلات سرکاری ذرایع سے بھیجی جاتی ہیں جو کہ اس وقت بھی کافی کم ہیں۔ اگر بیرون ملک پاکستانیوں کو سپورٹ اور مدد فراہم کی جائے تو ہمارے تقریباً 70 فیصد تجارتی خسارے کو پورا کیا جا سکتا ہے ساتھ ہی ساتھ سرمایہ کاری کے مواقع کو بھی بڑھایا جا سکتا ہے، اس حوالے سے مزید مربوط کوششوں کی ضرورت ہے تا کہ اس حوصلہ افزا رجحان کو مزید تقویت مل سکے اور ملکی معیشت کو مزید توانا کیا جا سکے۔