پلے بیک سنگر بننا چاہتی ہوں پریانکا چوپڑا
گلوکاری کا مجھے شوق ضرور تھا لیکن میں کیریر انجنیئرنگ میں بنانا چاہتی تھی، اداکارہ
پیشہ ورانہ زندگی میں قدم رکھتے ہی قسمت کی دیوی اس حسینہ پر مہربان ہوگئی تھی۔ 2000ء میں اس کے سر پر'' مِس ورلڈ'' کا تاج سجا اور پھر تین ہی برس میں وہ انڈین ماڈلنگ ورلڈ کی بھی کوئین بن گئی۔
میدان اداکاری میں قدم رکھا تو کام یابیاں اس کا مقدر بنتی چلی گئیں اور آج اس کا شمار بولی وڈ کی صف اول کی اداکاراؤں میں ہوتا ہے۔
ایک زمانہ اس خوش جمال اداکارہ کی صلاحیتوں کا معترف ہے۔ بہترین اداکاری کے ساتھ ساتھ اس کی خوب صورتی فلم بینوں کو اپنے سحر میں کچھ اس طرح جکڑتی ہے کہ اس کی ہر ادا ان کے ذہنوں پر نقش ہوجاتی ہے۔
پریانکا کے کریڈٹ پر کام یاب فلموں کی تعداد اور حاصل کردہ ایوارڈز بھی اس کے باصلاحیت ہونے کا ثبوت فراہم کرتے ہیں۔
اداکاری میں نام کمانے کے بعد اب سپراسٹار نے اپنے کیریر کو ایک نیا موڑ دیا ہے۔ اداکاری میں اپنی ہم عصروں کے لیے چیلنج ثابت ہونے والی پریانکا نے گائیکی کے میدان بھی قدم رکھ دیا ہے۔
اس کا پہلا البم '' اِن مائی سٹی'' یونیورسل میوزک گروپ نے عالمی سطح پر ریلیز کیا ہے جو دنیا کی بڑی میوزک کمپنیوں میں سے ایک ہے۔ سپراسٹار کا پہلا البم ایک ہی گیت پر مشتمل ہے جو انگریزی زبان میں ہے۔
پریانکا کا یہ گیت بہت پسند کیا جارہا ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ گلوکاری پریانکا کا پہلا شوق تھا لیکن عملی زندگی میں وہ انجنیئر بننا چاہتی تھی، مگر قسمت پہلے اسے ماڈلنگ ورلڈ اور پھر فلم انڈسٹری میں لے گئی۔
بولی وڈ میں بڑھتی ہوئی مصروفیت کے پیش نظر اس نے گائیکی کے شوق کو عارضی طور پر نظر انداز کردیا تھا، تاہم اس کے اندر ایک خلاء ہمیشہ موجود رہا۔
بالآخر اس خلاء کو پُرکرنے کے لیے اسے اپنے اندر چُھپی گلوکارہ کی آواز پر لبیک کہتے ہی بنی۔ پریانکا کا کہنا ہے کہ گلوکاری کا باقاعدہ آغاز کرنے کے بعد اس کی شخصیت کی تکمیل ہوگئی ہے۔ نام ور اداکارہ اور نوآموز گلوکارہ کا تازہ انٹرویو قارئین کی نذر ہے۔
٭ گلوکاری کے باقاعدہ آغاز اور پہلے البم کے اجراء کے بعد کیسا لگ رہا ہے؟
آپ اندازہ نہیں کرسکتے کہ میں کتنی خوش ہوں۔ اس البم کے اجراء سے میرا دیرینہ خواب حقیقت بن گیا ہے۔ میں دو سال سے اس البم پر کام کررہی تھی۔
بالآخر میری محنت رنگ لائی ہے اور میری زندگی میں ایک نئے باب کا آغاز ہوا ہے۔
موسیقی سے مجھے شروع ہی سے شغف تھا اور میں اس فن میں کچھ کرنا بھی چاہتی تھی لیکن قسمت مجھے کسی اور طرف لے گئی۔ بہرحال اب میں خوش ہوں کہ میرے اس دیرینہ شوق کی تکمیل ہوگئی ہے۔ مجھے اس بات کی بھی خوشی ہے کہ میرا میوزک البم عالمی سطح پر ریلیز ہوا ہے۔
٭ گائیکی آپ کا پہلا شوق تھا۔ اس شوق کی تکمیل میں اتنا عرصہ کیسے لگ گیا؟ اور کیا آپ نے گلوکاری کی باقاعدہ تربیت لے رکھی ہے؟
گلوکاری کا مجھے شوق ضرور تھا لیکن میں کیریر انجنیئرنگ میں بنانا چاہتی تھی۔ اس لیے گائیکی کی باقاعدہ تربیت حاصل نہیں کی۔
کالج میں تھی تو ممی کے اصرار پر میں نے ایک مقابلۂ حسن میں شرکت کی اور یہیں سے میری زندگی نے موڑ لیا۔
بعدازاں مس ورلڈ بننے کے بعد ماڈلنگ اور پھر فلم انڈسٹری میں مصروف ہوگئی، لیکن یہ خیال بہرحال میرے ذہن میں موجود رہا کہ مجھے گلوکاری میں بھی قسمت آزمائی کرنی ہے۔
٭ گلوکاری کا شوق کسے دیکھ کر ہوا تھا؟
ویسے تو میرے پاپا انڈین آرمی میں ڈاکٹر ہیں لیکن وہ زبردست گلوکار بھی ہیں۔ وہ اگر چاہتے تو نام ور گلوکار بن سکتے تھے لیکن انھوں نے اپنی اس صلاحیت کو گھر تک محدود رکھا۔
میں انھیں اکثر گاتے ہوئے سنتی تھی۔ یہیں سے مجھے بھی موسیقی اور گائیکی سے دل چسپی ہوگئی۔ بچپن ہی سے میں مشرقی اور مغربی موسیقی سنتی آئی ہوں۔ پاپا محمد رفیع کے دیوانے تھے جب کہ ممی Beatles، The Doors اور Metallica جیسے میوزک بینڈز کو سنا کرتی تھیں۔
میں نے پیشہ ور گلوکارہ بننے کا کبھی نہیں سوچا تھا لیکن اداکاری کی طرف آنے کا خیال بھی میرے ذہن میں دور دور تک نہیں تھا۔ اگر اُس دور میں سب کچھ میری سوچ اور ارادوں کے مطابق ہوتا تو پھر میں آج انجنیئر بنی کسی کمپنی میں ملازمت کررہی ہوتی۔
٭ اس البم کی عالمی سطح پر ریلیز کیسے ممکن ہوئی؟
دو سال پہلے'' سات خون معاف'' کی شوٹنگ کے دوران میں نے فیصلہ کرلیا تھا کہ اب مجھے گائیکی کے میدان میں خود کو آزمانا ہے۔
میری مینیجر نتاشا نے مشورہ دیا کہ میں یونیورسل میوزک گروپ کی انتظامیہ سے ملاقات کروں۔ دوران ملاقات میں یہ جان کر حیران رہ گئی کہ انھیں پہلے ہی معلوم تھا کہ میں گاسکتی ہوں۔
بعد میں مجھے معلوم ہے کہ انھیں سلیم مرچنٹ ( موسیقار) نے میری اس صلاحیت سے آگاہ کیا تھا۔ یونیورسل میوزک گروپ سے معاملات طے پاجانے کے بعد میں دو سال تک اس ادارے کے ساتھ اس میوزک البم پر کام کرتی رہی۔ گیت کی ریکارڈنگ مکمل ہوجانے کے بعد جب میں نے اسے سنا تو یقین نہیں آیا کہ میں اتنا اچھا بھی گا سکتی ہوں۔
٭مس ورلڈ سے لے کر موسیقی میں عالمی سطح پر انڈیا کی نمائندگی کرنے تک، آپ کا یہ سفر کیسا رہا ہے؟
یہ میرے لیے بڑے اعزاز کی بات ہے کہ 2000ء میں عالمی مقابلۂ حسن کے بعد اب موسیقی میں بھی بین الاقوامی سطح پر اپنے ملک کی نمائندگی کرنے کا اعزاز میرے حصے میں آیا ہے۔ اس صورت میں میرے لیے اس اعزاز کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے کہ بھارت میں بڑے باصلاحیت اور تجربہ کار گلوکار موجود ہیں۔
٭میوزک البم کے اجراء پر آپ کے والدین کا کیا ردعمل تھا؟
وہ بہت جذباتی ہوگئے تھے۔ بالخصوص پاپا کی تو آنکھیں نم ہوگئی تھیں۔ انھوں نے مجھے ہمیشہ ایک گلوکارہ کے رُوپ میں دیکھنے کی تمنا کی تھی۔
جتنی خوشی انھیں میرے گلوکارہ بننے پر ہوئی اتنی خوشی انھیں میرے نیشنل ایوارڈ جیتنے پر بھی نہیں ہوئی تھی۔
٭کیا مستقبل میں ہم آپ کو بولی وڈ کے لیے گاتے ہوئے دیکھ سکیں گے؟
میں نے کبھی اپنا البم ریلیز کرنے کے بارے میں نہیں سوچا تھا لیکن یہ آج دنیا کے سامنے ہے۔ اسی طرح میں نہیں جانتی کہ آئندہ میرا کیریر کیا موڑ لے گا۔
بہرحال میں پلے بیک سنگر ضرور بننا چاہتی ہوں۔ مجھے بولی وڈ سے جب بھی گانے کی پیش کش ہوئی تو میں انکار نہیں کروں گی۔ بالخصوص جب یہ پیش کش سلیم۔سلیمان اور وشال ۔ شیکھر جیسے موسیقاروں کی طرف سے ہو تو انکار کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔
٭ ہندی فلموں کی کوئی ایسی اداکارہ جس کے لیے گانے کی آپ کے دل میں خواہش ہو؟
( مسکراہٹ ) میں ریکھا جی کے لیے گانا چاہوں گی۔
میدان اداکاری میں قدم رکھا تو کام یابیاں اس کا مقدر بنتی چلی گئیں اور آج اس کا شمار بولی وڈ کی صف اول کی اداکاراؤں میں ہوتا ہے۔
ایک زمانہ اس خوش جمال اداکارہ کی صلاحیتوں کا معترف ہے۔ بہترین اداکاری کے ساتھ ساتھ اس کی خوب صورتی فلم بینوں کو اپنے سحر میں کچھ اس طرح جکڑتی ہے کہ اس کی ہر ادا ان کے ذہنوں پر نقش ہوجاتی ہے۔
پریانکا کے کریڈٹ پر کام یاب فلموں کی تعداد اور حاصل کردہ ایوارڈز بھی اس کے باصلاحیت ہونے کا ثبوت فراہم کرتے ہیں۔
اداکاری میں نام کمانے کے بعد اب سپراسٹار نے اپنے کیریر کو ایک نیا موڑ دیا ہے۔ اداکاری میں اپنی ہم عصروں کے لیے چیلنج ثابت ہونے والی پریانکا نے گائیکی کے میدان بھی قدم رکھ دیا ہے۔
اس کا پہلا البم '' اِن مائی سٹی'' یونیورسل میوزک گروپ نے عالمی سطح پر ریلیز کیا ہے جو دنیا کی بڑی میوزک کمپنیوں میں سے ایک ہے۔ سپراسٹار کا پہلا البم ایک ہی گیت پر مشتمل ہے جو انگریزی زبان میں ہے۔
پریانکا کا یہ گیت بہت پسند کیا جارہا ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ گلوکاری پریانکا کا پہلا شوق تھا لیکن عملی زندگی میں وہ انجنیئر بننا چاہتی تھی، مگر قسمت پہلے اسے ماڈلنگ ورلڈ اور پھر فلم انڈسٹری میں لے گئی۔
بولی وڈ میں بڑھتی ہوئی مصروفیت کے پیش نظر اس نے گائیکی کے شوق کو عارضی طور پر نظر انداز کردیا تھا، تاہم اس کے اندر ایک خلاء ہمیشہ موجود رہا۔
بالآخر اس خلاء کو پُرکرنے کے لیے اسے اپنے اندر چُھپی گلوکارہ کی آواز پر لبیک کہتے ہی بنی۔ پریانکا کا کہنا ہے کہ گلوکاری کا باقاعدہ آغاز کرنے کے بعد اس کی شخصیت کی تکمیل ہوگئی ہے۔ نام ور اداکارہ اور نوآموز گلوکارہ کا تازہ انٹرویو قارئین کی نذر ہے۔
٭ گلوکاری کے باقاعدہ آغاز اور پہلے البم کے اجراء کے بعد کیسا لگ رہا ہے؟
آپ اندازہ نہیں کرسکتے کہ میں کتنی خوش ہوں۔ اس البم کے اجراء سے میرا دیرینہ خواب حقیقت بن گیا ہے۔ میں دو سال سے اس البم پر کام کررہی تھی۔
بالآخر میری محنت رنگ لائی ہے اور میری زندگی میں ایک نئے باب کا آغاز ہوا ہے۔
موسیقی سے مجھے شروع ہی سے شغف تھا اور میں اس فن میں کچھ کرنا بھی چاہتی تھی لیکن قسمت مجھے کسی اور طرف لے گئی۔ بہرحال اب میں خوش ہوں کہ میرے اس دیرینہ شوق کی تکمیل ہوگئی ہے۔ مجھے اس بات کی بھی خوشی ہے کہ میرا میوزک البم عالمی سطح پر ریلیز ہوا ہے۔
٭ گائیکی آپ کا پہلا شوق تھا۔ اس شوق کی تکمیل میں اتنا عرصہ کیسے لگ گیا؟ اور کیا آپ نے گلوکاری کی باقاعدہ تربیت لے رکھی ہے؟
گلوکاری کا مجھے شوق ضرور تھا لیکن میں کیریر انجنیئرنگ میں بنانا چاہتی تھی۔ اس لیے گائیکی کی باقاعدہ تربیت حاصل نہیں کی۔
کالج میں تھی تو ممی کے اصرار پر میں نے ایک مقابلۂ حسن میں شرکت کی اور یہیں سے میری زندگی نے موڑ لیا۔
بعدازاں مس ورلڈ بننے کے بعد ماڈلنگ اور پھر فلم انڈسٹری میں مصروف ہوگئی، لیکن یہ خیال بہرحال میرے ذہن میں موجود رہا کہ مجھے گلوکاری میں بھی قسمت آزمائی کرنی ہے۔
٭ گلوکاری کا شوق کسے دیکھ کر ہوا تھا؟
ویسے تو میرے پاپا انڈین آرمی میں ڈاکٹر ہیں لیکن وہ زبردست گلوکار بھی ہیں۔ وہ اگر چاہتے تو نام ور گلوکار بن سکتے تھے لیکن انھوں نے اپنی اس صلاحیت کو گھر تک محدود رکھا۔
میں انھیں اکثر گاتے ہوئے سنتی تھی۔ یہیں سے مجھے بھی موسیقی اور گائیکی سے دل چسپی ہوگئی۔ بچپن ہی سے میں مشرقی اور مغربی موسیقی سنتی آئی ہوں۔ پاپا محمد رفیع کے دیوانے تھے جب کہ ممی Beatles، The Doors اور Metallica جیسے میوزک بینڈز کو سنا کرتی تھیں۔
میں نے پیشہ ور گلوکارہ بننے کا کبھی نہیں سوچا تھا لیکن اداکاری کی طرف آنے کا خیال بھی میرے ذہن میں دور دور تک نہیں تھا۔ اگر اُس دور میں سب کچھ میری سوچ اور ارادوں کے مطابق ہوتا تو پھر میں آج انجنیئر بنی کسی کمپنی میں ملازمت کررہی ہوتی۔
٭ اس البم کی عالمی سطح پر ریلیز کیسے ممکن ہوئی؟
دو سال پہلے'' سات خون معاف'' کی شوٹنگ کے دوران میں نے فیصلہ کرلیا تھا کہ اب مجھے گائیکی کے میدان میں خود کو آزمانا ہے۔
میری مینیجر نتاشا نے مشورہ دیا کہ میں یونیورسل میوزک گروپ کی انتظامیہ سے ملاقات کروں۔ دوران ملاقات میں یہ جان کر حیران رہ گئی کہ انھیں پہلے ہی معلوم تھا کہ میں گاسکتی ہوں۔
بعد میں مجھے معلوم ہے کہ انھیں سلیم مرچنٹ ( موسیقار) نے میری اس صلاحیت سے آگاہ کیا تھا۔ یونیورسل میوزک گروپ سے معاملات طے پاجانے کے بعد میں دو سال تک اس ادارے کے ساتھ اس میوزک البم پر کام کرتی رہی۔ گیت کی ریکارڈنگ مکمل ہوجانے کے بعد جب میں نے اسے سنا تو یقین نہیں آیا کہ میں اتنا اچھا بھی گا سکتی ہوں۔
٭مس ورلڈ سے لے کر موسیقی میں عالمی سطح پر انڈیا کی نمائندگی کرنے تک، آپ کا یہ سفر کیسا رہا ہے؟
یہ میرے لیے بڑے اعزاز کی بات ہے کہ 2000ء میں عالمی مقابلۂ حسن کے بعد اب موسیقی میں بھی بین الاقوامی سطح پر اپنے ملک کی نمائندگی کرنے کا اعزاز میرے حصے میں آیا ہے۔ اس صورت میں میرے لیے اس اعزاز کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے کہ بھارت میں بڑے باصلاحیت اور تجربہ کار گلوکار موجود ہیں۔
٭میوزک البم کے اجراء پر آپ کے والدین کا کیا ردعمل تھا؟
وہ بہت جذباتی ہوگئے تھے۔ بالخصوص پاپا کی تو آنکھیں نم ہوگئی تھیں۔ انھوں نے مجھے ہمیشہ ایک گلوکارہ کے رُوپ میں دیکھنے کی تمنا کی تھی۔
جتنی خوشی انھیں میرے گلوکارہ بننے پر ہوئی اتنی خوشی انھیں میرے نیشنل ایوارڈ جیتنے پر بھی نہیں ہوئی تھی۔
٭کیا مستقبل میں ہم آپ کو بولی وڈ کے لیے گاتے ہوئے دیکھ سکیں گے؟
میں نے کبھی اپنا البم ریلیز کرنے کے بارے میں نہیں سوچا تھا لیکن یہ آج دنیا کے سامنے ہے۔ اسی طرح میں نہیں جانتی کہ آئندہ میرا کیریر کیا موڑ لے گا۔
بہرحال میں پلے بیک سنگر ضرور بننا چاہتی ہوں۔ مجھے بولی وڈ سے جب بھی گانے کی پیش کش ہوئی تو میں انکار نہیں کروں گی۔ بالخصوص جب یہ پیش کش سلیم۔سلیمان اور وشال ۔ شیکھر جیسے موسیقاروں کی طرف سے ہو تو انکار کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔
٭ ہندی فلموں کی کوئی ایسی اداکارہ جس کے لیے گانے کی آپ کے دل میں خواہش ہو؟
( مسکراہٹ ) میں ریکھا جی کے لیے گانا چاہوں گی۔