مایہ ناز ماہر تعلیم انیتا غلام علی

خبروں کے نشر ہونے کے مقررہ وقت سے بہت پہلے نیوز روم میں داخل ہونا اور پھر نہایت اطمینان ...

S_afarooqi@yahoo.com

ہفتہ 19 اگست کی صبح نیند سے بیدار ہوتے ہی ہم نے جب حسب معمول اخبار اٹھایا تو پروفیسر انیتا غلام علی کے سانحہ ارتحال کی خبر پڑھتے ہی ہمارے ذہن کو ایک شدید جھٹکا لگا اور پھر کانوں میں ان کی برسوں پرانی یہ آواز یکایک گونج اٹھی۔ "this is Radio Pakistan. hear's the news read by Anita Ghulam Ali" ان کے ساتھ ہمارا اولین تعارف ریڈیو پاکستان میں ہی ہوا تھا جہاں وہ انگریزی کی خبریں پڑھنے کے لیے تشریف لایا کرتی تھیں۔

بلاشبہ وہ ایک منفرد نیوز کاسٹر تھیں جن کا لب و لہجہ انتہائی شائستہ اور Cultured تھا اور خبریں پڑھنے کا انداز بھی سب سے الگ تھا۔ ان کی آواز میں ایک مقناطیسی کشش تھی جو سامعین کے دلوں کو موہ لیتی تھی۔ ان کی آواز کا اتار چڑھاؤ اور تلفظ بھی مثالی تھا۔ ان کے Pauses اور Stresses بھی کمال کے ہوتے تھے اور ان کی خبریں پڑھنے کی روانی بھی قابل رشک تھی۔ ہمیں یاد نہیں کہ خبریں پڑھتے ہوئے وہ کبھی لڑکھڑائی ہوں یا کبھی Fumbling کا شکار ہوئی ہوں۔ وقت کی پابندی جو ریڈیو کا طرہ امتیاز ہے ان کی گھٹی میں شامل تھی۔

خبروں کے نشر ہونے کے مقررہ وقت سے بہت پہلے نیوز روم میں داخل ہونا اور پھر نہایت اطمینان اور انہماک کے ساتھ نیوز بلیٹن کی ریہرسل کرنا ان کے روٹین میں شامل تھا۔ تیز تیز قدم اٹھاتی ہوئی وہ جوں ہی نیوز روم میں داخل ہوتی تھیں تو گویا ایک خوشبو اور روشنی سی ہر طرف پھیل جاتی تھی۔ وہ خوش اخلاق اور خوش گلو ہی نہیں بلکہ انتہائی خوش گفتار اور ملنسار بھی تھیں۔ ریڈیو پاکستان کے عملے کے ساتھ ان کا برتاؤ ایک فیملی ممبر کا سا تھا۔ ہم میں سے جب بھی کسی کو ان سے کوئی کام پڑا انھوں نے اسے خصوصی ذاتی دلچسپی سے انجام دیا۔

ان کی شخصیت میں بڑی زبردست گہرائی اور دل پذیری تھی اور ان کی باتوں میں پھولوں کی خوشبو رچی بسی ہوئی تھی۔ ایسی Dignity اور جاذبیت ہم نے بہت کم لوگوں میں دیکھی ہے۔ جو کوئی ان سے ایک بار مل لیتا تھا وہ ہمیشہ کے لیے ان کا گرویدہ ہو جاتا تھا۔ ریڈیو پاکستان کے ساتھ ان کا تعلق اٹوٹ تھا جو اس وقت تک قائم رہا جب اس کا ہیڈ کوارٹر اسلام آباد منتقل ہو گیا۔ مگر ریڈیو پاکستان والوں کے ساتھ ان کا رشتہ تادم آخر برقرار رہا۔

وضع داری انیتا جی کی شخصیت کی سب سے بڑی اور نمایاں خصوصیت تھی جو بہت کم لوگوں میں پائی جاتی ہے اور آج کے دور میں تو عنقا ہوتی جا رہی ہے۔ افسوس کہ دنیا اب پروفیسر انیتا غلام علی جیسے لوگوں سے خالی ہوتی جا رہی ہے جن پر جتنا بھی فخر کیا جائے وہ کم ہے کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:

لوگ اچھے ہیں بہت دل میں اتر جاتے ہیں

اک برائی ہے تو بس یہ ہے کہ مر جاتے ہیں

بلاشبہ انیتا غلام علی جیسے لوگ روز روز پیدا نہیں ہوا کرتے۔ علامہ اقبال نے ایسے لوگوں کے بارے میں بالکل بجا فرمایا ہے کہ:

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے

بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

انیتا غلام علی کا دائرہ احباب اور Social Circle بڑا وسیع تھا۔ اس اعتبار سے اگر انھیں Social Activist کہا جائے تو ذرا بھی مبالغہ نہ ہو گا۔ ان کی پوری زندگی دوسروں کی خدمت کے لیے وقف تھی اور شاید اسی لیے انھوں نے فیملی لائف کا روگ نہیں پالا۔ اس حوالے سے ان کا موازنہ پروفیسر ڈاکٹر عبدالحق مرحوم سے کیا جا سکتا ہے جن کی زندگی کا مشن بھی خدمت خلق خدا ہی تھا۔ بس فرق ان دونوں کے درمیان صرف اتنا ہی تھا کہ ڈاکٹر عبدالحق نے شعبہ طب کا انتخاب کیا جب کہ پروفیسر انیتا غلام علی نے اپنے لیے تعلیم کے شعبے کا چناؤ کیا۔

پروفیسر انیتا غلام علی کا تعلق سندھ کے ایک مشہور و معروف گھرانے سے ہے۔ وہ 1938 میں کراچی میں ایک سابقہ جج کے یہاں پیدا ہوئیں جسے دانشوروں کی کان کہا جائے تو شاید کوئی مبالغہ نہ ہو گا۔ کراچی شہر سے انھیں ایک والہانہ لگاؤ تھا اور خود کو کراچی والی کہلاتے ہوئے وہ بڑا فخر محسوس کیا کرتی تھیں۔


طالب علمی کے زمانے میں وہ بڑی زبردست ایتھلیٹ ہوا کرتی تھیں اور کھیل کود کی سرگرمیوں میں بھی پیش پیش رہا کرتی تھیں۔ بعد میں وہ تعلیم کے شعبے میں سرگرم ہو گئیں اور پورے 24 سال تک سندھ ایجوکیشن فاؤنڈیشن (SEF) کے ساتھ وابستہ رہیں جس سے وہ انتقال سے صرف چند ماہ قبل ہی علیحدہ ہوئی تھیں۔ وہ ایک عرصے سے عارضہ قلب میں مبتلا تھیں جو آخر کار جان لیوا ثابت ہوا۔

زمانہ طالب علمی کے دوران انھوں نے اپنی نیٹ بال ٹیم کی کپتانی بھی کی۔ وہ ٹیبل ٹینس کی چیمپئن بھی رہیں اور انھوں نے بیڈمنٹن بھی خوب کھیلی۔ ان کی خاندانی رہائش گاہ کراچی کے ایک بہترین علاقے گارڈن ایسٹ میں واقع تھی جو بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کی آخری آرام گاہ کے نزدیک واقع ہے۔

سندھ ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے حوالے سے انھوں نے اساتذہ کرام کے لیے گراں قدر خدمات انجام دیں جن کا تذکرہ پروفیسر ریاض صدیقی مرحوم ہم سے ہر ملاقات میں نہایت اچھے اور تعریفی الفاظ میں کیا کرتے تھے۔

زمانہ طالب علمی میں انیتا جی کو فلموں کا بڑا شوق ہوا کرتا تھا۔ چنانچہ اسی شوق کی تکمیل کی خاطر وہ اکثر ہفتے کے روز اپنے کالج سے بوٹنی کی کلاس چھوڑ کر سینما کا رخ کرتی تھیں جہاں طالب علموں کے لیے رعایتی ٹکٹوں پر فلم دکھانے کا اہتمام کیا جاتا تھا۔

اسی طرح کا معاملہ سرجن محمد علی شاہ مرحوم کے ساتھ بھی تھا جن پر کرکٹ کا شوق جنون کی حد تک طاری تھا۔ اپنے زمانہ طالب علمی کا تذکرہ کرتے ہوئے مرحوم نے ہمیں ایک بار یہ بات مزے لے کر بتائی تھی کلاس روم کے باہر سے جب ان کے ساتھی انھیں کھڑکی سے کرکٹ بال دکھاتے تو ان کے پاس چپکے سے سلپ ہوکر چلے جانے کے علاوہ اور کوئی چارہ کار باقی نہیں رہتا۔ اسی لیے تو کہا جاتا ہے کہ شوق کا کوئی مول نہیں ہوتا۔ شوق بڑی بری بلا ہے جس سے اچھوں اچھوں کو کوئی مفر نہیں۔

ٹیبل ٹینس کا شوق بھی زمانہ طالب علمی میں ان کے سر پر بھوت کی طرح سوار ہوتا تھا۔ کبھی کبھار ایسا بھی ہوا کہ اپنے کالج بیگ میں ٹیبل ٹینس کے ریکٹ اور جوتوں کے لیے گنجائش پیدا کرنے کے لیے انھیں اپنی موٹی موٹی کالج کی کتابوں کے صفحات بھی پھاڑ پھاڑ کر پھینکنے پڑے۔ زمانہ طالب علمی کے یہ دلچسپ قصے وہ بڑے مزے لے لے کر سنایا کرتی تھیں۔

ان کی مضطرب اور بے قرار فطرت نے انھیں کراچی یونیورسٹی کے مائیکرو بائیولوجی کے شعبہ میں چین کا گوشہ مہیا کر دیا جہاں انھوں نے اول پوزیشن کے ساتھ امتحان میں کامیابی حاصل کر کے یہ ثابت کر دیا کہ وہ محض ایک اعلیٰ درجے کی کھلاڑی اور ایتھلیٹ ہی نہیں بلکہ ایک زبردست قسم کی پڑھاکو طالبہ بھی ہیں۔

ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات والی کہاوت انیتا پر حرف بہ حرف صادق آتی ہے۔ انھوں نے کھیل کے بعد تعلیم کے میدان میں بھی نمایاں مقام حاصل کیا۔ 1961 میں وہ سندھ مسلم کالج کے ٹیچنگ اسٹاف میں شامل ہوئیں اور 1985 تک اس ادارے کے ساتھ مسلسل وابستہ رہیں۔ اگرچہ اپنے طالب علموں کے ساتھ ان کا رویہ بڑا مشفقانہ تھا لیکن پڑھائی کے معاملے میں وہ بڑی سخت گیر قسم کی استاد واقع ہوئی تھیں۔

ضرورت پڑنے پر وہ ان کے بال کھینچنے اور کان مروڑنے سے بھی نہیں ہچکچاتی تھیں۔ وہ ایک مثالی استاد تھیں اور اپنے شاگردوں کے مستقبل کو سنوارنے کے معاملے میں انتہائی مخلص تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے شاگرد ان کو نہایت قدر اور احترام کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ ان کے اکثر شاگرد بڑے بڑے عہدوں پر خدمات انجام دے رہے ہیں جن میں بہت سے سرکاری افسران شامل ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے انیتا جی کو بے پناہ قائدانہ صلاحیتوں سے بھی نوازا تھا۔ 1970 کی تحریک اساتذہ میں انھوں نے پولیس کی لاٹھیاں بھی برداشت کیں اور ڈنڈے بھی کھائے اور حوالات کی سیر بھی کی لیکن اپنے موقف سے ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹیں۔ ان کا موقف تھا کہ پرائیویٹ کالجوں کو قومیایا جائے تا کہ وہاں کے اساتذہ استحصالی مینجمنٹ کے پنجہ ستم سے آزاد ہو کر وہی تنخواہیں اور مراعات حاصل کر سکیں جو سرکاری کالجوں کے اساتذہ کرام کو میسر تھیں۔

ایس ایم کالج سے فراغت حاصل کرنے کے بعد انھوں نے ٹیچرز فاؤنڈیشن کا ڈول ڈالا جس کا بنیادی مقصد بھی اساتذہ کرام کی فلاح و بہبود کے سوائے اور کچھ نہ تھا۔ 1996 ممتاز علی بھٹو کی عبوری حکومت میں انھوں نے تین ماہ تک بحیثیت وزیر تعلیم صوبہ سندھ بھی خدمات انجام دیں۔ اس کے بعد 1999 میں جنرل پرویز مشرف کے فوجی حکمرانوں کے دور میں بھی انھوں نے ایک عرصے تک اسی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔

حکومت پاکستان کی جانب سے تعلیم کے شعبے میں ان کی گراں قدر خدمات کے اعتراف میں ستارہ امتیاز کے اعزاز سے بھی نوازا گیا جس کی وہ بجا طور پر مستحق تھیں۔ ان کے لواحقین کی بہت بڑی تعداد ان کے ہزاروں سوگوار شاگردوں پر مشتمل ہے جو انھیں ہمیشہ یاد کرتے رہیں گے۔
Load Next Story